غزل ۔۔۔ فقیر محمد خاں گویاؔ

 

نیم بسمل کی کیا ادا ہے یہ

عاشقو لوٹنے کی جا ہے یہ

 

شب وصل صنم ولا ہے یہ

بوسے ہونٹوں کی لے مزا ہے یہ

 

دل کو کیوں پائمال کرتے ہو

نہ تو سبزہ ہی نہ حنا ہے یہ

 

کاٹ کر سر لگائیے ٹھوکر

قتل عاشق کا خوں بہا ہے یہ

 

دود دل کیوں نہ رشک سنبل ہو

آتش حسن سے جلا ہے یہ

 

زلف میں کیوں نہ دل رہے بیدار

لیلۃ القدر سے سوا ہے یہ

 

آنکھیں اس کی سیاہ ہیں از خود

توتیا کس کا توتیا ہے یہ

 

کیا ہے نام خدا ہے میرا صنم

بت جسے کہتے ہیں خدا ہے یہ

 

زلف میں دل مدام رہتا ہے

دیکھنا کس کے سر چڑھا ہے یہ

 

در پہ نالاں جو ہوں تو کہتا ہے

پوچھو کیا چیز بیچتا ہے یہ

 

چومتا ہوں میں اپنے دل کے قدم

بوسۂ یار کا گدا ہے یہ

 

دفن مسجد میں میرے دل کو کرو

طاق ابرو پہ مر گیا ہے یہ

 

طاق ابروئے یار کو دیکھوں

عین کعبے میں التجا ہے یہ

 

قد جاناں نہیں قیامت ہے

زلف جاناں نہیں بلا ہے یہ

 

گو صنم مردے زندے کرتا ہے

کون کافر کہے خدا ہے یہ

 

ہو شہادت نصیب گویاؔ کو

فدوی شاہ کربلا ہے یہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے