غزلیں/ اشعار ۔۔۔ فیصل عجمی

یاد آؤں گا دیوار میں چنوایا ہوا میں

جو کچھ بھی ہوا آپ کا ہم سایہ ہوا میں

 

مہتاب ہوں اور سایہ ہے اب مجھ پہ زمیں کا

دنیا کو نظر آتا ہوں گہنایا ہوا میں

 

کیا دھوپ چرا لایا ہوں سودج کے بدن سے

انگارہ بنا پھرتا ہوں دہکایا ہوا میں

 

تصویر نے خود بندِ قبا کھول دیے ہیں

اور دیکھ رہا ہوں اسے شرمایا ہوا میں

 

فالج نہ لپٹ جائے کہیں میرے بدن سے

پتھر کا بنا بیٹھا ہوں گھر آیا ہوا میں

٭٭٭

 

 

اس نے تصویر میں جو غازہ لگایا ہوا ہے

جانے بوسیدہ ہے یا تازہ لگایا ہوا ہے

 

شہر میں چاروں طرف گونج ہے سناٹوں کی

چپ نے آوازے پہ آوازہ لگایا ہوا ہے

 

سیر کرنے کو اتر جاتا ہوں تہہ خانے میں

خواب کے فرش میں دروازہ لگایا ہوا ہے

 

میں نے اک شاخ بنائی ہے سخن کرتی ہوئی

اس پہ ہر پھول تر و تازہ لگایا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

مشورہ سمندر سے بار بار کرنا کیا

کون ہے اُدھر اپنا، جا کے پار کرنا کیا

 

کینوس پہ اشکوں کے پھول کیوں کھلاتے ہو!

جو نظر نہ آئے وہ شاہکار کرنا کیا

 

کس لیے ڈراتے ہیں سب مجھے خسارے سے

عشق سے بھی مشکل ہے کاروبار کرنا کیا؟

 

چار گز کا ٹکڑا ہے آسماں کی چادر بھی

چار سو کی عریانی، چھوڑ، یار، کرنا کیا!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے