الحمد للّٰہ۔۔۔ عابدہ رحمانی

صائمہ کا لیبر ذرا زیادہ لمبا ہو گیا تھا ، ڈاکٹر ہونے کے ناتے میں جانتی تھی کہ پہلے بچے کی پیدائش کے وقت ذرا وقت زیادہ لگ سکتا ہے ، نرس اور ڈاکٹر وقتاً فوقتاً بچے کی دل کی دھڑکن دیکھ رہی تھیں۔ آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ ایپیڈیو رول (Epidural)لگا کر فورسپز سے ڈلیوری کر دی جائے، فہد پریشان پریشان ٹہل رہا تھا ،
"مما سب کچھ ٹھیک تو ہے نا” وہ بجائے ڈاکٹر کے مجھ سے تسلی کر لیتا۔
’’ہاں انشاء اللہ سب کچھ صحیح ہو جائے گا” صائمہ کافی نڈھال سی ہو رہی تھی ، گائناکالوجسٹ مجھ سے کہنے لگیں۔
’’ڈاکٹر رحیم آپ تو سچویشن سمجھتی ہیں اگر مسئلہ زیادہ ہوا تو ہو سکتا ہے سی سیکشن کرنا پڑے‘‘ ان کا اشارہ سیزیرین کی طرف تھا۔
"جو بھی بہتر ہو ماں اور بچے کے لیے”
میں نے ان پچھلے تیس سالوں میں کتنے بچے ڈلیور کیے تھے خود مجھے بھی یاد نہیں تھا لیکن اس وقت میری حالت بالکل ایک نادان عورت کی سی تھی جو کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ ’’ابھی بچہ زیادہ نیچے نہیں آیا کہیں Distress میں نہ چلا جائے ، لیبر کو 12 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں ، میرے خیال میں سی سیکشن کرنا بہتر ہے”
میں نے گائناکالوجسٹ عذرا رضوی سے آخر کہ ہی دیا۔”ہم اس دوران تیاری پوری کرتے ہیں دو گھنٹے میں اور دیکھ لیتی ہوں ”
وہ میری وجہ سے اتنا خیال کر رہی تھی ورنہ آجکل تو گائناکالوجسٹ کو سیزیرین کے لیے بہانہ چاہیے۔
میں نے جا کر صائمہ کو پیار کیا ’’بیٹا! ان شاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ تم ماں بن رہی ہو اور ماں بننا اتنا آسان تو نہیں ‘‘
وہ مسکرا دی ’’مما آئی لو یو‘‘
’’ بیٹا Love you too۔‘‘
اس پر غنودگی چھا رہی تھی ہم لوگ رات بھر کے جاگے ہوئے تھے میں اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔
بائیس سال پہلے جب کہ میں ایک کیس کی ڈلیوری سے فارغ ہوئی تھی اپنے ہاتھ وغیرہ دھو رہی تھی کہ نرس نے آ کر کہا ’’ڈاکٹر رحیم ایک ایمرجنسی کیس آیا ہے آپ جلدی آیئے۔‘‘
جا کر دیکھا تو ایک جوان لڑکی Full term ڈلیوری کے لیے بالکل تیار تھی ساتھ میں شاید اس کی ماں تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اسےکچھ کہتی وہ کہنے لگیں۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ! خدا کے لیے آپ یہ کیس کر لیں ہم کوئٹہ سے ایک شادی کے لیے آئے تھے اور اس کی طبیعت یہاں خراب ہو گئی۔‘‘
میں نے نرس سے اسے فوراً ڈلیوری روم لے جانے کا کہا۔ ریسپشنسٹ اس کی ماں سے پتا وغیرہ اور دوسرے حساب کتاب لکھنے لگی۔
اس کو درد بہت تیز آ رہے تھے لیکن زار و قطار رو رہی تھی۔”بی بی !ان شاء اللہ بہت جلد فارغ ہو جاؤگی۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ شکل و صورت سے کافی خوش شکل تھی اور لگتا تھا کسی اچھے گھرانے سے تعلق ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک صحت مند بچی نے جنم لیا اس کو ٹانکے بھی کم آئے تھے۔ تمام معاملات بخوبی طے پا گئے ماں اور بچی کو کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔
یہ میرا ایک چھوٹا سا 20 بستر کا میٹرنٹی ہسپتال تھا، رحیم خود تو انجینئر تھے میرے شوق کی لاج رکھ لی تھی۔ میری دو اسسٹنٹ ڈاکٹر ، نرسیں اور دوسرا عملہ تھا، ماشاء اللہ خوب مصروف رہتا تھا۔ اور میرے مریض اور عملہ مجھ سے بہت خوش تھا۔۔
میں نے ان سے کہا کہ دو دن وہ ہسپتال میں رہیں گی۔ اگلی صبح جب میں جانے کی تیاری کر رہی تھی تو ہسپتال سے نرس کا فون آیا۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ! جلدی آئیں وہ کل جو آپ نے ایک ایمرجنسی ڈلیوری کی تھی وہ بچی کو چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔”میرے ہاں اس طرح کا کوئی واقعہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بھاگم بھاگ پہنچی ، ہسپتال میرے گھر سے ملا ہوا تھا۔ بچی بھوک سے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ سرہانے ایک پوٹلی سی تھی۔ میں نے نرس کو کہا کہ بچی کو فیڈ کرے۔پوٹلی میں بچی کے کچھ کپڑے وغیرہ تھے کپڑوں کے اندر ایک رومال میں کچھ وزنی چیز بندھی تھی کھولا تو کچھ زیورات تھے۔ ایک بند لفافہ تھا میں نے کھولا تو میرے نام ایک خط تھا۔

ڈاکٹر صاحبہ !
السلام علیکم
آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ کتنی مجبوری اور بے بسی میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو آپ کے پاس چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ میری بیٹی معصوم تھی ان دیکھے حالات کا شکار ہو گئی۔
مجھے معلوم ہے آپ بے اولاد ہیں اس کو اپنی اولاد سمجھ کر پال لیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ ہم بے بسوں کی طرف سے یہ آپ کے لیے تحفہ ہے ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش مت کیجیے گا۔ ایک درد مند ماں۔”

میں نے خط اور زیور کی پوٹلی پرس میں رکھی ، نرس اور دائی سے کہا کہ بچی کا بھرپور خیال رکھیں۔
میں خود جذبات سے بے حد مغلوب تھی ، رحیم کو فون کر کے صورتِ حال بتائی، وہ تو بے حد خوش ہوئے کیونکہ اب مایوس ہو کر ہم بچہ گود لینے کا سوچ ہی رہے تھے ، جو پتا اور فون نمبر انہوں نے لکھوایا تھا اس پر معلومات کیں ، گھر خالی پڑا تھا معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے ایک سال کا کرایہ ادا کر کے لیا تھا لیکن 8 مہینے ہی میں چلے گئے۔ فون بھی کٹا ہوا تھا۔میں نے رحیم سے کہا کہ ہم قانونی تقاضے بھی پورے کر دیتے ہیں۔ قانونی طور پر ہم نے بچی کو گود لیا۔ رمضان کا مہینا تھا اور میں نے اس کا نام صائمہ رکھا۔
صائمہ ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن گئی۔ اس تمام عرصے میں بچوں کے لیے علاج کرتے ہوئے یہ بات واضح تھی اور ڈاکٹر ہونے کے ناطے میں اچھی طرح جانتی تھی کہ میں ماں بن سکتی تھی لیکن رحیم کا Spermcount(پیدائش کے جرثومے) بہتر نہ ہو سکے۔ رحیم میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک اچھے شوہر میں ہونی چاہیے تھی اس لیے میں اللہ کی رضا پر صابر و شاکر تھی۔صائمہ کے اس طرح سے آنے سے ہماری زندگی میں ایک چہل پہل اور بہار آ گئی۔آپا قریب ہی رہتی تھیں ان کا فہد 5 سال کا تھا میری مصروفیت کی وجہ سے صائمہ اکثر آپا کے پاس رہتیں۔ اس طرح وہ آپا کو اپنی دوسری امی سمجھتی تھیں۔ فہد اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ لڑائیاں بھی ہو جاتیں۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا صائمہ کو میں نے ایک بہترین اسکول میں داخل کر دیا تھا اور اس کی تربیت میں ہم دونوں نے اپنا بہترین حصہ ڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت پیاری شکل و صورت سے نوازا تھا۔وہ جب او لیول کا امتحان دے رہی تھی تو ایک روز گھر واپسی پر کچھ پریشان سی تھی ’’مما جب آج میں پیپر دے کر نکل رہی تھی تو گیٹ پر ایک چادر پہنے عورت ملی اس نے پوچھا ’’ آپ ڈاکٹر رحیم کی بیٹی ہیں ؟”
میں نے کہا "ہاں ”
تو مجھے لپٹا کر بہت پیار کیا اور وہ رو بھی رہی تھی ”
میں تو سن ہو گئی ، ’’پھر کیا ہوا ؟”
"پھر وہ منہ چھپا کر چلی گئی”
میرے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا کہ مجھے اب اسے بتانا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے ؟ لگتا ہے اس کی حقیقی ماں کہیں اس پاس ہی ہے۔
جب وہ اپنے امتحانوں سے فارغ ہوئی تو میرے پاس لیٹی ہوئی تھی میں نے رحیم سے مشورہ کر لیا تھا اور بتانے کے لیے پوری طرح تیار تھی اس کی نانی کا خط ، زیور کی پوٹلی اور گود لینے کے کاغذات میں نے دراز میں رکھے ہوئے تھے۔
’’صامی بیٹی !اگر میں تمہیں ایک ایسی کہانی سناؤں جو تم نے پہلے نہیں سنی تو تمہیں کیسی لگے گی؟‘‘
’’مما بہت مزا آئے گا‘‘
’’لیکن یہ ایک سچی کہانی ہے‘‘
اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’’تو مما اور بھی مزہ آئے گا‘‘
’’صامی یہ ہماری اپنی کہانی ہے‘‘ وہ کچھ گھبرا سی گئی اور دھیرے دھیرے میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ، اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت تھی کہ اس نے سب کچھ سکون سے سنا اس کی خوبصورت آنکھیں چھلک پڑیں وہ مجھ سے لپٹ گئی ’’مما اللہ بھلا کرے میری ماں اور نانی کا کہ انہوں نے آپ کے پاس چھوڑ دیا اور آپ کے حوالے کیا ورنہ کسی کوڑے
کے ڈھیر پر ڈال کر چلی جاتیں یا پھر گلا گھونٹ کر مار دیتیں ‘‘ اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے بہت بڑی بات کر دی تھی۔ ’’مما آپ اور ڈیڈ ہی میرے باپ اور ماں ہیں۔ آپ لوگ تو مجھے Abandone نہیں کریں گے نا۔ مجھے اس کا یقین ہے‘‘
میرے اندر جو پریشانی تھی، جو ہیجان تھا وہ اس کی باتوں سے ختم ہو رہا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے بڑی دعائیں مانگی تھیں کہ یہ مرحلہ بخوبی طے ہو ، اور کتنی آسانی سے یہ طے ہو گیا تھا۔ میں اپنے ان ہی خیالوں میں غرق تھی اور کچھ غنودگی میں تھی کہ صائمہ نے ا چانک آنکھیں کھول کر چلا کر کہا۔ ’’مما ، مما‘‘
وہ بری طرح چلا رہی تھی لگتا تھا کافی تکلیف میں ہے۔میں نے اٹھ کر فورا گھنٹی بجائی ، اسے چیک کیا واٹر بیگ پھٹ چکا تھا۔بچہ پیدا ہونے کو تیار تھا، میں نے جلدی سے اپنے ہاتھ دھوئے ، قریب رکھے دستانے پہنے ، اس سے پہلے کہ اس کی گائناکالوجسٹ اور نرس پہنچتی میرا نواسا میرے ہاتھ میں آ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمدللہ
٭٭٭

One thought on “الحمد للّٰہ۔۔۔ عابدہ رحمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے