اردو تھیٹر ڈراما نگاری ہمارے ہاں پنپ نہ سکی!
یہ جواب، میرے لئے سوال بنا مجھے اس وقت سے پریشان کرتا رہا جب ہم ڈراما پڑھتے رہے اور جواباً یہی سنتے رہے کہ تھیٹر/ڈراما نگاری ہمارے ہاں پنپ نہ سکی۔ تھیٹر اور ڈراما سیکھنے کے عمل میں سوچتے بھی رہے کیوں، کیسے؟ اور کیا امتیاز علی تاج کے انارکلی کے علاوہ کوئی تمثیل کوئی تماشہ ایسا نہیں جو بیسویں صدی کے معیار پہ پورا اترتا ہو۔ جو پاکستان کی تاریخ کا پہلا تھیٹر کھیل نہ بھی ہو تو کم از کم بہترین ڈرامہ ہونے کا شرف حاصل کر سکے یا جس کا حوالہ ہی دیا جا سکے۔
جبکہ بھارتی، بنگلہ دیشی اور مغربی ڈرامہ ہر اعتبار سے چاہے فنی مہارت سے جانچیں یا تخلیقی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کریں، اپنے زمانے کے جدید، اچھوتے موضوعات کے ساتھ آفاقی نظر آتے ہیں۔ جن کی مقبولیت جوں کی توں ہے، ماند نہیں پڑ سکی۔
جن میں آبسن کا ’ڈولز ہاؤس‘، اینٹن چیخوف کا ’سی گل‘، وجے ٹنڈولکر کا ’خاموش، یہ عدالت ہے‘، ٹینیسی ولیئم کا ’گلاس میناجری‘، شیکسپئر کا ’ہیملٹ‘، سموئیل بیکٹ کا ’ویٹنگ فار گوڈو‘ برٹول بریخت کا ’مدر کریج اینڈ ہر چلڈرن‘، ایڈورڈ البی کا ’ہو از افریڈ آف ورجینیا وولف‘، آسکر وائلڈ کا ’دی اپمورٹنس آف بیئنگ آرنسٹ‘، مولیئر کا ’دی مائیزر‘ اور یاسمینہ رضا کا ’دی آرٹ‘ میں نے انتہائی اختصار کے ساتھ بطور مثال یہاں لکھے ہیں۔ واضح کر دوں کہ ان میں سے بہت سے ڈراما نویس کئی اور مشہور و معروف کھیلوں کے مالک و تخلیق کار ہیں۔ ان میں ناول یا کہانی سے ماخوذ ڈرامے شامل نہیں ہیں۔ میں نے متن تک محدود رہنے کے لئے سارے ڈراما نگار بھی شامل نہیں کئے جیسے یونانی ڈراما نگار۔ جو تھیٹر اور ڈرامے کے بانی ہیں۔
دنیائے تمثیل کی اس انقلابی و تخلیقی دنیا میں اردو ڈراما کہیں موجود نہیں۔ اگر یہ زبان کی ناکامی تھی تو جواب یہ ہے کہ یہ زبان کی ناکامی نہیں ہے، کیونکہ یہی زبان امیر خسرو، کبیر داس کی شاعری کی زبان بھی ہے جو میر تقی میر تک پہنچتے پہنچتے نہ صرف شاعری کو بام عروج تک پہنچاتی ہے بلکہ غالب کو فن ادائیگی کی نوک پلک سنوارنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور فن شاعری صدیوں کے سفر میں، بغاوت ہند، بر صغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کا خاتمہ، سے لے کر آزادی و نامساعد حالات جھیلنے کے باوجود جون ایلیاء، راحت اندوری پیدا کرتی ہے اور انہی آزاد ممالک کے، مغربی تہذیب کے مغلوب مشرقی نوجوانوں کو اپنا مداح بناتی ہے، یہی اردو ہے۔
مزید برآں بھارت سے حبیب تنویر آگرہ بازار تمثیل لکھ کر بین القوامی شہرت بھی حاصل کر چکے ہوں اور ضیاء محی الدین اردو میں پڑھنت سے اعلی مقام بنا چکے ہوں۔ اردو تمثیل کا فقدان میری سمجھ سے باہر تھا۔
تو تمثیل یا اردو ڈرامے کے زوال کا سبب کیا ہے؟
بظاہر اردو ڈرامے کا کال نظر اتا ہے۔ بر صغیر میں اردو ڈرامے کی تاریخ جاننے کے لئے کتابیں کھنگالنی پڑیں اور جواب بھرپور ملا۔ چلیں میں ڈرامہ کی تاریخ پر پڑی دھول جھاڑتی ہوں، جو ممکن ہے، قصداً یا عادتاً خاص کر پاکستان میں صفائی سے محروم رکھی گئی ہو۔
مجھے یہ معلوم تھا کہ تھیٹر نے سنیما کو جنم دیا اور تھیٹر کے سارے لوازمات بشمول اداکاروں و ہدایتکاروں کے، فلمی دینا میں کار ہائے نمایاں انجام دے چکے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ کوئی نئی صنف متعارف، فن کمال سے ہو۔ بر صغیر کی فلمی صنعت بیرون دنیا کے مقابلے کی تھی۔ پاکستان میں بھی مقبولیت کا یہی حال تھا۔ جس کے پیچھے تھیٹر تھا۔ تھیٹر تھا تو تھیٹر کے ڈرامے بھی ہوں گے؟ لیکن وہ ڈرامے کہاں ہیں؟ ہیں تو کسی ترتیب و تاریخ سے ہم محروم کیوں ہیں؟
اس ساری تحقیق کے دوران سوالات بنتے جا رہے تھے اور میں تاریخ کی اہمیت سمجھتے ہوئے تھیٹر کی تاریخ جاننے کے لئے ایسا کر رہی تھی، اردو کے بہترین ڈرامے کے بارے میں کوئی سوال کرتا تو ہر جواب اردو کا بہترین ڈرامہ انارکلی ہی ہوتا۔ میں پاکستان میں بالخصوص کراچی میں تھیٹر کی زبوں حالی، سے یہ اخذ کر چکی تھی کہ یہ یا تو اردو کا آخری ڈرامہ تھا یا پاکستان کے لئے پہلا اور آخری۔
’ڈراما نویسی نہ پنپ سکی‘ کا آدھا جواب تو یہیں مل گیا۔
میں نے تحقیق کا دائرہ بڑھایا۔ اردو اور تھیٹر دونوں موضوعات پر کتابیں کھنگالیں۔ سب سے پہلے مجھے اردو ڈرامے کی ببلوگرافی ملی جو عبد العلیم نامی کی مرتب کی ہوئی ہے جو پرنسپل اوریئنٹل کالج، لیفٹنٹ کرنل تھے۔
عبد العلیم نامی کی مرتب کردہ ببلوگرافی میں نو سو ڈراما نگاروں کے تین ہزار اردو ڈراموں کی تفصیلات درج ہیں۔
تاریخ سے کسی حد تک دھول جھڑ گئی۔۔۔۔ ۔ لیکن اس تاریخ پر دھول کیوں پڑی ہوئی ہے؟
اور کتابیں کھنگالیں۔ آئیں اسی صدی میں چلتے ہیں۔
یہ انیسویں صدی کی نصف دہائی ہے یہاں سے ‘اردو تھیٹر سبھا’ میں ڈرامے، اندرسبھا کی مانند، پریوں کی طرح اترتے چلے جاتے ہیں۔ تین ہزار ڈراموں کی خالق زبان نصف صدی اپنا جادو تمثیل گاہوں میں چلاتی رہی اور اردو تمثیل اپنے اچھوتے مزاج میں اس سبھا میں جلوہ افروز ہوتے رہے۔ اردو تھیٹر کے خالق پارسی تھے۔ اس لئے اردو ڈرامے پارسی اور کسی حد تک گجراتی ڈراموں کے ممنون ہیں۔
اسی پس منظر میں نہ صرف ڈراما بلکہ تھیٹر میں بھی نئی جہتیں متعارف ہوئیں جن میں ناٹک منڈلیاں، ڈرامیٹک کمیٹی، ایرانی ڈرامے، اردو تراجم، انجمن ترقی فن موسیقی کا قیام اور راگ دل چمن شامل ہیں۔ راگ دل چمن، تین سو بارہ غزلیات کا مجموعہ ہے جو اٹھارہ سو اٹھاون میں چھپا۔
اس کے علاوہ اردو تھیٹر نے گجراتی، مرہٹی، انگریزی ڈرامے کو بھی مقابلے کی تحریک دی، جو پہلے سے موجود تھے، از سر نو منظم ہوئے، لیکن مرہٹی ڈرامہ کم و بیش دس سال کے لئے تھیٹر کے منظر سے ناپید ہو گیا۔ یہاں یہ بات بتا دوں کہ اردو ڈراما، اردو تھیٹر اور پارسی تھیٹر کے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ، اپنی انسان دوستی اور خطیر رقم سے تھیٹر کھڑا کرنے والا بھی ایک مرہٹہ تھا جن کا نام جگن ناتھ شنکر سیٹھ تھا جن کی مالی معاونت سے مشہور "الفن اسٹون” تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ ماؤنٹ اسٹوورڈ ایلفن اسٹون اس وقت کے برطانوی گورنر بمبئی تھے۔ اردو تھیٹر کی بنیاد بھی بمبئی میں پڑی۔ یہ سارے مرہٹے بمبئی میں مقیم تھے۔ انھوں نے کئی اور بڑے کام انجام دیئے۔ غالباً جگن ناتھ شنکر کی مالی معاونت تھی کہ کراچی میں بھی پارسیوں نے تھیٹر قائم کئے اور مشہور ایلفن اسٹریٹ گورنر بمبئی کے نام سے منسوب ہوئی۔ جس کو بعد میں زیب النساء اسٹریٹ کر دیا گیا۔ یہ آزادی کے بعد تھیٹر کی تاریخ مٹانے، کی گھناؤنی سازش تھی جس سے اردو تھیٹر و ڈراما کم و بیش نصف صدی، پورے ہندوستان میں روشن افروز رہا۔
اردو کے پہلے ڈرامہ نویس ڈاکٹر بھاؤ جی لاڈ تھے جنھوں نے راجہ گوپی چند اور جلندر (یہ دونوں کردار شیوا کے بھگت تھے۔ شیوا کی ایک صفت فن اور شگفتگی ہے) لکھے۔ مندرجہ بالا دونوں ڈرامے اٹھارہ سو چوون کی تاریخ میں لکھے گئے۔ اس وقت ایک ڈرامے کی تیاری میں تقریباً چھ ماہ کا عرصہ لگتا تھا۔ غالباً یہ موضوع تماشائیوں کے مزاج کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے تھے۔ یہاں دو باتیں پتہ چلتی ہیں: ایک یہ کہ مسلمان فنون میں پیچھے رہ گئے تھے انہیں فنون کے فروغ سے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی، دوسرے، جو لوگ موجودہ نصف صدی سے اردو زبان سے، مسلمانوں کی زبان کہہ کر امتیازی سلوک برت رہے ہیں ان کی انتہا پسندی پہ تھیٹر تاریخ ان کی تعصبانہ سوچ کی عکاس ہے یہ امتیاز چاہے لسانی بنیاد پہ پاکستان میں برتا جائے یا ہندوستان میں، جواب یہی ہے کہ یہ ہندوستانیوں کی زبان تھی، مسلمانوں کی یا کراچی کی زبان نہیں ہے۔ چاہے فنون شاعری ہو، تمثیل یا فلم۔ تعصب کی اینٹیں لگانے سے گریز کرنا چاہیئے۔ اردو ڈرامے کے موجد پارسی ہیں تو ان کی خدمات کو جاننا چاہیئے۔ ویسے بھی زبان و ادب کا مزاج ہوتا ہے مذہب نہیں۔
اسی ضمن میں غالبا اندر سبھا کو بھی اردو کا پہلا ڈراما گردانا جاتا ہے۔
اندر سبھا کا موضوع عام تھا یہاں تک کہ اودھ کی گلی کوچوں میں معمولی منڈلیاں اندر کی سبھا رچا لیتی تھیں۔
جبکہ عبد العلیم نامی، حسن علی امانت کے کھیل اندر سبھا کو "رہس” (ایک قسم کا ناچ) ہی مانتے ہیں۔ آغا حسن امانت نے اٹھارہ سو باون میں اندر سبھا لکھنا شروع کیا جو ڈیڑھ سال میں مکمل ہوا اور اس کی مجلس کرنے میں بھی کم و بیش اتنا ہی وقت لگا جو ان کے بقول، بے سود رہا، وہ اور ان کے فرزند اندر سبھا کو رہس لکھتے ہیں۔ اٹھارہ سو اٹھاون کے بعد اندر سبھا رد و بدل کے بعد پھر پیش ہوا جو کامیاب رہا۔ اس کے بعد کم و بیش ہر آگے بننے والی ناٹک منڈلی نے اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ کامیابی خود ایک دلیل ہے کہ پارسی، اردو تھیٹر کو چند سالوں میں کتنا عروج دے چکے تھے۔
بعض لوگ خورشید کو اردو کا پہلا ڈرامہ کہتے ہیں جس کی وجہ شہرت، مشہور گجراتی اداکاروں کی ایک کھیل میں موجودگی تھا۔ اردو کا ڈراما، اس وقت کے مشہور گجراتی ڈراما نویس ایدل جی سے لکھوانے کی بات چلی تو ایدل جی جو اردو زبان سے ناواقف تھے انھوں نے ‘کا ماونتی’ ہندی ڈرامے سے پلاٹ اخذ کر کے گجراتی میں لکھا جس کا ترجمہ بہرام جی فریدون جی، مر زبان نے اردو میں کیا۔
یہ سارے حقائق عبد العلیم اپنی کتاب اردو تھیٹر کی تاریخ (چار جلدوں پہ مشتمل) میں بیان کرتے ہیں۔ چند اور کتابیں اس کتاب کے فوری رد عمل پر لکھی گئیں جو امانت کی اندر سبھا کو اردو کا پہلا کھیل ہونے پر دلائل دیتی ہیں یا خورشید کو، اس کے علاوہ اردو تھیٹر و ڈراما پر نصف صدی کیا گزری، اس سے ان کتابوں کے خالقوں کو نہ کچھ دلچسپی تھی نہ معلومات۔
مصنفوں کی بے تحقیق کتابیں، تھیٹر ڈرامے کے بارے میں سرسری معلومات پر بے لاگ تبصرے، یہی اس اردو ڈرامے کو عروج سے زوال میں دھکیلنے کا سبب ہیں۔ یا یہ بھی دیوار میں چننی ہوئی وہ اینٹیں ہیں جو ہر دور میں رکھنا، فرض ہوئیں، چاہے آزادی کے بعد کا دور ہو، مولوی عبدالحق کی الفہرست کی اشاعت کا دور ہو، یا ستر کی دہائی میں پی آئی اے آرٹ اکیڈمی کے قیام کا دور ہو، یا موجودہ دور میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کا دور ہو۔ ایسے میں ڈراما کیسے پنپ سکے گا جب تھیٹر ہی موجود نہ ہو یا موجود نہ رہنے دیا جاتا ہو۔ مزید برآں تھیٹر کے موضوعات کو انتہائی غیر مانوس گردایا جانے لگا جبکہ تاریخ اس کے بالکل برعکس تھی۔
انیسویں صدی میں راجہ گوپی چند، اندر سبھا کے آگے انے والے چند سالوں میں اردو ڈرامے میں تاریخی، مزاقیہ، مذہنی، طلسماتی، ملکوتی اصناف کا اضافہ ہوتا گیا، ملکوتی ڈراموں کا دور اردو ڈرامے کا سنہرا باب ہے۔ اس میں اسٹیج کرافٹ، سہولیات کا یہ حال تھا کے سو سے زائد اداکار بیک وقت اسٹیج پر ہوتے تھے اور پریوں کے غول اسٹیج پر اڑتے پھرتے نظر آتے تھے۔ جنوں کا زمین میں دھسنا، جن کا شہزادی کو اٹھا کر اڑا لے جانا۔ غائب ہونا، پیر مرد کا پہاڑ کی چوٹی پہ نمودار ہونا وغیرہ جیسے، عقل دنگ اور ماؤف کرنے والے سین جا بجا موجود ہوتے تھے۔ موسیقی، رقص جدید دنیا کے تھیٹر سے ہم آہنگ تھے۔ اداکاروں کو ایک کھیل کا ہزاروں روپیہ معاوضہ ملتا تھا، ڈراما نگار سال میں ایک ڈرامہ لکھتا تھا جو کمپنی کا ملازم ہوتا تھا۔ اردو میں ڈراما لکھنے والے کا معاوضہ دوسرے مصنفین سے کہیں زیادہ تھا۔
بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے ڈرامے میں عشقیہ سیاسی، اصلاحی، سماجی، مذہبی موضوعات بھی شامل ہوتے گئے، اردو کا پہلا کومک "شریمنت جی” گوپی چندر کے لگ بھگ تیس سال بعد آیا۔ حسب زمانہ، پچھلے ڈراموں کے پلاٹ، کرداروں میں، تبدیلیاں بھی لائی جاتی رہیں، ابتداء میں منظوم اور بعد میں نثری ڈرامے بھی شامل ہوئے۔ تبلیغی ڈرامے پھی وجود میں آئے، جو پندرھویں صدی میں پرتگالیوں کے ساتھ آئے، اور جدید تھیٹر کی ہندوستان میں بنیاد رکھنے کا سبب بنے تھے۔ مختصر ڈراموں کا دور شروع ہوا، تو اسکولی، ریڈیائی، ایک ایکٹ ڈرامے (یک بابی) بھی متعارف ہوئے۔ موضوعات کی بھرمار کا یہ حال تھا کہ انگریز تک کو نہ بخشا گیا، البرٹ بل، سودیشی تحریک، غریب ہندوستان، مسلم ہندو اتحاد، گاؤ کشی، چیچک پر ٹیکہ لگوانے کے فوائد، مالی مشکلات، بینک کی اہمیت، بزرگ ریش کی پندرہ سالہ لڑکی سے شادی۔ نوجوانوں میں بے راہ روی، عورتوں کے مسائل ان کی عادات و اطوار تک، خامہ فرسائی کی گئی۔ جبکہ ایرانی، فارسی، بنگالی، انگریزی و مغربی تراجم بھی ساتھ ساتھ پیش ہوتے تھے۔ یہاں تک ہوتا کہ کوئی غیر مانوس کردار ہوتا تو ہدایت کار و اداکار اسے مقامی لب و لہجے میں ڈھال لیتے تھے۔
تھیٹر کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ اس میں موضوعات انتہائی غیر مانوس ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات اب واقعی درست رہی! ظاہر ہے یہ سوال فلمی دنیا کے بعد کا ہے جب ہی یہ موازنہ کیا گیا۔ حیرت یہ ہے کہ یہ سوال اس پاکستان میں اب تک جوں کا توں موجود ہے جبکہ تھیٹر، سنیما، ٹیلیوژن دنیا میں ترقی کی معراج پہ خود ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور فن اظہار کا الگ الگ زریعہ سمجھے جانے لگے ہیں۔ ایسے میں یہ اور اس طرح کے کئی سطحی نوعیت کے سوالات گوگل سرچ سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
عبد العلیم نے اردو تھیٹر کی چار جلدوں کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ میں نے ان ادوار کو ایک جملہ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
1853 سے 1885 تک: اردو ڈرامے کا جنم
1886 سے 1895 تک: اردو ڈرامے کی فنی حیثیت
1896 سے 1920 تک: اردو ڈرامے کا عروج
1921 سے 1930 تک: انحطاط کا دور
1931 سے 1960 تک: ادبی مغلوبیت
(عبدالعلیم نامی اس آخری دور کے بارے میں کہتے ہیں ’’فن اسٹیج سے بالکل ناواقف ہونے کے باعث مغربی اسٹیج کی نقل کرتے ہیں نہ ڈراما پڑھتے ہیں نہ اسٹیج پر دیکھتے ہیں، البتہ سستی شہرت کا زریعۂ سمجھکر لکھتے ضرور ہیں۔‘‘ )
اردو تھیٹر کی تاریخ تو ہمیں مل گئی، لیکن ڈراما نہ پنپنے کی چند وجوہات ملیں اور چند ممکن ہے تب دریافت ہو جائیں جب میں تھیٹر اور بالخصوص اردو ڈرامے کو پاکستان میں چننی ہوئی دیوار سے نکالوں جو انارکلی نے اپنی کمزور ساخت پہ مضبوطی سے چنوائی ہے۔
دادا صاحب پھالکے نے، انیس سو تیرہ (1913) میں خاموش فلم راجہ ہریش چندر ریلیز کی۔ اس کے بعد آنے والے سال، ہندوستانی سنیما کی دینا میں سنہرا باب رقم کرنے والے تھے۔
سینما آنے کے بعد کم و بیش تھیٹر کے سارے فنی و تکنیکی ماہرین فلم کی طرف چلے گئے۔ اب جو خلا پیدا ہوا اس میں جن ڈراما نگاروں نے طبع آزمائی کی ان کے لئے یہ انحطاطی دور، مقابلے کی سطح سے بھی خالی تھا وہیں ڈراما نگار کی ناکامی کا اندیشہ بھی زیادہ تھا۔ اس دور انحطاط کی بڑی وجہ، عبد العلیم نامی نے ڈرامے میں نئے رجحانات کا فقدان، ڈراما نگاروں کی عدم دلچسپی، تھیٹر کمپنیوں کی عدم توجہی، انہی موضوعات کا گھسا پٹا استعمال ہونا، جو نصف صدی سے جاری رہے تھے، بتایا ہے۔ پیسہ لگانے والے نئے رجحانات کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ زمانہ بدل چکا تھا اب مخیر حضرات بھی کم تھے۔ ڈراما نگاروں کا معاوضہ بھی وہ نہ رہا تھا۔
اسی دور کے بارے میں عبد العلیم نامی انارکلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ کہانی کم و بیش سب کی زبان پر تھی۔ ٹیگور، اور چند مصنفین انارکلی پر کہانی لکھ چکے تھے ایسے میں امتیاز علی تاج نے انارکلی پر ڈراما لکھ دیا۔ جو کردار و مکالمے پر دوسری انارکلیوں سے بہتر مانا گیا۔ مشہور بھی ہوا۔
اب اس بات پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انحطاطی اردو ڈراما اس سے جلا پاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان کے لئے شہکار ڈراما انیس سو بتیس (1932) میں چھپ سکا۔ جس کے انتساب اور ابتدائیہ میں امتیاز علی تاج خود لکھتے ہیں کہ "اسے ایک ضمیمہ سمجھیے، طویل مگر بے معنی۔۔۔۔ میں نے انارکلی انیس سو بائیس (1922) میں لکھا لیکن موجودہ صورت میں تھیٹروں نے اسے قبول نہ کیا۔ جو مشورے ترمیم کے لئے انھوں نے پیش کئے انھیں قبول کرنا مجھے گوارہ نہ ہوا”۔
کس بنیاد پر انارکلی کو پاکستان میں تھیٹر کا شہکار ڈراما باور کرایا گیا؟
جو ڈرامے کے انحطاطی دور میں بھی ناقابل قبول تھا۔ پاکستان میں بالخصوص ڈراما و سبھا، اس کی تاریخ و روایات کو دیوار میں چنواتا گیا۔ جس نے کالج کے طالبعلم تک کو کوئی تمثیلی وابستگی کی تحریک نہ دی۔
کے- آصف انار کلی کی کہانی سے متاثر ہوئے اور مغل اعظم بنائی، کہانی میں رد و بدل کی، ڈائیلاگ اپنے علاوہ، چار اور مصنفین سے لکھوائے۔ (جن میں امن۔ کمال امروہی، احسن رضوی اور وجاہت مرزا شامل ہیں) کچھ دھول ڈراما انارکلی کی ساخت پر پڑ کر رہ گئی۔ خود مولوی عبد الحق، پاکستانی تھیٹر کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ "عبد العلیم نامی، پاکستان بننے کے فوری بعد جو ڈرامے لکھے گئے ان سے وہ معلومات درج ہونے سے رہ گئیں ان میں چند ایک اچھے ڈرامے بھی تھے۔ یہ معلومات ان تک پہنچی نہیں۔ یا رہ گئیں۔ وہ بعد میں خود اسے چھپوائیں گے۔ ابھی یہ چھاپ کر چار جلدیں اردو ڈراما مکمل کی جاتی ہیں جن کا ذکر ہو چکا ہے۔”
مذکورہ بالا ان اچھے ڈراموں کی مجھے کہیں کوئی سن گن نہیں ملی۔ اکادمی ادبیات پاکستان میں چند جلدیں دیکھیں وہاں تو معیاری کتب کا کال پڑا ہے۔ ڈراما کہاں سے ملتا۔ سو چا ببلو گرافی تو ہو گی مگر وہ بھی ندارد۔ الفہرست بھی کہیں نہیں مل سکی۔
ثقافتی مرکز لاہور اور نیشنل کالج آف آرٹس جو اٹھارہ سو پچھتر (1875) سے لاہور میں موجود تھا اس ضمن میں خاموش رہے۔ اسی زمانے میں بد راہ پیشہ خود کو تھیٹر و ثقافت کا علمبردار کہتا رہا تب بھی۔۔۔
دہلی میں نیشنل اسکول آف ڈراما انیس سو انسٹھ (1959) میں قائم ہوا جو انڈیا منسٹری آف کلچر نے بنایا۔ پاکستان میں کسی منسٹری نے کبھی اس طرف توجہ نہ کی۔
یہاں سے پاکستان میں پاکستانی کام کم اور لابی کام زیادہ ملیں گے جو ممکن ہے اس غرض سے شروع کئے گئے ہوں کہ ادبی کام چلتے رہیں لیکن آگے چل کر یہ لابی سسٹم انتہائی بھیانک شکل اختیار کرتیا چلا گیا جو اب تک ادب پہ دانت نکوستا ہے۔
تھیٹر تمثیل و سبھا عملی اقدامات کے بغیر ناکام قرار دے دیئے گئے اور ناکامی کی زیادہ وجہ مذہبی انتہا پسندی باور کرائی جاتی رہی جبکہ اسی ماحول میں انیس سو سنتالیس (1947) سے لگ بھگ انیس سو پچاسی (1985) تک فلمی دنیا عروج پہ رہی۔
لابی سسٹم سے غیر معیاری چربے، تھیٹر کی صورت متعارف ہوئے جنھیں قاری بھی بطور ڈراما قبول نہ کر سکا۔
آخر میں نامی صاحب کی ایک بات، جو انہوں نے اردو ڈرامے کے عروج اور مراٹھی تھیٹر کے زوال پر لکھی تھی، اسی کو پاکستانی پس منظر کے ساتھ منطبق کر کے کہا جا سکتا ہے کہ
’’اعلی تعلیم یافتہ پنجابیوں کو اپنے جاہل ڈراما نویسوں کی کمزوریوں پر خاموش دیکھا ہے۔ اہل ادب ان سے سبق لیں میں یہ نہیں کہتا کہ وہ پنجابیوں اور بنگالیوں کی طرح خود ستائی پر اتر آئیں لیکن اس قدر بھی نہ گر جائیں کہ کوئی ان کے منہ پر کہے ’میاں اردو تھیٹر میں رکھا ہی کیا ہے ۔۔ آغا حشر، دو چار ننگے اور بس۔ اور وہ خاموش رہیں‘”۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کراچی کے بعد، کراچی میں تھیٹر کے حوالے سے خاموشی نہیں رہی۔ لیکن نوجوانوں میں تھیٹر کا رجحان پیدا ہونے کے باوجود اردو ڈرامے کی تاریخ سے لاعلمیت پائی جاتی ہے ۔ معیاری اردو ڈرامے لکھے جانے کا فقدان ہے اور اس ضمن میں ارباب اختیار خاموش ہیں۔
مذکورہ بالا مضمون اور بات کے پہلے حصے پر خاموشی کا جواب کب ملے گا؟
اتنی خود ستائی کیوں ہے؟ جو غیر معیاری کو معیاری کے درجے پر ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ اہل قلم و ہنر کب تک لابی سسٹم کی نذر ہو کر بے بہرہ گردانے جائیں گے۔
نوٹ: یہ تھیٹر مضمون پاکستانی تھیٹر کے پس منظر میں لکھا ہے۔
٭٭٭