چھُٹّی ۔۔۔ محمد علیم اسماعیل

وکیل صاحب تمھارے کمرے سے کھانسی کی وہ آوازیں اب آتی نہیں لیکن درد سے کراہتی تمھاری آہیں آج بھی ارد گرد محسوس ہوتی ہیں، جو رہ رہ کر دماغ میں گونجتی رہتی ہیں۔ اسپتال سے چھٹی مل جانے پر چھوٹا بھائی تمھیں لانے گیا تھا، پر اب وہ تمھاری لاش لے کر آ رہا ہے۔ ادھر گھر پر ہم تین بھائیوں نے ابا کو صرف اتنا بتایا کہ تمھاری طبیعت کچھ زیادہ بگڑ گئی ہے لیکن ہماری باتوں سے وہ سمجھ گئے اور بھرائی آواز میں کہا: ’’طبیعت خراب ہے یا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘

اور ہم سب کے سب ایک ساتھ رو پڑے۔

ایسا لگتا ہی نہیں کہ تم چلے گئے۔ تمھارا چہرہ آنکھوں سے کیسے ہٹ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!!تم ہمارے درمیان ہی موجود ہو۔ بس تھوڑے سے خاموش ہو گئے ہو۔ تم نے جب سے خاموشی کیا اختیار کی ہے، گھر میں سب ہی کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئی ہیں۔ اور وہ آنسو آنکھوں میں جم سے گئے ہیں۔ جو نہ سوکھتے ہیں نہ ہی برستے ہیں۔

وکیل صاحب آج تم اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اپنی موت کا رونا تو تم پہلے ہی رو چکے تھے۔ تمھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ تم کہتے تھے:

’’دعا کرو میں اچھا ہو جاؤں نہیں تو میرے بچے تنہا رہ جائیں گے۔‘‘

اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے تھے۔ اس وقت تو تمھاری بے بسی کسی سے دیکھی نہ گئی تھی جب اسپتال میں تمھارا علاج چل رہا تھا اور تمھیں اپنے صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ تم نے جو کچھ اپنے بچوں کے لیے کمایا تھا وہ سب تمھاری بیماری پر خرچ ہو رہا تھا۔

بیماری کے اس دلدل سے تم جتنا باہر آنے کی کوشش کرتے رہے اتنا ہی دھنستے چلے گئے۔ زندگی تو تمھارے ساتھ وفا نہ کر سکی پر موت نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب انسان زندگی سے ہار جاتا ہے تب موت اسے گلے لگا لیتی ہے، پر موت دور کھڑی صرف تماشہ دیکھتی رہی۔ ایک کے بعد ایک آزمائشیں تمہاری زندگی میں سونامی کی طرح آتی گئیں۔ تم بڑے ہمت و حوصلہ والے تھے۔ کبھی آزمائشوں سے گھبراتے نہیں تھے۔

تم نے جو کچھ جمع کیا تھا کچھ نہ بچا۔ علاج میں سارا اثاثہ خرچ ہو گیا۔ اور آخری وقت بیماری نے پھر سے غریبی کی دہلیز پر تمھاری لاش لا کر رکھ دی ہے۔

میں جب کبھی رات بے رات نیند سے جاگتا، تمھاری تکلیف دہ کھانسی کی مسلسل آوازیں روح کو تڑپا دیتی تھیں۔

وکیل صاحب تم جلگاؤں خاندیش (مہاراشٹر) کے گوداوری اسپتال کے ایم آئی سی یو وارڈ میں 20 نومبر 2018 سے بھرتی تھے۔ وہاں تمھاری کڈنی کا علاج چل رہا تھا۔ ایڈمٹ ہونے کو ابھی آٹھ دن ہی ہوئے تھے کہ تم چھٹی لے کر گھر جانے کی ضد کر رہے تھے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ علاج مکمل ہونے کے بعد ہی چھٹی لیں گے، اس پر تم غصّہ ہو گئے تھے اور کہنے لگے تھے:

’’یہاں رہ کر کیا مرنا ہے، یہاں میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے بس جلدی گھر جانا ہے۔‘‘

تم نے ایم۔ آئی۔ سی۔ یو۔ وارڈ سے باہر کھلی ہوا میں گھومنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا۔

تم چھٹی کی ضد لیے بیٹھے تھے اور کچھ سننے کو تیار نہ تھے۔ تب میں نے ڈاکٹر سے بات کی تو انھوں نے بتایا تھا:

’’تمھیں صرف اور چار دن رک کر علاج کروانا ہے۔ اس کے بعد تم اچھے ہو جاؤ گے اور چھٹی مل جائے گی۔‘‘

اس پر تم کو بھی اطمینان ہو گیا تھا کہ صرف چار دن کی ہی تو بات ہے۔

آج سے تقریباً چھ سات مہینے پہلے ایک روز صبح جب تم نیند سے جاگے تو دم گھٹتا محسوس ہوا۔ تم گھبرا گئے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تمھاری آواز میں گھبراہٹ تھی۔ سب ارد گرد جمع ہو گئے۔ یہ کیا ہو گیا؟ کچھ سمجھ نہ آیا۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ اچانک تمہاری دنیا اندھیری ہو گئی۔ ارے کل رات تو سب کچھ اچھی طرح دیکھ رہے تھے، بیوی، بچے، باپ، بھائی سبھی کے چہرے۔ سب کچھ اچھی طرح۔ یا خدا یہ اچانک کیا ہو گیا کہ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک عجیب سی دم نکال دینے والی گھٹن۔ ایسے لگا جیسے کسی نے اندھیری کوٹھری میں قید کر دیا ہو۔

پھر اِدھر اُدھر سے روپیوں کا انتظام کر کے اورنگ آباد میں آپریشن کیا تو چند فیصد بینائی واپس آ گئی تھی۔

تم نے ایک متوسط گھرانے جنم لیا تھا۔ بلا کی ذہانت و قابلیت دی تھی خدا نے تمھیں۔ آج کیس کی فائل ہاتھوں میں لیتے، دوسرے دن جج کے سامنے آرگومنٹ کو کھڑے ہو جاتے۔ اگر تم دس سال اور جی لیتے تو ضلع بلڈانہ میں وکالت کے آسمان کا ستارہ ہوتے۔ ہم پانچوں بھائیوں میں تم سب سے بڑے تھے۔ بہن نہیں تھی۔ والدہ تو 2010 میں ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ چاروں چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر بھی تمھاری خصوصی توجہ رہی تھی۔

مجھے لکھنے پڑھنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔ سارا دن آوارگی میں گزر جاتا تھا۔ دسویں جماعت تک تو اردو بھی کمزور تھی، لیکن تمھارے ڈر سے پڑھنے بیٹھ جایا کرتا تھا اور دیکھو تمھاری دعا سے آج میں سرکاری ملازمت میں ہوں۔ علالت کی حالت میں تم گھر کے سب افراد کو خوب دعائیں دیتے تھے۔

تمھاری لاش اسپتال سے گھر آ گئی ہے اور گھر کے اندر سے رونے کی مسلسل آوازیں آ رہی ہیں۔ میں اب بھی گھر کے باہر کھڑا ہوں، پر میری ہمت نہیں کہ گھر میں جاؤں۔ میرے لیے تمھاری تکلیف ناقابلِ برداشت تھی اور آج تمھارا سکون دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

اٹھو وکیل صاحب، ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے۔ صرف 42 سال، تمھاری بڑی لڑکی دسویں میں، منجھلی نویں میں اور چھوٹا لڑکا چھٹی جماعت میں ہی ہے۔ بچوں کی اچھی پرورش، تعلیم، شادی سب کچھ ابھی باقی ہے میرے بھائی۔ یہ منصوبے ہر کوئی بناتا ہے، تم نے بھی بنائے تھے۔ تمھارے بچے تمھارے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومنے کی خواہش رکھتے تھے۔ انھوں نے تمھاری صحت یابی کے لیے دن رات دعائیں کی تھیں۔

کئی بے سہارا پریواروں کو تم نے حکومت کی ’نِرادھار‘ (بے سہارا) اسکیم کے تحت پینشن شروع کروائی تھی اور آج اپنے ہی پریوار کے بے سہارا چھوڑ کر چلے گئے۔

دیکھو کتنے لوگ تمھیں دیکھنے آئے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کے تمام ایڈوکیٹ، جج، نگر پریشد کے صدر اور شہر کی بڑی بڑی ہستیاں، دوست احباب، رشتے دار، تمھارے بچپن کے ساتھی، دیکھو سارے کا سارا شہر امڈ پڑا ہے۔

تم بارہ دن سے اسپتال میں ایڈمٹ تھے بچوں سے دور تھے۔ اب آخری بار چیختے بلکتے تمھارے بچوں کو تو دیکھ لو وہ تمھارے جنازے سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ دیکھو وکیل صاحب جن غریبوں کے کیس تم کم فیس پر یا مفت میں لڑتے تھے وہ تمھارے جنازے کے پاس بار بار آ رہے ہیں، تمھیں دیکھ رہے ہیں اور اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہے ہیں۔ شاید انھیں یقین نہیں آ رہا ہے کہ اب تم اس دنیا میں نہیں۔

غریبوں اور جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے بے قصوروں کی مدد کے لیے تم ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ تمھاری رحلت ہمارے خاندان کے لیے ہی نہیں قوم ملت کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔

بچے کی پیدائش کے وقت ایک ماں کے اندر جتنا درد جمع ہو جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ درد تم نے مسلسل ایک سال تک سہا۔ تم نے کہا تھا:

’’میں کئی مہینوں سے سویا نہیں، اچھی خاصی وکالت چل رہی تھی وہ بھی جاتی رہی، ایک ایک کر کے کلائنٹ چلے جا رہے ہیں۔ میری تو زندگی برباد ہو گئی رے۔ ۔۔‘‘

سخت بیماری کی حالت میں بھی تم اپنی تکلیف اور پریشانی کبھی کسی پر آشکارا نہیں کرتے تھے۔ جب کوئی تمھیں دیکھنے آتا تو اس کے ساتھ تم بالکل نارمل برتاؤ کرتے تھے۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد درد سے کراہنے لگتے تھے۔

تکلیفوں کے پہاڑ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے آج تم اسی بوجھ تلے دب گئے ہو اور سکون کی نیند سو گئے ہو، بالکل غالب کے اس مصرعے کی طرح:

’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘

تمھارے بغیر گھر میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا۔ آج ہم چاروں بھائی آنگن میں بیٹھے تمھاری تدفین کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہم فیصلہ کہاں کر رہے ہیں بس ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر جوان بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے۔ جب تمھارا جنازہ اٹھایا گیا اس وقت مجھے میرا یہ شعر یاد آ گیا۔

آنکھ در آنکھ سمندر ہے خدا خیر کرے

سوگ میں ڈوبا ہوا گھر ہے خدا خیر کرے

باپ کے کاندھے پہ میت ہے جواں بیٹے کی

کتنا دلدوز یہ منظر ہے خدا خیر کرے

تکلیف محسوس کی جاتی ہے اور اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ تمھارا دماغ آخری وقت تک پوری طرح صحت مند تھا۔ تمھارے جسم کے دوسرے اعضا کی طرح اگر تمھارا دماغ بھی کمزور ہو جاتا تو تمھیں تکالیف کا اتنا احساس نہ ہوتا۔ میں نے دیکھی ہے تمھاری تکلیفیں جو مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھیں۔ پیر سے کمر تک تمھارا جسم بے حس ہو کر پتھر ہو گیا تھا۔ ہاتھوں کی نرم جلد سے جسم میں جمع پانی رسنے لگا تھا۔ پورے وجود کو ہلا کر رکھ دینے والی کھانسی جو ذرا ٹھہرنے کا نام نہ لیتی تھی۔

شوگر کی بیماری کو بھی کوئی بغیر علاج کے چھوڑ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!! تم نے چھوڑ دیا تھا۔ شاید تمھیں اس بات کا اندازہ بھی نہ ہو گا میرے بھائی کہ شوگر کی بیماری کا علاج نہ کرنے کے نتائج اتنے بھیانک بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی فکر تو تم نے کبھی کی ہی نہیں۔

گوداوری اسپتال میں تمھارے لیے وقت کاٹنا بڑا مشکل ہو گیا تھا۔ بار بار وقت پوچھتے کہ کتنے بج رہے ہیں اور جواب سننے کے بعد کہتے:

’’یہاں وقت جلد گزرتا ہی نہیں۔‘‘

چھٹی ملنے سے ایک دن پہلے چھوٹے بھائی وسیم کو موبائل پر کہا:

’’تو گاڑی لے کر آ جا کل مجھے چھٹی ملنے والی ہے، گھر جانا ہے۔‘‘

جیسے تیسے چار دن گزرے اور وہ وقت بھی آ گیا جب تمھیں یکم دسمبر 2018 کو چھٹی ملنے والی تھی۔ ڈسچارج کی کاغذی کاروائی چل رہی تھی۔ بھابی نے سب ساز و سامان باندھ رکھا تھا اور تم تیار ہو کر بیڈ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ چھوٹا بھائی وسیم جب کاغذی کاروائی کر کے واپس لوٹا تو تم نے اسے کہا: ’’تو جلد وہیل چیئر لے آ میں اس پر بیٹھ کر چلوں گا۔‘‘

بھابی تمھارے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وقت تمھارے چہرے پر گھر جانے کی خوشی صاف دیکھی جا سکتی تھی، اور تم نے خوش ہو کر کہا تھا: ’’چلو اچھا ہوا چھُٹّی ہو گئی۔‘‘

ابھی چھوٹا بھائی وہیل چیئر لے کر لوٹا بھی نہیں تھا وکیل صاحب کہ تم پر میجر ہارٹ اٹیک نے حملہ کر دیا اور بھابی کے ہاتھوں میں ہی تمھاری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھُٹّی ہو گئی۔

کئی راتوں کی نیند باقی ہے میرے بھائی اب قبر میں سکون سے پوری کر لینا۔ تم نے دنیا میں اتنی ساری تکلیفیں صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیں، جس نے تمھارے تمام گناہوں، خطاؤں کو ایسے جھڑا دیا جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے اور تم اب ایسے ہو گئے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔

وکیل صاحب تمھارے درد کو اس مختصر تحریر میں قید کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تمام لفظوں نے کاغذ پر اتر کر میرے آنسوؤں میں غسل کیا ہے اور ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئے ہیں۔ دیکھو تمھاری درد بھری کہانی پڑھ کر آج قاری بھی رو رہا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے