ناول کی کہانی، ناول کی زبانی ۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

از ابتدا تا حال

 

دوستو! میں، ناول، آج آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے ڈپٹی نذیر احمد کے گھر آنکھ کھولی۔ ابھی میرے کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ نذیر احمد کا سایہ اٹھ گیا۔ لیکن مجھے پنڈت رتن ناتھ نے خوب سرشار کیا۔ کچھ بڑا ہوا تو عبد الحلیم نے دنیا کے شرر سے بچایا اور مجھے تاریخ کی وادیوں میں لے گئے۔ میں نے کم عمری ہی میں جنگ کے خوفناک مناظر دیکھے۔ جنگجو اور سپہ سالار دیکھے۔ ضمیر فروشوں کی بہتات دیکھی تو صاحب کردار بھی دیکھے۔ اس بیچ خاصا عرصہ گذر گیا تھا، میری مسیں بھیگ چکی تھیں۔ ایسے میں مرزا ہادی رسوا نے، رسوائی کا سامان کیا اور مجھے امراؤ جان ادا سے ملوا دیا۔ اب میں صحت مند و توانا ہو چکا تھا۔ میں سے سارے علم و ہنر سیکھ لیے تھے۔ لوگوں کے ذوق و شوق کو مہمیز کرنا مجھے آ گیا تھا۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میری پیدائش ڈپٹی نذیر احمد کے گھر ہوئی۔ انہوں نے اپنے اصلاحی رنگ میں مجھے رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مجھے مراۃ العروس (ڈپٹی نذیر احمد 1869) اور بنات النعش (ڈپٹی نذیر احمد 1872) بنا کر پیش کیا۔ لیکن ابن الوقت (ڈپٹی نذیر احمد 1888) ایسا فسانۂ مبتلا (ڈپٹی نذیر احمد 1890) ہوا کہ ایامی (ڈپٹی نذیر احمد 1891) اور رویائے صادقہ (ڈپٹی نذیر احمد 1894) کی بھی پرواہ نہ کی۔ اسے تو صورت الخیال (شاد عظیم آبادی 1876) کی بھی فکر نہیں تھی۔ وہ جامِ سرشار (رتن ناتھ سرشار  1914) سے سرشار سیر کہسار (رتن ناتھ سرشار 1880) پر نکل گیا اور بالآخر فسانۂ آزاد (رتن ناتھ سرشار  1934) میں مبتلا ہوا۔ یہاں وہ خوجی کے بھیس میں مینا بازار (عبد الحلیم شرر  1952) سے فردوسِ بریں (عبد الحلیم شرر  1961) پر پہنچ گیا اور حسن انجلینا (عبد الحلیم شرر 1889) میں گرفتار ہو کر ملک العزیز ورجینا (عبد الحلیم شرر 1886) جا پہنچا۔ جہاں اس کی ملاقات منصور اور موہنا (عبد الحلیم شرر 1890) سے ہوئی۔ ابھی وہ منصور بنا فسانۂ خورشیدی (سید افضل الدین 1886) سن ہی رہا تھا کہ اصلاح النساء (رشیدۃ النساء 1894) صبحِ زندگی (راشد الخیری  1902) شامِ زندگی (راشد الخیری  1917) شبِ زندگی (راشد الخیری  19 19) اور صالحات (راشد الخیری 1896) کی تمنائے دید (محمد سجاد مرزا بیگ دہلوی  1909) لیے حاضر ہوئی۔ میں نے آزاد سے خود کو شریف زادہ (مرزا ہادی رسوا  1903) میں ڈھال لیا تھا وہ بھی کانجی ہاؤس (ماہر القادری) میں امراؤ جان ادا (مرزا ہادی رسوا 1899) بن کر اپنی ذات شریف (مرزا ہادی رسوا  1921) کو سگھڑ بیٹی (محمدی بیگم  1905) بن کر عزیز مصر (شرر  1920) کے سامنے پیش ہو گئی۔ دوسری طرف اسرارِ معابد (پریم چند  1905) تلاش کرتی بیوہ (پریم چند  1921) نرملا (پریم چند  1925) چوگانِ ہستی (پریم چند  1924) اور میدان عمل (پریم چند  1932) میں پہلے غبن (پریم چند  1928) پھر گؤ دان (پریم چند  1933) کرنے اور قدرت کے کھیل (سدرشن) دیکھنے کے بعد گوشۂ عافیت (پریم چند  1929) ڈھونڈ رہی تھی۔ میں اب گودڑ کا لال (اکبری بیگم  1907) کہلانے لگا تھا کہ مجھے یاسمین (مرزا محمد سعید  1908) سے رو مانس کر کے انور (فیاض علی  1930) اور شمیم (فیاض علی  1924) بننا تھا۔ انشاء اللہ (شوکت تھانوی) سر گذشت ہاجرہ (صغرا ہمایوں مرزا  1926) سن کر مشیر نسواں (صغرا ہمایوں مرزا  1906) میری، موہنی (صغرا ہمایوں مرزا  1929) صورت کو احسن (بدر الزماں بدر  1907) بناتے بتاتے وصل حبیب (قاضی حبیب الحسن رسا  1910) تک پہنچ جائیں گے۔ جہاں انہیں اختر النساء بیگم (نذر سجاد حیدر  1910) ثریا (نذر سجاد حیدر  1930) اور نجمہ (نذر سجاد حیدر  1939) ملیں اور انہوں نے جانباز (نذر سجاد حیدر  1935) قاف کی پری (علی عباس حسینی  19 19) کو لیلیٰ کے خطوط (قاضی عبد الغفار  1932) دکھائے اور کہا حاجی بغلول (منشی سجاد حسین  1900) آپ مجنوں کی ڈائری (قاضی عبد الغفار  1934) بھی ضرور دیکھیں کہ محبت میں احمق الذین (منشی سجاد  1902) ایک شاعر کا انجام (نیاز فتح پوری 1912) کیا ہوا۔ شہاب کی سر گذشت (نیاز فتح پوری  1943) پڑھتے پڑھتے نیلی چھتری (ظفر عمر 1916) کے نیچے شیاما (کرشن پرشاد کول 1917) شاہد رعنا (قاضی سر فراز حسین 1897) اور روشن بیگم) مسز الفظ حسن ( 1927 ایک دوسرے کو فسانۂ ہمت (امداد امام اثر 1930) سناتے اور نشتر حیات (شمس گیاوی 1937) لگاتے لگاتے محل خانہ (سید علی سجاد عظیم آبادی 1930) میں شام و سحر (ایم اسلم 1945) جا پہنچیں اور لندن کی ایک رات (سجاد ظہیر 1938) رنگ محل (حمیدہ سلطان 1960) میں ثروت آرا بیگم (حمیدہ سلطان 1960) شریف بیٹی (محمدی بیگم) اور سب کی بیوی (کوثر چاند پوری 1942) کے ساتھ مل کر فریدہ موہنی (کوثر چاند پوری 1958) کا اغوا (کوثر چاند پوری 1953) کر لیا اور محبت اور سلطنت (کوثر چاند پوری 1962) کی داستانیں (کوثر چاند پوری 1944) سنا کر ایک عورت ہزار دیوانے (کرشن چندر 1965) چاندی کا گھاؤ (کرشن چندر 1964) لے کر شکست (کرشن چندر 1943) خوردہ یوں لوٹی گویا گدھے کی واپسی (کرشن چندر 1962) ہوئی ہو۔ وہ عذرا (صالحہ عابد حسین 1944) معصومہ (عصمت چغتائی 1950) بھی تھی اور ضدی (عصمت چغتائی 1940) بھی۔ ستاروں کے کھیل (اوپیندرناتھ اشک) دیکھنے اور ٹیڑھی لکیر (عصمت چغتائی 1945) پر چلنے کا جنون ہر ایک قطرۂ خون (عصمت چغتائی 1976) میں پالے نتھ کی عزت (واجدہ تبسم 1978) کو طاق پر رکھے اور اپنی اپنی صلیب (صالحہ عابد حسین 1971) لیے قطرے سے گہر ہونے تک (صالحہ عابد حسین 1957) آتش خاموش (صالحہ عابد حسین 1953) کی صورت ساتواں آنگن (صالحہ عابد حسین 1984) میں ایک چادر میلی سی (راجندر سنگھ بیدی 1960) بچھا کر بین کرنے لگی۔ ہائے کیسے کاٹوں رین اندھیری (واجدہ تبسم 1982) رہ رہ کر پر اسرار آواز (ابن صفی 2006) سنائی دیتی ہے۔

کچھ دیر بعد میں کیا دیکھتا ہوں شامِ اودھ (احسن فاروقی 1948) کے چور بازار (ابراہیم جلیس 1946) کے چوراہا (قیس رامپوری 1946 پر زہریلا آدمی (ابن صفی) کو جو سزا (قیس رام پوری 1944) بغیر عنوان کے (سعادت حسن منٹو 1954) ملی وہ چاند کا داغ (شین مظفر پوری 1956) ثابت ہوئی۔ اُدھر ایسی بلندی ایسی پستی (عزیز احمد 1948) سے گریز (عزیز احمد 1945) کرتے ہوئے جب میں ہوس (عزیز احمد 1953) کی آ گ (عزیز احمد 1956) میں جلتا ہوا خدا کی بستی (شوکت صدیقی 1959) میں آیا تو علی پور کا ایلی (ممتاز مفتی 1961) نے تلاشِ بہاراں (جمیلہ ہاشمی 1961) میں کمین گاہ (شوکت صدیقی 1956) کی چار دیواری (شوکت صدیقی 1990) میں انقلاب (خواجہ احمد عباس 1958) برپا کر دیا اور داستان ایمان فروشوں کی (التمش 1983) سن کر جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں (عزیز احمد 1981) تو دشت سوس (جمیلہ ہاشمی 1983) کی رات (عبد اللہ حسین 1944) میں نادار لوگ (عبد اللہ حسین 1996) باگھ (عبد اللہ حسین 1982) کے ساتھ قید (عبد اللہ حسین 1989) کر دئے گئے۔ بے جڑ کے پودے (سہیل عظیم آبادی 1965) اور پیاسے دل (ابراہیم اختر 1962) نے لہو کے پھول (حیات اللہ انصاری 1969) سے آخری چٹان (نسیم حجازی 1947) پر جو گھروندہ (حیات اللہ انصاری 1982) سجایا تھا اس پر موت کا سایہ (صغریٰ سبز واری 1971) جنگل کی آگ (ابن صفی) کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے لگا۔

ملک تقسیم ہوا۔ انسانوں کے ساتھ ادب بھی تقسیم ہو گیا۔ قرۃ العین حیدر اِدھر اور انتظار حسین اُدھر کے ہو گئے۔ میں، اندھیری رات کا تنہا مسافر (شہزاد منظر 2002) چاند گہن (انتظار حسین 1953) کی دن اور داستان (انتظار حسین 1959) سنانے کے لیے خاک اور خون (نسیم حجازی 1992) میں لت پت سفینۂ غم دل (قرۃ العین حیدر 1952) لیے آگ کا دریا (قرۃ العین حیدر 1959) پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ چا ندنی بیگم (قرۃ العین حیدر 1990) کی آواز پر رک گیا۔ آواز آئی آخر شب کے ہمسفر (قرۃ العین حیدر 1969) گردشِ رنگ چمن (قرۃ العین حیدر 1987) دیکھو، بستی (انتظار حسین 1980) میں میرے بھی صنم خانے (قرۃ العین حیدر 1949) ہیں لیکن آگے سمندر ہے (انتظار حسین 1995) ۔ میں شب گزیدہ (قاضی عبد الستار 1963) پریشان سا خالد بن ولید (قاضی عبد الستار 1995) کا پہلا اور آخری خط (قاضی عبد الستار 1967) پڑھتے ہوئے ایوان غزل (جیلانی بانو 1976) میں بارش سنگ (جیلانی بانو 1985) دیکھ رہا تھا تو مجھے غبار شب (قاضی عبد الستار 1974) میں دارا شکوہ (قاضی عبد الستار 1967) صلاح الدین ایوبی (قاضی عبد الستار 1968) حضرت جان (قاضی عبد الستار 1990) مجو بھیا (قاضی عبد الستار 1974) علی پور کا ایلی (ممتاز مفتی 1961) وغیرہ کی آمد و رفت دکھائی دی۔ خواب رو (جوگندر پال 1983) راجہ گدھ (بانو قدسیہ 1981) نے جھلستے جنگل (۱نور عظیم 1999) میں آبلہ پا (رضیہ فصیح احمد 1964) مٹھی بھر دھوپ (رام لعل 1972) میں آواز (آمنہ ابو الحسن 1985) دھند (صغرا مہدی 1974) راکھ (مستنصر حسین تارڑ 1993) تقدیر (عفت موہانی 1976) اور واپسی (آمنہ ابو الحسن 1981) کا تذکرہ (انتظار حسین 1983) کرتے ہوئے جو بیانات (جوگندر پال 1975) دیے انہیں سن کر کانچ کا بازی گر (شفق 1982) نئی بستی (مسرور جہاں  1989) کی سورج جیسی رات (رام لعل 1984) میں، آئی ڈینٹی کارڈ (صلاح الدین پرویز 1990) لیے خوشیوں کا باغ (انور سجاد 1981) میں دو گز زمین (عبد الصمد 1988) کے لیے پانی (غضنفر 1989) پانی ہوتا ندی (شموئل احمد 1993) کے حصار (سراج انور  1984) میں محصور بالآخر فرات (حسین الحق 1992) تک پہنچ گیا۔ یہاں پھول جیسے لوگ (انور خان 1989) آخری داستان گو (مظہر الزماں خاں  1994) ہاں وہی مہاتما (عبد الصمد 1992) دشتِ آدم (سلیم شہزاد  1985) درد کے الاؤ (مسرور جہاں  1990) کی تپش سے چیخ پڑا، بولو مت چپ رہو (حسین الحق 1990) ورنہ سارے دن کا تھکا ہوا پرش (صلاح الدین پرویز 1985) نمرتا (صلاح الدین پرویز 1985) اور گل بانو (رضیہ بٹ 1983) کے لیے راگ بھوپالی (صغرا مہدی 1984) کا ایسا فسوں (غضنفر 2003) طاری کرے گا کہ موجِ ہوا پیچاں (ساجدہ زیدی) مٹی کے حرم (2000) سے آنکھ جو سوچتی ہے (کوثر مظہری 2000) لیے دویہ بانی (غضنفر 2000) یعنی جو اماں ملی تو کہاں ملی (محمد علیم 1999) کا بیان (مشرف عالم ذوقی) دیتا ہوا، اپنی کینچلی (غضنفر 1992) اتار کر کسی دن مہا ساگر (عبد الصمد  1999) میں نمک (اقبال مجید 1999) کے ساتھ اندر اور اندر سما جائے گا۔

بیسویں صدی کا سفر بڑا خوش گوار تھا۔ میں نے اپنے سنہرے دن (ترقی پسند عہد) دیکھے۔ تقسیم کا بڑا سانحہ ہوا، میں بھی خون کے آنسو روتا ہوا اپنی زمین (خدیجہ مستور 1962) اور اپنے آنگن (خدیجہ مستور 1962) میں اداس نسلیں (عبد اللہ حسین 1962) دیکھ کر پکار اٹھا اور انسان مرگیا (رامانند ساگر 1948) ۔ خون جگر ہونے تک (فضل احمد کریم فضلی 1957) سیاہ سرخ سفید (آمنہ ابو الحسن 1968) چہرہ لوگ جب وفا کی ڈور (روحی قاضی 1974) میں بندھے، احساس کی جھنکار (وسیم بانو قدوائی) پر آندھی کا گیت (وسیم بانو قدوائی) گاتے آگ میں پھول (عفت موہانی 1977) اگاتے اگاتے، واپسی (آمنہ ابو الحسن 1981) کو پلٹے تو آواز آئی تم نے بہت دیر کر دی ہے (علیم مسرور 1972) ایک چادر میلی سی (راجندر سنگھ بیدی 1960) شمع (اے آر خاتون 1984) اور فائر ایریا (الیاس احمد گدی 1994) کے بڑھتے شعلوں کی زد میں آ گئی ہے۔

اکیسویں صدی کی ابتدا سے قبل میرے ہم قدم چلنے والے متعدد ماہرین مایوسی کے شکار تھے۔ ان کے ذہنوں میں میرے مستقبل کو لے کر شک و شبہات کے بادل گرج رہے تھے۔ انہیں میرے دم توڑ نے کا یقین تھا مگر کیا کیجئے جب تک کائنات ہے اور انسان ہے تو زندگی بھی رہے گی۔ انسان کی کہا نی ہو گی، تو پھر ناول یعنی میرا وجود بھی قائم رہے گا۔

یہ بات درست ہے کہ کئی چاند تھے سر آسماں (شمس الرحمن فاروقی2006) ، ہوں گے سرحدوں کے بیچ (آنند لہر 2000) شیشہ ٹوٹ جائے گا (مقصود الٰہی شیخ 2001) لہٰذا عزازیل (یعقوب یاور 2001) دانا رسوئی (بشریٰ رحمن 2011) میں انیسواں ادھیائے (نند کشور وکرم 2001) پڑھو وہاں تمہیں میرے نالوں کی گمشدہ آواز (محمد علیم 2002) نالۂ شب گیر (مشرف عالم ذوقی 2014) کی مانند سنائی دے گی۔ دھیان لگاؤ گے تو تم گوتم (بلراج ورما 2002) بن سکتے ہو۔ پھر حاصل گھاٹ (بانو قدسیہ2003) اور کاغذی گھاٹ (خالدہ حسین  2002) پر تو اور تو (عباس خان 2003) دی وار جرنلس (صلاح الدین پرویز 2003) کی ویر گاتھا (سلیم شہزاد 2003) سنائے جا۔ جنگ ابھی جاری ہے (احمد صغیر  2002) لیکن پار پرے (جوگندر پال 2004) سے اگر تم لوٹ آتے (شوکت خلیل 2003) تو پوکے مان کی دنیا (مشرف عالم ذوقی 2004) میں دھمک (عبد الصمد 2004) پلیتہ (پیغام آفاقی 2010) کا کام کرتی اور اندھیرا ہونے سے پہلے (نجمہ سہیل 2010) نرا کار (عمر فرحت 2010) خس و خاشاک زمانے (مستنصر حسین تارڑ 2010) یاد رکھ اندھیرا پگ (ثروت خان 2005) ہو یا سیاہ کاریڈور میں ایلین (جاوید حسن 2010) سانپ اور سیڑھیاں (سلیم شہزاد 2010) کھیلتے ہوئے بکھرے اوراق (عبد الصمد 2010) کو ہوا دے رہا ہے، مگر برف آشنا پرندے (ترنم ریاض 2009) جانتے ہیں جانے کتے موڑ (آشا پربھات 2009) ہیں ایک ممنوعہ محبت کی کہانی (رحمن عباس 2009) میں اور شاہیں غزالہ (خواجہ سید محمد یونس 2009) یاد رکھو جب گاؤں جاگے (شبر امام 2005) تو شہر میں سمندر (شاہد اختر 2005) شوراب (غضنفر 2008) کی مانند، غلام باغ (مرزا اطہر بیگ 2008) بے وقعت ہو کر رہ جائے گا۔ پھر اگر تم یاسمین (ظفر عدیم 2008) سے کہانی کوئی سناؤ متاشا (صادقہ نواب سحر 2009) کی ضد کرو گی تو رانگ نمبر (مشتاق انجم 2006) سے آواز آئے گی اے غمِ دل وحشتِ دل (محمد حسن 2003) سڑک سیدھی جاتی ہے (ظفر عدیم 2008) لیکن دروازہ ابھی بند ہے (احمد صغیر 2008) لہٰذا خوابوں کی بیساکھیاں (انل ٹھکر 2007) لے کر خدا کے سائے میں آنکھ مچو لی (رحمن عباس 2011) کرو، آتش رفتہ کا سراغ (مشرف عالم ذوقی 2013) مل ہی جائے گا۔ اے لمینیٹڈ گرل (اختر آزاد 2013) ایک بوند اجالا (احمد صغیر 2013) کی تلاش کے لیے ایوانوں کے خوابیدہ چراغ (نور الحسنین 2013) ہی کافی ہیں، ان سے نا دیدہ بہاروں کے نشاں (شائستہ فاخری 2013) بھی نظر آ جائیں گے، تم دوسری ہجرت (سرور غزالی 2013) کر لینا ورنہ تم پر زوال آدم خاکی (محمد غیاث الدین 2013) کا الزام آ سکتا ہے۔ تین بتی کے راما (علی امام نقوی 1988) کوئی تمہیں انگوٹھا (ایم مبین 2012) دکھائے تو تم اسے نام دیو (آنند لہر 2012) سے اپنے رشتے (انل ٹھکر 2012) کی فٹ پاتھ کی کہانی (حبیب کیفی 2012) جس میں سارے جہاں کا درد (رفیعہ منظور الامین) ہے رات کے آنچل میں (ظفر عدیم) سنا دینا۔ وہ موت کی کتاب (خالد جاوید 2011) کا کاری زخم (محمد عمر فاروق 2011) دے گی اور مانجھی (غضنفر 2011) کو گلابی پسینہ (نفیس تیاگی 2012) آ جائے گا تو میرا کہنا لے سانس بھی آہستہ (مشرف عالم ذوقی 2011) ضائع ہو جائے گا۔

کچھ سنا تم نے، چاند ہم سے باتیں کرتا ہے (نور الحسنین 2015) گؤ دان کے بعد (علی ضامن 2015) اے دلِ آوارہ (شموئل احمد 2015) جس دن سے (صادقہ نواب سحر 2016) تلک الایام (نور الحسنین ۲۰۱۸) میں تیری شکست کی آواز (عبد الصمد 2013) سنی ہے، دکھیا رے (انیس اشفاق 2015) رنگ محل (طاہر اسلم گورا 2016) اور گلیوں کے لوگ (اقبال حسن خاں 2014) جہاں تیرا ہے یا میرا (عبد الصمد ۲۰۱۸) ایسی شناخت لے کر ابھرے ہیں کہ صدائے عندلیب بر شاخ شب (شائستہ فاخری 2014) کی طرح میر واہ کی راتیں (رفاقت حیات 2016) بھی نعمت خانہ (خالد جاوید 2014) کے گرداب (شموئل احمد 2016) میں الجھ گئی ہیں۔ ایسے میں نیلیما (شفق شو پوری 2016) رو حزن (رحمن عباس 2016) میں لفظوں کا لہو (سلمان عبد الصمد 2016) پی کر ایسا تخم خوں (صغیر رحمانی 2016) اپنے اندر اتار چکی ہے کہ قطرے پہ گہر ہونے تک (غزالہ قمر اعجاز 2016) چینی کو ٹھی (صدیق عالم 2016) ہاں نولکھی کوٹھی (علی اکبر ناطق 2016) کے سائے میں خزاں کے بعد (نوشابہ خاتون 2017) کی خلش (سفینہ بیگم 2017) لیے بے خیالی میں بنارس والی گلی (فیاض رفعت ۲۰۱۸) میں کوہِ گراں (خالد محمد فتح 2017) سے ٹکرا جاتی ہے اور مقدمے میں جج صاحب (اشرف شاد 2017) سے پوچھتی ہے میرے ہونے میں کیا برائی ہے (رینو بہل 2017) ڈیوس علی اور دیا (نعیم بیگ 2017) بھی تو ہم جان (فارس مغل 2017) ہیں اور اماوس میں خواب (حسین الحق 2017) دیکھتے ہیں تو کیا ہوا کہ خواب سراب (انیس اشفاق 2017) بے رنگ پیا (امجد جاوید 2017) اور اندھیروں کے مسافر (احمد حسنین ۲۰۱۸) کو بھی دکھ دان (اسلام اعظمی 2017) دیتے ہیں۔ ایک ہزار دو راتیں (صلاح الدین پرویز 2005) گذرنے کے بعد بھی پرو فیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی (مشرف عالم ذوقی 2005) کی آخری سواریاں (سید محمد اشرف 2016) ابھی تک نہیں گذریں، نمائش خانہ (اسد رضا 2016) میں، میں اور امراؤ جان ادا (عباس خاں 2005) کب تک کھڑے رہیں، مجھے ڈر ہے کہیں نمبردار کا نیلا (سید محمد اشرف 1997) نخلستان کی تلاش (رحمن عباس 2004) میں وش منتھن (غضنفر 2004) کرتا، چارنک کی کشتی (صدیق عالم 2003) میں سوار اس پار آ جائے اور میری اوڑھنی (نصرت شمسی 2014) میری شناخت، میرا مستقبل داؤ پر لگ جائے اور تم دل من (یعقوب یاور 1988) کی طرح اکثر وقت گذر جانے کے بعد کہو مجھ سے کہا ہوتا (آنند لہر 2002) ؟میں سب کی جنم کنڈلی (فہیم اعظمی 1984) جانتا ہوں، زوال سے پہلے (شمیم منظر 2008) اسی طرح وزیر اعظم (اشرف شاد 1999) اکثر دیوار کے پیچھے (انیس ناگی 1983) چھپ جایا کرتے ہیں۔ بڑھتی خلیج (خالد فتح) اور دائرہ (عاصم بٹ) عبور کرنے اور جاگنگ پارک (نکہت حسن) تک پہنچنے کے لیے کنجری کا پل (یونس جاوید) ہی در اصل پل صراط (اکرام بریلوی) ہے جسے پار کرنے کے بعد جنگل کی آواز (نجمہ محمود) اور زخم اور آہیں (نذیر فتح پوری) آخر کب تک (اقبال نظامی 2000) گرگِ شب (اکرام اللہ) کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں (شمشاد احمد) بنیں گے؟ ایک نہ ایک دن چاند پور کی نینا (غلام الثقلین نقوی) پارسا بی بی کا بگھار (ذکیہ مشہدی) کا کھیل ضرور ختم کر دے گی۔ یہ سب کو علم ہے کہ مٹی آدم کھاتی ہے (محمد حمید شاہد 2007) لیکن ہر بند دروازہ کھلتا ہے (ابدال بیلا 2006) شرط یہ ہے کہ ایمرجنسی (صدیق سالک) میں یا خدا (قدرت اللہ شہاب 1948) پکارو، ہاں وہی جسے میر کہتے ہو صاحبو (حبیب حق) تنہا (سلمیٰ اعوان 2009) اور واحد ہے وہ اور وہ جب لفٹ (نسترن احسن فتیحی) کراتا ہے تو ہر معتوب (امراؤ طارق 2005) انار کلی (مرزا حامد بیگ 2018) اور مظلوم و مغموم جسّی (محمد بشیر مالیر کوٹلوی 2018) کی حسرت عرضِ تمنا (فرخندہ لودھی) پکار اٹھتی ہے اللہ میگھ دے (طارق محمود) تا کہ ایک اور کوسی (نسرین ترنم 2009) کالی ماٹی (علی امجد 1999) میں زندہ ہو جائے۔

میں یعنی ناول اپنی کہانی یہاں کچھ دیر کے لیے روک رہا ہوں، آپ یوں ہی سنتے رہیں۔ یہ کہانی اپنے مختلف کرداروں کے ساتھ یوں ہی چلتی رہے گی۔ آگے اور آگے۔

٭٭٭

نوٹ:  (میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ نا ولوں کی اولین سن اشاعت استعمال ہو۔ پھر بھی بعض کتب کے پہلے ایڈیشنز نہیں ملے، بعض کے جو ایڈیشنز ملے ان کے سن اشاعت کو استعمال کیا ہے۔ کچھ کے سنِ اشاعت ہنوز نہیں مل پائے۔ بعض ناولوں کا استعمال سن کے اعتبار سے ترتیب میں نہیں ہوا ہے۔ ا۔ ج)

 

One thought on “ناول کی کہانی، ناول کی زبانی ۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے