افتخار راغب ؔ کی غزلوں کا سیاق ۔۔۔ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی

معاصر اردو شاعری کی ایک اہم شق اس کا آزادانہ تخلیقی تجربہ ہے جو اپنی تاریخی، تہذیبی، اور ثقافتی اقدار کی باریابی کو ترجیح دیتا ہے۔ اب شعر و ادب کے تعلق سے نئی تھیوری اورلسانی و لسانیاتی بحث و مباحثہ اور صارفی کلچر، کی زائیدہ تمدن جیسے موضوعات ہمارے مطالعے کا حصّہ بن چکے ہیں۔ ہمارا عہد مادی اور سائنسی لحاظ سے بے حد متمول اور متنوع ہے، تاہم فکرو خیال کی سطح پر تضادات، آلودگی اور زندگی سے بے ربطی کے سبب تخلیق و تنقید کی کم مائے گی کا احساس، اہل نظر کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہماری زندگی سماجی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر شکست و ریخت سے دو چار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حبس اور فکری پسماندگی میں تخلیق اور تخلیق کار کے مطالعے اور اس کے تعینِ قدر کا پیمانہ کیا ہو گا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ استفسار تو یہ بھی ممکن ہے کہ اردو کی موجودہ تخلیقی نگارشات فکری وفنی لحاظ سے کتنا ثروت مند ہیں، ان فن پاروں میں کیا روشنی، قوت اور زندگی کے آثار باقی بھی ہیں ؟اس نکتے پر بھی غور و فکر کی گنجائش ہے کہ فن پاروں کی عظمت و حرمت کیوں کر باقی رہتی ہے ؟ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مثبت یا منفی تبدیلیوں کے واضح اثرات اردو شعرا و ادبا پر بھی مرتب ہوئے ہیں جس کی بین مثال ان کی تخلیقی و تنقیدی نگارشات ہیں۔ ان سب کے باوجود یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ایک جینوین فن کار اپنی تخلیق کے ضمن میں ایک لحاظ سے بڑا معصوم واقع ہوتا ہے۔ وہ انسانی زندگی اس کی ہولناکیوں، سفاکیوں اور بے وقعت ہوتی اقدار کا نہ صرف مشاہدہ کرتا ہے بلکہ اپنی تخلیقی نگارشات کے وسیلے سے مجاہدے کا اہم فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ اردو کی جملہ اصناف اس بات کی گواہ ہیں کے اردو کے قلم کاروں نے ابتدا سے ہی معصوم جذبوں، حق و صداقت اور بنی نوع انسان کے مسائل کو اپنی بنائے ترجیح رکھا ہے۔ تاہم جو مقبولیت اردو کی غزلیہ شاعری کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسری صنف کو نصیب نہ ہو سکی۔

واضح رہے کہ اردو کی جملہ شعری اصناف میں غزل کو ہماری شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری برسہا برس کی تہذیبی روایات کی امین اور پاسدار ہے، ہماری زندگی کے قافلوں کی چشم دید گواہ ہے۔ غزل اصلاً داخلی کیفیات کے اظہار کا فن ہے اور اپنی ہئیت کے اعتبار سے دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں زیادہ منظم اور مستحکم ہے۔ غزل کے فن کی اس مخصوص نوعیت نے اس کے ہئیتی لوازم کو اس کا نا گزیر جزو بنا دیا ہے۔ غزل کی خوش آہنگی، اس کا اشاراتی و ایمائی انداز اور منضبط طرزِ اظہار جو اس کی اساسی خصوصیات ہیں، اس کی مقررہ ہیئت ہی کے اندر بہ روئے کار لائی جا سکتی ہیں۔ یہی غزل کے اسالیب میں عہد بہ عہد تبدیلی کے باوجود ایک داخلی صنف کی حیثیت سے اس کی فنی ہئیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ بنیادی طور پر اپنی اسی امتیازی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔ ہر چند کہ اردو غزل کی بدلتی ہوئی فضا، اسالیب اور رنگ و آہنگ کی سطح پر در آئی تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کے باوجود اس کے فنی برتاؤ میں ناقدین عمومی طور پر تبدیلی کے حمایتی نہیں ہیں۔ یہ بھی صداقت ہے کہ جدے دیت کے غلغلے سے متاثر ہو کر بعض غزل گو شعرا نے اظہار و بیان کی سطح پر نئے تجربے ضرور کئے تھے، جسے لسانی شکست و ریخت اور مروجہ فنی پابندیوں سے انحراف سے موسوم کیا گیا لیکن صداقت یہ ہے کہ ان کی کوشش ثمر آور ثابت نہ ہو سکی اور غزل کی فنی و ہیتئی سالمیت نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ قائم رہی بلکہ بعض جدید شعرا نے میرؔ اور سوداؔ کی پیروی کو اپنے فن کی معراج تصور کیا۔ جدید شعرا نے کہیں اپنے شعری اظہار میں کہیں لفظی اور لسانی سطح پر کلاسیکی تصورِ فن کی حرمت کو مقدم سمجھا تو کہیں رمزی و اشارتی اسلوب کی بہ دولت اردو غزل کو نئے ذائقے سے آشنا کیا، اور کچھ نے مجرد افکار کی تجسیم کو معیار فن کہا۔ ان گو نا گوں تبدیلیوں کے باوجود غزل کے بنیادی عنصر، ’’تغزل‘‘ کو اساسی اور بنیادی اہمیت دی۔

افتخار راغب ؔکی غزلیہ شاعری کے مطالعے کے سیاق میں یہ چند معروضات جملۂ معترضہ کے طور پر اس لیے پیش کیے گئے ہیں تاکہ شاعر کے فکری انسلاکات اور فنی تعین قدر کا جواز تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ واضح رہے کہ راغب ؔ کے یہاں کسی فکری نظریے یا تصور کی کارفرمائی کی تلاش ان معاملوں میں بے سود ہو گی کہ انھوں نے اپنے تخلیقی اظہار میں فکر و فن پر بطور خاص توجہ دی ہے نہ کہ نظریے پر۔ کسی شاعر کے فکر و خیال کی بلندی اس کے اسلوب کی پختگی، اس کی شخصیت کی ترجمان ہوتی ہے، جو مطالعۂ کائنات، حیات انسانی کے عمیق مطالعے، زبان و بیان پر قدرت اور احساسِ جمال کو فنی ہنر مندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالنے سے عبارت ہے۔ بہ الفاظ دیگر شاعر کا خود ایک فکری نظریہ ہوتا ہے، جو اس کے جذبات و احساسات کی ترتیب و تنظیم اور اس کے طرز سخن میں پوری طرح منعکس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے افتخار راغبؔ کی غزلوں کے مطالعے کے سیاق میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انھوں نے فنی اقدار، فکری تنوع اور روایتی نظام غزل کو اپنے فن میں بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ نتیجتاً ان کی غزلیہ شاعری میں در آئے موضوعات ذاتی ہونے کے بجائے اجتماعی کرب اوراحساس و وجدان کی صورت اختیار کر لیتے ہے۔

افتخار راغبؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن ان کے یہاں داخلی وجود کے اظہار میں تمثیلی اور استعاراتی پہلو نسبتاً کم نظر آتے ہیں۔ وہ جذبے اور تخیل کی آمیزش سے ایک ایسی غزلیہ شاعری خلق کرتے ہیں، جس میں تازگی ہے، سلاست ہے، فصاحت ہے اور جذبات و پُر گداز کیفیات کا بیانیہ ہے۔ راغبؔ نے اپنے کلام میں سوزِ دروں اور بے تابیِ دِل کا اظہار بے حد آسان لفظوں میں کیا ہے۔ تاہم ان کے کلام میں جذبہ اور کیفیت اس طرح گھُل مل گئے ہیں کہ کہیں کیف و نشاط اور سر مستی مترشح ہوتی ہے تو کہیں درد انگیز اور کرب ناک احساسات جنم لیتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ راغبؔ ایک پختہ تخلیق کار ہیں اور اردو غزل کی کلاسکی شعری روایت کے پہلو بہ پہلو جدید اور عصری تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری کے پس پردہ جو تخلیقی اور ادبی نظریہ جنم لیتا ہے، اسے حیاتِ انسانی اور زندگی کے لوازمات کے تفاعل کا نام دیا جا سکتا ہے، جس میں ہمہ گیر جذبے کی کارفرمائی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ راغبؔ کی غزلیہ شاعری کے ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے کلام میں عشق و رومان کی زیریں لہریں اٹھتی اور مچلتی ہیں۔ احساس میں شدت، عشق و محبت میں حلاوت کے باوجود کہیں بھی سفلی جذبہ ترنگ کا روپ اختیار نہیں کرتا۔ یہاں آرزوئیں نہ سسکتی ہیں نہ جوش و جذبہ بے اختیار ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تخلیق کار فن کی حرمت سے آگہی رکھتا ہو اور تخیل کی بلندی اس کا مقدر ٹھہرے۔

افتخار راغبؔ کی غزلوں میں رومانی وفور ان کے احساسِ دروں کی زائیدہ ہے جو شاعر کی ذاتی زندگی اور اس کے تجربے بھی ہو سکتے ہیں۔ عشق اور غم انسانی زندگی کا اس وقت اثاثہ اور سرمایہ بن جاتے ہیں جب ان میں خلوص ہو، جذبے میں طہارت اور چاہت میں پاکیزگی ہو، یہ وہ عمل ہے جو عشق کو ایک قدر کی حیثیت عطا کرتا اور غم کو اداسی و بے قراری پر قابو پانے کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔ راغبؔ کے فن کی یہ خصوصیت بھی توجہ طلب ہے کہ انھوں نے فکر، جذبے اور تخیّل کی یکجائی سے لمبی اور چھوٹی بحروں میں جو اشعار خلق کیے ہیں، ان میں بڑی ندرت اور پختہ کاری ہے۔ انھوں نے غزل کو ایک داخلی صنف کی حیثیت سے برتتے ہوئے اور تغزل کو جو اس کا لازمی عنصر ہے، بڑی چابک دستی سے روا رکھتے ہوئے ایک نئے رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

دل نے بھی کشمکش کی ٹھانی ہے

غیر پر تیری مہربانی ہے

 

بدلی بدلی نگاہِ الفت سے

ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

 

روز در پیش اک نئی الجھن

چاک ہے صبر و ضبط کا دامن

 

لرزشِ پائے استقامت سے

ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

 

نہ ہو گی کہیں اتنی پیاری ہنسی

تمھاری طرح ہے تمھاری ہنسی

چہکنے لگا میرے دل کا پرند

نظر آئی تیری شکاری ہنسی

 

دل پہ کیا کیا نہ ہو رہا ہے ظلم

دل سے پوچھے کوئی کیا ہے ظلم

دل میں بیٹھے ہوں وہ کہ دلّی میں

مشغلہ اہلِ ظلم کا ہے، ظلم

 

جیسا کہ عرض کیا  جا چکا ہے، راغبؔ کی غزلوں کا رنگ آہنگ زیادہ تر رومانی ہے، جس میں عشق و محبت کے جذبات کا اثر انگیز انداز میں اظہار ہے تاہم انھوں نے حسن و عشق کے کسی خیالی یا موہوم دنیا کو پیش نہیں کیا نہ ہی اس میں کسی طلسماتی فضا اور ماحول کی تصویر کشی ہے بلکہ داخلی اور ذاتی احوال و کوائف بیان کیے ہیں اور بڑی بے تکلفی، سادگی اور برجستگی کے ساتھ دلکش انداز میں اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ ان کا عشق ایک فطری واقع ہوا ہے، جس میں غم، دکھ، تڑپ، نا آسودگی، چاہت اور ہجر و وصال کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس نوع کے الفاظ ہماری غزلیہ شاعری کی روایت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

لطیف آنچ پہ سب کچھ بھلا کے تپنے کا

ہے عشق نام ہی غم کھانے اور تڑپنے کا

بندھی تھی عشق میں دستار جب فضیلت کی

ملا تھا کام فقط ایک نام جینے کا

کیا کہوں کس طرح کس قدر مجھ کو تکلیف دیتے ہیں وہ

خود کو تکلیف میں ڈال کر مجھ کو تکلیف دیتے ہیں وہ

 

ایسا نہیں ہے کہ راغبؔ عصری تقاضوں، زندگی کی شکست و ریخت، حالات کی ستم ظریفی اور پامال ہوتی زندگی سے بے خبر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک با شعور فن کار اپنے عہد اور زمانے کے اُتھل پتھل سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر لہو لہان ہوتی زندگی، ظلم و زیادتی اور طاقت کا غلبہ، ظلم و تشدّد، ریاکاری اور سماج کی بے یقینی، اقدار کی پامالی، جھوٹ، مکر و فریب کی بالا دستی، میڈیا اور پروپگنڈے کا یلغار اور سیاست کے سدھے ہاتھوں میں انسانی ذہن کی پس ماندگی ہمارے دور کا مقدر ہے۔ راغب ؔ ایک بے حد حساس تخلیق کار ہیں۔ ان کی تخلیقات میں زندگی کے گہرے تجربات اور بدلتے تیور کی دھنک بہ آسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ میں نے ان کی شاعری کے مطالعے کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ معاصر تخلیقی رویوں کے مقابلے وہ احساس و جذبہ کی رو میں نہیں بہتے بلکہ عقل و شعور اور فہم و ادراک سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی غزلیں وقتی یا لمحاتی بر انگیختگی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ داخلی اور خارجی واقعے سے خام مواد اخذ کرتے ہیں چنانچہ بعض اشعار ہماری سیاسی اور سماجی زندگی کا حوالہ بن گئے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے اور محسوس کیجیے جس کی پاداش میں ہمارا حال اور مستقبل دونوں بے یقینی ہیں اور نئی نسلوں کی آرزوئیں، تمنائیں اور خواہشیں سسک رہی ہیں۔

یہ ننھے پودے ہی کل ہوں گے سایہ دار درخت

ملا جو ٹھیک سے موقع انھیں پنپنے کا

 

اہل بینش کو آخر ہے اس درجہ حیرانی کیوں

خود کو جلتا دیپ کیا تو ہونا ہی تھا ہَوا ان کو

 

حق کی کسی نے بات کی دیکھی گئی نہ برہمی

ڈھایا نہیں کیا ستم، ایسا کبھی ہوا نہیں

ہر کوئی اپنے اندر ہی سمٹا ہے کیوں

مسخ اتنا اخوّت کا چہرا ہے کیوں

 

کہہ سکتے ہیں کہ راغبؔ کی غزلیہ شاعری میں جو ندرت ہے وہ کلاسیکی و جدید فکر کی آمیزش سے وجود میں آتی ہے جس میں طہارت ہے، معصوم احساسات ہیں اور تعمیری فکر و خیال ہے، زبان و بیان کی سادگی ہے اور الفاظ کا خوبصورت دروبست ہے۔ کسی فنکار کی تخلیقات میں ان خوبیوں کا ہونا ایک بے حد مشکل عمل سے گزرنا ہے جس پر راغبؔ بڑی ہنر مندی سے عمل پیرا ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے