غزلیں ۔۔۔ انور شعور

آوارہ ہوں رین بسیرا کوئی نہیں میرا

گلی گلی کرتا ہوں پھیرا کوئی نہیں میرا

 

تیری آس پہ جیتا تھا میں وہ بھی ختم ہوئی

اب دنیا میں کون ہے میرا کوئی نہیں میرا

 

تیرے بجائے کون تھا میرا پہلے بھی پھر بھی

جب سے ساتھ چھٹا ہے تیرا کوئی نہیں میرا

 

جب بھی چاند سے چہرے دیکھے بھیگ گئیں پلکیں

پھیل گیا ہر سمت اندھیرا کوئی نہیں میرا

 

عجب نہیں کوئی لہر اٹھے جو پار لگا دے ناؤ

درد کی دھن میں گائے مچھیرا کوئی نہیں میرا

 

کوئی مسافر ہی رک جائے پل دو پل کے لیے

مدت سے ویران ہے ڈیرا کوئی نہیں میرا

 

میں نے قدر تیرگیِ شب اب پہچانی جب

گزر گئی شب ہوا سویرا کوئی نہیں میرا

 

کوئی نہیں ہے جس کے ہاتھوں زہر پیوں مر جاؤں

بین بجائے جائے سپیرا کوئی نہیں میرا

٭٭

 

اگرچہ آئینۂ دل میں ہے قیام اس کا

نہ کوئی شکل ہے اس کی نہ کوئی نام اس کا

 

وہی خدا کبھی ملوائے گا ہمیں اس سے

جو انتظار کراتا ہے صبح و شام اس کا

 

ہمارے ساتھ نہیں جا سکا تھا وہ لیکن

رہا خیال سیاحت میں گام گام اس کا

 

خدا کو پیار ہے اپنے ہر ایک بندے سے

سفید فام ہے اس کا سیاہ فام اس کا

 

کما کے دیتے ہیں جو مال وہ امیروں کو

حساب کیوں نہیں لیتے کبھی عوام اس کا

 

ہمارا فرض ہے بے لاگ رائے کا اظہار

کوئی درست کہے یا غلط یہ کام اس کا

 

کہاں ہے شیخ کو سدھ بدھ مزید پینے کی

نشہ اتار گئے تین چار جام اس کا

 

زبان دل سے کوئی شاعری سناتا ہے

تو سامعین بھلاتے نہیں کلام اس کا

 

شعورؔ سب سے الگ بیٹھتا ہے محفل میں

اسی سے آپ سمجھ لیجئے مقام اس کا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے