غزلیں (ہندی) ۔۔۔ پریم بھاردواج

تمنا جب حقیقت سے لڑی ہے

دلِ نادان کے سر آ پڑی ہے

 

کبھی گوری جو گنگا سے لڑی ہے

پڑی شو جی کو پھر مشکل بڑی ہے

 

ولی جو ہیں ،چھوئیں آکاش بے شک

نظر ان کی تو دھرتی پر گڑی ہے

 

رہے بچپن پہ بھی قابو بزرگو

اسے ہونا بڑھاپے کی چھڑی ہے

 

یہ روشن کیا بڑھاپے کو کرے گی

تمہارے ہاتھ میں جو پھلجھڑی ہے

 

شرافت یوں ہے جیسے ایک لڑکی

بھرے بازار میں تنہا کھڑی ہے

 

نکلنے پریم سے تھے ہل تو بہتر

یہاں لوگوں کی الٹی کھوپڑی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جسمیں قسمت ڈھو جانے کی ہے تاثیر

مر جاتی کچھ ہو جانے کی ہے تاثیر

 

کاریگر ہاتھوں سے ترشا جائے تو

پتھر میں بت ہو جانے کی ہے تاثیر

 

ہم ند1 پگھلیں تو پھر ایسی سرتا2 میں

پھیلا ساگر ہو جانے کی ہے تاثیر

 

حال کسی کا کیا پوچھے گا موسم میں

اپنا رونا رو جانے کی ہے تاثیر

 

راتوں جاگیں، ٹھگنے ہوں جب لوگ بھلے

ویسے ان کی سو جانے کی ہے تاثیر

 

بھیڑ میں ہاتھ بزرگوں کا تھامیں گے کیا

جن بچوں میں کھو جانے کی ہے تاثیر

 

دھیان ذرا رکھیے کیاری کا، آندھی میں

کیکٹس کانٹے بو جانے کی ہے تاثیر

 

ٹھیک حرارت مٹی پانی ملنے پر

بیج میں برگد ہو جانے کی ہے تاثیر

 

ورندا، سیتا، گندھاری و اہلیہ میں

پتھر بن سب ڈھو جانے کی ہے تاثیر

 

اپنی اس تہذیب میں سب الزاموں کی

عورت کے سر ہو جانے کی ہے تاثیر

 

رسماً دنیا داری کی اس محفل میں

بیٹھے تو ہیں، گو جانے کی ہے تاثیر

 

روٹی کو محتاج ہیں پھر بھی سپنوں میں

پریاں ،پنچھی ہو جانے کی ہے تاثیر

 

آخر دم تک کایا3 کے گلیاروں میں

بار ہوس کا ڈھو جانے کی ہے تاثیر

 

ڈوری میں کمزوری ہے تو مالا میں

منکہ منکہ ہو جانے کی ہے تاثیر

 

ایک نظر میں ایک ہی پل میں صدیوں کی

پریم کی کرنی دھو جانے کی ہے تاثیر

٭٭٭

1۔ گلیشیر 2۔ ندی 3۔ جسم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے