نِنانوے آنکھوں والی ۔۔۔ اسد علی

وہ ایک عجیب عورت تھی۔ عورت کبھی اپنا محبوب نہیں چُنتی۔ عورت کی تخلیق تو آدم کی پسلی سے کی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے۔ اس کا محبوب اس کی پیدائیش سے پہلے ہی اس کے لئے چُن لیا گیا ہے۔ جیسے ایک سالمن مچھلی ہزاروں سالوں کا سفر کر کے اپنی جنم بھومی پر پہنچتی ہے ایسی ہی عورت بھی سفر کرتی ہے۔ اس کی نظریں اپنے گرد قافلہ در قافلہ جاتے لوگوں کو دیکھتی ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے محبوب تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر عورت مگر اتنی خوش نصیب کہاں ہوتی ہے۔ وہ جن کی آنکھیں اس دنیا کی چکاچوند نے چندھیا ڈالیں، وہ جن کے کان زریں ملبوسات کی کھنک اور سکوں کی جھنکار نے بہرے کر دیے، اشتہا انگیز کھانوں نے جن کی حس شامعہ کو مجروح کر دیا۔ وہ رک جاتی ہیں۔ سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور ساتھ ہی وہ اپنے عورت ہونے کے منصب کے دستبردار ہو جاتی ہیں۔

پر وہ عورت ایسی نہیں تھی۔ اس کی نظریں اپنے محبوب پر جمی تھیں۔ اس کا محبوب جیسے ایک پتھر میں قید تھا جسے تیشے کے ساتھ آہستہ آہستہ اس پتھر کو تراشنا تھا اور خود کو تخلیق کرنا تھا۔ اس صورت کہ جس میں اس کا رب اس کی تخلیق چاہتا تھا۔ اور اس کا تیشہ علم و حکمت تھا۔ پر وہ بڑا مفلس عہد تھا، وہ بڑا مایوس کن زمانہ تھا۔ جہاں علم اور حکمت کے سوتے محدود تھے۔ عاشقانِ علم کے پاس سوا اس کے کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ سفر کو نکلیں۔ مہنیوں، سالوں، زندگیوں اور نسلوں کا سفر۔ خانقاہوں، علما، عجائب اور لطائف کی دنیا کو دھیرے دھیرے دیکھتے ہوئے اپنے اندر کی آنکھ کھولیں اور باہر کی روشنی کے عکس میں اپنی صورت کو پہچان پائیں۔ پر اتنی بڑی کوشش کی ہمت کہاں سے لائی جائے ؟ کون اپنے پکے ہوئے کھیت چھوڑ کر سفرکو نکلے ؟ کون اپنے گھٹنوں پر ہاتھ لگاتے ہجوم کی مایوس آنکھوں کی قیمت پر خود کو ابتلا میں جھونک دے؟ کون ایک پر آسائیش، علم کے زعم سے بھری زندگی چھوڑ کر انجانے راستوں کی خاک چھانتا پھرے۔

وہ ڈرتے رہے۔ اپنے اندر کی آواز کچلتے رہے۔ گاؤں کی دہلیز سے باہر جانے کا تصورانہیں دہلائے دیتا تھا۔ یہاں اس گاوں میں وہ کوئی تھے۔ ایک اہم شخص جن کے علم اور تصوف سے متاثر ہو کر حاکمِ وقت نے انہیں یہ پورا علاقہ جاگیر میں لکھ دیا تھا۔ جہاں ان کے سینکڑوں مرید ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے رات رات بھر انتظار کرتے تھے، ان کے خطاب کو سننے کیلئے گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ جہاں ان کا ایک بڑا خاندان تھا۔ ایک ماضی تھا اور ایک بہت روشن مستقبل تھا۔ وہ اس جگہ کو کیسے چھوڑ دیتے اور وہ بھی ایک عورت کے کہنے پر۔ عورتیں تو ویسے ہی فاطر العقل ہوتی ہیں۔

’’وہ بھلا کیا جانے۔ میرا یہاں ہونا بہت اہم ہے۔‘‘

پر اس عورت میں کچھ تھا جسے نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا۔ عورت جو ان کے علم و حکمت کی باتوں سے بہلتی نہیں تھی۔ عورت جس کے سوال ایک ایسے علم، ایسی حکمت کی خبر دیتی جس کے بارے میں کتابوں میں کچھ لکھا نہیں تھا۔ قرآن کی آیات پر اس کا کہا ایک جملہ معانی کے ایسے جہاں کھولتا نظر آتا تھا جس کے سامنے انہیں اپنا آپ چھوٹا نظر آنے لگتا۔ وہ گھبرا کر کوئی مذاق کر ڈالتے، نظریں چرا لیتے، خود کو مریدوں میں گھیر لیتے، مریدوں کے ساتھ دورے پر چلے جاتے۔ وہ یہ سب کچھ کر گزرتے کہ کسی طرح بھی اس ایک کھڑکی کی دوسری طرف جھانکنے سے بچ سکیں۔ پر اس عورت سے بچنا آسان نہیں تھا۔ وہ ان کے خون میں رہتی تھی۔ ان کی سوچوں کو پڑھتی تھی، ان کے خوابوں کو دکھانے اور بدلنے کی طاقت رکھتی تھی۔ اس کی اس بے انتہا طاقت کے سامنے وہ خود کو مجبور پاتے تھے پر کیا کرتے؟ کیا اس کے لئے اپنے خدا کو چھوڑ دیتے؟ خدا جو انہیں صدیوں کی کڑیوں میں بُنے ہوئے ورثے کی صورت ملا تھا۔ بچپن سے جو درس انہیں کتابوں میں گھول کر پلا دیا گیا تھا کہ خدا ڈھونڈنے کی چیز نہیں۔ خدا تو بس اطاعت کرنے کی چیز ہے۔ خدا بندے پر مہرباں ہوا اور اسنے اپنے محبوب کے ہاتھ اسلام کو بہترین دین کی صورت میں بھیج دیا۔ بہترین کے بعد بھلا کس شئے کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟ انہیں تو بس اطاعت کرنی تھی، عبادات کرنی تھیں، معاملات صحیح رکھنا تھے، لوگوں کی مدد کرنا تھی اور بس۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر اس کے بعد جنت اور ان کے بیچ بھلا کیا رہ جاتا؟

وہ دنیا میں کسی بھی دوسرے کو ہزاروں دلیلیں دے سکتے تھے پر اسے کیا کہتے جو ان کی روح میں ناچتی بے چینی کو ان سے بہتر دیکھ سکتی تھی۔

’’تم بھلے صحیح کہتے ہو گے مگر پھر اطمینان کیوں نہیں ہے ؟ تمہارے اندر یہ بے چینی کیوں ہے؟‘‘

اور اس سوال کا کوئی جواب شاہ صاحب کے پاس نہیں تھا۔ انہوں نے پوری زندگی اپنے بزرگوں اور ہم عصروں کو اسی زندگی میں بلکہ ان کی زندگی سے نسبتا کم کوش زندگی میں بہت پرسکون دیکھا تھا۔ یہ تو وہی راستہ تھا جو ان کے بزرگوں کا تھا تو پھر سکون کیوں نہیں تھا؟ ایک دن تنگ آ کر انہوں نے یہ سوال اپنی بیوی سے بھی کر ہی ڈالا۔

’’کیوں کہ تم وہ نہیں ہو۔ تم تم ہو۔ بندہ یہ کیوں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے رب کا اس سے کوئی خاص تعلق بھی ہو سکتا ہے۔ ہزار زاغوں کے بیچ پلتا عقاب اپنی سرشت سے نا آشنا نہیں رہ سکتا۔‘‘

’’تو چاہتی ہے کہ میں اپنے باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دوں؟‘‘

’’کیا یہی بات آذر نے نہ کی تھی؟ کیا یہی بات کفار مکہ نہ کیا کرتے تھے؟‘‘

’’وہ زمانہ جاہلیت کی بات تھی۔ اب حق آ چکا ہے۔‘‘

’’حق آ گیا تو پھر باطل مٹتا کیوں نہیں؟ شاہ جی! تیرے دل کو سکون کیوں نہیں ملتا؟‘‘

وہ لاجواب ہو کر گھر سے باہر چلے جاتے۔ کھیتوں سے پرے دریا کے کنارے بیٹھ جاتے۔ رات گہری ہوتی تو اونچی اونچی آواز میں نعتیں پڑھتے۔ پڑھتے پڑھتے ان کا گلا رندھ جاتا۔ نبی کی محبت انہیں مہرباں ماں کی طرح ڈھانپ لیتی۔ وہ وہیں سبزے پر روتے روتے سو جاتے۔

فاطمہ بی بی کے والد ایک زمیندار تھے۔ ان کی ماں ہندو تھی لیکن اس نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے گھر میں اب کوئی بت نہیں تھے پر فاطمہ دیکھتی کہ اب بھی راستے پر چلتے چلتے اس کی ماں کبھی کسی برگد کے درخت، کبھی کسی پہاڑ کو دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتی۔ وہ کچھ کہتی نہیں تھیں پر ایک تڑپ جو ان کے دل میں ہوتی۔ تڑپ جسے صرف فاطمہ دیکھ سکتی تھی۔ وہ بہت چھوٹی تھی۔ وہ اس وقت بہت کچھ نہیں جانتی تھی۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ دوسرے لوگ اس کی مانند دل کی تڑپ دیکھ نہیں سکتے۔ وہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ کیسے اردگرد کے لوگوں میں کسی کو شائبہ بھی نہیں تھا کہ فاطمہ کی ماں کے دل میں اب بھی بتوں کی محبت تھی۔ پر جیسے جیسے اسے پتہ چلتا گیا ویسے ویسے اس کے دل میں اپنی ماں کی محبت بڑھتی گئی۔ اسنے ماں کی تڑپ کو سمجھنے کیلئے دنیا کو دیکھا۔ بھیڑ کے دل کو دیکھا اور بھیڑیے کے دل کو دیکھا۔ جب بھیڑ اور بھیڑیے کا دل، ان کے خواب ایک نہیں ہو سکتے تو پھر ہم سب انسانوں کو ایک ہی چھڑی سے کیسے ہانک سکتے ہیں ؟ اس کے سوال بڑھتے رہے۔ وہ بے دھڑک ہوتی گئی۔ اسے لگا کہ ان سوالوں کے جواب اسے کتابوں میں نہیں ملنے کے چاہے وہ قرآن و حدیث سی مقدس کتابیں کیوں نہ ہوں۔ اسے اپنی جگہ پہچاننی ہے تو اسے فطرت کے قریب ہونا ہو گا۔ ایک جوہڑ کے کنارے کھڑے ہو کر مینڈک کو چھلانگیں لگاتے دیکھنا علم کا ایک پہلو ہے۔ پر بس ایک پہلو۔ جوہڑ کو مینڈک کی آنکھ سے دیکھنا ہمیں حقیقت کے ایک اور ہی پہلو سے روشناس کراتا ہے۔ یہ نکتہ آغاز تھا اور پھر اس کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں۔ ایک مینڈک کی آنکھ، ایک چیل کی آنکھ، چھوٹی چھوٹی درزوں میں گھسنے والی چھپکلی کی آنکھ، جن کی آنکھ۔۔ رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں کھلنے لگیں یہاں تک کہ اس کی ننانوے آنکھیں کھلی تھی جن سے وہ اپنی حقیقت کو دیکھتی تھی۔

ایک منظر جو وہ اپنی ننانوے آنکھوں سے بھی نہ دیکھ پائی وہ وہ منظر تھا جو اسے اس کے استاد نے دکھایا۔ کہا جاتا ہے کہ جب سالک تیار ہوتا ہے تو مرشد اسے خود عطا کر دیا جاتا ہے۔ اور ہم ناداں مرشدِ کامل کی تلاش میں گلی گلی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ فاطمہ بی بی نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اپنی تلاش کو اپنے اندر کے سوالوں سے شروع کیا، اپنے اندر کی بے چینی سے آغاز کیا اور ایک دن ایسا آیا جب اس کے استاد کو اپنا مسکن چھوڑ کر اس کی دنیا میں آنا پڑا۔ اس کا ہاتھ تھام لیا گیا اور پھر سفر آسان ہو گیا۔ سفر تو شائید مشکل ہو گیا مگر اسے سمت مل گئی اور تب اسنے جانا کہ اس کی یہ ساری صلاحیتیں بے معنی نہیں تھیں۔ وہ چُنے ہوئے لوگوں میں سے تھی۔ وہ جسے نسل در نسل ایک بوجھ اٹھائے ہوئے چلنا تھا۔ ایک امانت کا بوجھ۔

شاہ جی کے دل میں ایک بڑی اچھائی تھی مگر بدقسمتی سے یہ اچھائی ان کی طاقت بننے کی بجائے ان کی کمزوری بن گئی تھی۔ انسان کو طاقت اسلئے عطا نہیں ہوتی کہ وہ اس کے گرد پہرے بٹھانا شروع کر دے۔ اس طاقت کو فصیلوں میں محفوظ کر لینے کی سعی میں ہلکان ہوتا پھرے۔ انسان کو طاقت اسلئے ملتی ہے کہ وہ اس کے پر بنا کر ان منہ زور ہواؤں کے مقابل اڑنے کو تیار ہو جائے جن کی آواز سے ہی دوسرے لوگ کانپ کانپ جاتے ہیں۔ طاقت اسلئے عطا ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کمزوروں کا نگہبان بن سکے۔ علم اسلئے عطا ہوتا ہے کہ کم علم اور کمزور لوگوں کو اٹھانے کے کام آئے۔ ایسی قیمتی تلوار کا کیا فائدہ جو کمزوروں کی نگہبانی تو نہ کرے الٹا اسی کو چوری سے بچانے کی خاطر دو دو محافظ رکھنا پڑیں؟ ہم لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے کہ فطرت کو انفرادی لوگوں کی رتی بھر بھی پروا نہیں ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سولی پر منصور حلاج چڑھتا ہے یا جنید بغدادی۔ ہاں انا الحق کا نعرہ لازم ہے۔

تو شاہ جی کے دل میں ننھے سے چراغ کی مانند ایک اچھائی تھی۔ اب ضرورت تو اس بات کی تھی کہ وہ اپنے اس چراغ کو لے کر چنگھاڑتے اندھیروں کی گود میں اتر جاتے۔ ان اندھیروں میں جن کی بے رحم گود نجانے کتنے دوسرے مہم جووں کو کھا گئی جن کے پاس اپنے جنون سے سوا کوئی شئے نہ تھی۔ پر وہ ڈر گئے اور اسی چراغ کی حفاظت میں جُت گئے۔ انہیں لگا کہ وقت کی آندھیوں نے اگر یہ چراغ بجھا دیا توکہیں ان کی دنیا، ان کی چھوٹی سی دنیا بھی اندھیر نہ ہو جائے۔ انہیں کوئی کیسے بتاتا کہ بستی کی ہر کٹیا میں بھلے کتنے ہی چراغ دبکے رہیں مگر وہ نگری اندھیر نگری ہی رہے گی۔ کسی کو راستہ نہیں ملے گا۔ لیکن جیسے ہی کٹیا کے دروازے کھلیں گے توروشنی کی چھوٹی چھوٹی درزیں پوری بستی کو روشن کر دیں گی۔ اتنا روشن کہ دور دیس کو جاتے جگنوؤں کے قافلے بھی یہاں کچھ دیر سستانے میں فخر محسوس کریں گے۔ اور کسے خبر کہ بستی کے ہر گھر میں ہی ایک چراغ دبکا ہو؟

ایک اور بات جو شاہ جی شاید بھول رہے تھے کہ یہ اچھائی، یہ روشنی ان کی اپنی حاصل کردہ نہیں تھی۔ یہ ان کے رب کی عطا تھی۔ جو رب عطا کرتا ہے حفاظت کا ذمہ بھی اسی کے سر ہے۔ انہیں بس بے خوف ہونا تھا۔ انہیں یہ سمجھنا تھا کہ کیسے وہ اپنی اس روشنی کے توشے پر سورج کے سوتے ڈھونڈنے کیلئے اندھیروں کی گود میں چھلانگ لگا پائیں گے۔ اس چراغ کی حفاظت کرنے والے دوسرے تھے۔ فاطمہ بی بی جیسے لوگ۔ لوگ جن کی تخلیق ہی محافظ کے انداز میں ہوئی تھی۔ ہم لوگ ہر وقت یقین یقین کی گردان دہراتے ہیں۔ قرآن میں ’’اے ایمان والو‘‘ پڑھ پڑھ کر ہمارے حلق خشک ہو جاتے ہیں پر ہم بھروسہ بہت کم کرتے ہیں۔

’’کہاں جاؤں میں؟ کس بزرگ کے در پر؟ کس آستانے پر؟ کہاں بھیجنا چاہتی ہے مجھے؟‘‘ ایک دن شاہ جی نے تنگ آ کر کہا۔

’’آپ کو کسی مدرسے، کسی خانقاہ، کسی درگاہ پہ نہیں جانا۔ جو وہاں سے ملتا ہے وہ تو ہے آپ کے پاس۔ میں ہوں آپ کے پاس۔‘‘

’’تو پھر؟‘‘

’’بہت دیر روشنی میں رہیں تو ملگجے راستوں پرکچھ نظر نہیں آتا۔ شاہ جی ایک سفر اندھیروں کا آپ کی روح پر قرض ہے۔‘‘

’’اندھیرا ہی کیوں؟‘‘

’’اندھیرا ہی تو وہ پردہ ہے جس پر روشنی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

’’عجیب بات ہے۔ پر جاؤں کہاں‘‘

’’دلی میں ارجمند نام کی ایک طوائف ہے کہتے ہیں کہ جو اس کا گانا سنتا ہے اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے، سلطان نام کا ایک ڈاکو ہے جو چمبل دریا کے علاقے میں قافلوں کو لوٹتا ہے اور اب تک ستاون لوگوں کو قتل کر چکا ہے، بنارس میں ایک جو گی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس کی کشکول میں ایک سوراخ ہے جس سے پوری کائنات۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ جو کبھی تھی اور وہ جو کبھی ہو گی سب نظر آتی ہے۔ آپ کو اس طوائف کا گانا سننا ہے، اس ڈاکو کو یہ پیغام دینا ہے کہ اللہ اب بھی اس سے نا امید نہیں ہوا اور جوگی کے کشکول سے پوری کائنات دیکھنا ہے۔‘‘

’’یہ کیسا عجیب امتحان ہے؟ طوائف کی گناہوں میں لتھڑی زندگی، ڈاکو کے خون میں رنگے ہاتھ اور ایک دیوانے کے پاگل پن کیلئے میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالوں؟‘‘

’’نہ شاہ جی! آپ یہ سفر ان کیلئے نہیں کر رہے۔ آپ یہ سفر اپنے لئے کر رہے ہو۔ آپ واپس آو گے تو میں آپ کے دل کی گرہ کھول دوں گی۔ آپ کا مقصد۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ مقصد جس سے آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ کے سامنے ہو گا۔‘‘

’’تم میرا مقصد جانتی ہو تو بتا کیوں نہیں دیتی؟‘‘

’’زمین تیار نہ ہو تو بیج ضائع نہیں کیا کرتے شاہ جی۔‘‘

بڑا مشکل راستہ تھا پر فاطمہ بی بی کو انکار کرنا آسان نہیں تھا۔ انہوں نے سوچا کہ کسی دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں۔ ایک دن وہ گھوڑے پر جا رہے تھے جس کی باگھ امام دین میراثی کے ہاتھ میں تھے۔ ساتھ میں ان کے دو معتمد مرید چلتے تھے۔ سچ کہنے کی تو وہ ہمت نہ کر سکے پر انہوں نے سفر پر جانے کا ایک آسان بہانہ بنا کر پوچھا

’’کبھی کبھی دل میں آتا ہے کہ سفر پر نکلوں اور مختلف بزرگوں کے در پر فیض کیلئے حاضری دوں۔ تم لوگ کیا کہتے ہو؟‘‘

’’آپ علم و معرفت کا سرچشمہ ہیں۔ اس علاقے کی روحانی بہبود کے ذمہ دار ہیں۔ آپ چلے گئے تو لوگوں کا کیا ہو گا؟‘‘ ایک بولا

’’آج کل راستے خطرناک ہیں۔ جگہ جگہ ڈاکوں کا غلغلہ ہے۔ بڑے بڑے کاروان لٹ جاتے ہیں تو بھلا اکیلا آدمی کہاں تک جا پائے گا؟ میری مانیں تو یہ خیال دل سے نکال دیں۔ ویسے بھی ہمارا سلسلہِ فیض روحانی ہے اور اس کا انتظام تو آپ کے بزرگوں کی صورت کر دیا گیا ہے۔‘‘ دوسرا بولا

شاہ جی خاموش ہو گئے۔ آگے گاؤں شروع ہوا تو دونوں مرید اپنے گھر کے طرف چلے گئے تو ایسے میں امام دین بولا

’’شاہ جی! جس دن بڑے میاں جی کا وصال ہوا تو میں پوری رات سو نہیں پایا۔ بڑی بے چینی تھی۔ پر پھر دیکھا تو صبح سورج اپنے وقت پر نکل آیا، چڑیاں بھی ایسے چہچہاتی رہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ کسی کے آنے جانے سے جگہوں کو فرق نہیں پڑتا ہاں جانے والوں کو پڑتا ہے۔ اگرآپ کو لگتا ہے کہ جانے میں فائیدہ ہے تو ضرور جائیں۔‘‘

’’تجھے اتنا یقین ہے اور پھر بھی یہیں ٹھہرا ہے؟‘‘

’’نہ شاہ جی نہ! میں کہاں جاوں گا بھلا؟ مجھے حق کی تلاش نہیں ہے۔ مجھے نہیں ڈھونڈنا اللہ۔ گاؤں کا جوہڑ سمندر کے خواب نہیں دیکھتا۔ میرے سفر میں ابھی بڑا وقت پڑا ہے۔ پر مجھے اپنا راستہ پتا ہے۔ مجھے ذلیخا سے شادی کرنا ہے۔‘‘

’’ارے وہ تو نری پگلی ہے۔ پورا گاوں اس کی شرارتوں سے پناہ مانگتا ہے‘‘

’’ہاں جی وہی۔ وہ بڑی تگڑی لڑکی ہے شاہ جی۔ اس میں شائید کوئی خوبی نہیں ہے پر وہ اپنے سر کے بالوں سے لے کر پاوں کے انگوٹھے تک آزاد ہے۔ مجھے اس سے شادی کرنا ہے تاکہ میری اولاد کے مقدر سے یہ غلام ابنِ غلام والی سرشت نکل جائے۔ نہ جی غلاموں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کی تلاش کریں۔ اگر رب مل گیا اور کوئی حکم ہو گیا تو یہ امام دین کیا کرے گا؟ غلام کے پیر میں تو زنجیر ہوتی ہے اور میں تو اندر تک غلام ہوں۔ میرا کچھ نہیں ہو سکتا۔ پر آپ جا سکتے ہو۔ آپ کو جانا چاہیے شاہ جی۔‘‘

*****

 

دلی کی وہ گلی اجنبیوں سے بھری رہتی تھی مگر پھر بھی یہاں کوئی اجنبی نہیں تھا۔ کنجڑے سے لے کر نانبائی تک سب ایکدوسرے کو جانتے تھے اور جانتے بھی ایسے کہ جب وہ صبح ایک دوسرے کو سلام کئے بغیر اچٹتی سے نظر ڈالے آگے بڑھ جاتے تو یہ لپک لپک کر ایک دوسرے سے گلے ملنے والوں سے کہیں زیادہ پر جوش ہوتا کہ اس کے پیچھے سالوں نہیں نسلوں سے چلتا یادوں کا قافلہ ہوتا۔ ایسی گلی میں جب ایک اکھڑ لہجے والا شرمیلا شخص خاموشی سے اس گلی میں پہنچا تو سب اسے جان گئے۔ اس طرح جان گئے کہ تانگے پر شراب لے کر جاتا شہرام خان تک اسے پلٹ پلٹ کر دیکھتا تھا جو عام حالات میں محض اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ پینتیس برس کا گھنی داڑھی والا یہ اجنبی شاہ جی تھے۔ وہ ہفتوں کے سفر کے بعد اپنی پہلی منزل دلی پہنچے تھے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے تھے اور تیل لگے بالوں کو سلیقے سے بنا رکھا تھا۔

وہ شام سے ذرا پہلے یہاں پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے پوری گلی کا ایک چکر لگایا۔ ان کے چہرے پر جہاں ایک تجسس تھا وہیں پر ایک تحقیر، ایک غرور بھی تھا۔ جیسے دل ہی دل میں کہتے ہوں کہ میں اس سب کھیل تماشے کی حیثیت جانتا ہوں۔ جیسے کہتے ہوں کہ مجھ پر تمہارے ان بچگانہ شعبدوں کا کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ ابھی شام گہری نہیں ہوئی تھی۔ بالا خانے ابھی گویا انگڑائی لے کر بیدار ہونے کی کیفیت میں تھے۔ وہ وہیں وحید کبابیے کی دکان پر بیٹھ گئے اور اسے کبابوں کی چند سیخیں لگانے کو کہا

’’کچھ کھو گیا ہے آپ کا یہاں؟‘‘ وحید نے بات کرنے کی کوشش کی۔

’’یہاں کسی کا کیا کھو سکتا ہے؟ اتنی روشنی تو میرے گاوں کے سارے چراغ جلا لیں پھر بھی نہیں ہو پائے گی۔ اتنی روشنی میں کسی کا کیا کھو سکتا ہے؟ ہاں مگر پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے جیسے یہاں آنے والے سب چاہتے ہیں کہ ان کا کچھ کھو جائے۔ ان روشنیوں کے بیچ کچھ ایسا کھو جائے جو انہیں اندھیروں میں کھوجنے کی گویا اجازت دے دے۔‘‘

’’پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو۔ ماتھے پر پڑا محراب تمہارے عبادت گذار ہونے کی خبر بھی دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنکھوں کی یہ چمک۔۔ ۔۔ ۔ یہاں بڑے لوگ آتے ہیں پر یہ چمک میں نے نہیں دیکھی۔ پر جس کے پاس یہ چمک ہو وہ بھلا یہاں آئے ہی کیوں؟‘‘

’’بازار سے گزرنے والا ہر شخص خریدار نہیں ہوتا‘‘

وحید نے کباب ان کے سامنے رکھ دیے۔

’’ہم دکاندار اس معاملے میں بڑے خصیص ہوتے ہیں صاحب۔ ہمارے لئے بازار یہ چند رنگین موتی، یہ ریشم کے تھان یا پھر کبابوں کی اس انگیٹھی کا نام نہیں ہے۔ بازار ہم نہیں ہیں بازار آپ ہیں۔ بازار تو جیسے ایک دریا کا نام ہے جس میں آپ جیسے صاحب گزرتے ہیں اور ہم اپنی چھوٹی چھوٹی ڈوریاں، چھوٹے چھوٹے آنکڑے لئے آپ پر پھینکتے رہتے ہیں۔ دریا میں پھینکی گئی ہر ڈوری پر مچھلی نہیں پھنستی صاحب پر دریا چلتا رہے تو مچھیرے بھوکے نہیں مرتے۔ جب تک آپ سے لوگ جو خریدار نہ ہوتے ہوئے بھی بازار سے گزرتے رہیں گے ہمارا دھندہ چلتا رہے گا۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی آنکڑہ تو اس مچھلی کو اپنی گرفت میں لے ہی لے گا۔‘‘

’’آدمی سمجھدار ہو اور کباب اس سے بھی اچھے بناتے ہو۔ پر وہ مچھلی جس کی نظر سمندر پر جمی ہو وہ تمہاری ڈوریوں کی گرفت میں کبھی نہ آئے گی۔‘‘

’’نہ جی نہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مچھلی جو مرضی خواب دیکھ لے پر حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔ دریا کی مچھلی کبھی سمندر میں نہیں پہنچ سکتی اور اگر پہنچ بھی جائے تو کڑوے پانیوں میں چند لمحے بھی جی نہ پائے۔ سمندر انہی مچھلیوں کیلئے ہے جنہیں رب نے سمندر میں پیدا کیا۔ دریا والی مچھلیوں کے نصیب میں تو بس سفر ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا سفر۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے جیسے بس اس نہ ختم ہونے والے سفر کے تصور سے ہولا کر ہی مچھلی جان بوجھ کر مچھیرے کی ڈوری پر جھپٹ پڑتی ہے۔ چاہے اس ڈوری کے سرے پر کلبلاتے کیچوے سے اسے گھن ہی کیوں نہ آتی ہو۔‘‘

شاہ جی مسکرانے۔ ان کی مسکراہٹ میں ایک بہت خوبصورت بات تھی، ایک سکون جیسے دور پہاڑوں کے بیچ بہتے جھرنوں میں ہوتا ہے۔

’’یہاں ارجمند بائی کا کوٹھا کہاں ہے؟‘‘

’’لیجئے ڈوریوں کی بات کرتے کرتے آپ تو سیدھے جال تک پہنچ گئے۔ مچھلی ڈوریوں سے بچ سکتی ہے پرجال کے سامنے کوئی کھیل نہیں چلتا۔ جال لبھاتا نہیں ہے، جال سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتا۔ جال تو بس کھینچ لیتا ہے۔ جال سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ اس دن، اس جگہ سے دور رہو۔‘‘

’’دور جانا ہوتا تو اتنا قریب آتا ہی کیوں ؟ مجھے جال اور ڈوریوں سے مت ڈراو کہ میری نظر کہیں اور ہے۔‘‘

’’جال کے سامنے کچھ نہیں چلتا صاحب۔ وہ جن کی نظر کہیں اور ہے انہیں تو تڑپنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔‘‘

’’مجھے دیکھنا ہے کہ آخر اس عورت میں ایسا کیا جادو ہے جو ہوش والے اپنے ہوش کھو بیٹھتے ہیں، دولت والے اپنی ساری متاع لٹانے پر پھرتے ہیں۔ کیا وہ بہت خوبصورت ہے؟‘‘

’’آپ علم والے ہو، مقدر والے ہو، آپ کی داڑھی میں چند سفید بال بھی جھلکنے لگے ہیں پر مجھے کہنے دو کہ آپ کچھ بھی نہیں جانتے۔ وحید کباب والا زندگی کو آپ سے بہتر جانتا ہے۔ میری مانو تو واپس چلے جاؤ‘‘

’’پر ایسا ہے کیا اس میں؟‘‘

’’اس میں کچھ بھی نہیں ہے صاحب۔ وہ تو بس ایک آئینہ ہے۔ ایک آئینہ جس میں ہم سب اپنی خواہشیں دیکھتے ہیں۔ وہ بس دوسری عورتوں کی طرح ہماری خواہشوں کو گدلاتی نہیں ہے۔ اس کی اپنی کوئی انا نہیں ہے اسلئے اس کے شفاف پانیوں میں ہمیں صرف ہمارا اپنا عکس نظر آتا ہے اور ہم میں سے بھلا کون ہو گا جو اپنے ہی عکس کی محبت سے بچ سکے ؟ ہم میں سے بھلا کون ہو گا جس کے دل میں اپنے آپ کو پوجنے کی خواہش کروٹیں نہ لیتی ہو؟ وہ بس ایک آئینہ ہے پر اتنا شفاف کہ اس میں ہمیں اپنا آپ نظر آنے لگتا ہے‘‘

’’وحید بھائی آپ خوامخواہ ہی مجھے ڈرائے چلے جاتے ہو۔ میں نے یہ بازار گھوم کر دیکھا ہے، یہاں کی عورتوں کے چہرے اور جسم میرے لئے بے حقیقت ہیں‘‘

’’آپ نے اس گلی کا ایک چکر لگایا ہے اور میری تین نسلیں اسی گلی میں کھیلتے جوان ہوئی ہیں۔ آپ نے کہا کہ عورتوں کے چہرے اور جسم آپ کیلئے بے حقیقت ہیں پر ان کی حقیقت بھلا ہے بھی کیا؟ عورت کی پراسراریت اس کے حسن میں نہیں ہے، عورت کا سحر تو اس حقیقت میں چھپا ہے کہ وہ مرد کیلئے ایسا بربط بنتی ہے جس سے وہ اپنے دل سے اٹھتی دھن دنیا کو سنا سکتا ہے، عورت کا جادو اس بات میں ہے کہ وہ مرد کیلئے وہ خالی کاغذ بنتی ہے جس پر مولانا روم اپنی مثنوی تحریر کرتے ہیں، عورت کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ کھیتی بنتی ہے جس میں ہم اپنے کل کا بیج بوتے ہیں۔ انسان کے بس میں نہیں کہ وہ عورت کے سحر سے بچ پائے۔ عورت کے سحر سے بچنے کا مطلب ہے فنا ہو جانا، عمر بھی خاموش رہنا، اندھیروں میں بھٹکنا۔ نہیں صاحب عورت کے سحر سے دور صرف موت ہے۔ زندگی عورت کے سحر میں ڈوب کر تخلیق میں ہے۔ رب کا حکم بڑا واضح ہے کہ تم اپنی جان خود نہیں لے سکتے۔ تم یہ کھیل کھیلنے سے انکار نہیں کر سکتے۔ تم خود کشی نہیں کر سکتے۔‘‘

*****

 

شاہ جی فاطمہ بی بی کے کہنے پر دلی آ تو گئے تھے پر ان کے دل میں بہت واضح تھا کہ یہ سب بیکار مشق ہے۔

’’نہ مجھے عورت سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عیش و شراب سے کوئی رغبت۔ بھلا ایک طوائف مجھے کیا سکھا پائے گی؟‘‘

جب بازار میں گھومتے ہوئے انہوں نے سستے پوڈروں سے سفید کئے ہوئے چہروں اور کاجل سے بنی مصنوعی آنکھوں کو دیکھا تو یہ احساس اور بھی بڑھ گیا۔ انہوں نے پورے بازار کا چکر لگایا اور دل ہی دل میں مسکراتے رہے۔ اپنی عبادات اور صدیوں میں پختہ ہوئی عفت پر فخر کرتے رہے۔ بازار کا ایک کامیاب دورہ کر کر وہ اسی نیت سے کباب کھانے کو بیٹھے کہ کھانے کے بعد ایک چکر ارجمند بائی کے بالا خانے کا لگائیں گے اور پھر گویا ان کا کام ختم ہوا۔ اس کے بعد نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری دیں گے اور چمبل کا رُخ کریں گے۔ پر کباب والے کی گفتگو نے انہیں پریشان کر دیا۔ انہیں لگا جیسے یہ کھیل اتنا سیدھا ہرگز نہیں ہے۔

رات گہری ہوئی تو گلی موسیقی کی تانوں سے گونج اٹھی۔ طبلے اور سارنگی کی آوازوں کے بیچ گائیکاوں کی مدھر صدائیں بھی گونجنے لگیں۔ شاہ صاحب ارجمند بائی کی گلی میں کھڑے سوچ رہے تھے کہ بالا خانے پر جائیں یا نہیں۔ وہ سوچتے رہے یہاں تک کہ ایک ادھیڑ عمر شخص بڑی شائیستگی سے ان کا شانہ تھام کر انہیں اوپر لے گیا۔ وہاں سازندوں کے سوا چھ دوسرے لوگ بھی تھے اور خاموشی سے بیٹھے تھے۔ سازندوں کے بیچ ارجمند بائی تھی جو آنکھیں بند کئے حافظ شیرازی کی غزل گاتی تھی۔ وہ فارسی غزل تھی جس کا مطلب کچھ یوں تھا کہ میرے دل میں ان گنت کنوئیں ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ایک کھُل کر برستی بارش سے بھر جائیں پردوسرے اس سے بے بہت گہرے ہیں۔

اسکے چہرے پر کوئی خاص بات نہیں تھی۔ ہوتی بھی تو بھلا دکھتی کیسے کہ چہرے کو تو سب غازے نے گھیر رکھا تھا۔ اس کے سرخ ہونٹوں میں بھی کوئی بات نہ تھی۔ ہوتی بھی کیسے کہ ان ہونٹوں پر پان کے پتوں کا رنگ چڑھا تھا۔ شاہ جی بیٹھے رہے کچھ اس طرح کہ ان کی نظریں پوری طرح سے ارجمند بائی پر جمی تھیں۔ وہ جنہوں نے پوری زندگی نظریں نیچی کئے عورت کو دیکھا تھا آج بے خوف تھے۔ ایسے میں غزل گاتی ارجمند بائی نے ایک تان لگائی اور آنکھیں کھول دیں۔ نہیں ان آنکھوں میں کوئی بات نہیں تھی۔ ان آنکھوں میں بھی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ تو بس عام سی آنکھیں تھیں۔ سیاہ پتلیوں والی عام سی آنکھیں۔ تھوڑی بے خوف مگر پھر بھی ایسی آنکھیں تو ہر گلی محلے میں ملتی ہیں۔ مگر انہوں نے بھلا ایسی کتنی آنکھیں دیکھی تھیں؟ گلی محلے میں ملنے والی آنکھوں میں جھانکنے کی جرات ہی کہاں ہوئی تھی انکو۔ ہاں یہ آنکھیں گلی محلے میں تھیں پران میں جھانکنے کی قیمت بہت تھی۔ اتنی قیمت کہ اپنی پوری زندگی دینی پڑتی تھی۔ عشق و محبت کے دعوے کرنے پڑتے تھے، وہ ہاتھ مانگنے کیلئے زمانے سے لڑنا پڑتا تھا۔ ہاں ایسی بہت سی آنکھیں تھیں پر انہیں دیکھنے کی قیمت بہت بھاری تھی۔ اتنی کہ ان کے گاوں کے سب لوگ نظریں جھکائے چلتے تھے۔

اور ایک ارجمند بائی تھیں جو بڑی بے خوفی سے غزل گاتی چلی جاتی تھیں کچھ ایسے کہ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ ہر اس مشتاق کیلئے جس کی جیب میں چند ایک سکے ہوں۔ شاہ صاحب نے ایک نظر پھر ارجمند بائی کے ہونٹوں پر ڈالی جن میں باریک سی کالی درزوں کی لکیریں چہرے کی طرف جاتی تھیں۔ نچلے ہونٹ سے نیچے کی طرف اور اوپر والے ہونٹ سے اوپر کی جانب۔ اور یہ لکیریں ناچتی تھیں جیسے وہ سب رقاصائیں ہوں جو غزل کے بولوں پر ناچتی ہوں۔ ان کے دل میں ایک موہوم سی صدا اٹھی کہ ان رقاصاوں کے تھرکتے جسموں کو دیکھو تو تقدیر کی راز کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان ہونٹوں میں کوئی بات نہیں تھی مگر پھر بھی شاہ جی نے ان کی لکیروں میں رقاصاؤں کو دیکھا۔ نظر اس جسم پر پھسل رہی تھی اور ایسے میں ایک عجیب احساس ہوا جس کے بعد شاہ جی کو اپنا سانس اس کمرے میں گھٹتا محسوس ہوا۔ انہوں نے ایک عجب احساسِ شکست سے ارجمندبائی کی طرف دیکھا اور بالا خانے سے باہر نکل گئے۔ وہ باہر نکل گئے مگر ارجمند کی آواز میں اب بھی حافظ کہے جاتے تھے

’’تمہاری محبت اجنبیوں پر نچھاور کرنے کیلئے نہیں ہے۔ تمہاری محبت بس اس باہمت محب کیلئے ہے جو خنجر سے اپنی روح کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد انہیں ایک کمبل میں بُن دے تاکہ تم اسے اوڑھ لو‘‘

وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے گلی سے باہر کو جاتے تھے کہ وحید نے انہیں دیکھ کر صدا لگائی

’’صاحب کہاں چلے؟ ارجمند بائی کی غزل آپ کو ایک شام بھی نہ روک پائی۔ چلیئے میں ہارا اور آپ جیتے۔‘‘

شاہ جی نے عجیب نظروں سے وحید کی طرف دیکھا

’’نہیں بھائی تم صحیح تھے۔ میں ہار گیا۔ تم صحیح تھے۔ کوئی مچھلی جال سے نہیں بچ سکتی ہاں بس وہی جسے تقدیر جال تک لے کر ہی نہ جائے۔ اور ایک میں ہوں کہ خود ہی اس جال کی طرف بھاگا چلا جاتا تھا۔‘‘

’’پر ہوا کیا؟ کیا آپ اس کے حسن پر فدا ہوئے یا اس کی آواز پر مر مٹے یا پھر اس کی اداؤں کے اسیر ہوئے؟‘‘

’’میرے بھائی میں تجھے کیا بتاؤں۔ میں تو گیا تھا کہ شیطان کے بچھائے جال کو دیکھوں اور اپنے دل میں موجزن اللہ کی محبت سے اس سحر کا مقابلہ کروں۔ پر کیا کروں ؟ میں وہاں سے بھاگ نکلا کہ مجھے یہاں بھی وہی دکھائی دینے لگا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس نہیں اسی رب سے ملنے کی پیاس ہے، اس کے ہونٹوں پہ رقصاں لکیروں کے بیچ اسی کی تقدیر کے پرتو کھلتے ہیں۔ قریب تھا کہ اس کی آواز میں مجھے اللہ کی پکار سنائی دینے لگتی پر میں بھاگ نکلا‘‘

’’بڑی عجیب بات کی آپ نے۔ میں اتنے برسوں سے یہاں ہوں مگر یہ بات پہلے نہ سنی۔ پر اللہ کے رنگ سے بھلا آپ بھاگتے کیوں ہو؟‘‘

’’نہیں وحید بھائی۔ اللہ بہت بڑا ہے پر بندے کو پورا اللہ نہیں چاہیے ہوتا۔ اللہ اگر رحیم ہے تو وہ قہار بھی ہے۔ اور وہ جن کی روح کی اصل آگ ہے ان کے لئے اس کا آگ والا روپ بھی رحمت ہے۔ پر میرے جیسا کمزور اس کے قہر کو ایک بوند بھی نہیں سہ پاتا۔ نہیں وحید بھائی پورا اللہ کسی کو نہیں چاہیے ہوتا۔ ایک چمکدار سکہ ہے جو سونے کا نظر آتا ہے۔ بڑے سے بڑا جوہری بھی فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ کھرا ہے یا کھوٹا۔ آخری فیصلہ آگ کا ٹھہرتا ہے۔ آگ فیصلہ کرے گی کہ سکہ سونے کا ہے یا نہیں۔ پریہ تو دنیا ہے۔ یہ پرکھ تو دنیا کے واسطے ہے۔ اگر وہ سکہ سونے کا ہے تو پھر چاہے پرکھ ہو یا نہیں وہ سونے کا ہی رہے گا۔ اور اگر وہ کھوٹا ہے تو یہ پرکھ اس سے کھرا ہونے کا یہ خوبصورت احساس چھین لے گی۔ اگر سکے کی نظر سے دیکھا جائے توآگ کی پرکھ سے اسے کچھ بھی نہیں ملنے والا ہاں مگر کھونے کو بہت کچھ ہے۔

وحید بھائی! کاش کہ وہاں مجھے شیطان ملتا، ہوس ناچتی، دھوکوں میں الجھ جاتا، لالچ نظر آتا، زریں خواب دکھائے جاتے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پر وہاں توبس ایک عورت ہے ایک عام سی عورت۔ ایک مہربان عورت جس نے اپنی قیمت گرا دی۔۔ ۔ اسلئے نہیں کہ وہ اپنی قیمت جانتی نہیں۔ بس اسلئے کہ وہ جو قیمت کی اسطاعت نہیں رکھتے ان کا بھرم رہ جائے۔ میں وہاں سے بھاگ نکلا کیونکہ میرا دل اسے برا تک نہیں دکھا پا رہا تھا۔ وحید بھائی میں وہ سکہ ہوں جو اس پرکھ سے ڈر گیا کہ میرے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ میرے باپ دادا کی برسوں کی کمائی ایک لمحے میں چلی جائے گی۔ میں ابھی خود کو پرکھ کے قابل نہیں پاتا۔ مجھے اپنی کٹیا میں لوٹنا ہو گا جہاں میری جبیں سجدوں میں رو رو کر یہی مانگے گی کہ اگر یہ سکہ پیتل کا بھی ہے تو اسے سونا کر دے۔‘‘

’’پر یہ تو میرے رب کا طریقہ نہیں ہے۔ وہ تو پیتل کو ایسے سونا نہیں کرتا۔ یہ تو میرے رب کا طریقہ نہیں ہے۔‘‘

’’پر بندے کا تو یہی طریقہ ہے نہ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘

شاہ جی اس سفر سے بہت جلد واپس آ گئے۔ ان کے مریدین میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ان کا دل اب پہلے سے زیادہ عبادات میں لگتا، وہ پہلے سے زیادہ دوسروں کی خدمت کرتے، وہ فاطمہ بی بی سے بہت کم سوالات کرتے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کے سوالات ختم ہو گئے تھے بس وہ ڈر گئے تھے۔ جب انہیں یہ پتہ چل گیا کہ تاریک راستہ بھی اللہ کا ہے تو بس سارا وقت استغفار میں گذر جاتا کہ کہیں تاریک راستے پر چلنے کا حکم ہی نہ ٹھہر جائے۔

فاطمہ بی بی بڑی محبت سے انہیں عبادت کرتے دیکھتیں، چلے کاٹتے دیکھتیں اور ایک افسوس جو ان کے جسم و روح میں اتر جاتا۔ وہ افسوس جو اس جوہری کو ہوتا ہے جو یہ جان گیا تھا کہ سکہ سونے کا ہے پر جب تک وہ آگ کی پرکھ سے نہیں گذرے گا اپنی قیمت سے کم میں ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہے گا۔ وہ افسوس کرتی تھیں اور ان کی آنکھ دیکھتی تھی کہ اس گاؤں کی مٹی میں ایک قطار کی صورت اس کی اولاد کی قبریں تھیں جو داہنی جانب بڑھتی چلی جاتی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ایک زندگی بسر کرنا تھا، ان میں سے ہر ایک نے اپنے خاندان کا نام لئے آگے بڑھنا تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے علاقے میں رشد و ہدایت کا کام کرنا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس آگ کی اس پرکھ کا موقع تھا پر وہ سب ٹالتے رہے۔ یہاں تک کہ ساتویں قبر تک پہنچتے پہنچتے اس کی آنکھ نے دیکھا کہ اس کے گرد پورا گاؤں جیسے اجڑ سا گیا۔ لوگ دوسرے دیسوں کو چلے گئے، شہر کوچ کر گئے۔ ایک جگہ جہاں سے ایک نیا سورج طلوع ہو سکتا تھا تاریخ کے اوراق میں کھو گئی۔ قبرستانوں میں ویرانی ناچتی تھی اور ان کے آبائی گھر کی ایک سالخوردہ الماری میں ہر نسل کے ہاتھوں سے لکھے مخطوطات دیمک کے ہاتھوں ختم ہو رہے تھے۔ آخری نسل کے لوگ تو فارسی اور عربی سمجھنے سے بھی گئے تھے جن میں وہ کتابیں لکھی گئی تھیں۔ اور پھر بھلا ان کتابوں میں تھا بھی کیا سوائے ایک ایسی زندگی کے نوحے کے جو گزاری جا سکتی تھی۔ ایک تڑپ، ایک پیاس۔ پر کوئی جان پائے تو اس دور میں یہ بھی بہت اہم تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی اس خاندان سے رخصت ہوا جاتا تھا۔ بس ایک فاطمہ بی بی کی آنکھ تھی جس میں اب بھی امید کی چنگاری کروٹیں لیتی تھی۔ جب تک اس خاندان کا بیج اس زمین پر زندہ ہے اسے انتظار کرنا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے