بزدل۔۔۔ راجہ یوسف

’’یہ محبت کا جنون ہے فرہاد۔۔۔ میری محبت کا جنون۔ ایسی محبت تمہیں کسی اور سے کہاں ملے گی۔۔۔ کون ہے جو اس طرح سے تیرا راستہ روکے۔۔۔ تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سر راہ اتنا کچھ سوچے کہ بات سوچ کی انتہا تک جا پہنچے۔۔۔ اور وہ کر گزرے کہ سوچ بھی سوچ میں محو ہو کر سوچتی رہ جائے۔‘‘

’’ ایسی محبت ہمارے یہاں نہیں پنپ سکتی شیریں۔۔۔ ایسے جنون کی سزا بہت بھیانک ہے یہاں۔‘‘

یہ دل دہلا دینے والی آدھی چیخ تھی۔ پھر موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ شاید عورت کا منہ سختی کے ساتھ بند کر دیا گیا تھا اور باقی آدھی چیخ اس کے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی تھی۔ شیریں سوچ کی وادی سے ہڑبڑا کر باہر نکلی۔ اس نے آہستہ سے کھڑکی کے پٹ پر دباؤ ڈالا۔ چھوٹی سی جھری بنا کر باہر دیکھا۔ تو اس کے حواس اڑ گئے۔ چار آدمی کسی کی لاش اٹھائے اسیری کے آنگن میں پہنچ چکے تھے۔ اسیری جابر کی مضبوط بانہوں میں تڑپ رہی تھی۔ جابر کا ہاتھ اسیری کا منہ سختی سے بند کئے ہوئے تھا۔ اور زبان سے اسیری کو خاموش رہنے کی تنبیہ بھی کر رہا تھا۔ ان کا چھوٹا بیٹا امن جو ابھی صرف تیرہ سال کا تھا، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے باپ کی باہوں میں تڑپ رہی تھی۔ جھول رہی تھی۔

اس اداس بستی میں برسوں سے چلی آ رہی سوگوار ہوا کی ہلکی جنبش سے لاش کے چہرے پر پڑا کپڑا پھڑپھڑایا تو شیریں نے لاش پہچان لی۔ یہ فرہاد تھا۔ جابر اور اسیری کا جوان اور خوبرو بیٹا جو کسی دشمن کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ فرہاد جس کو ابھی مرنا نہیں چاہئے تھا۔۔۔ شیریں دہاڑیں مار مار کر رونا چاہتی تھی۔ اسے فرہاد بہت اچھا لگتا تھا۔ اسے دیکھ دیکھ کر شیریں کے دل نے دھڑکنا سیکھ لیا تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ کبھی شام کے ملگجے میں موقعہ ملے تو فرہاد کے گھنگریالے بال پیچھے سے کھینچے اور وہ پیچھے مڑ کر اسے جی بھر کر دیکھ لے۔۔۔ شیریں کے ابھرتے خد و خال چھو لے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں تیرتے مد و جزر میں ڈوب جائے۔۔۔ اگر موقع مل جائے تو اس کے سرخ سرخ ہونٹوں کو ایک بار چکھ کر دیکھے۔۔۔ اور موقع مل جائے تو اس کا بازو کھینچ کر رات کے اندھیرے میں گم ہو جائے۔۔۔ وہ فرہاد سے پیار کا ایک بھرپور لمس چاہتی تھی۔۔۔ مست مد ہوش کر دینے والا ایک لمحہ۔۔۔ ایک لمحہ جو ایک صدی پر بھاری لگے۔۔۔

پھر چاہے اگلی صبح کچھ بھی ہو جائے۔۔۔ بستی کے رواج کے مطابق گردن تک زمیں میں دھنسا دی جائے۔۔۔ یا پتھروں سے اس کا سر پھوڑا جائے۔۔۔۔

شیریں کا باپ آذار بھی جابر کے آنگن میں پہنچ چکا تھا اور اب آہستہ آہستہ پورا گاؤں آنگن میں جمع ہو رہا تھا۔ سبھی کے چہروں پر سکون تھا۔ کوئی چہرہ اداس نہ تھا۔ چیخنے چلانے والی اسیری دم گھٹنے سے کب کی بے ہوش ہو چکی تھی اور محلے کی عورتیں اسے اٹھا کر گھر کے اندر لے گئی تھیں۔ کہیں سے بھی بین کرنے یا رونے کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ یہاں کسی بچے، جوان یا بوڑھے کی موت ہو جاتی تو کوئی غم، سوگ نہیں مناتا۔ موت ان کے لئے کوئی بڑا سانحہ نہیں تھا۔ یہ تو ان کی روز مرہ کی زندگی تھی۔ لڑائی ہوئی کسی کو مار دیا یا ان کا کوئی مارا گیا۔ آخری رسومات ہوئے تو بات ختم۔ کوئی واویلا نہیں، کوئی ماتم نہیں۔ یہاں عورتوں کے رونے دھونے پربھی قدغن لگی تھی۔

فرہاد کی لاش بھی خاموشی کے ساتھ زمین پر پڑی رہی۔ بس مردوں کی باتیں کرنے سے ماحول میں کشیدگی پھیل رہی تھی۔ فرہاد کی موت پر سارا گاؤں امڈ آیا تھا۔ بچے جوان بوڑھے سب کے ہاتھوں میں رنگ برنگے جھنڈے تھے۔ سارا آنگن ان رنگ برنگے جھنڈوں سے رنگین لگ رہا تھا۔ وہ جھنڈے لہراتے لہراتے اور نعروں کی گونج میں فرہاد کی لاش کولے کر ایک طرف چلے گئے۔ جب بھی کوئی مارا جاتا تھا یہ لوگ ہاتھوں میں رنگ برنگے جھنڈے لے کر نعرے لگاتے لگاتے اس کا جلوس نکالتے تھے۔۔۔ لوگ فرہاد کی لاش لے کر جا رہے تھے تو جابر نے گھر کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹ نفرت سے سکڑ گئے۔ اس کا اپنا چھوٹا بیٹا امن گھر کی ایک ٹوٹی دیوار کے ساتھ خوف زدہ کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی رنگین جھنڈا بھی نہیں تھا۔ ایک بار امن کے ہاتھ میں سفید جھنڈا دیکھ کر جابر نے اس کا ہاتھ توڑ دیا تھا جو سال بھر کے بعد ٹھیک تو ہوا پر کمزور رہا۔ تب سے امن ہر کام اپنے بائیں ہاتھ سے ہی کر رہا تھا۔ امن نعرے لگا رہے لوگوں کو سہما سہما دیکھ رہا تھا۔ جب سارے لوگ چلے گئے تو گاؤں میں مرد نام کا بس ایک امن کھڑا تھا۔۔۔ شیریں گھر سے باہر آئی اور تیر کی طرح فرہاد کے گھر میں گھس گئی۔ جہاں عورتوں کی بھاری بھیڑ جمع تھی۔ سب کے چہرے اداس تھے۔ ہر ایک کی آنکھوں سے ساون برسنے کو تیار تھا۔ پر کس کی مجال جو دھاڑیں مار کر رو لے۔ اسیری ابھی بھی بے ہوش پڑی تھی۔ اور عورتیں حسرت سے اسے دیکھتی جا رہی تھیں۔

کچھ مٹھی بھر لوگ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو بانٹے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہے تھے۔۔۔ قوموں کو الگ کرنے کے منتر پھونکے جا رہے تھے۔۔۔ اپنے اپنے مذاہب کو بچانے کے فرائض کی پٹی پڑھائی جا رہی تھی۔۔۔ جان دینے اور جان لینے میں کتنے پُنِ ہیں، ثواب ہیں۔ وہ سمجھایا جا رہا تھا۔۔۔

جابر، آذار اور ان کے جیسے کئی لالچی لوگ بڑی آسانی سے ان کے دام میں آ چکے تھے۔ اب یہ بھی اپنے خوبصورت علاقوں میں نفرت کے نام پر موت بانٹ رہے تھے۔ ابھی ان کی سوچ پلی بڑی ہی تھی کہ پیسے کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی یہاں پہنچ گئے۔ بستی اتنی بڑی نہیں تھی جتنا ان کے مرنے مارنے کا ساز و سامان آ پہنچا تھا۔ جس نے کندھے پر بندوق اٹھائی اسے اپنا کاندھا سب سے زیادہ مضبوط لگا۔ جس نے پیٹھ پر گولیوں کی بلٹ باندھی اسے اپنا سینہ اور چوڑا ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ سب خود کو طاقت ور اور دوسروں کو کمزور جاننے لگے۔ کل تک جن لوگوں کے دل بجلی کڑکنے سے دہل جاتے تھے۔ وہ آج بم دھماکوں سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔ کل جنہیں کتے کی زخمی ٹانگ سے رستا خون دیکھ کر غش آ جاتا تھا۔ آج وہ خون میں لت پت بیٹوں کی لاشیں اٹھانے سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔ لگتا تھا سب لوگوں کا کسی بڑے اسپتال میں آپریشن ہوا ہے۔ ان کے سینوں سے دل نکال دیئے گئے ہوں اور وہاں دل کے بدلے پتھر رکھ دیئے گئے ہوں۔ جبھی تو انہیں ماؤں کے ہونٹوں پر تڑپتی آہ و زاری اور آنکھوں میں تیرتے آنسوں کے سمندر دکھائی نہیں دیتے تھے ان کے دل نہیں پسیجتے تھے۔ اب برسوں سے یہ اپنے ہاتھوں سے اپنوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے۔ انہیں دفنا کر آنے کے بعد پھر سے اپنے ہنگاموں میں گم ہو جاتے تھے۔

آج پھر کئی دنوں سے لڑائی جاری تھی۔ بستی پر بم اتنی شدت سے گرائے جا ر ہےتھے کہ لوگوں کو لاشیں اٹھانے کی بھی مہلت نہیں مل رہی تھی۔ اور لاشوں کی تعداد تھی جو بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ تین دن سے لگاتار لڑائی جاری تھی۔ یہاں سے بھی دشمن کی بستیوں پر بم برسائے جا رہے تھے اور سامنے والوں کو بندوقوں سے بھون دیا جا رہا تھا۔ بستی کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ لڑائی ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اب ڈر تھا کہ لاشوں سے تعفن اٹھے گا تو بستی میں رکنا محال ہو جائے گا۔ لیکن بستی چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ بستی کے ارد گرد جو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور ان میں جو قدرتی اور مصنوعی غار بنے تھے۔ لوگ ان میں دبکے بیٹھے تھے۔ کئی غار تباہ بھی ہو چکے تھے اور ملبے کے ڈھیروں تلے پتا نہیں کتنے لوگ دب چکے تھے۔ ان میں مرے کتنے اور زخمی کتنے تھے کوئی بتا نہیں سکتا تھا۔ اوپر سے لگاتار بم گرائے جا رہے تھے۔ اب کوئی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں تھا کہ کل صبح یہاں کوئی زندہ بھی ہو گا۔

ابھی شام نے اپنا سرمئی آنچل نہیں بچھایا تھا کہ اچانک گولی باری رک گئی۔ شام کا ملگجا اندھیرا پھیلنے لگا تو اب بھی فضا خاموش تھی۔ اچانک کہیں سے پرندوں کی آوازیں آنے لگی۔ شاید آسمان سے پرندوں کا کوئی جھنڈ جا رہا تھا۔ پرندوں کا یہ شور کئی دنوں کے بعد سنائی دیا تھا اورسب لوگوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ رات نے بستی کے اوپر اپنی کالی چادر تان لی لیکن فضا اب بھی خاموش تھی۔ اچانک کہیں سے خاموشی کا سینہ چیرتے ہوئے اسیری کی آواز آئی جو اپنے بیٹے امن کو پکار رہی تھی۔ پھر کہیں سے شیریں بھی نکل آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی عورتیں، مرد اور بچے ڈرتے ڈرتے غاروں سے باہر نکل آئے۔

پھر لوگوں کا شور و غوغہ، جس سے سارا ماحول گونج اٹھا۔ جس میں اسیری کی آواز دب کر رہ گئی۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے کہیں سے جلتی مشعل اٹھا لی۔ پھر کیا تھا۔ ہر ایک کے ہاتھ میں روشنی تھی اور بندوقیں، بم، اسلحہ کہیں دور پڑے تھے۔ سبھی اپنوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ لاشیں نکال رہے تھے اور انہیں دفنا رہے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں، بھائیوں اور شوہروں کی لاشوں پر بیں کر رہی تھیں۔ آج کوئی بھی اپنی بیوی یا بیٹی کا منہ بند نہیں کر رہا تھا۔ اسیری کو اپنے شوہر جابر کی لاش ملی۔ شیریں کو اپنے باپ آذار کی لاش ملی۔ سب کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا رہا تھا۔ پو پھٹنے سے پہلے تک کم ہی لاشیں بچی تھیں جو ابھی دفنانا باقی تھیں۔ سب تھکے تھکے سے تھے لیکن اس دوران سب کو ایک ہی خیال پریشان کئے ہوئے تھا کہ آخر یہ جنگ، یہ خون خرابہ رکے کیسے۔

اس افرا تفری میں پھر اسیری کی درد بھری آواز نے فضاء میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ وہ امن امن پکار رہی تھی۔ جیسے اسے امید تھی کہ صبح کی روشنی میں امن اسے ضرور ملے گا۔ صبح صادق کی پہلی روشنی میں لوگوں نے اپنی بستی کو غور سے دیکھا۔ تو ساری بستی اجڑ چکی تھی۔ گھر زمین بوس ہو چکے تھے۔ جگہ جگہ ہتھیار الٹے سیدھے پڑے تھے۔ سارے رنگ برنگے جھنڈے سر نگوں تھے۔ اچانک شیریں نے ایک چھوٹی سی پہاڑی کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گئی۔ وہ سب کو اس طرف اشارہ کرنے لگی۔ جہاں سے سورج کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اور صبح کی مست مست ہوا کی تال پر ایک سفید جھنڈا لہرا رہا تھا۔ سفید جھنڈا امن کے کمزور ہاتھ میں لہرا رہا تھا اور وہ نمناک آنکھوں سے اپنی ویران بستی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ سب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔۔۔

اچانک۔۔۔ اس مسرت بھری بھیڑ میں۔۔۔ کہیں سے نحیف سی لیکن نفرت انگیز آواز ابھری۔۔۔ بزدل!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے