حرف پر روشن آفتاب :عرفان ستار۔۔۔ رفیق راز

عرفان ستار کی غزلوں سے میں رواں صدی کی پہلی دہائی کے اولیں برسوں میں "شب خون الہ آباد کے توسط سے متعارف ہوا۔ شب خوں نے اشاعت کے آخری چند برسوں میں پاکستان کے جن نئے شعرا کو سرحد کے اس پار متعارف کرایا ان میں عرفان ستار کے علاوہ ابرار احمد، نصیر احمد ناصر، جمیل الرحمان، افضال نوید، رفیع رضا ، رضی حیدر اور آفتاب حسین قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان سب کا اسلوب نگارش ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ کسی حد تک متضاد بھی ہے۔ ان سب شعرا میں غالباً ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ ہے جدیدیت۔ جدیدیت کوئی تحریک نہیں بلکہ ایک رجحان ہے جسے جناب شمس الرحمان فاروقی اور شب خوں نے اتنا فروغ دیا کہ اس پر ایک ادبی تحریک کا گماں ہونے لگا۔
ترقی پسند تحریک نے جن چیزوں کو ادب اور فن کے لئے لازمی قرار دیا تھا یعنی اجتماعیت نعرہ بازی پروپیگنڈہ مقصدیت اور منصوبہ بند طریقے سے شعر کہنا وغیرہ جدیدیت نے انہی چیزوں کو ادب و فن کے لئے سم قاتل قرار دیا۔ اجتماعیت کی وجہ سے ادب میں تکلیف دہ یک رنگی اور یکسانیت پیدا ہو گئی تھی۔ جدیدیت نے ادب و فن کے لئے انفرادیت اور داخلیت کو بنیادی اہمیت کا حامل ٹھہرایا۔
عرفان ستار وہ جدید شاعر ہیں جو نہ صرف روایت کا گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ جدید ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاعر اپنی روایت سے بالکل ہی لا تعلق ہو جائے۔ اچھے اور اہم جدید شاعر وہ ہیں جنہیں تخلیقی لمحات میں اس بات کا پورا پورا احساس رہتا ہے کہ متقدمین سے لے کر ان کے اپنے زمانے تک تخلیق کیا گیا سارا ادب ایک ساتھ زندہ اور ایک ہی نظام میں مربوط ہے ، اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہئے کہ شاعر و ادیب کو روایت کی پیروی آنکھ بند کر کے کر لینی چاہئے۔ ۔ ادب و فن میں ندرت و جدت کے چشمے روایت سے منحرف ہو کر نہیں بلکہ روایت سے استفادہ کر کے ہی جاری کئے جا سکتے ہیں۔ جدیدیت روایت پسندی کو مستحسن سمجھتی ہے روایت پرستی کو نہیں۔
عرفان ستار وہ جدید شاعر ہیں جس کی جڑیں روایت میں ہیں۔ اسی لئے ان کے لہجے میں ایک شایستگی اور کلاسیکی رچاو سا نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں زباں کا وہ کھردرا پن بالکل ہی نہیں جو جدید دور کے اولیں شعرا میں پایا جاتا ہے۔ ان کے اسلوب پر جناب جاوید احمد نے ان کے شعری مجموعے ساعت تکرار، میں لکھا ہے۔
عرفان ستار بنیادی طور پر شدت احساس کے شاعر ہیں۔ احساس کی شدت اگر ذہن کی شمولیت سے عاری ہو تو شعر میں کم از کم دو چیزیں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ایک لفظ کے بیشتر امکانات برتنے کا سلیقہ اور دوسرے تخیل۔ عرفان ستار کی غزل میں یہ دونوں چیزیں تمام و کمال موجود ہیں۔
جناب جاوید احمد سے اختلاف کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ احساس پر مبنی شاعری میں جب تخیل کی کرشمہ سازی شامل ہوتی ہے تو ایک ایسی شاعری معرض وجود میں آتی ہے جو پہلی ہی قرات میں دل میں اتر تو جاتی ہے مگر اس کی معنویت غور و خوض کے بغیر نہیں کھلتی۔ عرفان ستار کی شاعری کیفیت کی حامل ہوتے ہوئے بھی فکر سے خالی نہیں۔

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو
اس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں

ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

عرفان ستار زبان کو سلیقے سے برتنے کا گر جانتے ہیں۔ ان کے لہجے میں کوئی درشتی نہیں کوئی کھردرا پن نہیں جو اس کے بعض معاصر شعرا میں پایا جاتا ہے۔ عرفان ستار کے یہ معاصر ظفر اقبال کے زیر اثر کچھ نیا لکھنے کے شوق میں کبھی خلاف محاورہ زبان استعمال کر کے کبھی زبان کی شکست و ریخت کر کے جوکھم تو اٹھا لیتے ہیں لیکن تخلیقی سطح پر انہیں کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں ظفر اقبال کی بات الگ ہے زبان کے ساتھ ان کا تحکمانہ انداز کئی تخلیقی کارنامے انجام دینے میں ان کا معاون ثابت ہوا ہے۔ عرفان ستار کا اسلوب بقول جاوید احمد، "صاف، دوٹوک اور پتھریلا ہے "۔
وہ بات کو گھما پھرا کے کہنے کے عادی نہیں۔ وہ غیر ضروری پر شکوہ الفاظ استعمال کر کے قاری کو دھوکہ نہیں دیتے۔ وہ بڑی سی بڑی اور پیچیدہ بات کو بھی آساں مگر مناسب الفاظ میں بے ساختہ کہہ ڈالتے ہیں۔
زمیں بھی تنگ ہوئی رزق بھی طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسمان لکھا ہوا ہے

نہ ہو اداس زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم ابھی سر پہ آسمان ہے یہاں

ایک امکاں میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اس گرد تحیر میں نہاں تھا پہلے
جہاں تک شاعری میں موضوعات کا تعلق ہے میں موضوعات کو شاعری سے الگ کر کے ان پر گفتگو کرنا تنقید کے منصب کے منافی سمجھتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اردو غزلیہ شاعری کی بنیاد مضامین ہی پر ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کلاسیکی شعرا کی توجہ مضامین سے زیادہ مضامین کی ادائیگی اور بیاں پر مرکوز تھی۔ ہمارے اساتذہ جہاں ایک ہی مضموں کو اس میں بہتری لانے کے لئے بار بار استعمال کرتے تھے وہیں دوسرے کے مضموں کو بہتر کر کے یا بلند کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مضامیں سے زیادہ مضامیں کی ادائیگی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ میں شاعری میں موضوع کا ہی منکر ہوں۔ میرے کہنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جس شعر سے اس کا موضوع الگ کیا جا سکے یا جس شعر کا ما فیہ معنی میں تبدیل نہ ہوا ہو وہ شعر میرے نزدیک بیاں زیادہ اور شعر کم ہو گا۔ اچھے اور اہم شاعر کے یہاں شعر کی ہئیت اور شعر کا موضوع ایک دوسرے پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ نہ موضوع، موضوع ہی رہتا ہے اور نہ شعر میں برتے گئے الفاظ صرف الفاظ رہتے ہیں۔ ان کے یہاں شعر میں ایک صورت حال یا ایک تجربہ ایک سیال معنی کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے، جس کا ادراک ہر قاری اپنی اپنی ذہنی اور حسیاتی استعداد کے مطابق کرتا ہے۔
عرفان ستار کی لفظیات اور لہجے سے یہ دھوکہ لگتا ہے کہ وہ سہل ممتنع کے شاعر ہیں۔ حقیقت میں وہ اس کے برعکس ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی نہیں بلکہ ایک ایسی پیچیدگی ہے جو بیک وقت دل اور دماغ کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ ان کے یہاں فارسیت کی مصنوعی چمک دمک نہیں البتہ ان کی جو تازہ غزلیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں وہ کہیں کہیں فارسی اضافتوں کو بروئے کار لار تراکیب سازی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔
اب کہیں کیا کہ وہ سب قصۂ پارینہ ہوا
رونق محفل شیریں سخنان تھے ہم بھی

سکون خانۂ دل کے لئے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے

عرفان ستار کی زباں تراکیب سازی کے باوجود عام زندگی سے قریب تر شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ انہوں نے فارسیت پر مبنی پیچیدہ استعاروں سے اسے دور ہی رکھا۔ عرفان ستار نے اپنی شاعری میں مضاعف بحور کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا ہے اس کی مثال آج کل کم کم ہی ملتی ہے۔
میں عبادت بھی ہوں میں محبت بھی ہوں زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں
میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا اس نمی کے لئے ایک تازہ غزل

جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
"فاعلن کی تکرار، ایک مصرع میں آٹھ بار”

بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسلے ہاتھ باندھے ہوئے صف بہ صف روبرو آئیں گے
سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے سب وہم مر جائیں گے بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا
"ایک مصرع میں فاعلن کی تکرار چودہ مرتبہ”

مضاعف بحور کی وجہ سے عرفان کے شعری آہنگ میں ایک تنوع اور ایک خوشگواریت پیدا ہو گئی ہے۔ لہجے اور آہنگ میں انفرادیت کا معاملہ اکثر بحور کی سطح پر ہی طے کیا جاتا ہے۔ عرفان ستار نے کچھ کم مروجہ بحور کو بھی بروئے کار لا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا خوبصورت اظہار کیا ہے۔

ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں مری آدھی عمر گزر گئی
"بحر کامل مثمن سالم”

ایسی نامانوس اور کم مروجہ بحروں کا استعمال کر کے جنہیں آج کل کے شعرا چھونے سے بھی ڈرتے ہیں عرفان ستار نے بھیڑ سے الگ ہونے کی مستحسن اور کامیاب کوششیں کی ہیں۔

عرفان ستار کا ابھی ایک ہی مجموعہ شایع ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کم گو ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ کم گو شعرا جب لکھتے ہیں تو اچھا اور عمدہ لکھتے ہیں۔ عرفان ستار بھی انہیں اچھا لکھنے والوں میں ایک ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے