غزلیں
مدحت الاختر
جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
روح پیاسی نہ رہے ، آنکھ میں پانی دے جا
وقت کے ساتھ خد و خال بدل جاتے ہیں
جو نہ بدلے وہی تصویر پرانی دے جا
تیرے ماتھے پہ مرا نام چمکتا تھا کبھی
ان دنوں کی کوئ پہچان پرانی دے جا
جس کی آغوش میں کٹ جائیں ہزاروں راتیں
میری تنہائ کو چھو کر وہ کہانی دے جا
رکھ نہ محروم خود اپنی ہی رفاقت سے مجھے
آئنہ مجھ کو دکھا دے ، مرا ثانی دے جا
***
جھوٹ میں تھوڑا سچ ملا دیکھوں
چاہتا ہوں اسے خفا دیکھوں
دور سے دیکھنا پسند نہیں
یعنی اس کے قریب جا دیکھوں
عشق میں کچھ ہوس بھی شامل ہے
ورنہ میں تیرا راستہ دیکھوں۔۔؟
اس سے مل کر بدل گیا کتنا
لاؤ میں آج آئینہ دیکھوں
تیری آنکھوں میں جھانک کر خود کو
زندگی بھر نہ آئینہ دیکھوں
***