نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

 

کاذب یکسانیت

­____________________________

 

روز سویرے

بستر چھوڑنے سے پہلے میں

خود سے وعدہ کرتا ہوں

آج میں جھوٹ نہیں بولوں گا

آج کسی کی دل آزاری نہیں کروں گا

آج کسی اندھے کو رستہ پار کراؤں گا

آج کسی نادار،یتیم اور بے بس بچّے کے

سر پر میں ہاتھ رکھوں گا

لیکن۔

سورج ڈھل جانے پر

جب میں اپنی ساری نیکیاں گنتا ہوں تو

بارِ ندامت سے بوجھل ہو جاتا ہوں

اور پھر۔

خود سے شرمندہ  اور غصہ ہو کر

بستر پر گر جاتا ہوں

اگلے دن پھر

جھوٹ، فریب اور مکر و  ریا میں عمر گنوانے کی خاطر میں

٭٭٭

 

 

 

سفر خدشات کا

­____________________________

 

سفر زندگی کی علامت ہے لیکن

مجھے خوف آتا ہے

گھر چھوڑنے سے

مسافت سے وحشت سی ہوتی ہے  مجھ کوسے

مجھے وہم سا ہو گیا ہے

کہ میں جب بھی نکلوں گا گھر سے

کوئی میری بیوی کے چہرے سے تابندگی چھین لے گا

کوئی میرے معصوم بچّوں کی

کلکاریاں اور ہنسی چھین لے گا

کوئی خواب آنکھوں سے

لفظوں سے مفہوم

اور میری سوچوں سے خود آگہی چھین لے گا

یہ خدشات پیروں کو جکڑے ہوئے ہیں

کہ میں گھر کی دہلیز بھی آج تک لانگھ پایا نہیں ہوں

اگرچہ مجھے علم ہے کہ

سفر زندگی کی علامت ہے لیکن

مجھے خوف آتا ہے گھر چھوڑنے سے

مسافت  سے وحشت سی ہوتی ہے مجھ کو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے