غزل ۔۔۔۔ آرزوؔ لکھنوی

(یہ غزل آرزو لکھنوی (سید انوار حسین) کی ہے۔ آپ کی جائے پیدائش لکھنو ہے اور ۱۹۵۱ میں انتقال کراچی میں ہوا۔ کراچی میں انجمن آرزو آپ کی یاد میں قائم ہوئی تھی جس کے روح رواں آل رضا صاحب اور ان کے دیگر ہم عصر تھے۔

یہ غزل خالصتاً اردو الفاظ پر مبنی ہے۔ اہل ذوق آپ کی شاعری کے قدردان تھے اور آج کل بہت کم لوگ آپ سے اور آپ کے کلام سے واقف ہیں۔ لیکن عربی و فارسی سے مبّرا کلام لکھنے کے لئے اردو زبان پر کتنی گہری نظر و گرفت چاہیے ہے صرف اہل زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔)

 

رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی

سینکڑوں ڈوب گئے پھر بھی ہے اتنا پانی

 

آنکھ سے بہہ نہیں سکتا ہے بھرم کا پانی

پھوٹ بھی جائے گا چھالا تو نہ دے گا پانی

 

چاہ میں پاؤں کہاں آس کا میٹھا پانی

پیاس بھڑکی ہوئی ہے اور نہیں ملتا پانی

 

دل سے لوکا جو اٹھا آنکھ سے ٹپکا پانی

آگ سے آج نکلتے ہوئے دیکھا پانی

 

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

 

پھیلتی دھوپ کا ہے روپ لڑکپن کا اٹھان

دوپہر ڈھلتے ہی اترے گا یہ چڑھتا پانی

 

ٹکٹکی باندھے وہ تکتے ہیں میں اس گھات میں ہوں

کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ ٹھہرا پانی

 

کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ

جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

 

ہاتھ جل جائے گا چھالا نہ کلیجے کا چھوؤ

آگ مٹھی میں دبی ہے نہ سمجھنا پانی

 

رس ہی رس جن میں ہے پھر سیل ذرا سی بھی نہیں

مانگتا ہے کہیں ان آنکھوں کا مارا پانی

 

نہ ستا اس کو جو چپ رہ کے بھرے ٹھنڈی سانس

یہ ہوا کرتی ہے پتھر کا کلیجہ پانی

 

یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے ہم

آرزوؔ لو وہ کھلا بھید وہ ٹوٹا پانی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے