ہماری سماعتوں اور بصارتوں پر آج کل جو لفظ سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے وہ ہے ’’دہشت گردی‘‘۔ اخبار اُٹھائیے، ٹی وی کھولئے ہر طرف دہشت گردی کا چرچہ ہے۔ حنیف ترین کو دہشت گرد کہہ کر میں ان کی شخصیت کو مشکوک کرنا چاہتا ہوں نہ مجروح۔ اردو لغت میں دہشت گردی کے جو معنیٰ ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں لیکن میرے نزدیک دہشت گردی کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے وجود کو شد و مد کے ساتھ منوانا۔ اگر آپ غور کریں تو حنیف ترین نے اپنے دھماکو افکار و خیالات، قاری و سامع کو ہلا دینے والے اسلوب اور لہجے کی گھن گرج سے دنیائے ادب میں اپنی شاعری کو جس شد و مد سے منوایا ہے، اسے ہم soft دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ ایسی دہشت گردی جس سے پیار بڑے، محبت کا پیغام عام، رشتوں میں استحکام پیدا ہو، تعلقات وسیع ہوں تو ایسی دہشت گردی کو ہم سلام کرتے ہیں۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم آرزو کرتے ہیں کہ یہ ادبی دہشت گردی مزید پھلے پھولے۔
کل رات جب ڈاکٹر حنیف ترین نے مجھ سے فون پر کہا کہ بدھ کی رات ’’ایک شام حنیف ترین کے نام‘‘ منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس اطلاع اور ہمیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت کے ساتھ انہوں نے یہ حکم بھی دیا کہ اس محفل میں آپ کو خاکہ بھی پیش کرنا ہو گا۔ ہم نے وقت کی کمی، اپنی کم مائیگی، و کم علمی وغیرہ وغیرہ جیسے کئی عذر اور بہانے پیش کئے مگر انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور تحکمانہ مگر پرخلوص لہجہ میں یہ کہہ کر فون بند کر دیا ’’کے این بھائی! آپ اس محفل میں شرکت کریں گے اور مجھ پر ایک خاکہ بھی پڑھیں گے‘‘۔ مجھے ایسا لگا کہ ہمارے کان پر فون نہیں بلکہ کن پٹی پرگن رکھی ہے اور اسی لمحے ہمارے ذہن میں اس سافٹ یا ملائم دہشت گردی کا خیال آیا اور ہم نے قلم اٹھایا اور شروع ہو گئے۔
اردو کی نئی بستیوں میں شعر و ادب کے جو چراغ روشن ہوئے ان میں حنیف ترین ایک اہم نام ہے۔ حنیف ترین کا شمار اردو کے ان شعراء میں نہیں ہوتا جنہوں نے کم عمری میں اپنے نانا کی گود میں بیٹھ کر پہلا شعر کہا تھا بلکہ حنیف ترین نے پختہ عمر میں شاعری کا آغاز کیا۔ اسی لئے ان کی شاعری پختہ اور بلیغ ہے۔ بلکہ بعض وقت تو ان کی سخن وری ایسی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں کہ اس بلندی پر نظر ڈالتے ہوئے ہم جیسے کم علموں کے سر کی ٹوپیاں گر جاتی ہیں۔ حنیف ترین جدت پسند ادیبوں کی طرح جناتی زبان میں شعر نہیں کہتے۔ ہاں وہ اپنی زبان و بیان کا معیار قدرے اونچا ضرور رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار سننے والوں کے سر پر سے نہیں گزرجاتے ہیں۔ سامعین و قارئین کے ذہنوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ حنیف ترین اچھے شاعر ہیں اور شاعری ہی کرتے ہیں۔ نعرے بازی نہیں کرتے، جس کا چلن آج کل اردو شاعری میں بڑا عام ہے۔
حنیف ترین کی شاعری کا کینوس بڑا وسیع ہے۔ ان کی شاعری ہمہ جہت موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ حنیف ترین کی شاعری میں سرور و نغمگی ہے۔ جوش و ولولہ ہے۔ صحرا کے سناٹے ہیں، شہروں کے ہنگامے ہیں، لب و خسار کی باتیں ہیں، رستے زخموں کی تصویریں ہیں، مظلوموں سے غم گساری ہے، شہیدوں کے مرثیے ہیں۔ انقلاب کے نعرے ہیں، ماضی کی فتوحات کا قصیدہ ہے، حال کی ناکامیوں کا نوحہ ہے، فلسطینی مظلومین سے اظہار یگانگت ہے، یہودی بربریت کے خلاف صدائے احتجاج ہے، برفیلی وادیوں میں اٹھتے شعلوں کا ذکر ہے، صحراؤں میں ابلتے چشموں کا تذکرہ ہے۔ حنیف ترین اپنی شاعری میں اپنے عہد کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ وہ جہاں حسن و عشق کی باتیں کرتے ہیں، وہیں ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بھی بلند کرتے ہیں۔ ملت کی بے حسی پر نکتہ چینی کرنے، قوم کو بیدار کرنے اور اس میں احساس جگانے کی جہد مسلسل ہے۔ مختصر یہ کہ حنیف ترین کی شاعری انسانی حیات اور دنیا کے حالات کا ایک مکمل احاطہ ہے۔
حنیف ترین کے اشعار ادبیت سے بھرپور اور مترنم انداز لئے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن مشاعرے میں وہ اپنے اشعار سامعین تک بڑے جارحانہ انداز میں پہنچاتے ہیں۔ جب وہ شعر سناتے ہیں تو پیچھے کی صفوں میں اونگھنے والے بھی چوکس ہو جاتے ہیں۔
حضرات! آج کل اردو کے ادیب و شعراء کی مغربی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔ اردو کی نئی بستیوں میں وہ متواتر مدعو کئے جانے لگے ہیں۔ سنا ہے ایک شاعر صاحب امریکہ کے سفر پر تھے۔ فلائیٹ میں ان کے برابر ایک امریکن دوشیزہ آ بیٹھی۔ انگریزوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سفر میں اپنے دائیں بیٹھے ہم سفروں سے بات نہیں کرتے اور ادھر شاعر صاحب بے چین تھے کہ لڑکی ان کی طرف متوجہ ہو بلکہ وہ دل ہی دل میں دعا گو تھے کہ اے مہربانوں کے مہربان، جب تو نے پہلو میں ایک مثل حور حسینہ بھیج ہی دی ہے تو اسے توفیق گفتار بھی دے۔ لیکن حسینہ تو بس اپنے مطالعہ میں غرق تھی۔ بڑی دیر صبر کے بعد شاعر صاحب نے ہمت کر کے خود پہل کی اور اسے مخاطب کیا اور دو چار رسمی سوال کر ڈالے جیسے کہاں کا قصد ہے، وہ کیا کرتی ہے، کہاں تک تعلیم پائی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حسینہ نے بڑے اختصار کے ساتھ سوالوں کے جواب تو دیئے مگر جھوٹے منہ ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کہاں سے آ رہے ہیں یا کہاں جا رہے ہیں و غیرہ۔ حسینہ نے شاعر صاحب کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ بتا سکیں کہ وہ ایک معروف شاعر ہیں۔ مشاعرہ پڑھنے امریکہ مدعو کئے گئے ہیں وغیرہ۔ چند لمحے پھر خاموشی کے گزرے۔ شاعر صاحب کی بے چین تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ پیٹ میں تجسس کی تتلیاں اُڑ رہی تھیں۔ آخر کار انہوں نے حسینہ کو پھر متوجہ کرتے ہوئے کہا میں شاعر ہوں اور مشاعرہ پڑھنے امریکہ جا رہا ہوں۔ حسینہ نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا آپ کس زبان میں شاعری کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اردو میں، حسینہ نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے پھر سوال کیا ’’اردو یہ کونسی زبان ہے‘‘؟ شاعر صاحب حسینہ کے اس سوال پر سٹپٹا گئے۔ خیر یہ تو اس حسینہ کی کم علمی تھی کہ وہ اردو جیسی معروف زبان سے ناواقف تھی۔ ویسے کہتے ہیں کہ امریکیوں کی عام معلومات کمزور ہوتی ہیں۔ خیر شاعر صاحب اور حسینہ کے درمیان آگے کیا ہوا ہم اسے یہیں چھوڑتے ہیں۔ ہم تو کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی معاملہ ڈاکٹر حنیف ترین کے ساتھ پیش نہیں آ سکتا۔ انہوں نے شاید ایسی صورت حال سے بچنے کیلئے جہاں اردو میں اپنی نو (9) تصانیف شائع کروائی ہیں، وہیں دو انگریزی اور دو عربی زبان میں بھی اپنی کتابیں شائع کی ہیں۔ لہذا اب وہ بے خطر کسی بھی انگریز پری یا عرب حسینہ کے برابر بیٹھ کر اپنے شاعر ہونے کی دھونس جما سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حنیف ترین اپنے جد امجد شاہ فتح اللہ خاں ترین کے بسائے ہوئے شہر سرائے ترین، سنبھل، ضلع مراد آباد یو پی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مختلف میدانوں میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے اپنے خاندان کا نام روشن تو کیا لیکن بڑا نہیں کیا۔ بلکہ ماں باپ کے دیئے ہوئے نام ’’حنیف شاہ خاں ترین‘‘ کو آدھا کر کے صرف حنیف ترین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ وہ بحیثیت ایک طبیب 1983ء میں سعودی عرب منتقل ہوئے اور وزارت صحت مملکت سعودی عرب سے منسلک ہوئے۔ 1885ء میں عشق شعر و ادب میں گرفتار ہوئے اور تا حال زندانِ ادب کے قیدی ہیں اور ادب سے عشق لڑانے کی سزا کے مزے لوٹ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں 30 سال کے عرصہ میں 14 تخلیقات منظر عام پر لا چکے ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ویسے دنیائے ادب میں بلا وقفہ تخلیقات منظر عام پر لانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں پہلا ابھی نہیں اور دو کے بعد کبھی نہیں کی تلقین نہیں کی جاتی۔ ویسے تخلیقات کی بہتات سے ادیب یا شاعر کی صحت پر تو اثر نہیں پڑتا، ہاں اس کی جیب پر ضرور بار پڑتا ہے، کیونکہ اردو کی کتابیں جو شائع ہوتی ہیں وہ فروخت نہیں ہوتیں۔ شاعر یا ادیب بے چارہ اپنی تخلیقات شائع کرا کر انہیں فاتحہ کی شیرنی کی طرح تقسیم کر دیتا ہے۔
حضرات! ڈاکٹر حنیف ترین تین دہائیوں کی غریب الوطنی سے نکل کر اپنے وطن واپس جا رہے ہیں، ہم انہیں غم و مسرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ الوداع کہہ رہے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ایک لمبی رفاقت کا سلسلہ منقطع ہو رہا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اپنوں سے جا مل رہے ہیں۔ غم اس بات کا ہے کہ ہم یہاں کے مشاعروں کی ایک طاقتور آواز سے محروم ہو رہے ہیں۔ مسرت اس بات کی ہے کہ اب حنیف ترین ہمہ وقتی طور پر ادب کی خدمت میں جٹ جائیں گے اور اردو ادب کو مزید مالا مال کریں گے۔ ہماری نیک تمنائیں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ ویسے اب اس عالمی قریہ میں ہم ایک دوسرے سے دور کہاں ہوتے ہیں۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی تصویر یار تو پرانی بات ہو گئی۔ آج تو ہم دنیا کے کسی بھی حصہ میں بسے ہوں ایک دوسرے سے صرف ایک کال یا ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ حنیف ترین کا پہلا شعری مجموعہ 1992ء میں ’’رباب صحرا‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ ان کی شاعری کا یہ رباب مسلسل بج رہا ہے۔ ہماری تمنا ہے کہ یہ رباب بجتا رہے، بجتا رہے، بجتا رہے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر حنیف ترین کی وداعی تقریب میں پڑھا گیا تھا۔
(ماخذ: روزنامہ سیاست، حیدر آباد)
٭٭٭