اقبال متین بحیثیت شاعر۔۔۔رؤف خیر

میرا ایسا خیال ہے کہ بنیادی طور پر جو شاعر ہوتا ہے تخلیقی توازن فکر سے آشنا ہوتا ہے اور جس صنف سخن کو بھی اپنا تا ہے اس میں اپنی پہچان قائم کر کے چھوڑ تا ہے احمد ندیم قاسمی نے شعر کے ساتھ ساتھ افسانے کو بھی اپنی تخلیق جہتوں سے مالا مال کیا مشفق خواجہ نے ’’خامہ بگوش ‘‘ ہو کر طنز و تنقید کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی مشتاق احمد یوسفی کے اندر جو شاعر ہے وہ ایک آدھ لفظ کے معمولی سے تصرف کے ذریعے مصرعوں کو پیروڈی کا وہ حسن عطا کرتا ہے جو اپنے قاری کا دل موہ لیتا ہے۔ یوسف ناظم خود بھی بنیادی طور پر شاعر ہیں اس لیے اپنے مضامین میں لفظوں کا جادو جگاتے ہیں۔ انگریزی میں شیکسپیئر کے ڈرامے شعری چاشنی ہی کی وجہ سے تو جانے جاتے ہیں۔ اردو ادب میں بنیادی طور پر جو شاعر نہیں ہیں ان فن کاروں کے لیے شعر گوئی اک حسن اضافی ثابت نہ ہوسکی۔ نیازؔ فتح پوری زندگی بھر جوشؔ، و جگرؔ، کے خلاف لکھتے رہے لیکن خو د ان کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے۔ شمس الرحمن فاروقی، آل احمد سرور، احتشام حسین، گیان چند جین وغیرہ وغیرہ کا اصل میدان تنقید ہے۔ ان لوگوں نے شعر کو دوسرا درجہ دیا اس لیے شعریت نے ان سے منہ پھیر لیا۔ ان کا شعر ان کے لیے وجہ افتخار نہ بن سکا۔ تفنن طبع کے طور پر اختیار کردہ صنف سخن کبھی سرخ رو، نہیں کرتی جگر لہو کرنے ہی سے چہرے پہ نور آتا ہے اختلاف رائے کا آپ کو پورا پورا حق ہے، اگر آپ بنیادی طور پر شاعر نہیں ہیں۔
اقبال متین بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے افسانے میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان کے اندر کا شاعر اس پہچان تلے دبنے نہیں پاتا۔ ان کی کہانیوں میں بھی سراٹھاتا ہے۔ ان کے ایک ایک جملے سے جھانکتا ہے۔ آپ اقبال متین کی کوئی کہانی یا ناولٹ پڑھ ڈالیے، ا س میں آپ کو شاعر اقبال متین جگہ جگہ مل جائے گا۔ میں اسی شاعر اقبال متین سے گلے مل کر خوش ہوتا ہوں جس کے اشعار بجائے خود کہانی سناتے ہیں۔
راستہ تو سیدھا تھا جانے کیا ہوا ہم کو
تیرے درسے اٹھ کر ہم اپنے گھر نہیں آئے
اپنے محبوب کے درسے اٹھ کر سیدھا اپنے گھر جانے کے بجائے شاعر کہاں کہاں جا سکتا ہے اور کیوں جانا چاہتا ہے۔ سوچتے جائیے اور لطف لیتے جائیے۔ شعر کہانی بنتا جاتا ہے۔ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیئے شاعر خواب کے حوالے سے محبوب سے اپنے تعلقات کی ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے :
رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی
اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے

کیسا بے پناہ شعر ہے :۔
اصل میں شاعر اقبال متین پر افسانہ نگار غالب آ گیا ہے مگر جب کبھی اس شاعر نے سر اٹھایا ہے تو افسانہ نگار ہنس پڑتا ہے کہ مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے۔ دیکھا تمہارے شعر میں بھی میں ہی ہوں۔ یہ افسانہ نگار۔ شاعر اقبال متین سے کہتا ہے :۔

ہوئے جو سنگ در مئے کدہ تو کیا حاصل
کسی کے ہاتھ سے ٹوٹا ہوا سبو ہوتے

حالانکہ جسم و جاں کا یہ ٹوٹا ہوا سبوہی تو ہے جو کرچیاں ہو کر زینت در مئے کدہ ہو گیا ایسا کیوں ہوا۔ یہ خود اک کہانی ہے۔ اور کہانی جب کسی رسالے میں چھپتی ہے تو کیا قیامت ہے کہ وہ رسالہ بھی لوگ اس تک پہنچنے نہیں دیتے جس کے لیے کہانی لکھی گئی ہے :۔

پڑھی ہے اس نے کہانی مری رسالے میں
اب اس پہ لوگ رسالے بھی بند کر دیں گے

مگر شاعر اپنا فسانہ غم سنانے سے باز نہیں آتا۔ آ ہی نہیں سکتا۔

سنا رہا ہوں کچھ اس طرح سے فسانہ غم
کہ لفظ لفظ مرے غم کا بوجھ اٹھا تا ہے
اور آخر کار شاعر طے کر بیٹھتا ہے :
یہ جی میں ہے کہ کہیں راہ میں ہی کھو جاؤں
ترا مکان تو ہر راستے میں آتا ہے

یہ تو اس کے مکان کا قصہ ہے۔ خود شاعر کے مکان کی روداد بھی کچھ کم درد ناک نہیں :

یہ کھڑکیاں تھیں، یہ دیوار تھی، یہاں در تھا
اسی زمین پہ یار و کبھی مرا گھر تھا

سچ بتائیے کیا یہ ’’بے گھری ‘‘ کسی کہانی کا تانا بانا ثابت نہیں ہوتی۔ یہ وہ گھر ہے جو سرحدوں کے پار بلراج ساہنی کو لاہور میں تو پرویز مشرف کو دہلی میں کہانی سناتا ہے۔ کبھی کوفہ و بغداد تو کبھی گجرات کے ملبوں سے سر اٹھاتا ہے

کس سے پوچھوں کہ مرے نام کی تختی ہے کہاں
میرے سینے میں تو ویرانے سمائے ہوئے ہیں

بے خودی کے راستے شاعر اپنے لیے بے سبب نہیں چنتا :

کبھی جو ساتھ تھے میرے، مری رگ جاں تھے
دلوں کو چھوڑ کے محلوں میں جاگزیں ہیں اب

میں جام اٹھا کے یہی سوچتا رہا اکثر
نشہ بھی لے گئے وہ لوگ جو نہیں ہیں اب

فریدؔ و نشوؔو پپنؔ کے ساتھ ہے عمران
پتا تودے گئے ہوتے جہاں کہیں ہیں اب

چلو متین و ہیں جا کے پھر انھیں ڈھونڈیں
وہ صورتیں جو زمیں بن کے دل نشیں ہیں اب

یہ کہانی الگ ہے۔ جس باپ کے کاندھوں کو تین تین نوجوان و نوعمر بیٹوں کے جنازوں کا بوجھ ڈھونا پڑ جائے کیا وہ رگ گل سے بلبل کے پر باندھتا رہے گا یا ظاہر ادر بیگ کے چنے چباتا رہے گا :

ورق ورق ہیں کتابوں کے سینے شق، پھر بھی
اس انتشار میں عرض ہنر کہاں ہو گا

بھلے ہی اقبال متین کو بڑی قیمت عرض ہنر چکانی پڑی انہوں نے اس انتشار میں بھی خود کو سنبھالے رکھا یہی تو ہنر ہے۔ بکھر جاتے تو صاحب ہنر کیسے کہلاتے ! دشت سخن اور صحرائے افسانہ دونوں کو سیراب کرنے کے لیے جسم و جاں کا لہو لہو ہونا بھی ضرور ی ہے۔ کرب و بلا کے راستے میں آنے والے دجلہ و فرات کو کبھی تشنگی ٹھکرا بھی دیتی ہے۔

شعر و سخن کی آن کہیں میں، افسانے کی جان کہیں
لیکن میرے گھر میں میری ہو بھی تو پہچان کہیں
غم ذات و غم جاناں دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ غم جاناں نے اقبال متین کو افسانہ نگار بنا کر رکھ دیا ہے تو غم ذات نے شاعر یا پھر ترتیب الٹ بھی دیں تو فن کاری کے آئینے میں بال نہ آئے گا آخر سکہ تو ایک ہی ہے۔

مجھے یہ یاد نہیں ہے وہ کون تھا میرا
وہ کوئی تھا جو بھری شام کر گیا مجھ کو

اس شعر کا سرمئی شام جیسا افسانوی حسن دیکھئے کہ وہ شخص جو دن بھر سورج کی طرح ان کی زندگی میں سونا بکھیرتا رہا سرشام ڈوبنے لگا تو ان کے حیراں حیراں پیکر پر طشت افق سے لے کر لالہ کے پھول پھینکتا ہے اور سہانی شام ہی کا حصہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ بھری شام شاعر کے لیے کڑی رات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے یا ایک بے انت کہانی کی بنیاد۔ ’’وہ بھری شام کر گیا مجھ کو ‘‘ نرا افسانہ نگار کھرا نقاد یا محض ڈرامہ نگار کہہ ہی نہیں سکتا تا وقتیکہ وہ شاعر نہ ہو۔ یہ شاعرانہ اظہار ہی اقبال متین کی پہچان ہے گھر کے اندر جھانکئے تو آنگن میں پڑے تخت پر ایک کہانی سے ملاقات ہو گی۔

اپنے آنگن میں اپنی بچی کو سمیٹے بیٹھی ہے
اب میں تیرا کیا ہوتا ہوں تو میری کیا ہوتی ہے

میں نے کب کے اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا
دل میں چھپ کر یاد اس کی اب میرے غم سے ملتی ہے

اقبال متین نے بڑی مترنم بحروں میں اپنی کہانیاں بیان کی ہیں :

رات رات بھر مجھ میں چھپ کر باتیں کرنے والا تو
تجھ کو اپنے باہر لا کر پیار جتانے والا میں

آتی جاتی پت جھڑ رت کو سبز بنانے والا تو
ذہن و دل کے ویرانوں میں پھول کھلانے والا میں

کہانی کار عموماً سماج کے چہرے سے نقاب الٹنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے۔ اس سیاس معاشرے کا یہ حال ہے کہ خون کا رشتہ بھی خونی رشتے کا روپ دھار لیتا ہے۔

ہائے سیاست کے سب چہرے دست و گریباں ہوتے ہیں
کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا، جو کچھ تھا سرکاری تھا

اقبال متین کی زبان بڑی پیاری ہے۔ ہر چند کہ افسانہ نگاری نے انھیں شہرت بخشی لیکن شعری پیرایۂ اظہار انہوں نے ایسا اختیار کیا ہے کہ بڑے بڑے فل ٹائم شاعر ہونے کا دعوا کرنے والے ان کا منہ تکتے رہ جائیں۔ یہ مصرعے دیکھئیے :
ع یہ سچ ہے اب بھی کلیجے کی کور کٹتی ہے
ع وہ جب چاہے مرا سارا سراپا اوڑھ لیتا ہے
ع اپنی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتے ہیں دستک کی طرح

اقبال متین کے اشعار درحقیقت منجمد کہانیاں ہیں جن کی پرت کے نیچے اک ایسا شہداب ہے جو پیاس بجھاتا بھی ہے پیاس بڑھا تا بھی ہے۔
نظموں کا یہ حال ہے کہ پگڈنڈیوں پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتا ہوا ایک معصوم پیکر پرندوں کی طرح ’’ہراسا‘‘ (بجوکا ) سے ڈر کر متین سے لپٹ لپٹ جاتا تھا اور پھر یوں ہوا کہ خود ہراسا بن گیا۔
’’وارث ‘‘ میں ایک قلم کار باپ کاغذ قلم ہی تو چھوڑ جائے گا۔ اولاد کے لیے اس سے بڑا ترکہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
اقبال متین کبھی ’’طاغوت کی کہانی ‘‘ بھی سناتے ہیں کہ

وہ کوئی بینی بریدہ کسی سے کہتا تھا
میں اپنی ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دوں گا

مگر جو شخص بہت بڑا کہانی کار ہے اس کی کہانیاں بجائے خود نظمیں ہیں اسی طرح بحیثیت شاعر ایک ایک شعر اور ایک ایک نظم اپنی جگہ کہانی ہے۔
کبھی کبھی شاعر ایک آدھ شعر ایسا کہہ گزرتا ہے جو اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ایسے کئی شاعر ہیں جو اپنے کسی اچھوتے خیال پر مبنی ایک شعر کی وجہ سے آج تک زندہ ہیں۔
اقبال متین نے بھی ایک ایسا شعر کہا ہے جس کا اچھوتا خیال اور انکسار بھرا طرز اظہار کم از کم میری نظر سے پورے شعری سرمایہ میں کہیں نہیں گزرا۔

میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متینؔ
جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں

میں تو اس شعر پر سردھنتا رہتا ہوں۔ کتاب میں ترک رکھ کر اٹھنے والی بات اردو شاعری میں اک اضافے سے کم نہیں۔ خدائے سخن میرؔ نے کہا تھا :
یوں اٹھے آہ ! اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
مگر یہ دھواں کچھ اور ہی ہے جو صاحب کتاب کے دل سے اٹھتا ہے۔ کتاب زندہ رہے، کتاب پڑھنے کی آرزو رکھنے والے کا اقبال بلند رہے۔ کتاب میں ترک رکھ کر اٹھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس خطے سے آگے ابھی بہت کچھ پڑھنا باقی ہے۔ بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔
اب رہا اقبال متین کی شاعرانہ حیثیت کے تعین کا سوال۔ تو۔ انہوں نے اپنے شاعر ہونے کا دعوا ہی کب کیا ہے۔ بس چپکے چپکے اس کوچے میں بھی اپنے قدموں کے نشان چھوڑے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے بعد شاعری کا دعوا کرنا نبوت کا دعوا کرنے کے برابر ہے۔ زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل اور اوصیائے نظم ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے