مصنفہ: ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیل
حیدرآباد دکن کی جامعات سے فارغ اردو ریسرچ اسکالرس کی تحقیقی تخلیقات روز بہ روز ایک کے بعد دیگر منظر عام پر آ رہی ہیں ان میں چند ایک خواتین اسکالر بھی ہیں جنہوں نے اپنے موضوع سے متعلق بہت ہی معیاری اور منفرد تحقیقی کام انجام دیا ہے ان میں ایک معتبر نام ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ کا بھی ہے، ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ نے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے مکمل کیا ہے اور اب درس و تدریس کے میدان میں اپنے جواہر دکھا رہی ہیں، اب وہ بحیثیت اردو معلم کے اوسٹر اکیڈیمی مغلپورہ حیدرآباد میں برسرکار ہیں۔ اس اسکول میں بھی آئے دن ادبی سرگرمیوں کو ڈاکٹر صاحبہ نے جاری رکھا ہوا ہے جس سے ان کی دلچسپ اور ادبی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اردو کی فعال اور متحرک معلمہ ہے، ان کی خصوصی دلچسپی سے یوم غالب کے موقع پر تہذیبی و ثقافتی مقابلے جات اور مرزا غالب پر ادبی اجلاس کا حالیہ دنوں کامیاب انعقاد عمل میں لایا گیا، پچھلے دنوں عالمی شہرت یافتہ شاعر منظر بھوپالی سے ایک ملاقات پروگرام کا بھی کامیاب انعقاد عمل میں لایا، بہر حال اردو کے فروغ میں ڈاکٹر صاحبہا پنا اہم رول ادا کر رہی ہیں۔
زیر نظر کتاب ’حیدرآباد میں اردو شاعری کا جائزہ : عادل شاہی عہد سے 1960ء تک‘ ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ کی دوسری تصنیف ہے، اس سے قبل ان کی پہلی تصنیف علی ظہیر شخص اور شاعر 2014ء میں منظر عام پر آئی تھی جس کو اردو حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی، اب ان کی دوسری تصنیف جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع ہوئی ہے جو ڈاکٹر صاحبہ کے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ کا ایک حصہ ہے، اس کتاب میں چھ ابواب شامل ہیں، جو اس طرح ہیں، پہلا باب ’حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا پس منظر‘، باب دوم’ عادل شاہی عہد، باب سوم ’قطب شاہی عہد‘، باب چہارم ’دکن میں مغلیہ سلطنت اور اردو شاعری ‘باب پنجم ’سلطنت آصفیہ اور اردو‘باب ششم حیدرآباد دکن میں اردو شاعری 1947ء سے 1960ء تک، اور آخری میں اختتامیہ شامل ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کاحرف آغاز ڈاکٹر عرشیہ جبین نے لکھا ہے، جس میں ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ اور ان اس تصنیف سے متعلق تاثرات کو بیان کئے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ ممتاز افسانہ نگار اور اردو کے سینئر پروفیسر بیگ احساس نے رقم کیا ہے جس میں انہوں نے ایک طرف ڈاکٹر ناہیدہ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کیا اور دوسری طرف ان کی تصنیف کا بھر پور جائزہ لیا ہے
تاثرات کے عنوان سے پروفیسر مجتبیٰ حسین کی تقریظ بھی شامل کتاب ہے، جس میں مجتبیٰ حسین نے ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ناہیدہ سلطانہ کو میں اس وقت سے جاتنا ہوں جب میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے جایا کرتا تھا، وہ ایک نہایت ذہین فعال مستعداور منظم طالبہ ہیں اور ادب سے ان کا سروکار بھی بڑا مستحکم وتوانا ہے وہ ایک ایسی وسیع المطالعہ طالبہ ہیں جن کا مشاہدہ کافی باریک بین ہے جس میں ان کے خیال کی گہرائی کا پر تو صاف نظر آتا ہے۔‘‘
پروفیسر بیگ احساس کے پیش لفظ کے بعد پروفیسر مظفر شہ میری کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اس تحقیق کو دستاویز نوعیت کی کتاب قراد دیا ہے۔ اس کتاب میں بردارم سید معظم راز کی تقریظ ’’آزمائشِ جنوں کی حکایت ‘‘بھی بڑی دلچسپ ہے جس میں اشعار کی بندش سے مصنفہ کی شخصیت کا بہت خوب خاکہ کھنچا گیا ہے تو دوسری جانب کتاب میں شامل موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ناہیدہ نے ’’اپنی بات‘‘ کے عنوان سے دکن میں عہد بہ عہد اردو شاعری کا ارتقاء اور کتاب کی اشاعت کی غرض وغایت کو بیان کیا ہے۔
زیر نظر کتاب کا پہلا باب’ حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا پس منظر‘ کے عنوان سے شامل ہے جس میں دکن میں اردو زبان کا آغاز اور فروغ کی داستان بیان کی گئی ہے۔ خصوصی طور پر محمد بن تغلق کا دہلی کے بجائے دولت آبادکواپنا پائے تخت بنانا، بہمنی سلطنت میں اردو ادب خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، عبداللہ حسینی، فخر الدین نظامی، صدر الدین، مشتاق، لطفی، شاہ میراں جی شمس العشاق، اشرف کا تعارف اور شاعری کا جائزہ شامل ہے۔
کتاب کا دوسرا باب’ عادل شاہی عہد ‘کے عنوان سے شامل ہے جس میں بہمنی سلطنت، عادل شاہ سلطنت کا بانی یوسف عادل شاہ اور دیگر سلاطین کے ذکر کے ساتھ عہد عادل شاہی کے شعر اء برہان الدین جانم، عبدل، آتشی، مقیمی، حسن شوقی، رستمی، ملک خوشنود، نصرتی کا سر سری ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب کا تیسرا باب قطب شاہی عہد پر مشتمل ہے جس میں بانی سلطنت سلطان قلی قطب شاہ، جمشید قطب کی حکمرانی کا ذکر کرتے ہوئے عہد قطب شاہی کے شعراء ملا خیالی، سید محمود، فیروز، محمد قلی قطب شاہ، غواصیؔ، ابن نشاطی ؔ، میراںن جی خدا نما کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب دکن میں مغلیہ سلطنت اور اردو شاعری کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے، جس میں ولی اورانگ آبادی، محمود بحری، ضعیفی، تراب، حسین کے فن اور شاعری پر سرسری طور پرنظر ڈالی گئی ہیں۔
کتاب کا پانچواں باب’ سلطنت آصفیہ اور اردو‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اس باب میں آصف جاہ اول، سراج اورنگ آبادی، امجد حیدرآبادی، مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے فن شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کے باب ششم میں ’’حیدرآباد دکن میں اردو شاعری 1947ء سے 1960ء‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس باب کو کتاب کا دل قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کے پوری کتاب میں یہی باب ضخامت (مواد) پر مشتمل ہے جس میں آزادی سے پہلے اور بعد میں اردو شاعری کی تبدیلی اور ادبی تحریکات کا ذکر ہے فصاحت جنگ جلیلؔ، صفی اورنگ آبادی، سید نظیر علی عدیلیؔ، مخدوم محی الدین، سکندر علی وجدؔ، صاحبزادہ محمد علی خاں میکشؔ، خورشید احمد جامیؔ، شاہدؔ صدیقی، راجہ نرسنگھ راج عالیؔ، راجہ محبوب راج محبوبؔکی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کے آخر میں اختتامیہ کے تحت حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کامفصل جائزہ لیا گیا ہے۔
’حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا جائزہ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ نے دکن میں اردو شاعری کا بھرپور جائزہ لیا ہے خصوصی طور پر آزادی سے پہلے اور آزادی کے فوری بعد کے عہد کے شعراء کے حالات زندگی اور ان کی شاعری کا فنی جائزہ لیا گیا ہے۔ چند ایک موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی تھی لیکن انہوں نے سرسری طور پر بیان کرنا مناسب سمجھا، چونکہ ان کے مقالہ کا یہ پہلا حصہ ہے جس کی وجہہ سے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ کتاب کافی معلوماتی اور صدیوں پر مشتمل شاعری، درباری عہد سے عوامی عہد تک، شاعری کے ارتقائی سفر کو انہوں نے واقعی بہت بہترانداز میں بیان کیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، یہ کتاب ریسرچ اسکالرس کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے اور عام قارئین کی معلومات میں اضافہ کا ذریعے بھی ہے، کتب خانوں کی ضرورت بھی اس معلوماتی ادبی ذخیرہ کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحبہ کو مبارکبا دپیش کی جاتی ہے اور ان کی اس کاوش کو سراہا بھی جاتا ہے اور امید بھی ہے کہ وہ اپنا تحقیقی سفر جاری رکھیں گی اور اردو ادب کے فروغ میں اپنا عملی تعاون بھی پیش کرتی رہیں گی، اس کتاب کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے شائع کیا ہے، جو 200 صفحات پر مشتمل ہے مجلد خوبصورت ٹائٹل اور نفیس کاغذ پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300 روپئے رکھی گئی ہے۔ جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی یا ہدی بک ڈپو حیدرآباد سے خریدی جا سکتی ہے۔
٭٭٭
اس کتاب کی پی ڈی ایف فائل بھیج دیں