اس نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ چندر دھر شرما گُلیری

 

ترجمہ/ رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید ترجمہ/ رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید

________________________________________________________
بڑے بڑے شہروں کے اکے گاڑی والوں کی زبان کے کوڑوں سے جن کی پیٹھ چھل گئی ہے، اور کان پک گئے ہیں، ان سے ہماری استدعا ہے کہ امرتسر کے بمبو کارٹ والوں کی بولی کا مرہم لگاویں۔ جب بڑے بڑے شہروں کی چوڑی سڑکوں پر گھوڑے کی پیٹھ چابک سے دھنتے ہوئے، اکے والے کبھی گھوڑے کی نانی سے اپنا قریبی تعلق قائم کرتے ہیں، کبھی راہ چلتے پیدل چلنے والے لوگوں کی آنکھوں کے نہ ہونے پر ترس کھاتے ہیں، کبھی ان کے پیروں کی انگلیوں کے پوروں کو کچل کر اپنے ہی کو ستایا ہوا بتاتے ہیں، اور سنسار بھر کی بے عزتی اور نا امیدی کے اوتار بنے، ناک کی سیدھ میں چلے جاتے ہیں، تب امرتسر میں ان کی برادری والے تنگ چکر دار گلیوں میں، ہر ایک لڈھے والے کے لئے ٹھہر کر صبر کا سمندر امڈ کر بچو خالصہ جی۔ ہٹو بھائی جی۔ ٹھہرنا بھائی۔ آنے دو لالہ جی۔ ہٹو باچھا، کہتے ہوئے گاڑیوں، خچروں اور بوخڈں، گنے کے رس اور خوانچے والوں کے جنگل میں سے راہ کھیتے ہیں۔ کیا مجال ہے کہ جی اور صاحب بنا سنے کسی کو ہٹنا پڑے۔ یہ بات نہیں کہ ان کی زبان چلتی نہیں ؛ پر میٹھی چھری کی طرح مہین مار کرتی ہوئی۔ اگر کوئی بڑھیا بار بار دینے پر بھی لیک سے نہیں ہٹتی، تو ان کی زبان کے یہ نمونے ہیں۔ ہٹ جا جینے جو گئے ؛ ہٹ جا کرماں والئے ؛ ہٹ جا پتاں پیاریئے ؛ بچ جا لمبی والئے۔ ان کا مطلب ہے کہ تو جینے کے قابل ہے، تو قسمت والی ہے، اپنے بیٹوں کو پیاری ہے، لمبی عمر تیرے سامنے ہے، تو کیوں میرے پہیے کے نیچے آنا چاہتی ہے ؟ بچ جا۔
ایسے بمبو کارٹ والوں کے بیچ میں ہو کر ایک لڑکا اور ایک لڑکی چوک کی ایک دوکان پر آ ملے۔ اُس کے بالوں اور اِس کے ڈھیلے کپڑوں سے جان پڑتا تھا کہ دونوں سکھ ہیں۔ وہ اپنے ماما کے کیش دھونے کے لئے دہی لینے آیا تھا، اور یہ باور چی خانے کے لئے بڑیاں۔ دوکاندار ایک پردیسی کے ساتھ مصروف رہا تھا، جو سیر بھر گیلے پاپڑوں کی گڈی کو گنے بنا ہٹتا نہ تھا۔
‘تیرے گھر کہاں ہے ؟’
‘مگرے میں ؛ اور تیرے ؟’
‘مانجھے میں ؛ یہاں کہاں رہتی ہے ؟’
‘اتر سنگھ کی بیٹھک میں ؛ وہ میرے ماما ہوتے ہیں۔ ‘
‘میں بھی ماما کے یہاں آیا ہوں، ان کا گھر گرو بازار میں ہیں۔ ‘
اتنے میں دوکاندار نبٹا، اور ان کا سودا دینے لگا۔ سودا لے کر دونوں ساتھ ساتھ چلے۔ کچھ دور جا کر لڑکے نے مسکرا کر پوچھا، ۔ ‘تیری کڑمائی (شادی) ہو گئی؟’ اس پر لڑکی کچھ آنکھیں چڑھا کر دھت کہہ کر دوڑ گئی، اور لڑکا منھ دیکھتا رہ گیا۔
دوسرے تیسرے دن سبزی والے کے یہاں، دودھ والے کے یہاں اچانک دونوں مل جاتے۔ مہینہ بھر یہی حال رہا۔ دو تین بار لڑکے نے پھر پوچھا، تیری کڑمائی ہو گئی؟ اور اتر میں وہی ‘دھت’ ملا۔ ایک دن جب پھر لڑکے نے ویسے ہی ہنسی میں چڑھانے کے لئے پوچھا تو لڑکی، لڑکے کی امید کے خلاف بولی۔ ‘ہاں ہو گئی۔ ‘
‘کب؟’
‘کل، دیکھتے نہیں، یہ ریشم سے کڑھا ہوا سالو۔ ‘ لڑکی بھاگ گئی۔ لڑکے نے گھر کی راہ لی۔ راستے میں ایک لڑکے کو موری میں ڈھکیل دیا، ایک چھابڑی والے کی دن بھر کی کمائی کھوئی، ایک کتے پر پتھر مارا اور ایک گوبھی والے کے ٹھیلے میں دودھ انڈیل دیا۔ سامنے نہا کر آتی ہوئی کسی ویشنوی سے ٹکرا کر اندھے کا خطاب پایا۔ تب کہیں گھر پہنچا۔

2

‘رام رام، یہ بھی کوئی لڑائی ہے۔ دن رات خندقوں میں بیٹھے ہڈیاں اکڑ گئیں۔ لدھیانہ سے دس گنا جاڑا اور مینہ اور برف اوپر سے۔ پنڈلیوں تک کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ زمین کہیں نظر آتی نہیں۔ گھنٹے دو گھنٹے میں کان کے پردے پھاڑنے والے دھماکے کے ساتھ ساری خندق ہل جاتی ہے اور سو سو گز دھرتی اچھل پڑتی ہے۔ اس غیبی گولے سے بچے تو کوئی لڑے۔ نگر کوٹ کا زلزلہ سنا تھا، یہاں دن میں پچیس زلزلے ہوتے ہیں۔ جو کہیں خندق سے باہر صافہ یا کہنی نکل گئی، تو چٹاک سے گولی لگتی ہے۔ نہ معلوم بے ایمان مٹی میں لیٹے ہوئے ہیں یا گھاس کی پتیوں میں چھپے رہتے ہیں۔ ‘
‘ لہنا سنگھ، اور تین دن ہیں۔ چار تو خندق میں بتا ہی دیئے۔ پرسوں ریلیف آ جائے گی اور پھر سات دن کی چھٹی۔ اپنے ہاتھوں جھٹکا کریں گے اور پیٹ بھر کھا کر سو رہیں گے۔ اسی فرنگی میم کے باغ میں۔ مخمل کا سا ہرا گھاس ہے۔ پھل اور دودھ کی بارش کر دیتی ہے۔ لاکھ کہتے ہیں، دام نہیں لیتی۔ کہتی ہے، تم راجا ہو، میرے ملک کو بچانے آئے ہو۔ ‘
‘چار دن تک ایک پلک نیند نہیں ملی۔ بنا پھیرے گھوڑا بگڑتا ہے اور بنا لڑے سپاہی۔ مجھے تو سنگین چڑھا کر مارچ کا حکم مل جائے۔ پھر سات جرمنوں کو اکیلا مار کر نہ لوٹوں، تو مجھے دربار صاحب کی دہلی پر متھا ٹیکنا نصیب نہ ہو۔ پاجی کہیں کے، کلوں کے گھوڑے۔ سنگین دیکھتے ہی منھ پھاڑ دیتے ہیں، اور پیر پکڑنے لگتے ہیں۔ یوں اندھیرے میں تیس تیس من کا گولہ پھینکتے ہیں۔ اس دن دھاوا کیا تھا۔ چار میل تک ایک جرمن نہیں چھوڑا تھا۔ پیچھے جنرل نے ہٹ جانے کا کمان دیا، نہیں تو۔ ‘
‘نہیں تو سیدھے برلن پہنچ جاتے ! کیوں ؟’ صوبیدار ہزارا سنگھ نے مسکرا کر کہا۔ ‘لڑائی کے معاملے جمعدار یا نائک کے چلائے نہیں چلتے۔ بڑے افسر دور کی سوچتے ہیں۔ تین سو میل کا سامنا ہے۔ ایک طرف بڑھ گئے تو کیا ہو گا؟’
‘صوبیدار جی، سچ ہے، ‘ لہنا سنگھ بولا۔ ‘پر کریں کیا؟ ہڈیوں ہڈیوں میں تو جاڑا دھنس گیا ہے۔ سوریہ نکلتا نہیں، اور کھائیں میں دونوں طرف سے چمبے کی باولیوں کے سے سوتے جھر رہے ہیں۔ ایک دھاوا ہو جائے، تو گرمی آ جائے۔ ‘
‘بدماش! اٹھ، سگڑی میں کوئے ڈال۔ وزیرا، تم چار جنے بالٹیاں لے کر کھائی کا پانی باہر پھینکو۔ مہاسنگھ، شام ہو گئی ہے، کھائی کے دروازے کا پہرہ بدل لے۔ ‘۔ یہ کہتے ہوئے صوبیدار ساری خندق میں چکر لگانے لگے۔
وزیرا سنگھ پلٹن کا مہتر تھا۔ بالٹی میں گندا پانی بھر کر کھائی کے باہر پھینکتا ہوا بولا۔ ‘میں پادھا بن گیا ہوں۔ کرو جرمنی کے بادشاہ کا ترپن !’ اس پر سب کھلکھلا پڑے اور اداسی کے بادل پھٹ گئے۔
لہنا سنگھ نے دوسری بالٹی بھر کر اس کے ہاتھ میں دے کر کہا۔ ‘اپنی باڑی کے خربوزوں میں پانی دو۔ ایسا کھاد کا پانی پنجاب بھر میں نہیں ملے گا۔ ‘
‘ہاں، دیش کیا ہے، سورگ ہے۔ میں تو لڑائی کے بعد سرکار سے دس گھما زمین یہاں مانگ لوں گا اور پھلوں کے بوٹے لگاؤں گا۔ ‘
‘لاڑی ہوراں کو بھی یہاں بلا لو گے ؟ یا وہی دودھ پلانے والی فرنگی میم۔ ‘
‘چپ کر۔ یہاں والوں کو شرم نہیں۔ ‘
‘دیش دیش کی چال ہے۔ آج تک میں اسے سمجھا نہ سکا کہ سکھ تمباکو نہیں پیتے۔ وہ سگریٹ دینے میں ضد کرتی ہے، ہونٹوں میں لگانا چاہتی ہے، اور میں پیچھے ہٹتا ہوں تو سمجھتی ہے کہ راجا برا مان گیا، اب میرے ملک کے لئے لڑے گا نہیں۔ ‘
‘اچھا، اب بودھا سنگھ کیسا ہے ؟’
‘اچھا ہے۔ ‘
‘جیسے میں جانتا ہی نہ ہوؤں ! رات بھر تم اپنے کمبل اسے اڑھاتے ہو اور آپ سگڑی کے سہارے گزر کرتے ہو۔ اس کے پہرے پر آپ پہرہ دے آتے ہو۔ اپنے سوکھے لکڑی کے تختوں پر اسے سلاتے ہو، آپ کیچڑ میں پڑے رہتے ہو۔ کہیں تم نہ ماندے پڑ جانا۔ جاڑا کیا ہے، موت ہے، اور نمونیا سے مرنے والوں کو مربے نہیں ملا کرتے۔ ‘
‘میرا ڈر مت کرو۔ میں تو بُلیل کی کھڈ کے کنارے مروں گا۔ بھائی کیرت سنگھ کی گودی پر میرا سر ہو گا اور میرے ہاتھ کے لگائے ہوئے آنگن کے آم کے پیڑ کی چھاؤں ہو گی۔ ‘
وزیرا سنگھ نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ‘کیا مرنے مارنے کی بات لگائی ہے ؟ مریں جرمنی اور ترک! ہاں بھائیو، کیسے۔
دہلی شہر تیں پشور نوں جاندئے،
کر لینا لوں گاں دا بپار مڑئے ؛
کر لینا ناڑیدا سودا اڑئے۔
(اویہ) لانا چٹاکا کدوئے نوں۔
کدو بنایا وہ مزیدار گورئے،
ہن لانا چٹاکا کدوئے نوں۔ ۔
کون جانتا تھا کہ داڑھیوں والے، گھر باری سکھ ایسا لچوں کا گیت گائیں گے، پر ساری خندق اس گیت سے گونج اٹھی اور سپاہی پھر تازے ہو گئے، مانو چار دن سے سوتے اور موج ہی کرتے رہے ہوں۔

3

دوپہر رات میں بدل گئی ہے۔ اندھیرا ہے۔ سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بودھا سنگھ خالی بسکٹوں کے تین ٹنوں پر اپنے دونوں کمبل بچھا کر اور لہنا سنگھ کے دو کمبل اور ایک کوٹ اوڑھ کر سو رہا ہے۔ لہنا سنگھ پہرے پر کھڑا ہوا ہے۔ ایک آنکھ کھائی کے منھ پر ہے اور ایک بودھا سنگھ کے دبلے شریر پر۔ بودھا سنگھ کراہا۔
‘کیوں بودھا بھائی، کیا ہے ؟’
‘پانی پلا دو۔ ‘
لہنا سنگھ نے کٹورا اس کے منھ سے لگا کر پوچھا۔ ‘کہو کیسے ہو؟’ پانی پی کر بودھا بولا۔ ‘کپکپاہٹ ہو رہی ہے۔ رگ رگ میں تار دوڑ رہے ہیں۔ دانت بج رہے ہیں۔ ‘
‘اچھا، میری جرسی پہن لو !’
‘اور تم؟’
‘میرے پاس سگڑی ہے اور مجھے گرمی لگتی ہے۔ پسینہ آ رہا ہے۔ ‘
‘نا، میں نہیں پہنتا۔ چار دن سے تم میرے لئے۔ ‘
‘ہاں، یاد آئی۔ میرے پاس دوسری گرم جرسی ہے۔ آج سویرے ہی آئی ہے۔ ولایت سے بن بن کر بھیج رہی ہیں میمیں، گرو ان کا بھلا کریں۔ ‘ یوں کہہ کر لہنا اپنا کوٹ اتار کر جرسی اتارنے لگا۔
‘سچ کہتے ہو؟’
‘اور نہیں جھوٹ؟’ یوں کہہ کر نا نا کرتے بودھا کو اس نے زبردستی جرسی پہنا دی اور آپ خاکی کوٹ اور جین کا کرتہ بھر پہن کر پہرے پر آ کھڑا ہوا۔ میم کی جرسی کی بات صرف کہانی تھی۔
آدھا گھنٹہ بیتا۔ اتنے میں کھائی کے منھ سے آواز آئی۔ ‘صوبیدار ہزاراسنگھ۔ ‘
‘کون لپٹن (لفٹنینٹ) صاحب؟ حکم حضور!’۔ کہہ کر صوبیدار تن کر فوجی سلام کر کے سامنے ہوا۔
‘دیکھو، اسی دم دھاوا کرنا ہو گا۔ میل بھر کی دوری پر پورب کے کونے میں ایک جرمن کھائی ہے۔ اس مںا پچاس سے زیادہ جرمن نہیں ہیں۔ ان پیڑوں کے نےچج نےچ دو کھیت کاٹ کر راستہ ہے۔ تین چار گھماؤ ہیں۔ جہاں موڑ ہے وہاں پندرہ جوان کھڑے کر آیا ہوں۔ تم یہاں دس آدمی چھوڑ کر سب کو ساتھ لے ان سے جا ملو۔ خندق چھین کر وہیں، جب تک دوسرا حکم نہ ملے، ڈٹے رہو۔ ہم یہاں رہے گا۔ ‘
‘جو حکم۔ ‘
چپ چاپ سب تیار ہو گئے۔ بودھا بھی کمبل اتار کر چلنے لگا۔ تب لہنا سنگھ نے اسے روکا۔ لہنا سنگھ آگے ہوا تو بودھا کے باپ صوبیدار نے انگلی سے بودھا کی اور اشارہ کیا۔ لہنا سنگھ سمجھ کر چپ ہو گیا۔ پےچھ دس آدمی کون رہیں، اس پر بڑی حجت ہوئی۔ کوئی رہنا نہ چاہتا تھا۔ سمجھا بجھا کر صوبیدار نے مارچ کیا۔ لپٹن صاحب لہنا کی سگڑی کے پاس منھ پھیر کر کھڑے ہو گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانے لگے۔ دس منٹ بعد انہوں نے لہنا کی اور ہاتھ بڑھا کر کہا۔ ‘لو تم بھی پیو۔ ‘
آنکھ مارتے مارتے لہنا سنگھ سب سمجھ گیا۔ چہرے کے جذبات چھپا کر بولا۔ ‘لاؤ صاحب۔ ‘ ہاتھ آگے کرتے ہی اس نے سگڑی کے اجالے میں صاحب کا منھ دیکھا۔ بال دیکھے۔ تب اس کا ما تھا ٹھنکا۔ لپٹن صاحب کے پٹیوں والے بال ایک دن میں ہی کہاں اڑ گئے اور ان کی جگہ قیدیوں سے کٹے بال کہاں سے آ گئے ؟’ شائد صاحب شراب پئے ہوئے ہیں اور انہیں بال کٹوانے کا موقع مل گیا ہے ؟ لہنا سنگھ نے جانچنا چاہا۔ لپٹن صاحب پانچ سال سے اس کی ریجمینٹ میں تھے۔
‘کیوں صاحب، ہم لوگ ہندستان کب جائیں گے ؟’
‘لڑائی ختم ہونے پر۔ کیوں، کیا یہ ملک پسند نہیں ؟’
‘نہیں صاحب، شکار کے وہ مزے یہاں کہاں ؟ یاد ہے، پارسال نقلی لڑائی کے پےچھ ہم آپ جگادھری ضلعے میں شکار کرنے گئے تھے۔ ‘
‘ہاں، ہاں۔ ‘
‘وہیں جب آپ کھوتے پر سوار تھے اور اور آپ کا خانساماں عبداللہ راستے کے ایک مندر میں جل چڑھانے کو رہ گیا تھا؟ بیشک پاجی کہیں کا۔ سامنے سے وہ نیل گائے نکلی کہ ایسی بڑی میں نے کبھی نہ دیکھی تھیں۔ اور آپ کی ایک گولی کندھے میں لگی اور پٹھے میں نکلی۔ ایسے افسر کے ساتھ شکار کھےلنا میں مزہ ہے۔ کیوں صاحب، شملے سے تیار ہو کر اس نیل گائے کا سر آ گیا تھا نا؟ آپ نے کہا تھا کہ ریجمینٹ کی میس میں لگائیں گے۔ ‘
‘ہاں پر میں نے وہ ولایت بھیج دیا۔ ‘
‘ایسے بڑے بڑے سینگ! دو دو فٹ کے تو ہوں گے ؟’
‘ہاں، لہنا سنگھ، دو فٹ چار انچ کے تھے۔ تم نے سگریٹ نہیں پیا؟’
‘پیتا ہوں صاحب، دیاسلائی لے آتا ہوں ‘۔ کہہ کر لہنا سنگھ خندق میں گھسا۔ اب اسے شبہ نہیں رہا تھا۔ اس نے جھٹ پٹ فیصلہ کر لیا کہ کیا کرنا چاہئیے۔
اندھیرے میں کسی سونے والے سے وہ ٹکرایا۔
‘کون؟ وزیراسنگھ؟’
‘ہاں، کیوں لہنا؟ کیا قیامت آ گئی؟ ذرا تو آنکھ لگنے دی ہوتی؟’

4

‘ہوش میں آؤ۔ قیامت آئی ہے اور لپٹن صاحب کی وردی پہن کر آئی ہے۔ ‘
‘کیا؟’
‘لپٹن صاحب یا تو مارے گئے ہے یا قید ہو گئے ہیں۔ ان کی وردی پہن کر یہ کوئی جرمن آیا ہے۔ صوبیدار نے اس کا منھ نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اور باتیں کی ہے۔ صاف اردو بولتا ہے، پر کتابی اردو۔ اور مجھے پےن کو سگریٹ دیا ہے ؟’
‘تو اب!’
‘اب مارے گئے۔ دھوکا ہے۔ صوبیدار ہوراں، کیچڑ میں چکر کاٹتے پھریں گے اور یہاں کھائی پر دھاوا ہو گا۔ اٹھو، ایک کام کرو۔ پلٹن کے پیروں کے نشان دیکھتے دیکھتے دوڑ جاؤ۔ ابھی بہت دور نہ گئے ہوں گے۔
صوبیدار سے کہو ایک دم لوٹ آئیں۔ خندق کی بات جھوٹ ہے۔ چلے جاؤ، خندق کے پےچھ سے نکل جاؤ۔ پتّہ تک نہ کھڑکے۔ دیر مت کرو۔ ‘
‘حکم تو یہ ہے کہ یہیں۔ ‘
‘ایسی تیسی حکم کی! میرا حکم۔ جمعدار لہنا سنگھ جو اس وقت یہاں سب سے بڑا افسر ہے، اس کا حکم ہے۔ میں لپٹن صاحب کی خبر لیتا ہوں۔ ‘
‘پر یہاں تو تم آٹھ ہو۔ ‘
‘آٹھ نہیں، دس لاکھ۔ ایک ایک اکالیا سکھ سوا لاکھ کے برابر ہوتا ہے۔ چلے جاؤ۔ ‘
لوٹ کر کھائی کے مہانے پر لہنا سنگھ دیوار سے چپک گیا۔ اس نے دیکھا کہ لپٹن صاحب نے جیب سے بیل کے برابر تین گولے نکالے۔ تینوں کو جگہ جگہ خندق کی دیواروں میں گھسیڑ دیا اور تینوں میں ایک تار سا باندھ دیا۔ تار کے آگے سوت کی ایک گتھی تھی، جسے سگڑی کے پاس رکھا۔ باہر کی طرف جا کر ایک دیاسلائی جلا کر گتھی پر رکھنے۔ ۔ ۔ ۔
اتنے میں بجلی کی طرح دونوں ہاتھوں سے الٹی بندوق کو اٹھا کر لہنا سنگھ نے صاحب کی کہنی پر تان کر دے مارا۔ دھماکے کے ساتھ صاحب کے ہاتھ سے دیاسلائی گر پڑی۔ لہنا سنگھ نے ایک کندہ صاحب کی گردن پر مارا اور صاحب ‘آکھ! مین گوٹ’ کہتے ہوئے چت ہو گئے۔ لہنا سنگھ نے تینوں گولے چُن کر خندق کے باہر پھےنکس اور صاحب کو گھسیٹ کر سگڑی کے پاس لٹایا۔ جیبوں کی تلاشی لی۔ تین چار لفافے اور ایک ڈائری نکال کر انہیں اپنی جیب کے حوالے کیا۔
صاحب کی بے پوشی ختم ہوئی۔ لہنا سنگھ ہنس کر بولا۔ ‘کیوں لپٹن صاحب؟ مزاج کیسا ہے ؟ آج میں نے بہت باتیں سیکھیں۔ یہ سیکھا کہ سکھ سگریٹ پےتر ہیں۔ یہ سیکھا کہ جگادھری ضلعے میں نیل گائیں ہوتی ہیں اور ان کے دو فٹ چار انچ کے سینگ ہوتے ہیں۔ یہ سیکھا کہ مسلمان خانساماں مورتوسں پر جل چڑھاتے ہیں اور لپٹن صاحب کھوتے پر چڑھتے ہیں۔ پر یہ تو کہو، ایسی صاف اردو کہاں سے سیکھ آئے ؟ ہمارے لپٹن صاحب تو بنا ڈیم کے پانچ الفاظ بھی نہیں بولا کرتے تھے۔ ‘
لہنا نے پتلون کے جیبوں کی تلاشی نہیں لی تھی۔ صاحب نے مانو جاڑے سے بچنے کے لئے، دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے۔
لہنا سنگھ کہتا گیا۔ ‘چالاک تو بڑے ہو پر مانجھے کا لہنا اتنے برس لپٹن صاحب کے ساتھ رہا ہے۔ اسے چکما دینے کے لئے چار آنکھیں چاہئیے۔ تین مہےنت ہوئے ایک ترکی مولوی میرے گاؤں آیا تھا۔ عورتوں کو بچے ہونے کے تعویذ بانٹتا تھا اور بچوں کو دوائی دیتا تھا۔ چودھری کے بڑ کے نےچی منجہ بچھا کر حقہ پیتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ جرمنی والے بڑے پنڈت ہیں۔ وید پڑھ پڑھ کر اس میں سے جہاز چلانے کا علم جان گئے ہیں۔ گائے کو نہیں مارتے۔ ہندستان میں آ جائیں گے تو گوہتیا بند کر دیں گے۔ منڈی کے بنیوں کو بہکاتا کہ ڈاک خانے سے روپیہ نکال لو۔ سرکار کا راج جانے والا ہے۔ ڈاک بابو پولہورام بھی ڈر گیا تھا۔ میں نے ملاجی کی داڑھی موڑ دی تھی۔ اور گاؤں سے باہر نکال کر کہا تھا کہ جو میرے گاؤں میں اب پیر رکھا تو۔ ‘
صاحب کی جیب میں سے پستول چلا اور لہنا کی جانگھ میں گولی لگی۔ ادھر لہنا کی ہینری مارٹن کے دو فایروں نے صاحب کی کپال کریا کر دی۔ دھڑاکا سن کر سب دوڑ آئے۔
بودھا چلایا۔ ‘کیا ہے ؟’
لہنا سنگھ نے اسے یہ کہہ کر سلا دیا کہ ایک ہڑکا ہوا کتا آیا تھا، مار دیا اور، اور وں سے سب حال کہہ دیا۔ سب بندوقیں لے کر تیار ہو گے ۔ لہنا نے صافہ پھاڑ کر گھاؤ کے دونوں طرف پٹیاں کس کر باندھیں۔ زخم گوشت میں ہی تھا۔ پٹیوں کے کسنے سے لہو نکلنا بند ہو گیا۔
اتنے میں ستر جرمن چلا کر کھائی میں گھس پڑے۔ سکھّوں کی بندوقوں کی باڑھ نے پہلے دھاوے کو روکا۔ دوسرے کو روکا۔ پر یہاں تھے آٹھ (لہنا سنگھ تاک تاک کر مار رہا تھا۔ وہ کھڑا تھا، اور، وہ لےٹی ہوئے تھے ) اور وہ ستر۔ اپنے مردہ بھائیوں کے جسموں پر چڑھ کر جرمن آگے گھسے آتے تھے۔ تھوڑے سے منٹوں میں ہی وہ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک آواز آئی، ‘واہ گروجی دی فتح؟ واہ گروجی دا خالصہ!! اور دھڑادھڑ بندوقوں کے فائر جرمنوں کی پیٹھ پر پڑنے لگے۔ عین موقعے پر جرمن دو چکی کے پاٹوں کے بیچ میں آ گئے۔ پےچھ سے صوبیدار ہزارا سنگھ کے جوان آگ برساتے تھے اور سامنے لہنا سنگھ کے ساتھیوں کے سنگین چل رہے تھے۔ پاس آنے پر پےچھو والوں نے بھی سنگین پرونا شروع کر دیا۔
ایک کلکاری اور۔ اکال سکھاں دی فوج آئی! واہ گروجی دی فتح! واہ گروجی دا خالصہ ! ست شری اکال پرکھ!!! اور لڑائی ختم ہو گئی۔ تریسٹھ جرمن یا تو کھیت رہے تھے یا کراہ رہے تھے۔ سکھّوں میں پندرہ کی جانیں گئیں۔ صوبیدار کے داہنے کندھے میں سے گولی آر پار نکل گئی۔ لہنا سنگھ کی پسلی میں ایک گولی لگی۔ اس نے گھاؤ کو خندق کی گیلی مٹی سے بھر لیا اور باقی کا صافہ کس کر کمربند کی طرح لپیٹ لیا۔ کسی کو خبر نہ ہوئی کہ لہنا کو دوسرا گھاؤ۔ بھاری گھاؤ لگا ہے۔
لڑائی کے وقت چاند نکل آیا تھا، ایسا چاند، جس کی روشنی سے سنسکرت شاعروں کا دیا ہوا ’شیی‘ نام درست ثابت ہوتا ہے۔ اور ہوا ایسی چل رہی تھی جیسی وانا بھٹ کی زبان میں ‘دنتوینوپدیشاچاریہ’ کہلاتی۔ وزیرا سنگھ کہہ رہا تھا کہ کےسئ من من بھر فرانس کی مٹی میرے بوٹوں سے چپک رہی تھی، جب میں دوڑا دوڑا صوبیدار کے پےچھ گیا تھا۔ صوبیدار لہنا سنگھ سے سارا حال سن کر اور کاغذات پا کر وہ اس کی حاضر دماغی کو سراہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تو نہ ہوتا تو آج سب مارے جاتے۔
اس لڑائی کی آواز تین میل داہنی اور کی کھائی والوں نے سن لی تھی۔ انہوں نے پےچھ ٹیلیفون کر دیا تھا۔ وہاں سے جھٹ پٹ دو ڈاکٹر اور دو بیمار ڈھونے کی گاڑیاں چلیں، جو کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر آ پہنچیں۔ فیلڈ اسپتال نزدیک تھا۔ صبح ہوتے ہوتے وہاں پہنچ جائیں گے، اسلئے معمولی پٹّی باندھ کر ایک گاڑی میں گھائل لٹائے گئے اور دوسری میں لاشیں رکھی گئیں۔ صوبیدار نے لہنا سنگھ کی جانگھ میں پٹّی بندھوانی چاہی۔ پر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تھوڑا گھاؤ ہے سویرے دیکھا جائے گا۔ بودھا سنگھ بخار میں برّا رہا تھا۔ وہ گاڑی میں لٹایا گیا۔ لہنا کو چھوڑ کر صوبیدار جاتے نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر لہنا نے کہا۔ ‘تمہیں بودھا کی قسم ہے، اور صوبیدارنی جی کی سوگندھ ہے جو اس گاڑی میں نہ چلے جاؤ۔ ‘
‘اور تم؟’
‘میرے لئے وہاں پہنچ کر گاڑی بھیج دینا، اور جرمن مردوں کے لئے بھی تو گاڑیاں آتی ہوں گی۔ میرا حال برا نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں، میں کھڑا ہوں ؟ وزیرا سنگھ میرے پاس ہے ہی۔ ‘
‘اچھا، پر۔ ‘
‘بودھا گاڑی پر لیٹ گیا؟ بھلا۔ آپ بھی چڑھ جاؤ۔ سنئے تو، صوبیدارنی ہوراں کو چٹھی لکھو، تو میرا متھا ٹیکنا لکھ دینا۔ اور جب گھر جاؤ تو کہہ دینا کہ مجھ سے جو اس نے کہا تھا وہ میں نے کر دیا۔ ‘
گاڑیاں چل پڑی تھیں۔ صوبیدار نے چڑھتے چڑھتے لہنا کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ ‘تےند میرے اور بودھا کے پران بچائے ہیں۔ لکھنا کیسا؟ ساتھ ہی گھر چلیں گے۔ اپنی صوبیدارنی کو تو ہی کہہ دینا۔ اس نے کیا کہا تھا؟’
‘اب آپ گاڑی پر چڑھ جاؤ۔ میں نے جو کہا، وہ لکھ دینا، اور کہہ بھی دینا۔ ‘
گاڑی کے جاتے لہنا لیٹ گیا۔ ‘وزیرا پانی پلا دے، اور میرا کمربند کھول دے۔ تر ہو رہا ہے۔ ‘

5

موت سے کچھ دیر پہلے یاد داشت بہت صاف ہو جاتی ہے۔ جنم بھر کے واقعات ایک ایک کر کے سامنے آتے ہیں۔ سارے مناظر کے رنگ صاف ہوتے ہیں۔ وقت کی دھند بالکل ان پر سے ہٹ جاتی ہے۔
٭٭ ٭

لہنا سنگھ بارہ سال کا ہے۔ امرتسر میں ماما کے یہاں آیا ہوا ہے۔ دہی والے کے یہاں، سبزی والے کے یہاں، ہر کہیں، اسے ایک آٹھ سال کی لڑکی مل جاتی ہے۔ جب وہ پوچھتا ہے، تیری کڑمائی ہو گئی؟ تب دھت کہہ کر وہ بھاگ جاتی ہے۔ ایک دن اس نے ویسے ہی پوچھا، تو اس نے کہا۔ ‘ہاں، کل ہو گئی، دیکھتے نہیں یہ ریشم کے پھولوں والا سالو؟ سنتے ہی لہنا سنگھ کو دکھ ہوا۔ غصہ آیا۔ کیوں ہوا؟
‘وزیراسنگھ، پانی پلا دے۔ ‘
٭٭ ٭

پچیس سال بیت گئے۔ اب لہنا سنگھ نمبر 77 رایئفلس میں جمعدار ہو گیا ہے۔ اس آٹھ سال کی لڑکی کا دھیان ہی نہ رہا۔ نہ معلوم وہ کبھی ملی تھی، یا نہیں۔ سات دن کی چھٹی لے کر زمین کے مدکمے کی پیروی کرنے وہ اپنے گھر گیا۔ وہاں ریجمینٹ کے افسر کی چٹھی ملی کہ فوج لام پر جاتی ہے، فوراً چلے آؤ۔ ساتھ ہی صوبیدار ہزارا سنگھ کی چٹھی ملی کہ میں اور بودھا سنگھ بھی لام پر جاتے ہیں۔ لوٹتے ہوئے ہمارے گھر ہوتے جانا۔ ساتھ ہی چلیں گے۔ صوبیدار کا گاؤں راستے میں پڑتا تھا اور صوبیدار اسے بہت چاہتا تھا۔ لہنا سنگھ صوبیدار کے یہاں پہنچا۔
جب چلنے لگے، تب صوبیدار بیڈھے میں سے نکل کر آیا۔ بولا۔ ‘لہنا، صوبیدارنی تم کو جانتی ہیں، بلاتی ہیں۔ جا مل آ۔ ‘ لہنا سنگھ اندر پہنچا۔ صوبیدارنی مجھے جانتی ہیں ؟ کب سے ؟ ریجمینٹ کے کوارٹروں میں تو کبھی صوبیدار کے گھر کے لوگ رہے نہیں۔ دروازے پر جا کر ما تھا ٹیکنا کہا۔ لہنا سنگھ چپ۔
‘مجھے پہچانا؟’
‘نہیں۔ ‘
‘تیری کڑمائی ہو گئی۔ دھت۔ کل ہو گئی۔ دیکھتے نہیں، ریشمی بوٹوں والا سالو۔ امرتسر میں۔ ‘
جذبات کی ٹکر سے ہوش آیا۔ کروٹ بدلی۔ پسلی کا زخم بہہ نکلا۔
‘وزیرا، پانی پلا’۔ ‘اس نے کہا تھا۔ ‘
٭٭ ٭

خواب چل رہا ہے۔ صوبیدارنی کہہ رہی ہے۔
‘میں نے تیرے کو آتے ہی پہچان لیا۔ ایک کام کہتی ہوں۔ میرے تو بھاگ پھوٹ گئے۔ سرکار نے بہادری کا خطاب دیا ہے، لایل پور میں زمین دی ہے، آج نمک حلالی کا موقع آیا ہے۔ پر سرکار نے ہم تیمیوں کی ایک گھنگھریا پلٹن کیوں نہ بنا دی، جو میں بھی صوبیدار جی کے ساتھ چلی جاتی؟ ایک بیٹا ہے۔ فوج میں بھرتی ہوئے اسے ایک ہی برس ہوا۔ اس کے پےچھ چار اور ہوئے، پر ایک بھی نہیں جیا۔ صوبیدارنی رونے لگی۔ اب دونوں جاتے ہیں۔ میرے بھاگ! تمہیں یاد ہے، ایک دن تانگے والے کا گھوڑا دہی والے کی دوکان کے پاس بگڑ گیا تھا۔ تم نے اس دن میری جان بچائی تھی، خود گھوڑے کی لاتوں کی زد میں چلے گئے تھے، اور مجھے اٹھا کر دوکان کے تختے پر کھڑا کر دیا تھا۔ ایسے ہی ان دونوں کو بچانا۔ یہ میری بھیک ہے۔ تمہارے آگے آنچل پسارتی ہوں۔ ‘
روتی روتی سوبیدارنی اندر چلی گئی۔ لہنا بھی آنسو پونچھتا ہوا باہر آیا۔
‘وزیراسنگھ، پانی پلا’۔ ‘اس نے کہا تھا۔ ‘
٭ ٭٭

لہنا کا سر اپنی گود میں رکھے وزیرا سنگھ بیٹھا ہے۔ جب مانگتا ہے، تب پانی پلا دیتا ہے۔ آدھ گھنٹے تک لہنا چپ رہا، پھر بولا۔ ‘کون ! کیرت سنگھ؟’
وزیرا نے کچھ سمجھ کر کہا۔ ‘ہاں۔ ‘
‘بھیا، مجھے اور اونچا کر لے۔ اپنی پیٹھ پر میرا سر رکھ لے۔ ‘ وزیرا نے ویسے ہی کیا۔
‘ہاں، اب ٹھیک ہے۔ پانی پلا دے۔ بس، اب کے ہاڑ میں یہ آم خوب پھلے گا۔ چچا بھتیجا دونوں یہیں بیٹھ کر آم کھانا۔ جتنا بڑا تیرا بھتیجا ہے، اتنا ہی یہ آم ہے۔ جس مہےنر اس کا جنم ہوا تھا، اسی مہےن میں میں نے اسے لگایا تھا۔ ‘ وزیرا سنگھ کے آنسو ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے۔
٭٭ ٭

کچھ دن بعد لوگوں نے اخباروں میں پڑھا۔
فرانس اور بیلجیم۔ 68 ویں فہرست۔ مدوان میں گھاؤوں سے مرا۔ نمبر 77 سکھ رائفلس جمعدار لہنا سنگھ
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے