تبصرے۔۔۔غلام ابن سلطان

¬_____________________________________________________________
ملک شاہ سوار علی ناصر:ضلع خوشاب دا لوک ادب، ادارہ پنجابی لکھاریاں، شاہدرہ، لاہور، 2014
¬_____________________________________________________________

ایک دور افتادہ چھوٹے سے گاؤں اراڑہ (نلی)خوشاب، پنجاب، پاکستان میں لوک ادب کا ایک بہت بڑا محقق ملک شاہ سوار علی ناصر گزشتہ چار عشروں سے تنقید، تحقیق اور تخلیق ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے میں مصروف ہے۔ادبی حلقوں میں لوک ادب کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔لوک ادب نسل در نسل، سینہ بہ سینہ قارئین کو منتقل ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ خزینہ دفینے میں بدل جائے اس کے تحفظ پر توجہ دے کر ملک شاہ سوار علی ناصر نے علم و ادب کے فروغ کی ایک احسن صورت تلاش کی ہے۔اس کتاب کا انتساب بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے :
ترجمہ:’’ان چرواہوں کے نام جن کے سریلے ماہیے سُن کر پھُلاہی اور کہو کے درخت بھی جھُوم جھُوم کے گاتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اس کتاب میں ضلع خوشاب میں پنجابی زبان کے لوک ادب اور اس کی تاریخ کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ پنجابی زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس زبان میں لوک ادب کی صورت میں قدیم اصناف شاعری کا گنج گراں مایہ موجود ہے۔محقق نے جن پنجابی اصناف شعر پر توجہ دی ہے ان میں ماہیا، ڈوہڑہ، ہیمڑی، ٹپہ، چھلّا، لوری اور لوک گیت شامل ہیں۔محقق نے ان اصناف کی قدامت، ساخت اور ہئیت کے بارے میں بھی چشم کشا صداقتوں کی طر ف اشارہ کیا ہے۔لوک ادب کی ان تمام اصناف کے نمونے بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔پنجابی لوک ادب کی یہ اصناف شعر اس قدر موثر اور دلکش ہیں کہ یہ قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اُتر کر قاری کو مسحور کر دیتی ہیں۔پروفیسر اسیر عابد نے پنجابی داں طبقے کو دیوان غالب سے متعارف کرانے کی غرض سے اس کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا۔دیوان غالب کے اس منظوم پنجابی ترجمے کی پُوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔کیا ہی اچھا ہوتا خوشاب کے پنجابی لوک ادب کے ان ابد آشنا فن پاروں کا منظوم ترجمہ اردو اور انگریزی زبان میں پیش کرنے پر توجہ دی جاتی۔ادارہ پنجابی لکھاریاں، لاہور کے بانی الحاج میاں اقبال زخمی علم و ادب کا ایک آفتاب تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لائق فرزند اس ادارے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔یہ کتاب اسی تاریخی ادارے نے شائع کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس کتاب میں شامل پنجابی لوک ادب کے تراجم پر بھی توجہ دی جائے گی۔اس کتاب میں کئی نسلوں سے مقبول مصری اعوان کا قصہ بھی شامل ہے۔ ضلع خوشاب کے لوک ادب کا شاہ کار مصری اعوان کا قصہ ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو چُکا تھا۔محقق نے اس قصے کو تحقیق کی روشنی میں زیب قرطاس کیا ہے۔ضلع خوشاب کے دور اُفتادہ علاقوں، دیہات، قصبات اور جھُگیوں میں پنجابی لوک ادب کی امانت اپنے سینے میں سنبھالے مویشیوں کے ریوڑ چرانے والے چرواہوں سے علم و ادب کے موتی سمیٹ کر قارئین ادب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر کے ملک شاہ سوار علی ناصر نے پا کستانی زبانوں کے ادب کے فروغ کی جو سعی کی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔وطن، اہلِ وطن اور پُوری انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والے اس زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی دس وقیع تصانیف سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافہ کیا۔مٹی کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ اس کی ایک ہی تمنا ہے کہ خدا کرے اس ارض پاک پر ایسی بہار آئے جو کبھی خزاں کی زد میں نہ آئے۔
آری تے آری اے
لوکاں نوں دھن پیارا، سانوں دھرتی پیاری اے
کُجھ روگ پُرانے نیں
وطن دی مٹی دے اساں قرض چُکانے نیں

¬_____________________________________________________________
کتابی سلسلہ کولاژ3، کراچی، بابت اپریل2015
¬_____________________________________________________________

کتابی سلسلہ کولاژ کراچی سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس مجلے کی ادارت کے فرائض مایہ ناز ادیب اقبال نظر انجام دے رہے ہیں۔پاکستان میں تانیثیت کی علم بردار زیرک تخلیق کار محترمہ شاہدہ تبسم مجلہ کولاژ کی معاون مدیر ہیں۔چھے سو بہتر صفحات پر مشتمل اس ادبی مجلے میں مجلس ادارت نے مضامینِ نو کے انبار لگا کر اسے حقیقی معنوں میں علم و ادب کا خرمن بنا دیا ہے۔ایک
زمانہ تھا جب اردو کے ضخیم ادبی مجلات کی ہر سُو دھوم مچی تھی۔اردو ادب کی تاریخ میں فنون، اوراق، نقوش، اقدار، افکار، ساقی، نیا دور، زعفران، معیار اور کاروان کی علمی و ادبی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ان مجلا ت کی پہچان ان کے ضخیم نمبر ہوا کرتے تھے اور ان کا ہر شمارہ اپنے مشمولات کی وجہ سے خاص شمارہ قرار پاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ یہ ضخیم مجلات رہے اور نہ ہی ان کے عظیم مدیر سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب کچھ بہہ گیا اور یہ بنیادی مآخذ تاریخ کے طوماروں میں دب گئے۔کولاژ نے اردو مجلات کی درخشاں روایت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس بار سبدِ گُل چیں میں جو گل ہائے رنگ رنگ ہیں ان کی مسحورکُن عطر بیزی قریۂ جاں کو معطر کر کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔آئیے اس دھنک رنگ منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالیں :
اپنے ادارتی کلمات میں اقبال نظر نے بھارت کے نامور ادیب گلزار(سمپورن سنگھ کالرا) کو مخاطب کر کے حالِ دل بیان کیا ہے۔ کولاژ کے اداریے کے بعد حمد و نعت کا حسین اور عقیدت سے معمور حصہ ہے۔ اس حصے میں سلیم کوثر کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری، ڈاکٹر باقر رضا اور جاوید نظر کی ایک ایک نعت شامل اشاعت ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری قلب و نظر کی گہرائیوں میں اُتر کر روح کو وجدانی کیفیت سے آشنا کرتی ہے۔توحید اور رسالت کے حقیقی عشق سے لبریز یہ شاعری قلوب کو مہر و وفا کے ارفع معیار سے متمتع کرتی ہے :
یہ ابتدا جو ہوئی میری چشمِ نم سے ہوئی
بہت دنوں میں مِری دوستی حرم سے ہوئی
نگاہ دِل پہ ہے اور آنکھ رونے والی ہے
یہ وہ گھڑی ہے کہ بس نعت ہونے والی ہے
کولاژ کو موجودہ شمارہ ایک جام جہاں نما کے مانند ہے ، جس میں ادب اور فن کی حسین لفظی مرقع نگاری قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔اس میں موضوعات اور مضامین کا تنوع قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے۔سبدِ گُل چیں میں جو گُل ہائے رنگ رنگ اپنی عطر بیزی سے مسحور کر رہے ہیں اُن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :
سب سے پہلے حصہ مضامین ہے جس میں اُنتیس وقیع مضامین شامل ہیں۔مطالعہ خصوصی کے تحت جلیل ہاشمی کی طویل نظم ’شمائیلہ ‘‘کولاژ کی زینت بنی ہے۔غزلیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصے میں سترہ غزل گو شعرا کا کلام شامل ہے جب کہ دوسرے حصے میں اُنیس شعرا کی غزلیات شائع کی گئی ہیں۔حصہ افسانہ میں اٹھائیس افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کو مجلے میں جگہ ملی ہے۔کولاژ میں اس بار اکیس نظم گو شعرا کی نظمیں مجلے کے معیار اور وقار کو چار چاند لگا رہی ہیں۔گیت کا حصہ بھی اپنے حسن اور دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے۔اس بار شہزاد نئیر، سید زاہد حیدر اور نصرت اقبال جمشید کے گیتوں سے محفل خوب سجی ہے۔ڈگر سے ذرا ہٹ کر ایک اہم تحریر ہے جس میں سہیل مقبول کی گُل افشانی گفتار فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔ممتاز ادیب ستیہ پال آنند کی شخصیت اور فن پر ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔فن اور فن کار کے عنوان سے کولاژ کی موجودہ اشاعت میں بہت دلچسپ مضامین شائع ہوئے ہیں۔ثریا، موسیقی، شام چوراسی گھرانہ، طلعت محمود، جھلواڑ میں رقاصہ ککّی کا مقبرہ ایسے مضامین ہیں جن کے مطالعہ سے ادب، تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے۔میورل اور رپورتاژ کی اپنی دل کشی ہے جو قاری کو ایک جہانِ تازہ کی جھلک دکھا رہی ہے۔آرٹ کے حصے میں فرحان احمد جمالوی، عروسہ جمالوی اور نسیم نیشوفوز نے خوب رنگ جمایا ہے۔تبصرے کے عنوان سے سات کتب پر تجزیاتی مطالعے شاملِ اشاعت ہیں۔کولاژ کا ایک اور منفرد حصہ ’’ایک کتاب دو تبصرے ‘‘ہے۔اس میں اسد واحدی کے انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز ناول ’’جہاں اندر جہاں ‘‘پر عباس رضوی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنی بے لاگ رائے پیش کی ہے۔قارئین کے خطوط کے حصے میں بائیس مکاتیب حریتِ فکر کا اعلا ترین معیار پیش کر رہے ہیں۔محترمہ شاہدہ تبسم اور اقبال نظر پر مشتمل مجلسِ ادارت کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ کولاژ کے ’’مطالعہ ء عمومی ‘‘سے لگایا جا سکتا ہے۔محترمہ شاہدہ تبسم نے غزل، نظم، افسانہ تنقید، تحقیق اور مضمون نگاری میں اپنے ، منفرد اسلوب سے دلوں کو مسخر کر لیا ہے۔اقبال نظر کی تحریر درویش نامہ ایک سدا بہار کیفیت کی مظہر ہے۔مطالعہ عمومی میں شامل اقبال نظر کی چار تحریریں گنجینہ ء معانی کا طلسم ہیں۔بادی النظر میں تو کولاژ کا یہ حصہ مطالعۂ عمومی ہے لیکن اسی حصے کو قارئینِ ادب نے ہمیشہ خصوصی توجہ اور دلچسپی کا مرکز سمجھا ہے۔اس حصے میں شامل گُل ہائے رنگ رنگ مجلے کی عطر بیزی میں اضافہ کر رہے ہیں۔کولاژ کی صورت میں علم و ادب کی جو کہکشاں اُفق ادب کو منور کر ہی ہے اس میں علم و ادب کے پرانے آفتاب و ماہتاب اور جدید نیّرِ تاباں اپنی ضو فشانی سے نگاہوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ مصوروں کے نادر و نایاب فن پاروں کو بھی اس بار کولاژ کی زینت بنایا گیا ہے۔ ان تصویروں کے رنگ محوِ تکلم ہیں اور ان کی عنبر فشانی کا عالم ناظرین کو حیرتوں کی دُنیا میں پہنچا دیتا ہے۔یہ رنگین تصاویر رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر قاری کے ذوقِ سلیم کی تسکین ہوتی ہے۔مجموعی اعتبار سے مجلہ کو لاژ معاصر ادب کا ایک حسین گُل دستہ ہے جس کے مطالعہ سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مساعی کے ثمر بار ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔اس معیار کے ادبی مجلات کی اشاعت پاکستانی ادبیات کے لیے ایک نیک شگون ہے۔جدید ادب کے آئینہ داراس مجلے کی فی شمارہ قیمت چار سو روپے ہے۔خط کتابت اور ای میل کا پتا درج ذیل ہے :
کولاژ پبلی کیشنز، کراچی۔حفیظ پلازہ، سیکنڈ فلور، 57، دار الامان کو آپریٹو ہاؤسنگ سو سائٹی نزد بلوچ کالونی فلائی اوور، کراچی :75350، ای میل:collagepak@hotmail.com

¬_____________________________________________________________
ادبی مجلہ ششماہی لیکھ، لاہور، جلد 11، شمارہ1، جنوری تا جون2015۔
¬_____________________________________________________________

لاہور میں مقیم نوجوان دانش ور پروفیسر ڈاکٹر ناصر رانا اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستانِ علم و ادب ہیں۔ان کی ادارت میں لاہور سے دو ادبی مجلات ( ششماہی لیکھ اور سہ ماہی ادب معلی ) باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ان رجحان سازعلمی و ادبی مجلات کی اشاعت سے قارئین ادب میں عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملی ہے۔ایک زیرک ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹر ناصر رانا نے ان مجلات کے مشمولات کے ذریعے قارئین میں مثبت شعور و آگہی کے فروغ کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ششماہی لیکھ میں تین زبانوں (پنجابی، اردو اور انگریزی ) میں نئے موضوعات پر لکھے گئے تحقیقی مقالات شامل ہوتے ہیں۔ موضوعات کی جدت، ندرت اور تنوع کا مظہر ششماہی لیکھ ایک اہم تحقیقی مجلہ ہے جسے علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی ہے۔اس شمارے میں پنجابی زبان میں لکھے گئے چھے تحقیقی مضامین، اردو زبان کے چھے تحقیقی مقالات اور انگریزی زبان کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔لیکھ کے تازہ شمارے میں پنجابی زبان میں لکھے گئے جو چھے تحقیقی مقالات شامل ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
انوار احمد اعجاز:غلام مصطفیٰ بسمل، سید محمد عبداللہ قادری:انشائے دل پسند، مصباح صدیقی :باقی صدیقی، ڈاکٹر دھرم سنگھ:بولنے دی جا نہیں، ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد:پنجابی دی پہلی سوانی سفر نامہ نگار،
اعجاز: فیصل آباد دی پنجابی نظم وچ سوانیاں دا حصہ
اردو زبان میں جن موضوعات پر تحقیقی مقالات لیکھ کی زینت بنے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں :
ڈاکٹر ریاض قدیر:اردو اور پنجابی کے محاوراتی اشتراکات، پروفیسر سلیم الرحمٰن:خنسا کے کچھ مرثیوں کا منظوم پنجابی ترجمہ، نذیر خالد:ظفر لاشاری اور ان کے ناول، پروفیسر یونس حسن:علامت اوراس کا سفر،
ڈاکٹر ام کلثوم:علامات کا بڑھتا ہوا رجحان، ڈاکٹر غلام شبیر رانا:مشل فوکو
انگریزی زبان میں لیکھ میں یہ اہم مضمون شامل اشاعت ہے۔
Peter J.Grainger: A Palatography Experiment to show the contrast between dental and Post-aleveolar stops in Punjabi
تحقیقی مجلہ لیکھ کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ انگریزی، پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے ادب کا ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ گلدستہ اپنی عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کر رہا ہے۔ایک صاحب بصیرت ادیب اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ناصر رانانے اس مجلے کے ذریعے نہ صرف قومی تشخص کے فروغ پر توجہ دی ہے بل کہ عالمی کلاسیک اور جدید لسانیات سے متعارف کرانے کی بھی سعی کی ہے۔تنقید و تحقیق کے تیزی سے بدلتے ہوئے معائر کے بارے میں حقیقی شعور پروان چڑھانے میں مجلہ لیکھ کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خط کتابت کے لیے مجلہ لیکھ کا پتا درج ذیل ہے :
دی اکیڈمکس(رجسٹرڈ)391.N نیو مارکیٹ، سمن آباد، لاہور، ای میل ایڈریس:laikh@hotmail.com

¬_____________________________________________________________
سہ ماہی بیلاگ، کراچی، جلد 10، شمارہ1، جنوری تا مارچ2015
¬_____________________________________________________________

کراچی میں مقیم مایہ ناز ادیب اور دانش ور عزیز جبران انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والا اردو کا رجحان ساز ادبی مجلہ ’’بیلاگ‘‘ بابت جنوری تا مارچ 2015شائع ہو گیا ہے۔ ابتدا میں حمد و نعت کا گلدستہ موجود ہے جس کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔اس حصے میں عزیز جبران انصاری، ڈاکٹر قاسم جلال، ثریا بابر، ثبین سیف، عبدالحمید قیصر، وضاحت نسیم، نسیم احمد نسیم اور ڈاکٹر انیس الرحمٰن کے گُل ہائے عقیدت شامل ہیں۔بیلاگ کے اس شمارے میں عالمی شہرت کے حامل دانش ور پروفیسر علی حیدر ملک(مرحوم)کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔جن ممتاز ادیبوں نے پروفیسر علی حیدر ملک کی رحلت پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے ان میں ابن عظیم فاطمی، عزیز جبران انصاری، تنویر پھول اور ظہیر خان شامل ہیں۔جوش ملیح آبادی کے بارے میں علی حیدر ملک کی ایک یادگار تحریر اس مجلے کی زینت بنی ہے۔دیگر مضامین میں دیپک کنول کے افسانوں پر مسعود تنہا کا تجزیاتی مضمون بہت اہم ہے۔ظہیر خان کی شگفتہ تحریر ’’بالقرضِ محال‘‘ خوب ہے۔ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے اپنے مضمون میں شہر یار کو خراج تحسین پیش
کیا ہے۔ سہ ماہی بیلاگ کے اس شمارے میں چار افسانے اور دو فکاہیے شامل ہیں۔سنہری بال (مترجم :معین کمالی)، آٹھواں دروازہ(رومانہ رومی)، حساب برابر (تہمینہ مختار)، ہیں کواکب کچھ :قسط اول(عزیز جبران انصاری)واحد تاثر کے حامل بلند پایہ افسانے ہیں۔شگفتہ تحریروں میں تربوز دیکھ کر (نادر خان سر گروہ) اورحُسن پاگل کر دیتا ہے (ثریا بابر )مصنفین کی گُل افشانیِ گفتار کا جادو قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔حصہ غزلیات میں جن نئے اور پرانے شعرا کا کلام اس مجلے میں شائع ہوا ہے ان میں سحر انصاری، جان کا شمیری، عار ف شفیق، پروفیسر زہیر کنجاہی، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، ثبین سیف، سعید ساجد، آفتاب خان، ریاض ندیم نیازی، احمد بشیر طاہر، رومانہ رومی، ثریا بابر، طارق رام پوری، خرم خرام، زیبا سعید اور مرزا عابد عباس شامل ہیں۔حصہ نظم میں جبار واصف، ڈاکٹر سید قاسم جلال، ثبین سیف، ملک الیاس کامل، قیوم علی طاہر اور شوکت جمال کی شاعری پڑھ کر جی خوش ہوا۔ایک اور اہم تحقیقی مضمون ’’معروف اہلِ قلم کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات‘‘ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔صحتِ الفاظ پر ایک تحقیقی مضمون مجلے میں شامل کیا گیا ہے۔ابن صفی کارنر میں ابن صفی کی ایک یادگار نظم شائع ہوئی ہے۔زندہ تحریریں کے عنوان سے میر تقی میر اور صفی لکھنوی کا کلام شامل اشاعت ہے۔رفتارِ ادب کے عنوان سے علم و ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریبات کا احوال بیان کیا گیا ہے۔خطوط کے حصے میں جان کا شمیری، پروفیسر زہیر کنجاہی، ثبین سیف، قاضی الطاف حسین باولیال، آفتاب خان، پروفیسر قیوم طاہر اور عارف شفیق کے خطوط شائع ہوئے ہیں۔جہان کتب میں نئی کتابوں اور ادبی مجلات کا تعارف شامل ہے۔مجلے کا پہلا صفحہ (اداریہ)اور آخری صفحہ (الوداعیہ)گہری معنویت کے حامل ہیں۔ یہ ادبی مجلہ ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ دھنک رنگ منظر نامہ لیے ایک جہانِ تازہ کا مظہر ہے۔تخلیقات کی جدت، ندرت اور تنوع کے اعجاز سے یہ مجلہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔مجلسِ ادارت کی محنت لگن اور ذوقِ سلیم لائقِ صد رشک و تحسین ہے۔بیلاگ کا ای میل ایڈریس :belagpak@yahoo.com خط کتابت کے لیے پتا درج ذیل ہے :
جبران اشاعت گھر 102 عائشہ منزل نزد مقدس مسجد اردو بازار، کراچی742005

¬_____________________________________________________________
ادبی مجلہ ماہنامہ نیرنگ خیال، راول پنڈی، جلد91، شمارہ مارچ، 2015
¬_____________________________________________________________

راول پنڈی پاکستان سے نامور ادیب سلطان رشک کی ادارت میں شائع ہونے والے تاریخی ادبی مجلے ’’نیرنگِ خیال‘‘ کا نیا شمارہ بابت مار چ، 2015شائع ہو گیا ہے۔نیرنگِ خیال کی اس اشاعت میں ممتاز شاعر خورشید بیگ میلسوی کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ اور اقبال عظیم، مبشر سعید اور سید نصیر الدین شاہ گولڑہ شریف کی لکھی ہوئی نعتیں شاملِ اشاعت ہیں۔مقالات کے حصے میں نو انتہائی اہم اور مفید تحقیقی و تنقیدی مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اردو زبان کے کلاسیکی ادب اور جدید ادب پر محیط یہ مضامین فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتے ہیں۔ مضامین کے عنوان درج ذیل ہیں :
میر تقی میر، مجید امجد، شاعری کا فیض، اچھے شعر کی تعریف، نیم فحش ادب، اسیر بر ہان پوری کا شعری حافظہ، مر حبا کاظمی، احمد ہارون کی شاعری، حسین سحر کی شاعری۔
افسانوں اور طنزو مزاح کے حصے میں پانچ تحریریں شامل کی گئی ہیں۔حصہ شاعری میں سولہ شعرا کا کلام مجلے کی زینت بنا ہے۔ ان میں نئے اور پرانے سب تخلیق کار شامل ہیں۔ چونسٹھ صفحات پر مشتمل نیرنگ خیال کا یہ شمارہ قابل مطالعہ مواد سے لبریز ہے۔ نیرنگ خیال نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔گزشتہ نو عشروں سے یہ مجلہ اُفقِ ادب پر ضو فشاں ہے اور اس کی مسلسل اشاعت سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی اور قارئین کے دلوں میں روشنی کا سفر جاری رکھنے کا ولولہ پیدا ہوا۔ مجلسِ ادارت نے ہمیشہ نئے فنی تجربوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔اس کے اعجاز سے یکسانیت اور جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیق فن کے نئے امکانات تک رسائی کی صورت سامنے آئی۔آشوبِ زیست کے جان لیوا مر احل سے گزرنے والی دکھی انسانیت کے مسائل کی ترجمانی نیرنگِ خیال کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔نیرنگِ خیال کا یہ شمارہ دلکش تحریروں کا حسین گل دستہ ہے۔اس کی ترتیب و اشاعت میں مجلس ادارت نے جس محنت، لگن اور ذوقِ سلیم سے کام لیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔

¬_____________________________________________________________
سہ ماہی کتابی سلسلہ ’’ تمام‘‘ میانوالی، اشاعت خاص ’محمد محمود احمد نمبر، جلد 3، شمارہ22، جنوری۔مارچ2015
¬_____________________________________________________________

میانوالی میں مقیم نقاد، محقق، براڈ کاسٹر، مورخ، فلسفی، مقبول شاعر، نغمہ نگار اور ممتاز ماہر تعلیم محمد محمود احمد (پیدائش:12۔نومبر1959، وفات:14۔اکتوبر2014)کی ہر دل عزیز شخصیت اور فن کے بارے میں سہ ماہی’’ تمام‘‘ کا خاص شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔چھپن صفحات پر مشتمل محمد محمود احمد نمبر ایک ایسی اہم دستاویز ہے جس میں ا س زیرک تخلیق کار کی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور تخلیق ادب کے حسین و دِل کش حوالے یک جا کر دئیے گئے ہیں۔سہ ماہی ’’تمام ‘‘کی مجلس ادارت نے جس محنت، لگن اور خلوص کے ساتھ یہ شمارہ مرتب کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔پاکستان کے سترہ نامور ادیبوں کے مضامین اس شمارے کی زینت بنے ہیں۔ان مضامین میں محمد محمود احمد کے اسلوب اور شخصیت کا تجزیاتی مطالعہ بہت افادیت کا حامل ہے۔ان مضامین میں تنقید، تحقیق، خاکہ اور سوانح نگاری کا جو بلند معیار نظر آتا ہے وہ اس تخلیق کار کے شایان شان ہے۔ یہ مضامین رافعہ مریم، انوار حسین حقی، حمید قیصر، صابر عطا تھہیم، فیروز الدین شاہ، ڈاکٹر عنبر طارق، نجمہ بشیر، ڈاکٹر آصف مغل، ڈاکٹر آصف مغل، ڈاکٹر لبنیٰ آصف، ناہید کو ثر، ارم ہاشمی، ذوالفقار احسن، حنیف سرمد، نذیر درویش، سلیم فواد، اور تنویر شاہد محمد زئی نے تحریر کیے ہیں۔محمد محمود احمد کو دو شعرا (آصف محمود کیفی، ناہید کوثر)نے منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے وہ بھی اس مجلے میں شامل ہے۔ ایک وسیع المطالعہ ادیب اور دانش ور کی حیثیت سے محمد محمود احمد نے کم عمری ہی میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اردو، سرائیکی، پنجابی، عربی، فارسی، سندھی، بلوچی، ہندکو، انگریزی اور پشتو زبان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس فطین ادیب نے تخلیق ادب، صحافت، نشریات، تنقید، تحقیق او ترجمہ نگاری میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اس کے شعری مجموعے ’’عورت، خوشبو اور نماز‘‘ کو قارئین کی جانب سے اس قدر پذیرائی نصیب ہوئی کہ اب تک اس کے چھے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’آنکھ‘‘ زیر تکمیل تھا کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس فعال اور توانا تخلیق کار سے قلم چھین لیا۔محمد محمود احمد نے دو سو سے زائد نغمے لکھے جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ یہ گیت پاکستان کے جن نامور گلو کاروں نے گائے ان میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، شازیہ خشک، سیمی زیدی، حمیرا چنا، شفا اللہ روکھڑی، غلام علی، عارف لوہار، حمیرا ارشد، رخسانہ مر تضیٰ، شوکت علی، مراتب علی، ارم حسن، عطا محمد نیازی اور نصیبو لال شامل ہیں۔ اس کا لکھا ہوا سدا بہار گیت’’میڈا رانجھنا‘‘جسے شازیہ خُشک نے گایا اس قدر مقبول ہوا کہ آج بھی یہ گیت بچے بچے کی نوکِ زباں پر ہے۔پنجابی زبان سے واقفیت نہ رکھنے والے غیر ملکی ثقافتی وفود میں شامل سیاح اس گیت کو سن کر وجد میں آ جاتے اور رقص کرنے لگ جاتے۔ پنجابی لوک ثقافت کی علامت یہ گیت سامعین دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے :
چھیل چھبیلا سجدا اے تیکوں پھُلاں والا چولا
سوسالاں وِچ ہک جمدا اے تیں جیہا سوہنا ڈھولا
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا !
پھُلا ں ورگی وِینی میڈی، وِینی دے وِچ ونگاں
پیار بناون والے توں میں تیڈیاں خیراں منگاں
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا !
تھک گیا ہوسیں جنگلاں دے وچ کر کر کے مزدوری
آ تیرے کان کُٹ رکھی ہے سچے گھے دی چُوری
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا !
کچے بانس دی مُرلی تیڈی، مُرلی دے نال گھُنگرو
کئیں پاسے ہُن ونج نانہہ سکدی تھی گیا اے تیڈا جادو
میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا !او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا، او میڈا رانجھنا !
محمد محمود احمد کی شاعری میں زندگی کی حقیقی معنویت کو جس خلوص اور درد مندی سے اُجاگر کیا گیا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔وہ سب کے ساتھ اخلاص اور اخلاق سے لبریز سلوک کرتا۔اس سے مل کر زندگی سے واقعی محبت ہو جاتی۔اس مجلے میں محمد محمود احمد کی شاعری کا انتخاب بھی شامل ہے۔یہ اشعار پڑھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں :
نیلم جیسی آنکھیں تیری ریشم جیسے بال
سب مٹی کا مال ہے سائیں، سب مٹی کا مال
سونے کا کٹ مالا تیرا چاندی کی پازیب
ہلکے زرد ستاروں والی گہری نیلی شال
سب مٹی کا مال ہے سائیں، سب مٹی کا مال
چاندی جیسے مکھ پر چمکے گرم لہو کی دھوپ
مخمل جیسی نرم رگوں میں مستی کا بھونچال
سب مٹی کا مال ہے سائیں، سب مٹی کا مال
تیرے روپ کے چکر کاٹے اک شاعر کی سوچ
تیرے دروازے پر ڈالے اک مجذوب دھمال
سب مٹی کا مال ہے سائیں، سب مٹی کا مال
تو بھی فانی، میں بھی فانی، باقی رب کی ذات
روشن صبحیں، کا جل شامیں، ہفتے ، مہینے ، سال
سب مٹی کا مال ہے سائیں، سب مٹی کا مال
ہم اپنے رفتگاں کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی دائمی مفارقت کے درد اور ماضی کی حسین یادوں سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔مجلہ ’’تمام‘‘ کی مجلسِ ادارت نے اس اشاعت کا اہتمام کر کے ایک مستحسن خدمت انجام دی ہے۔میں مجلہ’’ تمام‘‘ کی مجلس ادارت کی درد آشنا ارکان بلقیس خان(مدیرہ عالیہ)، ارم ہاشمی(مدیرہ) اور نجمہ بشیر(معاون مدیرہ)کے لیے سرپا سپاس ہوں جنھوں نے زینہ ء ہستی سے اُتر جانے والے ایک گوشہ نشین ادیب کے لیے اس رجحان ساز ادبی مجلے کی ایک خاص اشاعت کا اہتمام کیا۔آپ کی یہ نیکی تا ابد زندہ رہے گی اور اللہ کریم آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے