ناول کا فن ۔۔۔ ڈاکٹر تہمینہ عباس

 

کتاب: ناول کا فن

مصنف: میلان کنڈیرا

مترجم: ارشد وحید

صفحات: ۱۳۶

قیمت: ۲۰۰ روپے

ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، پطرس بخاری روڈ، اسلام آباد

 

اکادمی ادبیات پاکستان کا ایک سلسلہ ہے جس کے تحت بین الاقوامی زبانوں سے پاکستانی زبانوں اور پاکستانی زبانوں سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں تراجم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ’’ناول کا فن‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ممتاز فکشن نگار میلان کنڈیرا ہیں اور اس کا اردو ترجمہ ارشد وحید نے کیا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے میلان کنڈیرا تحریر کرتے ہیں۔

’’اس کتاب میں میرے ناولوں میں موجود ’’ناول کے تصور‘‘ کو بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں موجود سات ابو اب، کو ۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۵ء کے درمیان تحریر کیا گیا ہے گو کہ یہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں لیکن میں نے انہیں بالآخر ایک ہی کتاب میں مرتب کرنے کے حوالے سے سوچا تھا۔ ‘‘

یہ کتاب در اصل ناول کے فن پر ایک ممتاز ناول نگار کے خیالات ہیں اور اگر کوئی تخلیق کار اسی فن پر بات کر رہا ہوں کہ جس میں وہ زیادہ مہارت رکھتا ہے تو وہ اس بات کو عام نقادوں سے بہتر طور پر بیان کر سکتا ہے۔

پانچ مضامین اور دو انٹرویو پر مشتمل کتاب ’’ناول کا فن‘‘ میں میلان کنڈیرا ناول کی تشکیل، اس کی مافیہا، اس کی تاریخ اور موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ سر وانتیس کے ساتھ ہی ایک عظیم یورپی فن (ناول) کا ارتقا ہوا۔ در حقیقت وہ تمام وجودی موضوعات جنھیں گزشتہ تمام یورپی فلسفوں میں نظر انداز کر دیا گیا تھا جن کا ہائیڈگر نے، وقت اور وجود میں تجزیہ کیا ہے، کو گزشتہ چار صدیوں کے دوران میں لکھے جانے والے ناولوں نے بے نقاب کر کے واضح طور پر ان کو عیاں اور روشن کر دیا ہے۔ ناول نے ایک ایک کر کے وجود کی مختلف جہتیں دریافت کی ہیں۔

باب دوم ’’ناول کے فن پر ایک مکالمہ‘‘ ہے جس میں مصنف نے رچرڈسن کی ناول نویسی پر روشنی ڈالی ہے۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں رچرڈسن نے خطوط نویسی کے انداز میں ناول کی ایک شکل دریافت کی، جس میں کردار اپنی سوچوں اور اپنے جذبات کا اعتراف کرتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ مشہور ناول نگار، کافکا نے ناول کو نئی سمت فراہم کی، جس میں کردار اپنی سوچوں اور اپنے جذبات کا اعتراف کرتے ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ مشہور ناول نگار، کافکا نے ناول کو نئی سمت فراہم کی۔ نیز اس باب میں مصنف نے اپنے مختلف ناولوں، ان کی کہانیوں اور کرداروں کا نفسیاتی اور سماجی تناظر میں تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے عالمی صورتحال کی تبدیلی اور اس کے انسانی ذہن اور خاص طور پر مختلف ناولوں پر اثرات کو بھی ایک مکالمے کی صورت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

باب سوم ’’نیند میں چلنے والے ‘‘ سے متاثر ہو کر کچھ خیالات، میں مصنف نے تین مشہور ناولوں کے نامور کرداروں کا تاریخی اور نفسیاتی تناظر میں تجزیہ کیا ہے۔

باب چہارم ’’ناول کی تشکیل کے فن پر ایک مکالمہ‘‘ ہے کرسچن سالمن اور میلان کنڈیرا کے درمیان یہ مکالمہ ناولوں کی مختلف جہات کا احاطہ کرنا ہے اور اس مکالمے میں دنیا کے عظیم ناول نگاروں اور ان کے ناولوں کا محاسبہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

باب پنجم ’’دور کہیں، پس منظر میں ‘‘ ہے جس میں مصنف نے مشہور ناولوں کی کہانی کی بنت اور اس کے شعوری اور نفسیاتی عوامل کو موضوع بنایا ہے۔ باب ششم، ’’تریسٹھ الفاظ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں مصنف نے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ہونے والے ناولوں پر بحث کی ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ہونے والے ناول، اکثر پبلشر اور مترجم کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مصنف نے اس باب میں اپنے مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے والے ناولوں کا حوالہ دیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ترجمہ نگاروں نے کہیں مکالمے، کہیں سوچ کی عکاسی کے پیراگراف، کہیں موسیقی کی معلومات حذف کر دی ہیں یعنی ترجمہ میں اصل ناول اور اس کے متن کو برقرار رکھنے کا خیال بہت کم کیا گیا ہے۔ نیز اس باب میں مصنف نے ناول میں استعمال ہونے والے تریسٹھ الفاظ کی اپنے طور پر ایک فرہنگ مرتب کی ہے۔

باب ہفتم کا عنوان ’’یروشلم میں تقریر: ناول اور یورپ‘‘ میں مصنف نے ناول کے فن پر بحث کی ہے۔

پانچ مضامین اور دو انٹرویوز پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے ناول کے فن، اس کے ارتقا اور تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ سر وانتیس، رچرڈسن، سٹرن، دوستویفسکی، ٹالسٹائی، فلابیئر، ہرمین بروچ، پروست، موسل، جیمز جوائس اور کافکا کے ناولوں کو زیر بحث لاتے ہوئے دنیا میں ہونے والے تغیرات اور ان کے ناولوں پر اثرات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔

مترجم، ارشد وحید نے یہ کوشش کی ہے کہ کتاب آسان اور عام فہم زبان میں تحریر کی جائے یہ ہی وجہ ہے کہ قاری کو معنی و مفہوم تک رسائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ’’ناول کا فن‘‘ ترجمے کے حوالے سے ایک اچھا اضافہ ہے اور جو قارئین مشہور بین الاقوامی ناول نگاروں اور ان کے ناولوں کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں ان کے لیے اس کتاب میں کافی کچھ ہے۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے