بجیا تم کیوں روتی ہو؟ ۔۔۔ مظفّرؔ حنفی

چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
للّی بابا سمجھا کر ہار گئے۔ مولانا قادر کی عمر بھر منہ نہ دیکھنے والی دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی۔ آپا نے جو فیصلہ کر لیا تھا اس سے ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ ان دنوں گھر میں آئے دن ایک ہنگامہ برپا رہتا تھا۔
’’ بی بی۔!‘‘
’’اے ہے۔ کچھ کہو گی بھی۔؟‘‘
’’ میں کہتی بی بی! تم یہ تو سوچو‘‘یہ بیٹا کی جندگی بھر کا سوال ہے۔ جمال میاں میں ایسے کہاں کے لعل ٹکے ہیں جو ۔۔ ۔۔ ‘‘
’’ اے بی بی! اب بس کرو۔ ‘‘ آپا فوراً بھڑک اٹھتیں۔ ’’ قاضی جی دبلے کیوں، شہر کے اندیشے میں۔ لڑکی میری ہے۔ مجھے تم سے زیادہ اس کی بہتری کی فکر ہے۔ میں سب سمجھتی ہوں تم لوگوں کی چالیں۔ چاہتے ہیں کسی طرح یہ شادی نہ ہونے پائے۔ لڑکا اچھا ہے تو بُرا ہے تو، اب یہ شادی تو ہو کر رہے گی!‘‘
’’ لیکن میری بھی تو سنو۔ ‘‘
’’نا رجبن بہن! اس معاملے میں کسی کی نہیں سننے کی ہیں۔ بھلا تم ہی سوچو۔ تین سال سے تم سے کسی بھلے گھر کے لڑکے کے لیے کوشش کرنے کو کہتی تھیں اس وقت تو کسی کے کان پر جوں نہ رینگی اور اب جو ایک بڑے گھر سے پیغام آ گیا ہے تو سب کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگے۔ ‘‘
’’اے بہن! مجھے کیا کرنا ہے۔ ‘‘رجبن کو بھی تاؤ آ جاتا۔ ’’ میں نے سوچا تم ہی بعد میں کہو گی کہ کسی نے بتایا نہیں سو آج فرض ادا کر دیا۔ اب تم جانو تمھارا کام جانے۔ ‘‘
وہ اپنی شلوار سنبھالتی چل دیتیں۔
’’ ممانی سنتی ہو۔؟‘‘
’’ کیا ہے بھئی۔؟‘‘
’’ ممانی! سارے گاؤں میں اسی بات کا چرچا ہے۔ تم کو سوجھی کیا ہے۔؟‘‘
اور آپا دوپٹے میں گوٹا ٹانکنا چھوڑ کر اپنا ما تھا ٹھونکنے لگیں۔
’’ ہائے اللہ! میں کیا کروں؟جس کو دیکھو بد شگونی کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب لوگو میں پوچھتی ہوں کیا کوئی مجھ سے زیادہ میری لڑکی کو چاہتا ہو گا؟ یا میں جان بوجھ کر اپنی لڑکی کو کنوئیں میں دھکیل دوں گی۔؟‘‘
’’ بس تم اسی طرح بگڑنے لگتی ہو۔ ‘‘ شاکرہ باجی کہتیں۔ ’’ ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اتنے لوگ منع کرتے ہیں اس شادی سے تو آخر کچھ تو بات ہو گی۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں میں سب سمجھتی ہوں۔ ‘‘ آپا کی آواز بتدریج بلند ہوتی جاتی۔ ‘‘ ڈاکٹر سلیم کے گھرانے کو کون نہیں جانتا۔ خالص سید ہیں، اپنے گھر کے کھاتے پیتے ہیں۔ رہی بات لڑکے کی تو میری سمجھ میں نہیں آتا اس میں کیا کج ہو سکتا ہے؟پڑھا لکھا ہے۔ فوج میں نوکر ہے۔ خدا نخواستہ اگر کوئی جسمانی کج ہوتا تو سرکار اندھی نہیں کہ بھرتی کر لیتی۔ نوکری سے پہلے ڈاکٹری معائنہ ہوتا ہے۔ ہاں۔ ‘‘
’’ بھئی ہم نے تو سب سے یہی سنا ہے کہ لڑکا ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘
’’ اے ہے! اس لڑکی کو کیسے سمجھاؤں؟ بیٹی آج کل اچھے لڑکے بہت کم ملتے ہیں لڑکیوں کی بھرمار ہے اس لیے ایک اچھی جگہ رشتہ ہوتے ہوئے دیکھ کر سبھی کو جلن ہوتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ بھیڑ مار کر کسی طرح شادی رکوا دیں۔ اب سے دور پار اگر میں آج اُن کو جواب دے دوں تو یہی لوگ جن کو آج لڑکے میں کیڑے نظر آتے ہیں، کل کو شہد کی مکھیوں کی طرح لپکیں گے اپنی اپنی چھوکریاں لے کر۔ ‘‘ اور ایک دن تو میری بھی شامت آ گئی۔
’’ آپا۔!‘‘
’’ یا خدا۔ ‘‘ وہ پھر اپنا سر ٹھونکنے لگیں۔ اس لڑکی کا چت کام میں نہیں لگتا۔ شادی کے دس دن رہ گئے ہیں سارا انتظام کرنا ہے اور اس سے اب تک ایک دسترخوان نہیں تیار کیا گیا۔ آپا آپا کر کے میرا دھیان الگ بٹاتی ہے۔ ‘‘
’’ ٹانک تو رہی ہوں ستارے اس میں۔ ‘‘ میں روندھی ہو کر کہتی۔ ‘‘ تم تو چاہتی ہو منہ میں ٹانکے لگائے بیٹھی رہوں۔ ‘‘
’’ اے لو! یہ پگلی ٹسوے بہانے بیٹھ گئی۔ بول نا، کیا کہتی ہے؟ ‘‘ وہ کچھ پگھلتیں۔
’’ یہ طرح طرح کی افواہیں کیسی سنائی پڑتی ہیں؟ لوگ کہتے ہیں جمال بھائی کے پاؤں میں رعشہ ہے!‘‘
’’ اے چپ لڑکی! تیرے منہ میں خاک۔ ‘‘ اور اسی پر بس نہ کر کے وہ پیٹھ پر ایک ہتھڑ جما دیتیں اور میں اوئی اللہ کر کے رہ جاتی پھر میں اور میری سہیلیاں بجیا کو سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ بجیا مجھ سے وہ ہی سال بڑی تھیں اس لیے کوئی جھجک ایسی بات کرنے میں محسوس نہ ہوتی۔
’’ بجیا! بجیا! تم نہیں کر دینا اچھا! جب وکیل پوچھنے آئیں۔ ‘‘ اور بجیا سر جھکائے یہ بڑے بڑے آنسو روئے جاتیں۔ لوگ باگ جنھیں بجیا سے ایک معصوم و مظلوم لڑکی سے ہمدردی تھی، آپا کو سمجھا کر ہار گئے۔ لیکن وہاں تو دل میں یہی خیال گھر کر گیا تھا کہ حاسد لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی لڑکی اتنے اچھے خاندان میں بیاہی جائے اس لیے بہکاتے ہیں۔ ہزار باتیں کہتیں اپنے فیصلے کے جواز ہیں۔
’’ نا بہن!شریفوں کی زبان ایک ہوتی ہے۔ ایک بار ہاں کہہ دی سو کہہ دی۔ ‘‘
کبھی کہتیں۔ ‘‘ وہ تو لڑکے والے پہلے ہی کہتے تھے کہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے کسی کی باتوں میں نہ آنا۔ میں کانوں کی اتنی کچی نہیں ہوں۔ یہ شادی ہو گی۔ ہو گی ہو گی!‘‘
اور ہمارے ابّو میاں پر دیس میں تھے۔ اپنی تجارت میں مشغول۔ کارو بار چھوڑ کر وہ لڑکی کی شادی جیسے حقیر مسئلے میں اپنا قیمتی وقت کیسے برباد کرتے؟ پھر ان کی وضعداری بھی تو کوئی چیز تھی۔ مثالیں دیتے تھے لوگ انھوں نے صاف صاف لکھ دیا لڑکی آپا کی ہے جو چاہیں کریں۔ فرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ جوان جہان لڑکی کو زیادہ دن بٹھائے رکھنا معیوب بات ہے۔ نکاح کے دن وہ بھی آ جائیں گے۔
اور اس طرح یہ گاڑی اس عمیق غار کی طرف بڑھتی رہی جس میں گرا کر بجیا کو سسکا سسکا کر زندہ رکھنا تھا۔ اور میں نے اور میری سہیلیوں نے روتی بلکتی بجیا کے کان کھا ڈالے۔
’’ بجیا نہیں کر دینا اچھا!‘‘
’’ شرم کی کیا بات ہے بجیا۔ تم کو ہماری قسم!‘‘
’’ تم ذرا سی گردن بھر ہلا دینا ہم لوگ کہہ دیں گے بجیا کو منظور نہیں۔ ‘‘
’’ یہ عمر بھر کا سودا ہے بجیا۔! عمر بھر کا!‘‘
اور بجیا کی سسکیاں اور بڑھ جاتیں اور ہمارے ننھے ننھے دل اور زور سے دھڑکنے لگتے۔ ہائے اللہ کیا ہو گا اب؟
چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مہدی بھیا اور جنو چچا جب نکاح کے وقت بجیا کی منظوری لینے آئے تو انھوں نے سر ہلا دیا۔ نہیں، میں نہیں۔ ہاں کہہ کر!
اور ہم سب سہیلیاں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ میراثنیں کاہے کو دینی بدیس دردناک لے میں گاتی رہیں اور بجیا شہنائیوں کے غمناک سروں کے درمیان ڈولی میں سوار کر دی گئیں اور سب نے دروازوں اور جھروکوں سے جھانک جھانک کر دیکھا گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے دولھا کے پیر بُری طرح ڈگمگا رہے تھے۔ اور آپا نے چمکتی ہوئی آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ کہا۔
’’ میں نے نے پہلے ہی رمضان سے کہا تھا کہ نگوڑے جوتے چھوٹے پڑیں گے دولھا میں کے پاؤں میں!‘‘
۔۔ ۔۔ ۔۔
اور اب تین سال بعد گھر میں میری شادی کے ہنگامے برپا ہیں بجیا حیران ہیں کہ کیا کریں؟ شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ گھر واپس آ گئی تھیں۔ کبھی واپس نہ جانے کے لیے۔ ہمارے دولھا بھائی کے نہ صرف پیر ہی میں رعشہ تھا بلکہ دماغ بھی کچھ ڈھیلا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع میں ان کے بھائی ڈاکٹر سلیم نے سفارش کر کے انھیں فوج میں بھرتی کروا دیا تھا۔ شاید کسی افسر کے ویٹر تھے۔ ڈسچارج ہونے پر ان کی اماں اور بھائی کو شادی کی فکر ہوئی چنانچہ جال میں بے چاری بجیا پھنسیں۔ پھر کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر سلیم کی پہلی بیوی مر گئیں اور دوسری جگہ جہاں ان کی شادی ہوئی وہ محترمہ ایک ہی چالاک تھیں لہٰذا انھوں نے کان بھر بھر کر ڈاکٹر صاحب کو بھائی اور اماں سے الگ کر دیا دولھا بھائی پیروں اور دماغ کی کمزوری کے باعث کسی کام کے نہ تھے خرچ چلتا تو کیسے؟
دوسرے تیسرے ماہ ڈاکٹر صاحب کو رحم آتا تو کچھ دے دیتے جس میں رو رو کر گزر ہوتی۔ ایسے سرد ماحول میں نزلہ عضو ضعیف بجیا پر ہی گرا اور وہ میکے پہنچا دی گئیں۔
’’ابو میاں!کیا انسان صرف کھانے پہننے کے لیے پیدا ہوا ہے؟‘‘
’’ اے بوا! ہم نے صبر کیا۔ اللہ بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
آپا تم اب صبر کے سوا کر ہی کیا سکتی ہو۔؟ لیکن بجیا بے چاری کیا کریں؟لیکن فی الحال تو بجیا کی حیرانی ان کی اپنی نہیں، میری وجہ سے ہے کل ہی تو انھوں نے مجھے کلیجے سے چمٹا کر اور رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔
’’ شمو آپا کو کیا ہو گیا ہے؟ اور شمو یہ ابو میاں نے کانوں میں تیل کیوں ڈال رکھا ہے؟‘‘
’’ بجیا کچھ بتلاؤ تو؟میرا جی ہولتا ہے!‘‘
’’ کچھ نہیں۔ ‘‘ وہ آنسو پونچھ کر سسکیاں لیتی ہوئی مانجھے خانے سے باہر چلی گئی تھیں اور آج پھر صبح سے مانجھے خانے میں بیٹھی سسک رہی ہیں۔ میں جانتی ہوں ان کے دل کا چور۔ کتنا ظلم ہے کہ وہ مجھے چمٹا کر تسکین بھی نہیں دے سکتیں اپنے دل کو۔
اس بار آپا نے پچھلے تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے تمام پیش بندیاں کر لی ہیں۔ میرے لیے بر تلاش کرتے ہوئے انھوں نے جو احتیاط برتی ہے اس کی بھنک میرے کانوں میں پڑ چکی ہے۔ انھوں نے خاص طور پر ایسا بر ڈھونڈھا ہے جس کے پیروں میں رعشہ اور دماغ میں خلل نہ ہو، جو دولتمند ہو، جس کی دولت میں حصہ بٹانے کے لیے کوئی بھائی یا رشتہ دار نہ ہو۔ جس سے شادی کے بعد مجھے مائکے نہ بیٹھنا پڑے۔ جو مجھے بڑے لاڈ پیار سے رکھے۔
اور بجیا پھر بھی بلک بلک کر رو رہی ہیں۔ مجھے اُن کے رونے پر ہنسی آتی ہے۔ بجیا تم کیوں روتی ہو۔ یقین رکھو بجیا! تمھاری شمو رونے اور سسکنے کے لیے نہیں پیدا ہوئی۔ بجیا یہ تو تمھاری اپنی کمزوری تھی۔ ایک بار سر ہلا کر ہاں کہنے کا خمیازہ تم اب تک رو رو کر بھگت رہی ہو اور شاید عمر بھر بھگتو گی۔ لیکن میری طرف سے مطمئن رہو بجیا۔ چپ رہو بجیا۔ تم نہ روؤ۔ میں تمھارے ان مقدس اور مظلوم آنسوؤں کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ مجھے رونا پسند نہیں ہے۔
یقین رکھو جب نکاح خوانی کے وقت لوگ میری منظوری لینے آئیں گے تو میں صرف سر ہلا کر نہیں کہہ دینے پر ہی اکتفا نہیں کروں گی بلکہ سب کے سامنے صاف صاف کہہ دوں گی کہ لوگو مجھے اس دمہ کے مریض، ساٹھ سالہ لکھ پتی سے شادی کرنا منظور نہیں، جس کے ساتھ میری سوتیلی ماں مجھے مارنا چاہتی ہے۔
ہنسو بجیا! ہنسو!
ہائے اللہ! بجیا تو اب بھی رو رہی ہیں!!
(۱۹۵۴ء)
٭٭
ماخذ: اینٹ کا جواب: مظفّرؔ حنفی
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے