مکتوب نگاری کی روایت میں رسائل کا حصہ ۔۔۔ نصرت بخاری

اردو مکتوب نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے اور مشاہیر کے خطوط کو محفوظ رکھنے میں رسائل کا ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا ہے لیکن میں اُس مدیر کو سلام پیش کرتا ہوں اور اُس کی جودتِ طبع کی داد دیتا ہوں جس نے اردورسائل کی تاریخ میں پہلی بار اپنے رسالے میں کسی کا خط چھاپ کر مکتوب نگاری کی دنیا میں ایک نئی رسم کا بیج بویا اور ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی۔ اُس شخص نے اردو ادب کو ایک نیا موضوع دیا۔ اس نا معلوم شخص کی دانش وری کی وجہ سے رسالے میں شامل تحریروں کے مخفی زاویے خاص و عام کے لیے منظرِ عام پر آنے لگے ؛ اور اب تو یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کسی شخصیت کے خطوط کو فوری طور پر منظرِ عام پر لانے کے لیے رسائل سے بہتر اور کوئی پلیٹ فارم نہیں ؛اس لیے ادبا ایسے خطوط کی اشاعت کے لیے رسائل کا سہارا لیتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں مدیران بھی بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ مشاہیر کے خطوط کو رسائل میں نمایاں کر کے شائع کرتے ہیں۔ "ان رسائل نے جہاں دیگر شعری و نثری اصناف کی پیش کش میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں خطوط کی اشاعت کے باب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں”(1)۔

کئی رسائل نے خطوط نمبر شائع کیے مثلاً ’’ایشیا‘‘ بمبئی مرتبہ ساغر نظامی، مکاتیب نمبر (روحِ ادب 1941ء)، ’’آجکل‘‘ دہلی، خطوط نمبر مرتبہ جوش ملیح آبادی 1954ء اور ’’نقوش‘‘ لاہور مرتبہ محمد طفیل، مکاتیب نمبر دو حصے، 1956ء اور خطوط نمبر، تین حصے 1968ء‘‘۔ (2)

اس کے علاوہ سندھ یونی ورسٹی کے مجلہ "تحقیق” نے چار جلدوں میں "مکتوبات نمبر” شایع کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے مجلے "تعبیر” کی 2016 کی اشاعت "مکتوبات نمبر” تھی۔ مجلس ترقی ادب نے "صحیفہ” 2016 اور 2017 کی اشاعتیں "مکاتیب نمبر” کے لیے مخصوص کیں۔

رسالہ "نقوش” نے اپریل، مئی 1968 میں "خطوط نمبر” شایع کیا، جو دو جلدوں پر مشتمل تھا۔ جلد اول 496 صفحات پر مشتمل تھی جب کہ جلد دوم کے 604 صفحات تھے اور مجموعی طور پر 2253 غیر مطبوعہ خط شایع کیے گئے۔ ان خطوط میں قائد اعظم، علامہ اقبال، غالب، سر سید احمد خاں، شبلی نعمانی، نواب محسن الملک، عبدالحلیم شرر، مرزا یگانہ چنگیزی، شاہ دل گیر، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا حالی، داغ دہلوی، مولانا محمد علی جوہر، اکبر الہ آبادی، مولوی عبد الحق، مولانا حسرت موہانی، نواب وقار الملک، عبدالرحمن بجنوری، حبیب الرحمن شیروانی، سر عبدالقادر، امیر مینائی، ریاض خیر آبادی، مہدی افادی، نظم طباطبائی، شاداں بلگرامی، محشر لکھنوی، نواب بہادر یار جنگ، سید سلیمان ندوی، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی، داغ دہلوی، رشید احمد صدیقی، رام بابو سکسینہ، نیاز فتح پوری، عبد المجید سالک، محمد امین زبیری، مولانا گرامی، شاہد احمد دہلوی، عاشق بٹالوی، خواجہ حسن نظامی، مولانا عبد الماجد دریا بادی،، پطرس بخاری، مولانا عبدالباری، حکیم اجمل خاں، پنڈت موتی لعل نہرو، مہاراجہ کشن پرشاد، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، غلام بھیک نیرنگ، شوکت تھانوی، میرا جی، مولانا مودودی، پیر مہر علی شاہ، جوش ملیح آبادی، غلام رسول مہر، امتیاز علی عرشی، مالک رام، شیخ محمد اکرام، حفیظ جالندھری، قاضی عبد الودود، عصمت چغتائی، جاں نثار اختر، احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، آل احمد سرور، راجندر سنگھ بیدی، ڈاکٹر گیان چند جین، نثار احمد فاروقی، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، قرۃ العین حیدر، مولانا صلاح الدین، اختر حسین رائے پوری، قدرت اللہ شہاب، کرشن چندر، غلام عباس، بلونت سنگھ، سیماب اکبر آبادی، شورش کاشمیری، خلیفہ عبدالحکیم، وغیرہ کے نایاب خطوط شایع کیے گئے۔ ان خطوط کے متعلق مدیر لکھتے ہیں: جنگ ہوئی۔ اپنی اپنی پڑ گئی۔ یہ دعا تو سب کی تھی کہ ملک دشمن سے محفوظ رہے۔ اس کے ساتھ۔۔۔ والدین کی فکر، بچوں کی فکر، جائیداد کی فکر۔ فکریں تو میری بھی بہت تھیں۔ مگر ان میں نمایاں فکر اس دستاویزی سرمائے کی تھی جو میری تحویل میں تھا۔ وہ سرمایہ کیا تھا؟ بوسیدہ اور کٹے پھٹے کاغذ کے پرزے۔ مگر ان پرزوں میں غالب کے خطوط تھے، اقبال کے خطوط تھے، سر سید کے خطوط تھے، ابو الکلام کے خطوط تھے، شبلی کے خطوط تھے، مہدی افادی کے خطوط تھے۔ نام کہاں تک گنواؤں۔۔۔ آج 1968 میں سوچتا ہوں تو کہ میں بھی کیسا انسان ہوں کہ جسے بچوں سے زیادہ خطوط عزیز تھے۔ یہ سوچ کر کبھی غم گین ہو جاتا ہوں اور کبھی خوش”۔ (3)

مدیرِ نقوش کا خطوط کے بارے میں یہ نثر پارہ بھی پڑھ لیجیے: "لمبی باتوں کی سکت نہیں۔۔۔ یہ خطوط جس بے ڈھب طریقے سے لکھے ہوئے تھے، اُس میں سمجھنا دشوار، یہ خطوط جس شکستہ تحریر میں لکھے ہوئے تھے، اس میں پڑھنا دشوار، مشکل ہی مشکل۔ یہ خطوط پرانے ہیں، بے حد پرانے، کوئی سوسال پرانا، کوئی پچاس برس پرانا، کچھ کو دیمک چاٹ چکی ہے کچھ کی سیاہی اُڑ چکی ہے۔ بعضوں پر دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ بعضوں پر پانی گرا ہوا ہے۔۔۔ خطوط کی موجودہ صورت میری بارہ برس کی ریاضت کا نتیجہ۔ ان دشواریوں اور پریشانیوں کو دھیان میں رکھیں گے تو دل کچھ اور باتوں کو چاہے گا۔ جو اہلِ درد نہیں اُس سے کیا کہوں۔۔ ۔ بسم اللہ قائد اعظم کے خطوط سے ہوتی ہے۔۔ ۔ غیر مطبوعہ خطوط ہیں۔۔ ۔ ہم نے غالب کے غیر مطبوعہ خطوط ڈھونڈ نکالے ہیں۔۔ ۔ سر سید کے 128غیر مطبوعہ خطوط پیش کر رہے ہیں "۔ (4)

"آجکل” (خطوط نمبر) 1954 میں شایع ہوا ہے اور سرورق پر گاندھی جی کے ایک اردو خط کا فوٹو ہے جو انھوں نے 1945 میں سید عبداللہ بریلوی کو لکھا تھا۔ اس کے علاوہ واجد علی شاہ اور ان کی بیگموں کے خطوط، ایک منظوم رقعہ شادی، آرزو، صفی، جلیل، حامد حسین قادری، شرر کے چند نادر خطوط بھی اس رسالے میں ہیں۔ مقدمہ میں خواجہ احمد فاروقی صاحب نے غالب، سرور، واجد علی شاہ اور ان کی بیگمات، نواب لوہارو، امیر مینائی، داغ، مشتری، محمد حسین آزاد، حالی، نذیر احمد، شبلی، مہدی افادی، ریاض خیر آبادی، نیاز فتح پوری، مولانا آزاد، مسٹر محمد علی، سجاد ظہیر کے متعلق اشارے کیے ہیں”۔ (5)

سندھ یونی ورسٹی شعبہ اردو کے شش ماہی مجلے "تحقیق” نے خطوط کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے چار ضخیم مکتوبات نمبر شائع کیے۔ اس سلسلے کا پہلا شمارہ جنوری تا جون 2012 ہے۔ اس میں حسام الدین راشدی، بابائے اردو، مولانا احسن مارہروی، نثار احمد فاروقی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر گیان چند جین، رشید حسن خاں مالک رام، حیرت شملوی، ڈاکٹر ابن فرید وغیرہ کے خطوط درج ہیں۔ اداریے میں مدیر لکھتے ہیں: "خطوط ثقافتی ورثہ ہیں۔ اس کے اسالیب اور موضوعات کا مطالعہ بدلتے ہوئے علمی، ادبی، تعلیمی، سیاسی، سماجی اور صنعتی تبدیلیوں کا پتا دیتے ہیں۔۔ "تحقیق” کے مکتوبات نمبر شایع کرنے کا ایک بڑا مقصد اس انتہائی قیمتی ماخذ کو محفوظ کرنا اور منظر عام پر لانا ہے۔ گٹھریوں میں بند ہے خطوط کے ان ذخائر کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ہی انھیں تحقیق کا موضوع بھی بنانا ہے”۔ (6)

"تحقیق” کے جنوری تا جون 2013 کے شمارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر مختار الدین احمد، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، رشید حسن خاں، ڈاکٹر نجم الاسلام، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، علامہ عبدالعزیز خالد، احمد ندیم قاسمی، وغیرہ کے خطوط شایع ہوئے ہیں۔ جولائی تا دسمبر 2013 کی اشاعت میں ڈاکٹر مختار الدین احمد ابو اللیث صدیقی، اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، شکیل بدایونی وغیرہ کے مکتوبات شامل کیے گئے۔ اس طرح ڈاکٹر سید جاوید اقبال نے "تحقیق”میں ہزاروں خطوط شایع کر کے جتنا قیمتی ادبی سرمایہ محفوظ کر دیا، اردو ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے مجلے "تعبیر” نے جنوری تا جون 2016 کی اشاعت کو "مکتوبات نمبر” قرار دیا۔ اس میں علامہ اقبال کے ایک خط کو "نو دریافت” قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اقبال کے خطوط کی تلاش و تحقیق کا زمانہ 2016ء تک پھیل گیا ہے۔ اس خط کی دریافت سے اہلِ علم کو غالب و اقبال وغیرہ کے مزید خطوط کی دریافت کی امید رکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ "تعبیر” کے اس شمارے میں مولانا امتیاز علی عرشی، مولانا مودودی، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر سید محمود الرحمن، ڈاکٹر سید عبد اللہ، جمیل آزر اور صاحبزادہ حمید اللہ خان کے خطوط شامل ہیں۔ اداریے میں مدیر لکھتے ہیں: "مکتوب نگاری کا فن انسان کی ذاتی اور شخصی واردات اور کیفیات کا آئینہ دار ہے۔ اس میں خود کلامی کے عناصر بھی جلوہ گر ہیں۔ اور ہم کلامی کی خوش بو بھی اس کے حیطۂ ادراک سے باہر نہیں۔ کہانی کی طرح اس میں تخیلاتی رنگوں کی آمیزش بھی ہے اور زندگی کے حقیقی رنگوں کا احساس بھی۔ یہ کسی بھی انسان کے داخلی جذبوں کا اظہاریہ بھی ہوتا ہے اور اس کے خارجی رنگوں کا اشاریہ بھی۔ اس میں رنگ بھی ہوتے ہیں اور بے رنگی بھی۔ یہ انسانی زندگی کے ظاہری رویوں کا ترجمان بھی ہے اور اس کی باطنی کیفیات کا نقیب بھی۔۔ ۔ اس کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اس کا روزِ اول کہیں مرورِ ایام میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔۔ ۔ یوں لگتا ہے کہ اس فن نے کہیں کہانی کے باطن سے اپنا اظہار کیا۔۔۔ یہ مراسلے سے مکالمہ بنا تو اس میں بے تکلفی کے رنگ بکھرنے لگے اور یہ خوشبو کی طرح اُڑ کر دلوں میں اترنے لگا۔۔۔ اس صنف کا دائرہ فرد سے لے کر تہذیبوں تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔ "تعبیر” کا تیسرا شمارہ مکتوبات نمبر ہے۔۔۔ نو مقالہ نگاروں نے آسمانِ علم و ادب کے کتنے ہی ستاروں کے خط”تعبیر”کے طاقِ ابد پر رکھ دیے ہیں۔۔۔ "تعبیر” کے طاق پر رکھے یہ چراغ روشن رہیں گے "۔ (7)

جولائی 2016 میں 412 صفحات پر مشتمل مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کا شش ماہی مجلہ”صحیفہ” مکاتیب نمبر” کی صورت میں شایع ہوا۔ جنوری تا جون 2017 میں اس کا دوسرا حصہ شایع ہوا۔ "نہایت قیمتی مکاتیب اس میں یک جا ہو گئے ہیں اور حواشی و تعلیقات کے اہتمام نے انھیں مزید مفید و معلوماتی بنا دیا ہے”۔ (8)

اس کے ادارتی نوٹ "حرفے چند” میں مدیر افضل حق قریشی لکھتے ہیں کہ: "مکاتیب کو تحقیق میں بنیادی ذرائع معلومات میں سے تصور کیا جاتا ہے، اس لیے کہ ان میں وضیحت و تکلف کے اختلاط و آمیزش کی کم سے کم گنجائش ہوتی ہے۔۔ ۔ مکاتیب کی افادی حیثیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھیں ادبیات و سیر کا بڑا قیمتی سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے شخصی، علمی، ادبی اور سماجی تاریخ مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا غلام رسول مہر کی کتاب "غالب” ملنے پر انھیں لکھتے ہیں: "غالب کے مکتوبات کا ڈھیر اسی نوے برس سے موجود ہے۔ ان کی زندگی کی سرگزشت اسی ڈھیر میں بکھری ہوئی تھی۔ لوگ دیکھتے اور گزر جاتے تھے۔ آپ رُک گئے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر سارے پرزے نکال لیے۔ ان سب کو جوڑ دیا ہے تو غالب کی زندگی کا پورا مرقع نمایاں ہو گیا ہے۔ غرض مکاتیب ہر شخص کی قلبی، نفسی، جذباتی کیفیات اور علمی رجحانات و میلانات کا اندازہ کرنے کے لیے نہایت عمدہ اور بڑی حد تک قابلِ اعتماد سرمایہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشاہیر کے مکاتیب فراہم کرنے کی طرف اربابِ علم باہتمام خاص متوجہ رہے ہیں۔ صحیفہ کا مکاتیب نمبر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے” (9)۔

"صحیفہ” اس اشاعت میں سید غلام بھیک نارنگ، مولوی سید عبد الحی، پروفیسر رشید احمد صدیقی، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، میکش اکبر آبادی، ڈاکٹر سید عبداللہ، مالک رام، ڈاکٹر شوکت سبزواری، کلبِ علی خاں فائق، سید قدرت نقوی، ڈاکٹر گیان چند، رشید حسن خاں، مشفق خواجہ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مولانا عبد الماجد دریا بادی، مولانا غلام رسول مہر، قاضی عبدالودود، پروفیسر حمید احمد خاں، مولانا امتیاز علی عرشی، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے خطوط شامل ہیں۔ صحیفہ کا جنوری تا جون 2017 کا شمارہ بھی”مکاتیب نمبر، حصہ دوم” کی صورت میں شایع ہوا۔ اس کے صفحات چھے سو سے زیادہ ہیں۔ "اس میں مختلف شخصیات کے چار سو سے زائد مکاتیب شامل ہیں”۔ (10)

مندرجہ بالا رسائل کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کی خطوط پر مخصوص اشاعتیں منظرِ عام پر آئیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی سیکڑوں رسائل خطوط کی اشاعت کی روایت میں اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ "معارف کی ڈاک: اس عنوان کے تحت معارف کے مدیر کے نام لکھے گئے وہ خطوط شایع کیے جاتے ہیں جن میں کسی علمی مسئلہ کی وضاحت کی جاتی ہے۔۔۔ یہ خطوط کبھی "معارف کی ڈاک ” کے عنوان کے تحت شایع کیے جاتے ہیں تو کبھی بغیر وضاحت کے کسی مستقل عنوان کے تحت نقل کیے جاتے ہیں”۔

مجلس ترقی ادب کے مجلے "صحیفہ” نے ستمبر 1959 کے شمارے میں پہلی بار مکتوبات کے حوالے سے دو مضمون "مکتوبات سر سید: محمد اسماعیل پانی پتی، اور "مکاتیب اقبال بنام خاں نیاز الدین خاں” شایع کیے تھے۔ اس کے بعد سیکڑوں خطوط اور مکتوب نگاری پر درجنوں مضمون شایع ہوئے۔ مثلاً: اپریل 1963 میں صفدر میر کی لکھی ہوئی تحریر”مرزا مظہر جانِ جان کے خطوط” اکتوبر 1964 کے شمارے میں "امیر مینائی کے ادبی خطوط: انتقادی جائزہ” از رشید حسن خان، اکتوبر 1965 میں "مرتضیٰ حسین فاضل کا "گارساں دتاسی کا ایک نادر خط”، جولائی 1967 میں احمد رضا کا "عودِ ہندی (مکتوبات)” از مرزا غالب "جنوری 1969 میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا مضمون "محاسن خطوط غالب” شایع ہوا۔

آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کے سہ ماہی مجلے "العلم” نے بھی خطوط کی اشاعت کی روایت کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، جس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ جنوری تا مارچ 1989 کے شمارے میں "بنام سید الطاف علی بریلوی” کے عنوان سے خطوط شایع کیے گئے۔ جولائی تا ستمبر 1991 کے شمارے میں "مشاہیر کے خطوط بنام سید الطاف علی بریلوی” شایع ہوا۔ جولائی تا ستمبر 1993 کے شمارے میں "پیر حسام الدین راشدی اور سید الطاف علی بریلوی خطوط کی روشنی میں” کے عنوان سے مضمون درج ہے۔ اکتوبر تا دسمبر 1995 کے "العلم” میں خطوط شایع ہوئے، عنوان تھا "خطوط بنام مجاہد بریلوی”۔ اکتوبر تا دسمبر 2007 کے شمارے میں "خطوط بنام ڈاکٹر مولوی عبدالحق” کے عنوان سے مشاہیر کے خطوط درج ہیں۔

نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے میگزین "دریافت” کے جنوری 2015 کے شمارے میں مولوی محمد سعید، ایم اسلم اور میاں محمد شفیع کے خطوط شایع کیے گئے جو نور محمد قادری کو لکھے گئے تھے۔ "ان مکاتیب میں علامہ اقبال اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے بارے میں گفتگو غالب ہے”۔ (11)

ترقی اردو بورڈ کے مجلے "اردو نامہ” میں "مراسلات "کے عنوان کے تحت خطوط کی اشاعت ہوتی تھی۔ بعض اوقات یہ گذشتہ شمارے کے متعلق موصول ہونے والے تازہ خطوط ہوتے تھے اور بعض اوقات مشاہیر ادب کے پرانے مکاتیب کو شائع کیا جاتا تھا۔ ان مکاتیب میں علم و ادب کے موضوعات پر بڑی عمدہ گفتگو ہوتی تھی، جس سے ہر دور میں استفادہ کیا جائے گا۔ ایک خط میں لکھا ہے: "لغت کے صفحہ 260 پر باغ و بہار کی عبارت دی گئی ہے اور اٹواٹی کھٹواٹی لکھا ہے۔ میرے پاس فورٹ ولیم کا چھپا ہوا نسخہ ہے۔ اس میں بیشتر الفاظ کا املا قدیم شکل میں ہے، چنانچہ اس میں "اٹھواٹی کھٹواٹی” لکھا ہے۔ اس اختلاف املا کے متعلق کیا رائے ہے۔ سامنے کا املا سامھنے ہے۔ تھامنا کی جگہ تھانبا ہے، غرض کافی اختلاف ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی لائبریری میں کون سا نسخہ ہے اور اس کو کن وجوہ سے مستند قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر انجمن ترقی اردو کا ہے تو ساقط الاعتبار ہے”۔ (12)

ایک اور خط دیکھیے جس میں نثار احمد فاروقی طے شدہ املا سے انحراف کی سزا پھانسی تجویز کرتے ہیں: "آج اردو نامہ شمارہ 18 ملا۔ سب سے پہلے فاضل محترم ڈاکٹر شوکت سبزواری کا مضمون "اعرابی نظام ” پڑھا اور اس کے اظہار کے لیے یہ چند سطریں لکھنا شروع کر دیں۔ ایسے مضامین اردو نامہ میں اکثر شائع ہونے چاہیں تاکہ اردو کا ایک مستند اور ہمہ پسند املا متعین ہو سکے۔ انگریزی کتنی وسیع زبان ہے لیکن آپ کسی گھٹیا درجے کی انگریزی کتاب میں بھی املا کی غلطی نہیں پائیں گے۔ رموز اوقاف تک کا اہتمام ہوتا ہے۔ اردو میں عجب مزاج پھیلا ہوا ہے جس کا جو دل چاہے لکھ مارتا ہے۔ کسی کے سامنے جواب دہ ہو تو خرافات نویسی سے ڈرے بھی۔ اردو کی کوئی کتاب (الا ماشاء اللہ) مجھے ایسی نظر نہیں آئی جس کے املا پر اطمینان ہوتا۔ حالانکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اسے سب سے پہلے طے ہونا چاہیے تھا اور اگر ممکن ہو تو بغیر معقول دلیل کے طے شدہ املا سے انحراف کی سزا کم از کم پھانسی تجویز ہونی چاہیے۔ خیر یہ تو کبھی پڑھے لکھے محققوں کی حکومت ہوئی تو ہو رہے گا۔ ڈاکٹر شوکت سبز واری نے اس مضمون کا جو عنوان تجویز کیا ہے مجھے اس میں اور مضمون میں قطعاً ربط نظر نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ایک دم چھلا "جدید صوتیات کی روشنی میں” بھی لگا ہوا ہے۔ یہ روشنی تو مجھ کم سواد کو بالکل ہی نظر نہیں آئی۔ پھر یہ اعرابی نظام کیا ہوتا ہے۔ عربی میں اعراب اسے نہیں کہتے جو فاضل مضمون نگار نے سمجھا ہے۔ اسے ضبط اور تشکیل کہتے ہیں، اردو میں غلط رائج ہو گیا ہے۔ اعراب کا مفہوم تو نحوی قاعدے سے جو حرکت کسی کلمے پر آتی ہے اسے ظاہر کرتا ہے”۔ (13)

اردو کے معروف محقق محی الدین زور نے جنوری 1938 میں۔۔۔ ماہ نامہ سب رس جاری کیا۔۔۔ سب رس نے۔۔۔ جہاں۔۔۔ ادیبوں، شاعروں، نقادوں کی ادبی، علمی اور تخلیقی نگارشات کو پیش کیا وہیں مشاہیر کے خطوط کا با اہتمام شایع کیا۔۔۔ محی الدین قادری زور، خطوط کے آئینے میں، معاصرین کے خطوط بنام شاہد، انشائے بے بدل، آسودگانِ دکن کے خطوط بنام وفا راشدی۔۔ ۔ شایع کیے۔۔ ۔ اردو کے ادبی رسائل میں خطوط کی اشاعت کا ایک سلسلہ”قارئین کے خطوط” کی صورت میں نظر آتا ہے۔ سب رس نے بھی قارئین کے خطوط کو "بزمِ سب رس” کے عنوان سے پیش کیا۔ "بزمِ سب رس” میں اردو ادب کے صفِ اول کے مصنفین، محققین، نقاد اور شاعروں کے علاوہ عام قارئین کے خطوط بھی نظر آتے ہیں”۔ (14)

سہ ماہی روشنائی میں مظہر امام کے نام مشفق خواجہ کا ایک خط شائع ہوا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشفق خواجہ اپنے کالموں سے پستول کا کام لیتے تھے اور حریف کو اس طرح دھمکیاں دے کر بے بس کر دیتے تھے: "میری بدقسمتی کہ اس کے بعد جو کالم آپ کے بارے میں لکھا وہ آپ کو پسند نہیں آیا۔۔۔ آپ نے میرے بارے میں جو مضمون لکھا، مجھے بہت پسند آیا۔ کاش اس کے ساتھ آپ کے وہ خط بھی شائع ہو سکتے جو آپ نے کالموں کی تعریف میں مجھے لکھے تھے اور میرے پاس محفوظ ہیں۔۔۔ کالموں کے دو اور مجموعے حال ہی میں شائع ہوئے ہیں ان میں سے ایک میں آپ سے متعلق دونوں کالم شامل ہیں۔ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو ارسالِ خدمت کر سکتا ہوں”۔ (15)

جمیل یوسف نے ماہ نامہ تخلیق اکتوبر 2007ء میں غلام جیلانی اصغر کے آٹھ خط شائع کیے۔ سندھ یونی ورسٹی کے مجلے تحقیق 2008ء، شمارہ نمبر 16، میں جلیل قدوائی کے آٹھ خط شائع ہوئے، اسی شمارے میں مختار احمد کے دس خط اور ڈاکٹر نجم الاسلام کے تین خط شائع کیے گئے۔۔ "نعت نامے” 2014 میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں وہ خطوط یک جا کر دیے گئے ہیں جو مجلہ نعت رنگ کے مدیر صبیح رحمانی کو اسی مجلے کے حوالے سے لکھے گئے: "یہ 1995 سے 2014 تک (تقریباً بیس سالہ مدت) کے خطوط ہیں۔۔۔ مکتوب نگار پاکستان کے علاوہ ہندوستان، انگلستان،، کینیڈا غرض پوری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ اکثر خطوط میں جو موضوعات زیر بحث ہیں ان کا تعلق فرقہ وارانہ زیادہ ہے۔ جہاں [یہاں] ایک واضح تفریق یہ بھی نظر آتی ہے کہ جو شعرا ہیں ان کی بحثیں عروض اور شاعری سے متعلق ہیں۔ جو محقق ہیں انھوں نے تحقیقی پہلو کو سامنے لایا [رکھا] ہے اور جن کا تعلق خالصتاً اسلام اور فقہ سے ہے تو انھوں نے انھی مسائل اور معیارات پر بحث کی ہے۔۔۔ کچھ خطوط نے تو ہماری آنکھیں کھول دی ہیں مثلاً افروز قادری چڑیاکوٹی کہ جنھوں نے انکشاف کیا کہ قصیدہ بردہ امام بوصیری کا ہے ہی نہیں اور اسر طرح قصیدہ سجاد بھی حضرت زین العابدین کا نہیں۔۔۔ رشید وارثی کے خطوط سے یہ دل چسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت حسان حضور کے منبر پر نہیں بلکہ الگ چبوترے پر بیٹھ کر نہیں، کھڑے ہو کر مدحت گوئی فرماتے تھے۔۔۔ ان خطوط کی بھی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گی”۔ (16)

الحمرا لاہور 2014ء کے مخلف شماروں میں ڈاکٹر انور سدید نے ’’خوابیدہ خطوط‘‘ کے عنوان سے مشاہیر ادب کے خطوط شائع کرنے کیے۔ سہ ماہی الزبیر کے شمارہ 1، 2، 2013ء میں ابن الامام اشعر نے امداد نظامی کے چھے خط شائع کیے۔ یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے مجلے تخلیقی ادب جون 2014 میں ڈاکٹر خالد ندیم کے مضمون مکاتیب مشاہیر میں ذکر اقبال کی اشاعت ہوئی۔

جنوری 2015ء کے یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد کے مجلے دریافت میں مولوی محمد سعید، ایم اسلم اور میاں محمد شفیع کے خطوط شائع ہوئے۔ جنوری 2012 میں مجلہ دریافت میں ڈاکٹر خالد ندیم کا مضمون: جگن ناتھ آزاد کے چند اقبالیاتی مکاتیب بھی شایع ہو چکا ہے۔ 2016 میں ماہِ نو لاہور نے "جوش ملیح آبادی نمبر” شایع کیا اور”خطوط” کا باب قائم کر کے اس میں جوش ملیح آبادی کے وہ خطوط شایع کیے جو انھوں نے پروفیسر سید احتشام حسین اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کے نام لکھے تھے۔ ایک خط کا کچھ حصہ اس طرح ہے: "جی ہاں!میں آج کل خوب کام کر رہا ہوں۔ آج کل ہی پر موقوف نہیں۔ زندگی کے ہر دور، یہاں تک کہ بھری برسات یعنی عنفوانِ شباب میں بھی کبھی کام سے غافل نہیں رہا۔ صبح کے چار بجے سے لے کر شام تک تو کتابوں، علمائے علم و ادب کی صحبتوں اور شعر و سخن کی کاوشوں میں سرگرم رہتا تھا اور راتوں کو یادش بخیر، مہکتے گیسوؤں اور دمکتے مکھڑوں، کھنکتے ساغروں اور تھر تھراتی سارنگیوں میں غرق ہو جایا کرتا تھا۔ عبادت میاں! میری راتیں خالی خولی اور کھوکھلی "عیاشیاں” نہیں ہوتی تھیں بلکہ میں ان راتوں کے بینکوں میں جس قدر وقت اور روپیا جمع کیا کرتا تھا، صبح چار بجے بیدار ہوتے ہی گزری ہوئی راتوں کے بینکوں سے وہ تمام و کمال وقت اور روپیا مع سود وصول فرما کر اس روپے کو تعمیراتِ ادب کی تزئین توسیع میں لگا دیتا تھا”۔ (17)

ماہ نامہ تخلیق لاہور کے مدیر اظہر جاوید کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سونان اظہر جاوید نے تخلیق میں "سلسلے محبتوں کے” کے نام سے اظہر جاوید کے خطوط مسلسل شایع کیے، منظر ایوبی کے نام ایک ترش خط یوں درج ہے: "یا حبیبی!۔۔۔ آپ نے مجھ سے بد گمانی کی۔ یہ آپ کا حق ہے۔ بہ خدا، کوئی اور ہوتا تو میں وضاحت کے پھیر میں نہ پڑتا۔ صرف آپ سے گزارش ہے۔ سندھ کے مسئلے پر فہیم شناس کاظمی کا طویل خط تخلیق میں چھپا ہے۔ اس میں خاصی سخت اور تلخ باتیں تھیں، تب تو میری "بے باکی” خطرے میں نہیں پڑی تھی۔۔۔ میں پاکستان کا واحد شخص (اہل قلم) ہوں جس نے اکادمی ادبیات کے چیئر میں (جو ویسے میرے دوست تھے، فخر زمان) کو۔۔ ۔ کاپی رائٹ ایکٹ کی پامالی سے روکا۔ یہاں تک کہ انھیں عدالت میں بھی لے کر گیا۔۔ ۔ پچھلے تمام برسوں میں "تخلیق” نے جس جس طرح سے نام نہاد ادبی جغادریوں اور جعلی سکے داروں کو ٹوکا ہے، کوئی اور ادبی جریدہ اس کی ایک مثال ہی دے دے۔۔۔ افسوس آپ نے "تخلیق” کا مطالعہ کبھی توجہ سے کیا ہی نہیں”۔ (18)

مکتوب نگاری کی روایت میں رسائل کا جتنا حصہ ہے، یہ اس کا اجمالی خاکہ ہے۔ اگر اس موضوع پر تفصیلی کام کیا جائے تو معمولی محنت سے محقق کو بہت سا مواد دستیاب ہو گا۔

 

حوالے:

(1) سید طارق حسین رضوی، مجلہ تحقیق، شعبہ اردو، سندھ یونی ورسٹی جام شورو، جنوری، جون 2012، ص 94

(2) ڈاکٹر عبد القیوم، (مضمون) تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند، دسویں جلد، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، فروری 1972ء، ص 638

(3) محمد طفیل، نقوش، ادارہ فروغ اردو لاہور، اپریل، مئی 1968،ص 15

(4) محمد طفیل، نقوش، ادارہ فروغ اردو لاہور، اپریل، مئی 1968،ص 16

(5) محمد اجمل خان، ادبی خطوط، مقبول اکیڈمی، انار کلی لاہور، 1988، ص 88

(6) ڈاکٹر سید جاوید اقبال: اداریہ، مجلہ تحقیق، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو، جنوری تا جون 2012،

(7) عبد العزیز ساحر، مجلہ تعبیر، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد، جنوری تا جون 2006، ص 5

(8) ڈاکٹر معین الدین عقیل، صحیفہ، مجلس ترقی ادب لاہور، جنوری تا جون 2017، ص 539

(9) افضل حق قریشی، صحیفہ، مجلس ترقی ادب لاہور، جولائی 2016۔ دسمبر 2016، ص 7

(10) افضل حق قرشی، شش ماہی صحیفہ، مجلس ترقی ادب، لاہور، جنوری تا جون 2017، ص 9

(11) ڈاکٹر ناصر رانا، دریافت، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد، جنوری 2015، ص 95

(12) قدرت نقوی، اردو نامہ، مدیر: جوش ملیح آبادی، ترقی اردو بورڈ، دسمبر 1965، ص 82

(13) نثار احمد فاروقی، اردو نامہ، مدیر: جوش ملیح آبادی، ترقی اردو بورڈ کراچی، اپریل تا جون 1965، ص 82

(14) سید طارق حسین رضوی، مقالہ: اردو خطوط نگاری کے ارتقا میں ماہ نامہ سب رس کا کردار، مجلہ تحقیق، شعبہ اردو، سندھ یونی ورسٹی جام شورو، جنوری، جون 2012، ص 94

(15) مشفق خواجہ، خط بنام مظہر امام، سہ ماہی روشنائی، کراچی، نثری دائرہ پاکستان، کراچی، اکتوبر 2005 تا مارچ 2006، ص 38

(16) ڈاکٹر عبدالکریم خان، مضمون: نعت نامے بنام صبیح رحمانی، مجلہ سیماب، گورنمنٹ ڈگری کالج (بوائز) افضل پور، میر پور آزاد کشمیر، 2015،ص 202

(17) جوش ملیح آبادی: خط، ماہ نو، لاہور، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز، 2016، ص 259

(18) سلسلے محبتوں کے، اظہر جاوید: خط، ماہ نامہ تخلیق لاہور، مارچ 2018، ص 23

٭٭٭

2 thoughts on “مکتوب نگاری کی روایت میں رسائل کا حصہ ۔۔۔ نصرت بخاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے