غلط بخشی ہر دور میں اربابِ اقتدار کا پسندیدہ حربہ رہی ہے جس کے ذریعے اہلوں کی حق تلفی اور نا اہلوں پر نوازش کے کارنامے انجام دیے جاتے رہے ہیں۔ علی گڑھ میں تو اس کی مثالیں بے شمار ہیں، کل بھی تھیں، آج بھی ہیں، اور اس کے اہداف، ہمارے اساتذۂ مکرم، ہاشم قدوائی صاحب (سیاسیات)، ناصر صاحب (سیاسیات)، سلامت اللہ خاں صاحب (انگریزی) اور جذبیؔ صاحب (اردو) پروفیسر نہ ہو سکے۔ جبکہ ان کی مرتبت علمی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ در حقیقت وہ اپنے اپنے شعبے کے سربراہوں پر، بہ اعتبار لیاقت و اہلیت فوقیت کے حامل تھے۔ علی گڑھ کے باہر بھی حق تلفی کے ضمن میں فراقؔ گورگھپوری، ہری ونش رائے بچن اور سات سمندر پار، رالف رسل کی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ اسی ذیل میں ایک ستم ظریفانہ مثال اور یاد آتی ہے۔ معروف و موقر شخصیت پروفیسر علی محمد خسرو نے اپنے ابتدائی دور میں مسلم یونیورسٹی میں لکچرر کے منصب کے لئے درخواست گزاری، ان کا زبانی امتحان، (انٹرویو) بھی ہوا۔ مگر ماہرین شعبہ نے انہیں مسترد کر دیا۔ بعد ازاں وہ مشہور زمانہ ماہر معاشیات قرار پائے، نیز گردش دوراں کے تحت وہ اسی ادارے کے سربراہ، یعنی شیخ الجامعہ کے عہدہ پر سرفراز ہوئے۔ اس واقعہ کے راوی خسرو صاحب بہ نفس نفیس تھے۔ یہاں یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ ارباب حل و عقد کی دور رس نگاہیں، موصوف کے پوشیدہ اوصاف کو شناخت نہ کر سکیں۔ ایسی مثالیں اور بھی ہیں، لیکن مزید تفصیل کا یہ موقع اور محل نہیں۔
اس غلط بخشی کا شکار قاضی صاحب بھی ہوئے۔ شاید ۱۹۷۵ کی بات ہے، شعبۂ اردو میں پروفیسری کا انٹرویو تھا، قاضی صاحب اور خلیل الرحمن اعظمی دونوں امیدوار تھے، جگہیں بھی دو تھیں، اس لیے ان دونوں کے درمیان کسی تصادم کا امکان نہیں تھا۔ قاضی صاحب سے زیادہ قد آور نثرنگار کوئی نہ تھا۔ شاعروں میں جذبیؔ صاحب حیات تھے، مگر وہ سبک دوش ہو چکے تھے، پروفیسر ہوئے بغیر۔ خیر صاحب انٹرویو ہوا، خسرو صاحب کا دورِ سربراہی تھا، خسرو صاحب ادب شناس تھے، خوب شستہ اردو بولتے تھے، گفتگو کے دوران اشعار کا بر محل استعمال بھی کرتے تھے، انھیں اس عمل کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ انصاف ہو، اس لیے بھی کہ اس وقت کے صدر شعبہ کو قاضی صاحب سے بغض للّٰہی تھا اور کوئی بھی نا انصافی ان سے بعید نہ تھی، گو ہمیں اور ہمارے احباب کو یہ خوش فہمی تھی کہ اتنی بڑی نا انصافی کی جسارت شاید وہ نہ کر سکیں۔ واقعتاً قاضی صاحب کے ہم پلّہ کوئی امید وار تھا ہی نہیں۔
ایک اور ستم ظریفی یہ تھی کہ جو پروفیسر حضرات، دور دراز سے بطور ماہر ین تشریف لائے تھے وہ خود قاضی صاحب سے کہیں لگّا نہیں کھاتے تھے۔ انٹرویو ہوا خسرو صاحب تشریف نہیں لائے، اور صدر شعبہ کو من مانی کرنے کا موقع مل گیا۔ قاضی صاحب نے بہت شاندار انٹرویو دیا، لیکن مردان ناداں پر کلام نرم نازک کا اثر کہاں ہوتا۔ ہم لوگوں کو بڑا تجسس تھا، اس لیے ہم نے حبیب مکرم ڈاکٹر نعیم کی سرکردگی میں سراغ رسی کا جال پھیلایا اور دانشگاہ کے مہمان خانے میں ایک ماہر کو گھیر لیا۔ جو نتیجہ اگلی صبح آنے والا تھا اس کا انکشاف رات کے دس گیارہ بجے ہی ہو گیا، اگرچہ ان ماہر صاحب کی شرط تھی کہ راز افشا نہ ہو، مگر ہم سے غلطی یہ ہو گئی کہ ہم نے قاضی صاحب کے سامنے راز کی بات کہہ دی، ورنہ ان کی ایک اور رات بے چینی میں سہی، مگر امید کے ساتھ کٹ جاتی۔
وہ راز کی بات یہ تھی کہ قاضی صاحب اور خلیل صاحب دونوں پروفیسر نہیں ہوئے تھے اور بجائے ان کے ایک خاتون اور ایک مولوی صاحب کو یہ مناصب تفویض کر دیے گئے تھے۔ ہرچند کہ ماہرین کو بھی اس فیصلے سے اختلاف تھا، مگر صدر شعبہ کے سامنے ان کی ایک نہیں چلی، یا انھوں نے چلائی نہیں، کیونکہ صدر کو ابھی کئی برس رہنا تھا اور ایسی کئی تقرّراتی انتخابی مجالس میں ان ماہرین کو پھر آنا تھا، اول درجے کے سفر اور پُرتکلف ضیافتوں کے ساتھ۔ کوئی بھی واقفِ حالات، صاحب الرائے اور ایماندار فرد، چاہے وہ ٹکسالی علی گڑھ والا ہی کیوں نہ ہو، ہماری اس رائے سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جو خاتون و حضرت پروفیسری کے مناصب پر رونق افروز ہوئے اور قاضی صاحب سے پہلے مسندِ صدارت پر بھی یکے بعد دگر فائز ہوئے، ان کی قاضی صاحب اور خلیل صاحب سے کوئی ہمسری نہ تھی۔ علمیت میں نہیں، تدریس میں نہیں اور ادبی تو خیر وہ معصوم لوگ تھے ہی نہیں۔ لیکن صاحب، وہ نا انصافی ہی کیا، جو ہو کر نہ رہے۔ قاضی صاحب پر اس رات کیا گزری ہو گی اور اس کے بعد چند برس تک کیا بیتی ہو گی، اس کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں، خود ہم اس صدمے کو آج تک بھلا نہیں سکے، ہمیں یہ قلق تو تھا ہی کہ قاضی صاحب جو ہمارے استادِ محترم بھی تھے اور لائق فائق بھی، انھیں ان کا حق نہیں ملا۔ مگر ہمیں یہ افسوس زیادہ تھا کہ جو لوگ ان مناصب پر قابض ہوئے، انھوں نے منبر و مسند کی بے حرمتی کی۔ اس واقعے کے شاہد آج بھی علی گڑھ میں موجود ہیں۔ یہ اس زمانے کا علی گڑھ تھا، آج کا علی گڑھ شاید اس سے بھی بدتر ہے، کیونکہ اب تو ہم ایسے ایسوں کو پروفیسری پر فائز ہوتے اور صدارت فرماتے دیکھتے ہیں، جن کا نہ اپنے مضمون سے کوئی سروکار ہے، نہ علم و ادب سے کوئی علاقہ۔ البتہ جملہ صلاحیتیں ان کے اندر کماحقہٗ موجود بھی ہیں اور کارفرما بھی۔ ہماری ان باتوں کی چھوٹ دور تک جائے گی، لوگ خفا ہوں گے ،دشنام سے نوازیں گے، مگر ہمیں اس کی پروا یوں نہیں کہ ہم کسی سے کسی قسم کے فیض کے طلب گار ہیں ہی نہیں۔ ہم زہرِ ہلاہل کو قند نہیں کہہ سکتے۔ سقراط کی پیروی میں ہم نے کئی بار زہر کے پیالے کو اپنے لبوں تک آتے آتے اور رہ جاتے دیکھا ہے۔ جام اپنے فرجام تک نہیں پہنچا تو اس لیے کہ قدرت کو منظور نہ تھا، ورنہ اس میں ہماری کسی لیاقت کو قطعی دخل نہیں۔ عبدالرحیم خان خاناں، کے قول کے مطابق، قاضی صاحب اس بات کے قائل تھے اور ان کی تقلید میں ہم بھی کہ، ’’چاہت مٹی، چنتا گئی‘‘ ۔ کم بخت یہی چاہت تو ہے جو نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے، جس نے اس پر قابو پا لیا اس نے زندگی کی جنگ جیت لی۔
اس امر کا عملی ثبوت قاضی صاحب نے چند برس بعد دیا۔ بحیثیت شیخ الجامعہ سیّد حامد کا دورِ تھا۔ سیّد صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے کچھ ہو، ہم نے چونکہ انھیں بہت کچھ دیکھا اور برتا تھا، اس لیے ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سیّد صاحب سے آپ اختلاف تو کر سکتے تھے، مگر ان کی نیت پر شک ہر گزنہیں کر سکتے تھے۔ وائے افسوس کہ وہ بھی اب ہمارے درمیان موجود نہیں، ان کی وفات حسرت آیات سے چند ماہ قبل ان سے نیاز کا شرف حاصل ہوا تھا اور قاضی صاحب کی سیادت میں ہی یہ ملاقات ہوئی تھی۔ سیّد صاحب نے اپنی علالت و نقاہت کے با وصف ہمیں وقت دیا تھا، خاصی دیر گفتگو کی تھی اور یہ یقین دلایا تھا، کہ، ’’آپ خط لکھیں گے تو میں جواب ضرور دوں گا‘‘ ۔ قصّہ مختصر، سیّد حامد کے دور میں پھر پروفیسری کی جگہ خالی ہوئی۔ قاضی صاحب کا ادبی و علمی قد پہلے سے بڑھ چکا تھا۔ ان کا مد مقابل تو کیا ان کے کندھوں تک بھی کوئی نہیں تھا، مگر مشکل یہ ہوئی کہ قاضی صاحب نے سرے سے درخواست دینے سے ہی انکار کر دیا۔ احباب نے بڑی جد و جہد کی، قاضی صاحب کے مدّاح چاہتے تھے کہ قاضی صاحب کاغذی کار روائی تو کریں، کیونکہ یہ ضابطے کی بات تھی، ورنہ پروفیسری تو پکّی تھی۔ سیّد صاحب دل سے چاہتے تھے کہ یہ منصب قاضی صاحب کو ہی ملے کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی ہوئی ہے۔ کتنے ہی لوگوں نے گھیرا، مگر قاضی صاحب نہ پگھلے۔ آخرکار ہمارے استاد محترم کنورپال سنگھ کی بے مثل پیروی اور آگرہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر گپتا کی کاوش اور سیّد صاحب کی محبت بھری ضد پر قاضی صاحب نے پہلے سے پُر کیے ہوئے درخواست فارم پر غالبؔ کا یہ شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کئے۔
حسد سزائے کمال سخن ہے، کیا کیجیے
ستم بہائے متاعِ ہنر ہے، کیا کیجیے
قاضی صاحب نے دستخط تو کر دیے مگر آزمائشی گفتگو (انٹرویو) میں جانے کے لیے ایک غیر معمولی شرط رکھی کہ میں تمام سوالات کے جوابات دوں گا، لیکن میں ماہرین سے بھی تین تین سوال کروں گا۔ اس طرح غالباً قاضی صاحب یہ راز افشا کرنا چاہتے تھے کہ جو منصف بن کر مسندوں پر فائز ہوتے ہیں انھیں متعلّقہ مضمون کا کچھ علم بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عجیب شرط تھی، تکنیکی طور پر ناقابلِ عمل، اس لیے کہ قاضی صاحب کا مرتبہ خواہ کچھ ہو، ضابطے کے تحت تو وہ امیدوار تھے اور امیدوار صرف سوالات کے جوابات دیتا ہے، خود سوال نہیں کر سکتا، مگر واہ رے قاضی صاحب، وہ اپنی جگہ اٹل رہے، زمین نے جنبش کی، انھوں نے نہیں، بلکہ عین وقت پر وہ علی گڑھ سے ہی ندارد ہو گئے۔ انٹرویو ہوا، ان کے غیاب میں ہوا، اور پروفیسری انھیں پیش کی گئی۔ شاید علی گڑھ کی غلط بخشیوں کی طویل تاریخ میں درست بخشی کی یہ واحد مثال ہو گی۔ قاضی صاحب پروفیسر ہوئے، اور اپنی شوکت، اپنی شان کے ساتھ ہوئے، بعد میں صدر شعبہ بھی ہوئے۔ یہاں قاضی صاحب نے غالبؔ پر بھی فوقیت حاصل کر لی۔ غالبؔ کو دلّی کالج میں مدرّس اعلیٰ کا منصب اس لیے نہیں مل سکا تھا کہ انگریز پرنسپل کے صدر دروازے پر خیرمقدم کے لیے نہ آنے کے سبب، وہ اپنے ہوادار میں واپس ہو گئے تھے، وہاں بھی ضابطہ مانع تھا۔ لیکن قاضی صاحب نے اس ضابطے کو بھی شکست دے دی، وہ پروفیسر ہوئے اور اپنی شرطوں پر، اپنے بانکپن اور اپنی طرح داری کے ہم رشتہ۔
قاضی صاحب کے ساتھ اور بھی نا انصافیاں ہوئی تھیں۔ گو کہ انھیں گیان پیٹھ کے علاوہ ہندوستان میں کسی بھی ادیب کو مل سکنے والے تقریباً تمام انعامات اور اعزازات مل چکے تھے، ما سوا ساہتیہ اکادمی انعام کے۔ وہ عرصۂ دراز تک ساہتیہ اکادمی کے ’رکن مجلس مشاورت برائے انعامات‘ رہ چکے تھے، ساہتیہ اکادمی نے ان کے فن کی عظمت کا اعتراف عملی کئی مرتبہ کیا۔ لیکن یہ گراں قدر انعام جو ان کے شاگردوں کو مل چکا، اس کے علاوہ ان سے کہیں کم تر، غیر اہم اور غیر معروف لوگوں کو بھی مل چکا، اپنی بے وقعتی کی حد تک، وہ قاضی صاحب کو نہیں ملا۔ ہرچند کہ قاضی صاحب جس مقام پر تھے وہاں وہ ان تمام تر انعامات و اعزازات سے بالا تر تھے۔ تاہم ہمارے خیال میں یہ انعام انھیں ملنا چاہیے تھا، کیونکہ یہ ان کا حق تھا اور اس لیے بھی ملنا چاہیے تھا کہ نا انصافی کی ایک اور مثال قائم نہ ہو۔ ساہتیہ اکادمی ہی کیوں، قاضی صاحب گیان پیٹھ انعام کے بھی سزاوار تھے، کہ یہ موقر انعام بھی ان سے کم مرتبہ ادباء و شعرا کو ملا ہے۔ ویسے تو قاضی صاحب کا سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی سرفرازی یہ تھی کہ آج ہندوستان گیر سطح پر ان کے درجنوں شاگرد پروفیسر و صدور شعبہ ہیں، شاید کئی ایک شیخ الجامعہ بھی ہوں، اور جو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔
یہاں قاضی صاحب مرحوم کی اعلیٰ ظرفی کا ذکر بھی لازم ہے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنی نیک خوئی، بے نیازی یا سادہ لوحی کی بنا پر کئی ایسے موقع پرست افراد کی، مدد کی۔ جو ماضی میں ان کے علانیہ یا خفیہ مخالف رہے تھے اور جس کی سب سے روشن مثال ایک شہرہ آفاق شاعر تھے، جو عرصۂ ماقبل میں قاضیؔ صاحب کے مخالفین و معاندین کے ارادت مند، نیز معاون سرگرم تھے، مگر قاضی صاحب کے برسر اقتدار آتے ہی انہوں نے اپنی وفاداری منتقل کر لی۔ قاضی صاحب کے سامنے دو زانو ہو گئے، اور قاضی صاحب کو اپنی وفا شعاریِ نو کا قائل کر دیا، قاضی صاحب نے اپنے ایک قریبی رفیق کو نظر انداز کر کے ان صاحب کو پروفیسری پر فائز کیا، اور کئی حضرات کو ناخوش کر کے کیا۔ باور ہو کہ ایسی کج رویاں، موصوف کے کردار کا حصہ تھیں، جن کا خمیازہ انہوں نے بھگتا، بلکہ آخر تک اس کے نقصانات جاریہ، ان کا مقدر بنے رہے۔
اب ان تذکرہ ہائے تلخ کے بعد، بطور تبدیلیِ ذائقہ چند اذکار خوشگوار کہ ان سے قاضی صاحب مرحوم کی علمی و ادبی شان، نیز معاشرتی مرتبت کے کچھ اشارے ملیں گے۔
گو کہ ہم نے علی گڑھ میں قاضی صاحب کا دورِ عروج کچھ تفصیل سے نہیں دیکھا، اس لیے کہ ہم ان کے ساتھ ہوئی پہلی نا انصافی کے بعد علی گڑھ کے کثافتی ماحول سے بد دل و بد مزہ ہو کر بسلسلۂ تلاش معاش دہلی آ گئے تھے اور یہاں چونکہ کارِ جہاں دراز تھا، اس لیے علی گڑھ جانا خال خال ہی ہوتا تھا۔ تاہم، قاضی صاحب کی سرپرستی ہمیں مسلسل حاصل تھی، ہم نے اپنی ادارت میں ماہانہ ’حالِ ہند‘ کا علی گڑھ نمبر نکالا تو قاضی صاحب نے اس کے لئے ایک خصوصی مصاحبہ ہمیں بخشا اور اس کی رسم اجرا بھی قاضی صاحب کی صدارت میں سیّد حامد صاحب کے دستِ مبارک سے ہوئی۔ اس خصوصی شمارے کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج تک قدردانوں کی درازوں اور مداحوں کے ذہنوں میں وہ پرچہ محفوظ ہے اس کے بعد ہم نے ہفتہ وار ’آئینہ‘ کا سر سیّد نمبر نکالا تو اس میں قاضی صاحب کا مضمون نمایاں طور پر شامل تھا۔
ہم نے اپنے انگریزی ہفتہ وار ’اسٹار ویکلی‘ کا مسلم یونیورسٹی نمبر شائع کیا تو قاضی صاحب نے بوجوہ مضمون تو تحریر نہیں کیا، مگر راہ نمائی بہت کی، اور انہی کے ایماء پر اس اخبار میں سید حامد صاحب کا طول طویل مصاحبہ شائع ہوا۔ کچھ ہماری نالائقی اور کچھ بے حسی کہ ہم تو علی گڑھ کم جا پاتے تھے لیکن قاضی صاحب جب بھی دہلی تشریف لاتے، اچانک ان کا حیرت خیز نزول ہمارے اس وقت کے دفتر میں ہوتا اور ہم انتہائی خوش ہوتے ہوئے بھی شرمندہ ہو جاتے تھے۔ وہ ’قومی آواز‘ میں تشریف لائے، عالمی اردو کانفرنس میں تشریف لائے، ہمارے ایک دور افتادہ غریب خانے پر تشریف لائے، قاضی صاحب یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ہم اس وقت یکّہ و تنہا تھے، مگر ہمارے پاس ایک عدد ملازم تھا، جو کھانے کے قابل کھانا پکا لیتا تھا اور چائے بہت اچھی بناتا تھا۔ قاضی صاحب نے شاباشاً کہا، ’’تم میرے سچے شاگرد ہو، ملازم رکھتے ہو، عیش سے زندگی بسر کرتے ہو‘‘ ۔ محفل جمی، عشائیہ ہوا اور ایک یادگار شام رات میں ڈھل گئی۔ اس محفل میں ہمارے دوست اور مشہور صحافی عالم نقوی حاضر تھے، انھیں وہ گرما گرم، عالمانہ گفتگو اب بھی یاد ہے جو اس دن کئی گھڑی چلی تھی، ہمارے ایک اور دوست محی الدین یوسف زئی بھی شریک مکالمات تھے، جو آخری اطلاع ملنے تک امریکہ میں چین کی بنسی بجاتے تھے، ممکن ہے کہ اب ماؤتھ آرگن بجانے لگے ہوں، مگر وہ ’خان‘ ہیں اور پتہ نہیں چچا سام کے دیس میں ان پر کیا گزر رہی ہو گی، فی الحال وہ ہمارے لیے گم شدہ ہیں۔
دہلی میں ہم، ہر چند کہ رہین ستم ہائے روزگار تھے، مگر قاضی صاحب کے خیال سے غافل نہیں تھے، ہرگز نہیں تھے، ان کے علمی، ادبی، تخلیقی اور معاشرتی عروج کی خبریں ہم تک اخبارات کے علاوہ مشترکہ رفقاء کے توسط سے پہنچتی رہتی تھیں۔ اس دوران قاضی صاحب نے دہلی میں ’جن وادی لیکھک سنگھ‘ کا افتتاح کیا، ہرچند کہ اس جلسے میں ہندی کے کم از کم پندرہ سولہ سو ادیب و شاعر موجود تھے، سو دو سو اردو والے بھی ہوں گے۔ پریم چند کے ذریعے ترقی پسند تحریک کے اوّلین اجلاس کے افتتاح کے بعد یہ ایک بڑا اعزاز تھا جو کسی اردو افسانہ نگار کے تاج کا سرخابی شہپر بنا۔
قاضی صاحب نے سفرِ پاکستان کیا، اور بہ روایت قاضی صاحب، وہاں جنرل ضیاء الحق جیسے آمر نے ان کی ایسی پذیرائی کی کہ اس وقت کی وزیرِ اعظم ہند، محترمہ اندرا گاندھی کو یہ سب عجیب سا لگا، اور انھوں نے قاضی صاحب سے دوران ملاقات اس کا برملا اظہار بھی کیا۔
کانپور میں فرقہ واریت کے موضوع پر عوامی جلسہ تھا، سوامی اگنی ویش اور خوشونت سنگھ موجود تھے۔ قاضی صاحب نے افتتاحی تقریر کی اور فرقہ واریت کو آکٹوپس سے تعبیر کیا جس نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اس کی برملا داد خوشونت سنگھ نے زبانی بھی دی اور مبیّنہ طور پر اگلے ہفتے اپنے کالم کو قاضی صاحب کی توصیف کے لیے وقف کیا۔
علی گڑھ میں دھرم سماج کالج میں ’مذاہب کی معنویت‘ پر جلسہ تھا۔ برادرانِ وطن کا بڑا زبردست اجتماع تھا، لیکن اسلام پر بولنے کے لیے کوئی مسلمان عالم فاضل تیار نہ ہوا۔ سیّد حامد نے عندیہ ظاہر کر دیا تھا، مگر بہ وقتِ آخر کسی مصلحت کیش نے اپنا نا مفید مشورہ دے کر، انہیں اس نیکی سے باز رکھا۔ اب قرعۂ فال نکلا، قاضی صاحب کے نام، اور انھوں نے بے پناہ جرأت مندی کے ساتھ آمادگی ظاہر کر دی۔ قاضی صاحب نے ایک پر مغز، پر جوش، نیز شعلہ بار تقریر کی اور سماں باندھ دیا۔ وہاں موجود کتنے ہی ہندی کے ادیب اور نقاد ان کے مرید ہو گئے اور آخر تک رہے۔ یہ بڑے جگر کی بات تھی، ایسی بلند ہمتی کا مظاہرہ کوئی مردِ قلندر ہی کر سکتا تھا۔ ع۔ غیر ممکن، تری مثال آئے
قیام علی گڑھ کے دوران قاضی صاحب کی سربراہی میں ہمارا ادبی قافلہ رواں بھی تھا دواں بھی تھا۔ ہم میں سے کئی نوجوان دانشگاہی سطح پر مختلف ادبی انجمنوں کے منصب دار تھے، اس لیے کوئی ادبی جلسہ کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کا کھیل تھا اور پھر ہماری اپنی ادبی انجمن بھی تھی، جس کے جلسے اکثر و بیشتر اور کبھی کبھی آئے دن بھی ہوتے تھے۔ ہماری ان چھوٹی چھوٹی محفلوں میں بڑے بڑے لوگ آتے تھے، جن میں عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، حضرت آوارہ، صالحہ عابد حسین، عابد سہیل، سردار جعفری، زبیر رضوی، پروفیسر محمد حسن، قمر رئیس اور اصغر وجاہت جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ مقامی اکابر میں معین احسن جذبیؔ، بشیر بدرؔ، کے۔ پی۔ سنگھ، شہریار، جاوید کمال، رویندر بھرمر، اور زیدی جعفر رضا وغیرہ ہمارے سرپرست تھے۔
ہندی کے موقر ادیب، راجیندر یادو، قاضی صاحب کے بے تکلف دوست، بلکہ ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی تھے۔ دہلی میں اکثر و بیشتر قاضی صاحب ان کے مہمان بھی ہوتے تھے۔ ان کی رحلت سے چند ماہ قبل قاضی صاحب کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر حاضری ہوئی تھی۔ تا دیر، پر لطف گفتگو رہی، اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ بہ اتفاق قاضی صاحب اور راجیندر جی دونوں ہی مہلک امراض سے نبرد آزما ہونے کے بعد بمشکل صحت مند ہوئے تھے۔ مگر اس ملاقات میں راجیندر جی، کچھ پسند خاص کے تحت اور کچھ مہمان ذی وقار کے اعزاز میں، محفل شام سجانے اور چراغ روشن کرنے کے لئے مسلسل آمادہ تھے، بلکہ بے تاب تھے، دوسری جانب قاضی صاحب موقعِ زرّیں، دیکھ کر وفور شوق میں مبتلا نظر آ رہے تھے، تاہم اس ناچیز نے ہر دو ممتاز بزرگان ادب کے بڑھتے سن اور گرتی صحت کے پیش نظر، بہ جہد دشوار ان دونوں کو اس ارادے سے باز رکھا۔ راجیندر جی سے قاضی صاحب کی وہ آخری ملاقات تھی۔
ایک طویل رفاقت میں کتنے ہی نازک مراحل آئے، تلخیاں بھی ہوئیں، بد مزگیاں بھی۔ کچھ عرصہ قبل ہی انہیں ایک غلط فہمی ہو گئی، شاید از خود ہوئی ہو گی، مگر یاروں کی بن آئی اور ان کی کان بھرائی شروع ہو گئی، باور ہو کہ، ممدوح موصوف، کانوں کے کچے تھے، سو شر پسند کامیاب ہوئے اور راقم ناچیز کی جانب سے قاضی صاحب بہ تکمیل بد ظن ہو گئے، بلکہ برہم ہو گئے۔ اس حد تک کہ تمام تر دیرینہ تعلق خاطر کے باوجود، ہر ربط کو القط کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ خاکسار کو یہ شکوہ نہیں تھا کہ وہ خفا کیوں ہوئے، کہ یہ تو ان کا حق استادی تھا۔ گلہ یہ تھا کہ انہوں نے تمام فیصلے یکطرفہ کئے، یاروں کی غیبت گوئی (بلکہ بہتان تراشی) کی بنا پر کئے، ملزم کو صفائی کا موقع دئے بغیر کئے۔ جبکہ ناچیز کے تعلق سے، ان کے عشروں پر محیط تجربات و مشاہدات اس کے برعکس تھے۔ بہر کیف، کسی طور ایک طول طویل راندگیِ بارگاہ و برطرفی تقرّب کے بعد اس ہیچ مداں کو بغرض صفائی، حاضری کا موقع ملا تو اس نے مومنؔ کا یہ شعر ان کے گوش گزار کیا۔
ہاتھ پہنچے بھی نہ تھے، زْلفِ بتاں تک مومن
ہتھکڑی ڈال دی، ظالم نے خطا سے پہلے
تیر بہ ہدف تھا، آتش غیض قدرے سرد ہوئی اور بارے۔ اس بے گنہ کا نا کردہ قصور معاف ہوا، تمام غلط فہمیاں رفع ہوئیں اور ربط باہم از سر نو بحال ہوا۔
چہار عشری مدّت سے متجاوز، دور رفاقت و تعلق خاطر سے پیوستہ بے شمار واقعات ہیں جو یادگار ہیں، عجیب ہیں، لہٰذا حیرت زدہ کرنے والے بھی۔ تاہم سرِدست صرف چیدہ و چنیدہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وگرنہ، ع۔ سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لئے۔
٭٭٭