غزلیں ۔۔۔ رؤف خلش

 

کھلے کھلے سے دریچے مکان میں رکھنا

مہکتی بیل چنبیلی کی، لان میں رکھنا

 

کبھی جو خواب کی تعبیر ڈھونڈنے نکلو

زمیں سے اُٹھنا، قدم آسمان میں رکھنا

 

شگفتگی تو بہت ہے بہار کی رُت میں

بدل بھی جاتے ہیں موسم، یہ دھیان میں رکھنا

 

بجھی سی راہگذر، ملگجے دھوئیں کا سفر

بس آگے بڑھنے کی دُھن جسم و جان میں رکھنا

 

سماعتوں نے تو کڑواہٹیں چکھی ہیں بہت

مٹھاس گھول کر اپنی زبان میں رکھنا

 

پرند ہو گئے پچھلی اُڑان میں زخمی!

دوبارہ حوصلہ اگلی اُڑان میں رکھنا!

 

ہمیشہ چھاؤں میں رہنے کی عادت اچّھی نہیں

کہ تھوڑی دھوپ سہی، سائبان میں رکھنا

 

قدم قدم پہ خلشؔ معرکے غضب کے تھے

میں بھول ہی گیا تلوار میان میں رکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

قلم چلے تو اُصولوں کا احترام ہوا

پھر ایسی جنگ چھڑی، سب کا قتلِ عام  ہوا

 

کچھ اس طرح سے بھی میراث ہو گئی تقسیم

خوشی تمھارے لئے، درد میرے نام ہوا

 

کھسک رہی تھیں سبھی منزلیں قدم بہ قدم

یہ تجربہ بھی سفر میں ہر ایک گام ہوا

 

سنا ہے شہر میں عزّت مآب آئے تھے

تو کیسی دھوم مچی، کیسا تام جھام ہوا؟

 

عجب ہوس کا پرندہ تھا، پھڑپھڑاتا تھا

میں جانتا ہوں وہ کن مشکلوں سے رام ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

کام اپنا کر گئے ہیں یہاں فیل دیکھنا

آئے نہیں ابھی تک ابابیل دیکھنا

 

کیچڑ میں فاختاؤں کے زخمی بدن گرے

کیسا لگا لہو سے بھری جھیل دیکھنا

 

دُنیا پہنچ گئی ہے کہاں سے کہاں مگر

قابیل کا شکار ہے ہابیل دیکھنا

 

موسم بھی بے یقیں ہے، مسافر بھی بے یقیں

راہوں میں جلتی بجھتی یہ قندیل دیکھنا

 

جلتے دیئے کو سر پھرا، بُجھنے کو حادثہ

آندھی میں اِن ہواؤں کی تاویل دیکھنا

 

منظر لہولہان تھا، تم ہوش میں نہ تھے

بستی ہوئی ہے راکھ میں تبدیل دیکھنا

 

اِس دشتِ بے اماں میں، اِن آہوں کی بھیڑ میں

ہوتی ہیں کیا قیامتیں، تمثیل دیکھنا

 

منصوبۂ بہار کا بس نام ہے خلشؔ

منصوبۂ خزاں کی ہے تکمیل دیکھنا!!

٭٭٭

 

 

 

 

یوں خود کو بدل دینا، آسان اگر ہوتا

نیچی سی نظر ہوتی، دل موم کا گھر ہوتا

 

پہرے نہ بٹھا دیتا، سورج مِری آنکھوں پر

نیندوں میں ہی گُم رہتا، خوابوں میں سفر ہوتا

 

پھیلے ہوئے شہروں میں، خواہش کے اُگے جنگل

چھوٹی سی تمنّا کا، چھوٹا سا نگر ہوتا

 

کچھ کام کی ہو جاتیں، اپنی بھی مناجاتیں

ہونٹوں پہ دعا ہوتی، لہجے میں اثر ہوتا

 

کچھ ہاتھ نہیں لگتا، رنگوں کے سوا مجھ کو

تتلی کے تعاقب میں، دیوانہ اگر ہوتا

 

تیور تو ہواؤں کے، ہر لمحہ وہی ہوتے

کاش اپنے بھی قابو میں، سانسوں کا سفر ہوتا

 

کچھ دن تو بہار آتی، سوکھی ہوئی شاخوں پر

خوش رنگ سے پتّوں کا، مَیں سبز شجر ہوتا

 

اُن آنکھ کے اندھوں پر، منظر سبھی کُھل جاتے

تھوڑا سا اگر اُن میں، عرفانِ نظر ہوتا

 

اک بار تو لے جاتا، یادوں میں خلشؔ کوئی

رکھا ہوا جُز داں میں، اک مور کا پَر ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

اک جنگ تھی وہ گرمیِ گفتار نہیں تھی

دونوں کی اَنا مٹنے کو تیار نہیں تھی

 

اک آنچ کی تھی پھر بھی کسر تیکھے خطوں میں

تصویر بہت خوب تھی، شہکار نہیں تھی

 

منظر ہے بڑا ہوش رُبا، دل کو لگا تھا

پَر آنکھ مِری دل کی طرفدار نہیں تھی

 

تعبیر کہاں تھی، وہاں کچھ خواب اُگے تھے

وہ نیند کی وادی تھی جو بیدار نہیں تھی

 

دھڑکا تھا کوئی، جس نے قدم روک لئے تھے

راہوں میں اگرچہ کوئی دیوار نہیں تھی

 

ٹوٹا بھی وہاں قہر تو سب شہر پہ ٹوٹا

اب بستی کی بستی تو گنہگار نہیں تھی

 

جلدی نہ تھی منزل پہ پہنچنے کی کسی کو

چلتے تھے سبھی، تیزیِ رفتار نہیں تھی

 

جس نے خلشؔ احساس کو بھی کر دیا زخمی

وہ طنز کی اک کاٹ تھی، تلوار نہیں تھی

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے