عرفان ستار سے ایک مکالمہ ۔۔۔ سحر آفرین

عرفان صاحب سب سے پہلے آپ اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی حالات کے بارے میں فرمائیے۔

میرا تعلق ایک میمن خاندان سے ہے، گویا اردو نہ صرف میری مادری زبان نہیں، بلکہ ہماری کمیونٹی میں اچھی اردو بولنے والے لوگ بھی خال خال ہی ملتے ہیں۔ البتہ میرے والد ڈاکٹر تھے اور ادب اور موسیقی میں خاصا درک رکھتے تھے۔ میری والدہ نے بھی اردو میں گریجوئیشن اس زمانے میں کی تھی جب میمن لڑکیاں پرائمری کلاسز کے بعد اسکول نہیں جاتی تھیں۔ اس لحاظ سے میرے گھر میں صاف اردو بولی جاتی تھی اور والدہ کے پاس خاصی تعداد میں اردو ادب سے متعلق کتابیں تھیں۔ جب میں صرف دو برس کا تھا تو میرے والد کی ملازمت کی غرض سے ہم لیبیا منتقل ہو گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کی بات ہے۔ وہاں انگلش میڈیم اسکول نہ تھا اس لیے گھر پر ہی والدہ سے تعلیم حاصل کی اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی سہولت نہ ہونے کے سبب کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ بغیر سمجھے دواوینِ غالب و میر، اور نجانے کیا کیا۔ والدہ بتاتی ہیں کہ جن دنوں اردو پڑھنے کے قابل ہوا ہی تھا تو ایک دن گھر کے پیچھے والے ٹیرس میں انھوں نے مجھے یہ شعر بآوازِ بلند پڑھتے پایا:دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے عشق بِن یہ ادب نہیں آتا وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے پوچھا تمہیں اس کا مطلب سمجھ آتا ہے تو میں نے جواب دیا کہ مطلب تو نہیں آتا مگر مجھے اچھا بہت لگتا ہے۔ گویا شعر کی غنائیت میرے دل میں بہت ابتدا ہی میں گھر کر چکی تھی۔ ۱۹۷۹ میں مجھے سیکنڈری کلاسز کی تعلیم کے لیے کراچی بھیج دیا گیا اور وہاں BVS Parsi School سے میٹرک، DJ Science College سے انٹر میڈئیٹ کیا۔ فرسٹ ائیر میں تھا تو میرے والد صاحب انتقال کر گئے۔ میری عمر اس وقت ۱۷ برس کی تھی۔ نمبر کم آئے۔ میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا۔ DJ College سے ہی BSc کیا۔ BSc کے امتحان سے فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک دوست IBA کا ایڈمیشن ٹیسٹ دینے جا رہا تھا اور کسی کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے والد اسے اکیلے کار نہیں لے جانے دیتے تھے۔ میں اس شرط پر راضی ہو گیا کہ میرے ٹیسٹ کی فیس بھی وہی دے گا۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ MBA کس بلا کا نام ہے (اس وقت یہ شعبہ اتنا عام نہیں تھا۔ یہ ۱۹۸۹ کی بات ہے ) نہ ہی مجھے ٹیسٹ کے فارمیٹ کے بارے میں علم تھا۔ خیر ٹیسٹ دے کر آ گئے۔ دو دن بعد لسٹ لگی تو وہ بے چارہ فیل ہو گیا اور میں پاس۔ شاید IBA کی تاریخ میں پہلا candidate ہو گا جو ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد یہ معلوم کرنے نکلا کہ MBA ہوتا کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ کوئی بہت توپ چیز ہے اور صرف ۳ فیصد ایپلیکینٹس کا داخلہ ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ خیر ہوا یوں کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد سے ایم بی ختم کرنے تک میں تین ملازمتیں کرتا تھا اور ساتھ پڑھتا بھی تھا۔ شاید ہی کسی رات ۴ گھنٹے سے زیادہ سویا ہوں گا۔ یہ سلسلہ دسمبر ۱۹۹۲ تک جاری رہا جب میں نے ایم بی اے مکمل کیا۔ اس دوران کن مشکلات سے گزرا اور کیسے وقت گزارا یہ ایک طویل کہانی ہے جس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بہرحال اس کے بعد وقت بدلا اور معاشی اعتبار سے اچھے دن آئے۔ ۲۰۰۴ میں SZABIST سے Management Science میں MS کی ڈگری بھی گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ ابتدا میں Telecommunication اور ۱۹۹۴ سے اب تک Pharmaceutical and Healthcare سے وابستہ رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ گزشتہ ۱۵ سالوں سے بزنس اسکولز میں پڑھاتا رہا ہوں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

۲، وہ کون سے عوامل تھے جن کے تحت آپ شعر و ادب کی جانب راغب ہوئے ؟

ابتدائی دلچسپی سے متعلق تو میں نے پہلے جواب میں بتا ہی دیا ہے۔ لیبیا میں بچپن اکیلے گزارنے کے باعث میں فطرتاً بہت خاموش طبع ہو گیا تھا۔ حساس طبیعت ہمیشہ سے تھی اور موزوں طبع بھی تھا۔ کسی تربیت کے بغیر یونہی تک بندی نجانے کب شروع ہو گئی۔ یہ بات احباب کے لےں دلچسپی کا باعث ہو گی کہ شاعری کے معاملے میں جب میں سنجیدہ ہوا تو میری عمر تقریباً تیس برس تھی۔ عزم بہزاد کی خدا مغفرت کرے۔ انھوں نے مجھے پہلی بار یہ اعتماد بخشا کہ میں شعر کہتا ہوں۔ پھر جون ایلیا صاحب سے نیاز مندی کا شرف حاصل ہوا اور بس پھر کیا تھا۔ وہ سراپا شاعری تھے اور میں سرتاپا ان کی عقیدت اور محبت سے سرشار۔ اچانک یوں سمجھیں کہ ذہن مستقل شعری فضا میں رہنے لگا۔ ان کی تربیت میں رہنا کسی یونیورسٹی میں برسوں گزارنے نے زیادہ تھا۔ تکرارِ ساعت کی بیشتر غزلیں ۱۹۹۸ سے ۲۰۰۴ تک کی ہیں۔ بہت لکھا اور ضائع کیا۔ آج بھی بہت کم کہتا ہوں۔ ۲۰۰۵ میں کتاب چھپی اور اس کے بعد سے آج تک صرف ۲۵ غزلیں کہہ پایا ہوں۔ جب تک کوئی تجربہ، واردات یا observation میرے احساس کا حصہ نہ بن جائے، شعر میں منتقل نہیں ہوتا۔ میرا ہر شعر میرے بسر کیے ہوئے کسی لمحے کا عکس ہے۔ مجھے سے شعر گھڑا نہیں جاتا۔ ویسے فی البدیہہ آپ مجھ سے پچاس شعر گھنٹے بھر میں کہلوا لیجیے مگر میں اسے اپنی شاعری شمار نہیں کرتا۔ میرا شعر میرا اظہار ہے۔ میرا شوق نہیں ۔
جون ایلیا اور عزم بہزاد کے علاوہ جن احباب اور بزرگوں کا میرے شعری رویّے کی ساخت اور میری تربت میں براہِ راست یا بالواسطہ حصہ رہا ان میں سرِ فہرست میرے مربّی و محسن خواجہ رضی حیدر کا نام ہے۔ ان کے علاوہ محترم لیاقت علی عاصم، سعید آغا، انور جاوید ہاشمی، صابر وسیم، احسن سلیم، ڈاکٹر مختار جیسے احباب کے ساتھ گزاری ہوئی محفلیں ذوق اور فن کو جلا دیتی رہیں۔ بزرگوں میں جناب قمر جمیل، نگار صہبائی، انور شعور، محب عارفی اور رسا چغتائی کی محبت اور شفقت میرے ساتھ رہی۔ شمس الرحمٰن فاروقی، آصف فرخی، مبین مرزا اور لاہور سے خالد احمد نے میرے کلام کو قارئین تک پہنچانے کا کام بہت خلوص سے سرانجام دیا۔ میں یقیناً اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے ایسے باکمال لوگوں کی صحبت، رہنمائی اور محبت نصیب ہوئی۔

۳۔ اس کا جواب پچھلے سوال کے ساتھ آ گیا ہے۔
۴، جس وقت آپ نے شعر کہنا شروع کیا اس وقت کا ادبی منظر نامہ کیا تھا؟ آپ سے سینئیر اور ہم عصروں میں کون کون سے اہم نام تھے ؟

سینئیرز میں جون ایلیا، رضی اختر شوق، محب عارفی، انور شعور، عبیداللہ علیم، سلیم کوثر، محشر بدایونی، تابش دہلوی، خواجہ رضی حیدر، نصیر ترابی، جمال احسانی، عزم بہزاد، احمد نوید، لیاقت علی عاصم، عقیل عباس جعفری، عارف امام اور کراچی سے باہر خالد احمد، نجیب احمد، احمد فراز، توصیف تبسم، محسن احسان، ادا جعفری، پروین شاکر اور ایک طویل فہرست ہے ناموں کی جو اس وقت آسمانِ ادب پر جگمگا رہے تھے۔ جو لوگ عمر میں مجھ سے قریب تھے اور جن سے برادرانہ تعلق کا دعوٰی کرسکتا ہوں ان میں اجمل سراج، انعام ندیم، اکبر معصوم، اور شاہین عباس اہم ترین نام ہیں۔

۵، شاعری کے لیے آپ نے غزل ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا غزل آپ کے مزاج سے زیادہ قریب ہے ؟

غزل میرے مزاج سے قریب بھی ہے اور میرے لیے ذہن کو کسی ایک موضوع پر مرکوز کر کے شعر کہنے میں effort بہت در آتی ہے اور مجھے یوں لگنے لگتا ہے کہ میں بس بات پوری کرنے کی کوشش میں لگ گیا ہوں۔ شعر کے دو مصرع مجھے میرے احساس کی ترجمانی کو کافی لگتے ہیں۔ پھر ردیف و قوافی کے اہتمام سے جو صوتیات پیدا ہوتی ہیں وہ مجھ میں موجود موسیقی کے ذوق کو بھی تسکین پہنچاتی ہیں۔

۶، ایک شاعر کے لیے کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کتنی اہمیت کا حامل ہے َ

بہت ہی زیادہ۔ کلاسیکی شاعری جن لوگوں نے تخلیق کی وہ ہماری طرح بٹے ہوئے لوگ نہیں تھے۔ وہ ہمہ وقت علم اور تخلیقی جستجو میں رہنے والے لوگ تھے۔ جو خزانہ انہوں نے چھوڑا ہے اس میں تحصیلِ علم اور تربیتِ ذوق کا اتنا وافر سامان ہے کہ آپ کو کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ جون صاحب نے مجھے ازسرِ نو مصحفی، آتش، داغ، وغیرہ کے دواوین پڑھنے کی تاکید کی اور گھنٹوں ان کے فن پر گفتگو کر کے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا۔ بڑی شاعری زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہوتی ہے۔ میر آج بھی اتنے ہی تازہ ہیں جتنے ۲۰۰ سال پہلے تھے۔ بڑی شاعری انسان اور کائنات کو جن زاویوں سے دیکھتی ہے ان کی universal value and relevance ہوتی ہے۔

۷، کون سی چیز آپ کو شعر کہنے پر اکساتی ہے ؟

کوئی بھی ایسی بات، واقعہ، رویّہ، تجربہ، جو مجھے احساس کی سطح پر جھنجھوڑ دے۔ وہ ایک حسین کی ادائے دلربا بھی ہو سکتی ہے، ایکدوست کا دھوکہ بھی، اور میرے اطراف رونما ہونے والا کوئی واقعہ بھی۔ بہت سی باتیں وقوع پذیر ہونے کے بہت عرصے بعد شعر میں ڈھلتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پراسس ہے جس کے steps اور timing سب میرے بس سے باہر ہے۔ جب میں شعر کہنے کی کیفیت میں ہوتا ہوں تو مضامین نہیں سوچتا۔ بس شعر کہتا ہوں۔ مضامین میرے احساس کی hard drive سے خودبخود retrieve ہوتے جاتے ہیں۔

۸، آپ اپنے سے پہلے کے کن لکھنے والوں سے متاثر ہیں ؟

متاثر تو بہت سے لوگوں سے ہوں مگر اگر اسے ذرا بلند سطح پر لیا جائے یعنی وہ شعرا جن کا مطالعہ میں سیکھنے اور اپنے ذوقِ شعری کو مہمیز دینے کے لیے کرتا ہوں وہ ہیں میر، سودا، غالب، انیس، عزیز حامد مدنی، سراج الدین ظفر، ن۔ م۔ راشد، اور جون ایلیا۔

۹، اپنے ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں میں سے وہ کون سے نام ہیں جنھیں آپ اہم تصوّر کرتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے بہت سے اچھے شاعروں کے مجموعے ابھی تک نہیں چھپے۔ اور بہت سے شاعروں تک میں دیر سے پہنچا۔ فیس بک کا یہ احسان ہے کہ جمیل الرحمٰن، افضال نوید، ابرار احمد (ان کی غزلیں میں پڑھ چکا تھا مگر نظمیں کم پڑھی تھیں )، کو یہیں تفصیل سے پڑھا اور بے حد متاثر ہوا۔ اختر عثمان بے حد اعلٰی شاعر ہیں۔ میرے ہم عصروں میں شاہین عباس، اجمل سراج، انعام ندیم، اکبر معصوم، رفیع رضا غزل کے اہم شعرا ہیں۔ میرے بعد آنے والی نسل میں علی زریون کا ایک اپنا ہی مقام ہے اور وہ بڑے امکانات کا شاعر ہے۔ اس کے علاوہ میں یہاں ایسے بہت سے نوجوانوں کو پڑھتا ہوں جو مجھ سے کہیں آگے جانے والے ہیں۔ خدا انھیں استقامت اور توفیق دے۔ جن شاعروں کی کتابوں کا میں منتظر ہوں ان میں مجید اختر، یاور ماجد، ظفر خان، رشید ندیم کے نام نمایاں ہیں۔ یہاں ٹورنٹو میں نسیم سید بے حد خوبصورت نظم اور غزل کہتی ہیں۔ امیر حسنا جعفری اور اسما سلیم کی نظمیں لاجواب ہیں۔ کلیم ظفر غزل کا بھرپور شاعر ہے۔ نسرین سید، فیصل عظیم، سیما نقوی، اور عظمٰی محمود، مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ غرض یہ کہ مجھے ادبی منظر نامہ بہت بھرپور اور پر امکان نظر آتا ہے۔ باقی سب محنت اور توفیق کا معاملہ ہے۔ ناموں کا معاملہ برا ہوتا ہے۔ کوئی رہ گیا ہو تو معذرت۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے