ایک نظم جو لکھی نہیں جا سکتی ۔۔۔ انجلاء ہمیش

تم خاموش

خدا خاموش

در و دیوار خاموش

یہ بستی جو کبھی زمیں بوس ہو گئی

تب آثارِ قدیمہ کے ماہرین کسی بھی ذرّے سے ہماری محبت کا سراغ نہ پا سکیں گی

چلو یہ کامیابی تو تمہارے حصے میں آئی

مجھے تم نے دکھا دیا

کہ قلب کے سناٹے کیسے ہوتے ہیں

چیخیں جو کبھی باہر نہیں آ پاتیں

میں تمہاری ہی طرح

بے روح بے دل

زندگی کے شب و روز کھینچتی ہوں

بقاء کی جنگ نے

مجھے خود سے اس قدر علیحدہ کر دیا

کہ میری آنکھیں، میرے ہاتھ، میرے قدم

میرا سارا وجود

کہیں کسی سرد خانے میں ساکت پڑے ہیں

بتانے والوں نے تمہارے گُن مجھے ایسے بتائے

جیسے میرا تم سے کوئی تعارف نہ رہا ہو

تم بے باک بے لاگ

کہیں کسی موضوع پہ بات کرتے ہو تو

مجھے باور کراتے ہو

دیکھو

میری سفاّک بے باکی نے مجھے اس قدر شہرت عطا کر دی ہے

کہ کبھی تمہاری بے بسی پہ میں جو خاموش رہ گیا تھا

وہ سب کچھ منوں مٹّی میں دفن ہو گیا

تاریخ کا کوئی کیمرہ نہ تھا جو اس لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا

کوئی تمہیں آواز دیتا رہا اور تم ویران رہے

یہ بہت سارا شور

جو تم نے اپنے ارد گرد جمع کر لیا

تاکہ سن نہ سکو وہ شور

جو ضمیر نام کی حماقت میں اٹھتا ہے

اور آسمانوں پہ بیٹھا خدا

جو زندہ رہنے کی قلیل ضرورتوں میں زندہ رکھتا ہے

اس کی بارگاہ میں آتے آتے

دعائیں بھی اپنا رس کھو دیتی ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے