کلیم عاجزؔ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری میں میر تقی میرؔ کے لہجے کا عکس اپنی پوری جولانی کے ساتھ نظر آتا ہے ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے حزنیہ لہجے جس میں میرتقی میرؔ کے حزنیہ لہجے کی بازگشت سنائی دیتی تھی اسے نئی شاعری کے رنگ میں ڈھال کرپیش کیا لیکن یہ حزنیہ لہجہ خالصتاً ان کی روداد زندگی کا عکاس ہے۔ انھوں نے میرؔ کی تقلید ضرور کی لیکن ان کی نقل نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی عصرِ حاضر میں ایک مخصوص معنویت ہے۔
ان کی شاعری بوجھل الفاظ سے پاک، خیال بندی سے دور، مشکل تراکیب سے مبرہ، پیچیدگی سے صاف اور ادق الفاظ سے تہی دست ہے انھوں نے جو تراکیب استعمال کیں وہ نہایت سلیس و دلکش اور جاذبیت کی متحمل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید اندازِ فکر کی مکمل مظہر نظر آتی ہیں ان کاکمال یہ ہے کہ انھوں نے سادگی میں گہرائی و گیرائی کے تمام تر عناصر پیش کر کے اہلِ ادب سے داد وتحسین حاصل کی۔ ان کے کلام میں ایک مخصوص لسانی رویہ پایا جاتا ہے جو بظاہر عصرِ حاضر کا نہیں لیکن اس کا تانا بانا ایسا ہے کہ اس میں ہر صاحبِ شعور قاری خود کو غرق محسوس کرتا ہے اور اس کے خوبصورت نظام کا فریفتہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے ثابت کر دیا کہ:
سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے
اس مختصر سے مضمون میں ان کی شاعری میں تصوف کی چند اصلاحات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ انھوں نے تصوف کی اصطلاحات اور اس کے پیغام کو یا اس سے متعلق الفاظ کو اپنی شاعری میں کس طرح خال خال بیان کیا ہے۔ وہ باقاعدہ صوفی شاعر نہیں لیکن تصوف کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر دور کے شعراء کے یہاں شعوری یا لا شعوری طور پر کہیں نہ کہیں نظر ضرور آتا ہے چاہے تفصیل سے یا مختصر طور پر۔
کلیم عاجزؔ نے باقاعدہ تصوف کی شاعری نہیں کی لیکن ان کے یہاں کہیں کہیں تصوف سے متعلق الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ تصوف سے کہیں نہ کہیں کسی حد تک متاثر ضرور تھے۔ مثلاً تصوف میں ’مزار‘ سے مراد بزرگانِ دین یا اولیائے کرام کا مدفن و مقبرہ ہوتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال مختلف ادوار میں مختلف انداز میں بہت سے شعراء نے اپنی شاعری میں کیا ہے کلیم عاجزؔ بھی مذکورہ لفظ کا استعمال ایک نئی معنویت کے ساتھ کرتے ہیں:
بنا کے لالہ و گل کا مزار گذری ہے
جہاں جہاں سے نسیمِ بہار گذری ہے
نسیم بہار کے عمل سے کون واقف نہیں اسی کے سبب گلشن میں بہار کا دم ہے لیکن جب یہ تیزی اختیار کرتی ہے تو بہت سے پھول شاخ سے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور پھر غبار آلودہ ہو کر مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں گویا کہ ان کا مزار تعمیر ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ نسیمِ بہار کے عمل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شعر میں بظاہر روایتی انداز میں لالہ و گل اور نسیمِ بہار کا ذکر ہے مگر نئی شاعری کے تناظر میں دیکھا جائے تو نسیمِ بہار اور لالہ و گل روایتی علامتوں کی صورت میں نئے معنی و مفاہیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یعنی کوئی بھی دور ہو خوشی کے بعد رنج و الم کا زمانہ آتا ہے اور جو انسان خوشی میں غرق رہتا ہے اسے بھی ایک دن داعیِ اجل کو لبیک کہنا ہی پڑتا ہے گویا کہ حیات انسانی فانی ہے اور اس کی اصل منزل خاک ہے۔
تصوف میں لفظ ’طریقت‘ بھی نہایت اہمیت کا باعث ہے۔ طریقت کا مطلب تذکیۂ باطن ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں راہِ سلوک اختیار کرنے والوں کو اہلِ طریقت کہا جاتا ہے۔ کلیم عاجزؔلفظ ’طریقت‘ کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کرتے ہیں اور ایک پیغام محبت زمانے کو دیتے ہیں:
مجھ کو یارانِ طریقت کی ہے رسوائی کا پاس
ورنہ کس کعبے کے پردے میں صنم خانہ نہیں
شعر میں جہاں تلمیح ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اصل طریقت یہ نہیں کہ ظاہری طور پر تصوف کی راہ کو اختیار کر لیا جائے اور دنیا و مافیہا کو ترک کر دیا جائے یا اسے حقیر سمجھا جائے بلکہ اصل طریقت یہی ہے کہ تفریق من و تو مٹا دی جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی جائے۔
تصوف میں فقراور فقیر کے بھی اپنے منفرد معنی ہیں۔ مختصر طور پر کہا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تصوف کی اصطلاح میں فقیر اس درویش کو کہتے ہیں جو اپنے اہل و عیال کے واسطے کم از کم ایک روز اور زیادہ سے زیادہ دو چار روز کی خوراک رکھتا ہے۔ گویا کہ قناعت میں زندگی بسر کرتا ہے اور حرص و ہوس سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے دوسرے معنی سائل یا کسی سے کوئی چیز طلب کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے شاعری میں لفظِ فقیر کا خوب استعمال ملتا ہے۔ غزل میں عموماً فقیر عاشق کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ عاشق فقیرِ حسن ہوتا ہے محبوب سے قربت کا خواہاں ہوتا ہے اور اس سے سائلِ وصل ہوتا ہے لیکن اسے ناکامی حاصل ہوتی ہے تو بھی ہمت نہیں ہارتا اورمایوس نہیں ہوتا۔ وہ اپنے محبوب سے ہمہ وقت لو لگائے رہتا ہے یعنی توکل اور قناعت میں زندگی بسر کرنا اس کا شیوۂ کار ہوتا ہے۔ کلیم عاجزؔ نے مذکورہ لفظ کو مختلف انداز سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے:
بوالہوس محلوں میں ہیں بیخواب اور تیرے فقیر
سو رہے ہیں چادرِ آسودگی تانے ہوئے
منہ فقیروں سے نہ پھیرا چاہئے
یہ تو پوچھا چاہئے کیا چاہئے
مندرجہ بالا دونوں اشعار میں واضح ہے کہ عاشق خود کو فقیر جانتا ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ اس کا محبوب اس سے گریزاں ہے لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتا اور اپنا مدعا بیان کرنے کا خواہاں رہتا ہے۔ اسے ہجر کی اذیت کے باوجود قلبی سکون ہے لیکن بو الہوس محبوب کے وصال کے باوجود مضطرب و بیچین نظر آتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ فقراء کی دعاؤں کے وسیلے سے بہت سے نامرادوں کو مرادیں ملی ہیں اور بہت سے نا ممکن کام ان کی دعا کی وجہ سے ممکن ہو سکے۔ اسی طرح عاشق کی ذات ہے وہ سراسر وفا دار ہے اور وفاداری کا نمائندہ ہے اس کی زندگی سے فیض حاصل کرنے والے نا ممکن کام کو ممکن کر سکتے ہیں یعنی عاشقین اپنے مجبوب کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں:
ہم فقیروں کے یہاں بٹتی ہے خیراتِ وفا
کون پھیلائے ہوئے دستِ سوال آتا ہے
خاص نکتہ یہ ہے کہ اگر محبوب بھی دستِسوال پھیلائے ہوئے آ جائے تو اسے بھی فقیروں کے در سے یعنی عاشق کے در سے درسِ حیات مل سکتا ہے یعنی وہ بھی وفا شناس ہو سکتا ہے۔
تصوف میں ولایت کا درجہ بہت بلند ہے یہ لفظ قربتِ حق کے معنی میں مستعمل ہے۔ کلیم عاجزؔ کے نذدیک منصبِ ساقی گری بھی ولایت سے کم نہیں:
منصبِ ساقی گری بھی ہے ولایت کا مقام
صاحبِ دل بنے تب صاحبِ میخانہ بنے
یعنی جس طرح سے ولی کی بارگاہ سے بلا تفریقِ مذہب و ملت افراد فیض حاصل کرتے ہیں اور ولی کسی کو غیر نہیں سمجھتا اوربڑے دل کا مالک ہوتا ہے اسی طرح ساقی ہونے کی بھی یہی شرائط ہیں کہ وہ وسیع قلب کا مالک ہو اور جام پیش کرنے میں بھید بھاؤ نہ کرے۔ گویا کہ ساقی جو شاعر کے خیال میں منصبِ ولایت پر فائز ہے ایک ایسے شخص کی علامت ہے جس کا دل آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے وہ کسی سے دل میں کدورت نہیں رکھتا اور اگر کوئی اس سے مدد مانگتا ہے تو وہ اپنے پرائے سب کی مدد کرتا ہے۔
تصوف کی اصطلاح میں ’کرامت‘اس خرقِ عادت عمل کو کہتے ہیں جو ولیوں یا بزرگانِ دین کی جانب سے کیا جاتا ہے یعنی جو عام انسان نہیں کر سکتا جسے کرشمہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ کلیم عاجزؔ کو یہ لفظ عزیز ہے انھوں نے کئی جگہ اس لفظ کا استعمال کیا ہے اور اس کے معنی کا پورا حق بھی ادا کیا ہے:
چھری پر چھری کھائے جائے ہے کب سے
اور اب تک جئے ہے کرامت کرے ہے
مرنا تو بہت سہل سی اک بات لگے ہے
جینا ہی محبت میں کرامات لگے ہے
مندرجہ بالا اشعار جہاں کلیم عاجزؔ کے مخصوص فن کے مظہر ہیں وہیں ان سے یہ بات بھی عیاں ہو رہی ہے کہ کرامت کا مفہوم کیا ہے۔ ان اشعار کے علاوہ ان کا ایک نہایت مقبول شعر جو دنیائے ادب میں لازوال حیثیت اختیار کر چکا ہے اس کو بھی اس سلسلے سے پیشِ نگاہ رکھنا نہایت ضروری ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کلیم عاجزؔ نے لفظ کرامت سے کس طرح استفادہ کیا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یعنی ان کی نگاہ میں محبوب کا ظلم اور اس کے ظالم ہونے کا ثبوت فراہم نہ ہونا بھی کسی کرامت سے کم نہیں لیکن یہ شعر صرف عاشق کے قتل اور محبوب کی جفا تک ہی محدود نہیں بلکہ اس شعر میں ہر دور کے سیاسی منظر نامے کو بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور یہ اپنے علامتی نظام کی وجہ سے نہایت وسیع معنی و مطالب کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
غرض کہ کلیم عاجزؔ کا ہنر یہ ہے کہ انھوں نے تصوف سے فیض حاصل کرتے ہوئے اپنی شاعری کو اصطلاحاتِ تصوف سے آراستہ کیا ہے گرچہ یہ رنگ ان کے یہاں نہایت قلیل ہے اور مختلف سمتوں کی نشاندہی کرتا ہے لیکن پھر بھی توجہ کا متقاضی ہے۔
٭٭٭