غزلیں۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

(1)
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کو ئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کو ئی نہیں

جب سے میں نے گفتگو میں جھوٹ شامل کر لیا
میری باتوں کا برا پھر مانتا کو ئی نہیں

آج کل ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے مگر
یہ سنہرا عز م دل میں ٹھانتا کو ئی نہیں

کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب
یوں ہی بس یادوں کی چادر تانتا کو ئی نہیں

اپنے اپنے زعم میں ہے مبتلا ہر آدمی
ایک دوجے کو یہاں گر دانتا کو ئی نہیں

میں نے جو کچھ بھی کہا ، سچ کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پھر بھی آزرؔ بات میری مانتا کو ئی نہیں
٭٭٭

(2)
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں

تما م قرض ادا کر کے ’ساہُکاروں‘ کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں

ہر ایک شخص سناتا ہے نت نئے ڈھب سے
بدل نہ جائے مری داستان قسطوں میں

ہم ایک ساتھ نہیں کرتے گھر کی آرائش
ہم ایسے لوگ بڑھاتے ہیں شان قسطوں میں

بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف
مٹا رہے ہیں سنہری زبان قسطوں میں

یہ کیا ہوا کہ بڑھاپا اچانک آ پہنچا
ہم ایسے لوگ ہوئے تھے جوان قسطوں میں

اگر ہماری یہی بے حسی رہی آزرؔ
مٹا ہی دے گا وہ نام و نشان قسطوں میں
٭٭٭

(3)
حصۂ درد وراثت سے زیادہ ہی ملا
یعنی مجھ کو مری قسمت سے زیادہ ہی ملا

غم زمانے کا ذرا سا ہی خریدا تھا مگر
مال مجھ کو مری قیمت سے زیادہ ہی ملا

وہ سیاست نے دئے ہوں کہ محبت نے تری
زخم اس دل کو ضرورت سے زیادہ ہی ملا

لوگ جنت کے طلب گار ہیں لیکن اے ماں
تیری آغوش میں جنت سے زیادہ ہی ملا

لاکھ تدبیر نے خوشیوں کو منایا لیکن
رنج تقدیر کو راحت سے زیادہ ہی ملا

ہم جسے یوں ہی سدا چھوڑ دیا کرتے تھے
حاشیہ حسن ِ عبارت سے زیادہ ہی ملا

میں حقیقت کا پرستار ہوں لیکن آزرؔ
خواب آنکھوں کو حقیقت سے زیادہ ہی ملا
٭٭٭

(4)

خوبصورت سا بھرم توڑ گیا تھا کوئی
دور رہتی تھی کہیں چاند پہ بڑھیا کوئی

لوگ دو گز کے مکانوں میں بھی رہتے ہیں جہاں
کوئی دروازہ ، نہ آنگن نہ دریچہ کوئی

وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے
اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی

میں بھی روتا ہی رہا نرگسِ بے نور کے ساتھ
دیکھ پایا نہ مجھے دیدۂ بینا کوئی

دفن کر دیتے ہیں خوابوں کو یوں ہی آنکھوں میں
شاید آ جائے نظر تجھ سا مسیحا کوئی

آج سیرت نہیں، صورت کو نظر ڈھونڈتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے ، آتا نہیں رشتہ کوئی

اب فرشتوں سے ملاقات کہاں ممکن ہے
کاش انساں ہی ز میں پر نظر آتا کوئی

پھر نہ چھا جائے اندھیرا مری آنکھوں میں کہیں
پھر دکھاتا ہے مجھے خواب سنہرا کوئی

عمرِ نو سے ہی مسائل مرے محبوب رہے
میرے خوابوں میں نہ رضیہ ہے نہ رادھا کوئی

جو نئی نسل کو آفات کا حل بتلاتا
کیا بچا ہی نہیں اس شہر میں بوڑھا کوئی
٭٭٭

(5)

اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے

اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے

زندگی عمر کے اس موڑ پہ پہنچی ہے جہاں
سود ناپید ہے، احساسِ زیاں باقی ہے

ڈھونڈتی رہتی ہے ہر لمحہ نگاہِ دہشت
اور کس شہرِ محبت میں اماں باقی ہے

میں کبھی سود کا قائل بھی نہیں تھا لیکن
زندگی اور بتا کتنا زیاں باقی ہے

مار کر بھی مرے قاتل کو تسلی نہ ہوئی
میں ہوا ختم تو کیوں نام و نشاں باقی ہے

ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے، مکاں باقی ہے

لاکھ آزرؔ رہیں تجدید ِ غزل سے لپٹے
آج بھی میر ؔ کا اندازِ بیاں باقی ہے
٭٭٭

(6)

دل نے اچھائی، برائی کو بس اتنا سمجھا
یعنی گر خود کو برا سمجھا تو اچھا سمجھا

ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا

اب سمندر پہ وہ چلتا ہے تو حیرت کیسی
عمر بھر اس نے سرابوں کو ہی دریا سمجھا

اور چارہ بھی نہ تھا اس کے علاوہ کوئی
ہم نے ہر دور میں قاتل کو مسیحا سمجھا

مجھ کو سیلاب نے سمجھایا زمیںپیاسی تھی
زلزلہ آیا تو میں نے ترا غصہ سمجھا

اب تو وہ آگ ہیولوںسے بھی آگے ہے بہت
تو نے انساں کو فقط خاک کا پتلا سمجھا

قصۂ درد سنا سب نے مرا ، سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ سبھی نے اسے قصہ سمجھا

مات دی میں نے جو شیطاں کو بھی عیاری میں
پھر مجھے سارے زمانے نے فرشتہ سمجھا

عمر بھر خامۂ تنقید نے مانا مردہ
بعد از مرگ مجھے اس نے بھی زندہ سمجھا

جب مرے خواب حقیقت میں نہ بدلے آزرؔ
میں نے دنیا کی حقیقت کو بھی سپنا سمجھا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے