محمد اسد اللّٰہ: بحیثیت انشائیہ نگار ۔۔۔ ڈاکٹر اشفاق احمد

ہندوستان میں انشائیہ نگاری کے درخت کی آبیاری کر کے اسے ثمر بار کرنے والے اہل قلم کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے یوں تو اس صنف کی جانب سے بہت سے اہل قلم نے توجہ کی لیکن ان کی کوششیں دو تین انشائیوں سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس صنف کوسنجیدگی کے ساتھ برتنے والوں میں اکبر قاصد، احمد جمال پاشا، رام لعل نابھوی، جاوید وشسٹ، پروفیسر محمد زماں آزردہ، ڈاکٹر محمد حسنین اور ڈاکٹر محمد اسد اللّٰہ جیسے معتبر نام گردانے جا سکتے ہیں۔ ان انشائیہ نگاروں کے انشائیے نہ صرف ہندوستان و دیگر ممالک کے موقر جرائد میں شائع ہوئے بلکہ ان میں سے بیشتر انشائیوں پر مشتمل اپنی تصانیف بھی انشائیہ نگاری کے شائقین کی نذر کیں۔ اکبر قاصد کا ’ترنگ‘ انشائیوں پر مشتمل پہلا مجموعہ منظر عام پر آیا اس کے بعد رام لعل نابھوی (آم کے آم)، ڈاکٹر حسنین (نشاط خاطر)، محمد اسد اللّٰہ (بوڑھے کے رول میں، پر پرزے، ہوائیاں، ڈبل رول) اور پروفیسر محمد زماں آزردہ نے اپنے سات مجموعے: غبار خیال، شیریں کے خطوط، غبار کارواں، کانٹے، گلدستہ، کشمیروی اور سن تو سہی پیش کر کے اس صنف کو مالا مال کیا۔ یوں تو اردو انشائیہ کے نقوش ہمیں سب رس خطوط غالب، محمد حسین آزاد، ناصر دہلوی، سر سید احمد خاں اور عہد سر سید کے بیشتر انشا پردازوں کے ہاں ملتے ہیں لیکن باقاعدہ طور پر انشائیہ نگاری کی تحریک کا آغاز ایک عرصہ پہلے پاکستان میں ہوا۔ اس نوخیز صنف کی عمر بقول انور سدید پچیس تیس سال سے زائد نہیں ہے۔ مگر پاکستان کے فنکاروں نے اپنے فن اور قلم کوبڑی تندہی سے اس صنف میں جٹا کر اسے تحریک کی شکل دی۔ اسی دوران جب اس صنف کی خو شبو ہندوستان پہنچی تو یہاں نامور ادیبوں نے اپنے فن کو اس خوشبو سے معطر کیا وہیں علاقہ ودربھ میں محمد اسد اللّٰہ نے بھی اس خوشبو کا استقبال کیا۔

محمد اسد اللّٰہ ۱۹۵۸ء کو ضلع امراؤتی کے ایک گاؤں وروڈ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ گھرانے میں ہوئی۔ آپ کو بچپن ہی سے تعلیم سے دلچسپی رہی۔ آپ نے گریجویشن اپنے ہی وطن کے کالج میں کیا اسی دوران گھر اور کالج کے ماحول نے آپ کے اندر مخفی تخلیقی جذبہ کو ابھارا۔ ۱۹۷۷ء میں آپنے قلم سنبھالا اور جو کچھ سماج میں دیکھا اور بھگتا ان ہی مشاہدات و تجربات کو اپنے حساس قلم کے حوالے کر دیا۔ استاد محترم ڈاکٹر صفدر صاحب نے آپ کی کاوشوں کو سراہا۔ آپ کی ہمت بندھائی۔ نتیجہ میں تخلیقی اظہار کو تقویت ملی لیکن راہ متعین نہ تھی لہٰذا ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ آپ کا پہلا افسانہ ماہنامہ مورچہ (گیا) میں شائع ہوا، بچوں کے لیے کہانی لکھی تو پیام تعلیم میں شائع ہوئی۔ آپ نے شاعری سے بھی دل لگایا۔ پہلی نظم ماہنامہ جواز مالیگاؤں میں شائع ہوئی۔ مختلف خیالات کا یہ سیلاب زیادہ دنوں تک نہ رہا۔ سوچ کے پاٹ وسیع ہو گئے خیالات میں ٹھہراؤ آیا تب پتہ چلا کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ اس زمانہ میں علاقہ ودربھ میں طنز و مزاح نگاری کی ایک ٹیم تیار ہو رہی تھی۔ آپ بھی اس میں شامل ہو گئے کئی مزاحیہ مضامین لکھے لیکن بعد میں ہمت جٹا کر انشائیہ نگاری کے سنگلاخ راستے کی جانب اپنے قدم بڑھا دیے اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ با قاعدہ اور باضابطہ طور پر اس صنف میں خود کو جھونک دیا اور بہت جلد بر صغیر ہند و پاک میں اپنی شناخت قائم کر لی۔ آپ نے تحقیق کے لیے بھی انشائیہ نگاری کو ہی موضوع بنایا۔ ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد جناب محمد نعیم الدین صاحب کی نگرانی میں ’اردو انشائیوں کا تاریخی و تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اورنگ آباد سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ ۱۹۹۱ء میں ناگپور آ گئے اور مولانا آزاد جونیئر کالج میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوا تو یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

آپ کے انشائیوں کے تین مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انشائیوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۹۱ء میں ’بوڑھے کے رول میں‘ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں پندرہ انشائیے شامل ہیں۔ اس مجموعے کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا نے تحریر کیا ہے جس میں فرماتے ہیں کہ:

’’پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جبکہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ان میں دو منجھے ہوئے ادیب ہیں یعنی احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی لیکن تیسرا ایک نوجوان انشائیہ نگار محمد اسد اللّٰہ ہے۔‘‘

آگے رقمطراز ہیں:

’’اسد اللّٰہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں بھی تازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے اس کے ہاں ندرت خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست سے خندہ زن رہی ہے۔ اس نے زندگی کو دوسروں کی نہیں خود اپنی نظرسے دیکھا ہے اور اسی لیے اس کے ہاں رد عمل شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے۔ محمد اسد اللّٰہ اشیاء کی حیرت آمیز مسرت کے ساتھ دیکھنے اور ان کی ماہیت کی سطح پر لانے کا ڈھنگ جانتا ہے اسی لیے وہ انشائیہ نگاری کے میدان میں کامیاب ہے۔‘‘

احمد جمال پاشا تحریر کرتے ہیں:

’’محمد اسد اللّٰہ نے بہت جلد فنی ہفت خواں طے کر کے اردو انشائیوں میں ایک بلند اور منفرد مقام حاصل کر لیا ہے ان کے ہاں انشائیہ من کی موج ہے جس میں فکر، بصیرت اور مسرت کے ذہنی دریچے وا ہوتے ہیں ان کے انشائیوں کی جان تازہ کاری اختصار معنویت اور جامعیت ہے۔‘‘

’بوڑھے کے رول میں‘ منظر عام پر آنے کے بعد سید احتشام حسین ٹانڈوی (شعبہ اردو لکھنو یونیورسٹی) اپنے ایک مضمون ’آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو انشائیہ‘ میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں:

’’محمد اسد اللّٰہ لائق تحسین ہیں کہ انھوں نے انشائیہ کے چراغ میں اس وقت مزید تیل ڈالا جب محض اس کی جھلملاہٹ دیکھ کر شمس الرحمن فاروقی نے اس کے بجھنے کا اعلان کر دیا تھا انھوں نے اپنے انشائیوں کا مجموعہ ’بوڑھے کے رول میں‘ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ چراغ نہ کبھی بجھا ہے نہ بجھے گا۔‘‘

آپ کی ووسری تصنیف ’پر پرزے‘ ۱۹۹۲ء میں منظر عام پر آئی جو فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنو کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ اس تصنیف میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین، انشائیے اور خاکے شامل ہیں۔ اس کتاب کا مقدمہ یوسف ناظم نے تحریر کیا ہے۔

آپ کا تیسرا مجموعہ ’ہوائیاں‘ جو آل انڈیا ریڈیو سے نشر شدہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی جس میں ۱۸طنزیہ مضامین و انشائیے شامل ہیں۔ ڈاکٹر سید عبد الرحیم ’ہوائیاں‘ سے متعلق یوں رقمطراز ہیں ہیں:

’’حالانکہ ’ہوائیاں ‘ میں شامل انشائیے ریڈیائی ہیں لیکن انشائیہ نگاری کا کمال دیکھئے کہ یہ تمام تحریریں ناظرین کے لیے بھی اتنی ہی دلچسپ ہیں جتنی سامعین کے لیے رہ چکی ہیں۔ ایک تو اردو زبان کی شیرینی اس پر انشائیہ کا چٹخارہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی سویٹ ڈش پر خشک میوے کتر کر ہوائیاں سجادی گئی ہیں۔‘‘

محمد اسد اللہ کے متعلق خالد صدیقی لکھتے ہیں:

اِنشائیہ سے متعلق تحقیقی لگن اور استقامت محمد اسد اللہ کو ایک اور تخلیقی پگڈنڈی کی جانب لے گئی اُنہوں نے اُس پگڈنڈی کے آخر میں ’’یہ ہے اِنشائیہ‘‘ کا خوبصورت لیبل لگا کر کتاب کی شکل میں رونمائی کرا دی، اِس انتخاب میں اِنشائیہ کی پہچان کے لئے بیشتر اِنشائیے ’’اوراق‘‘ میں شائع ہونے والے اور چند اِنشائیے دوسرے جرائد میں شائع ہونے والے پرانے اور نئے اِنشائیہ نگاروں کے نمائندہ اِنشائیے شامل کئے ہیں۔ یہ انتخاب ۲۶ اِنشائیوں پر مشتمل ہے۔ ۸ مغربی اِنشائیہ نگاروں کے اِنشائیوں کے اُردو میں تراجم اور ۲ مراٹھی اِنشائیوں کے اُردو میں تراجم پر مشتمل انتخاب بھی اِس کتاب کا حصہ ہے۔ اِن ۲ مراٹھی اِنشائیوں کے تراجم محمد اسد اللہ نے کئے ہیں۔ یہ اِس بات کی علامت ہے کہ محمد اسد اللہ کو مراٹھی زبان پر بھی عبور حاصل ہے کہ اُنہوں نے کامیابی سے یہ تراجم کئے ہیں۔

محمد اسد اللہ کی کتاب اردو انشائیوں کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں ان کا تحقیقی کارنامہ ہے جس میں انھوں نے نہ صرف اردو میں انشائیہ کی تاریخ قلمبند کی ہے بلکہ مغربی انشائیوں کا بھی بھر پور تجزیہ کیا ہے۔

محمد اسد اللّٰہ نے انگریزی اور مراٹھی کے انشائی ادب سے بھی استفادہ حاصل کیا ہے۔ وہ مراٹھی مزاحیہ ادب کے مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسد اللّٰہ کے انشائیے آئے دن پاکستان سے شائع ہونے والے رسائل اوراق، ادب لطیف امریکہ سے دستک ہندوستان سے شاعر، آج کل، ایوان اردو، جواز، تعمیر، شگوفہ، آہنگ اور تحریک وغیرہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں ان کے مشہور انشائیوں سے چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جسے پڑھ کر فن انشائیہ سے متعلق ان کے شعور کی پختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

’’کل ہی کی بات لیجئے … میں اپنے آپ سے وفا داری کا تہیہ کر کے اپنے اندر اترا۔ اور آواز لگائی … اے میرے ’میں‘ ذرا باہر آئیں تیرا وفا دار بن کر زندگی گذارنا چاہتا ہوں‘ ایک لمحہ کے توقف سے ایک انتہائی نحیف و نزار بوڑھا لاٹھی پٹکتا ہوا باہر آیا۔ میں اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا… اس بوڑھے کی طرح جس کی اولاد نا خلف نکل گئی ہو۔‘‘(بوڑھے کے رول میں)

’’نافرمانی ایک سکہ ہے جس کا دوسرا پہلو یقیناً فرماں بردار ہے۔ شیطان کے یہاں فرمانبرداری والا پہلو نفسیاتی خباثت میں ڈوبا ہوا تھا شاید اسی لیے خدا نے انسان کو بھی نافرمانی کے آلات سے لس کیا تاکہ اسے خیرو شر میں تمیز کرنے کی صلاحیت حاصل ہو سکے فرشتے عبادت کے ذریعہ اپنا دفاع تو کر سکتے تھے البتہ یقین کی سطح پر خدا کی ذات کے اثبات کی ایک ارفع صورت یہ قرار پائی کہ خدا کہ ماسوا کی نافرمانی (نفی) کی جائے تاکہ خدا کی ذات کے اثبات کی صبح خود بخود نمودار ہو جائے۔ ‘‘(نافرمانی)

’’انسان جو ضروریات کا بندہ ہے کتنے ہی بندوں کی جوتیاں سیدھی کرتا ہے اور جب اس بندگی میں بھلا نہیں ہوتا تو بالآخر ہاتھ میں جوتی اٹھا لیتا ہے کیونکہ جو کام جوتے یا انگلی کے سیدھے کرنے سے نہیں بنتے ٹیڑھے کرنے سے بن جاتے ہیں۔‘‘(جوتے)

’’پہلے ڈاکٹر نے ہمارے مسوڑھوں میں انجکشن لگا کر انہیں قوم کی طرح بے حس کر دیا ہے۔‘‘(ہمارا پہلا دانت نکلوانا)

’’ایک اردو کا بورڈ ہی کیا یہاں تو ہر موڑ پر زندگی میں املا اور ہجے کی غلطیاں ہیں۔‘‘(میں ذرا جلدی میں ہوں)

’’ازدواجی زندگی کی ابتداء میں حاصل ہونے والی بے پناہ مسرتوں کو عمر بھر قسطوں میں لوٹانا پڑتا ہے۔‘‘(شادی کے بعد)

’’ہمارے گھر کا صدردروازہ بیڈروم سے اتنی دوری پر واقع تھا جتنا کسی شیخی باز آدمی کی باتیں حقیقت سے دور ہوا کرتی ہیں۔‘‘ (کاش، نہ لگواتے کال بیل)

انشائی کیفیت کے حامل اس قسم کے جملے محمد اسد اللّٰہ کی تحریروں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں لیکن ان کی بیشتر تحریریں مجموعی طور پر انشائیے کی امتیازی خصوصیات کا احاطہ کرتی ہیں اور کلی طور پر انشائیہ کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے