زمانہ لے رہا ہے نام اُن کا ……۔ ۔ ۔ امانت علی قاسمی

انسانیت و شرافت کی منھ بولتی تصویر، دردو غم کی اتاہ گہرائی میں ڈوب کر عزم و حوصلہ کے ساتھ لوگوں کو چراغ دکھانے والا، دل کا رشتہ غم سے جوڑ کر ہمیشہ دردو غم میں رہنے والا اور اسی غم کو غزل کے سانچے میں ڈھال کر لوگوں کی تسکین فراہم کرنے والا، آسمان علم و ادب کا مہر تاباں، غزل کی دنیا میں اپنے منفرد اسلوب کے چراغ روشن کرنے والا، تواضع و عاجزی جس کی رگ جاں میں پیوست، گمنامی کو شہرت پر ترجیح دینا جس کی عادت، شرافت وسادگی، نرم خوئی اور نرم گوئی جس کی فطرت۔ جس نے ایک عہد تک شاعری کی دنیا پر حکمرانی کی، جس کی غزلوں کی شہرت ہندوستان ہی نہیں دنیا کے کونے کونے میں ہے یعنی ڈاکٹر کلیم عاجز۔ ڈاکٹر کلیم عاجز نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے آزادی پاکر، دنیائے آب و گل کی مصیبتوں و پریشانی سے چھٹکارا حاصل کر کے بالآخر مسلسل سفر کرتے کرتے آخری سفر عالمِ ناسوت سے عالم لاہوت کا کر لیا، اور اپنے منزلِ مقصود کو جا پہنچے۔

غم جاں بھی غم جاناں بھی غم دوراں بھی

ایک دل کے لئے سامان ہے دنیا بھر کے

کلیم عاجزؔ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک کاروانِ ادب کی سالاری کی ہے، اور تہذیب و ثقافت کے دئے کو روشن رکھا ہے، وہ ۱۹۲۰ء ؁ میں پیدا ہوئے اور ۲۰۱۵ء ؁ میں ان کی وفات ہوئی، یعنی پانچ سال کم پوری صدی پر ان کی زندگی محیط ہے، ان کے اشعار کا پہلا مجموعہ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ شائع ہوا تو شاعری کی دنیا میں دھوم سی مچ گئی، حقیقت یہ ہے کہ باستثنائے چند کسی مجموعہ کلام کو اتنی شہرت آج تک نہیں ملی جتنی شہرت ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ کو ملی۔ کلیم عاجزؔ عصر حاضر کے ایسے فردِ فرید تھے جنہوں نے شاعری کے ذریعہ اپنی شخصیت کو آفاقی اور بین الاقوامی بنالیا تھا، وہ دورِ جدید کے پہلے شاعر تھے جنہیں میرؔ کا انداز نصیب ہوا تھا، ان کی غزلوں کے تیور نہ صرف میرؔ کی بہترین غزلوں کی یاد دلاتے ہیں بلکہ اس سوز و گداز سے بھی روشناس کراتے ہیں جو میرؔ کا خاصہ تھا۔ کلیم عاجزؔ اپنی شاعری کے تعلق سے لکھتے ہیں :

’’میں جس طرح جن الفاظ میں سوچتا ہوں انہی الفاظ میں باتیں کرتا ہوں اور جن الفاظ میں باتیں کرتا ہوں انہی لفظوں میں شعر کہتا ہوں، فرق صرف ترتیب و ترکیب کا ہوتا ہے، اور اس ترتیب و ترکیب کو میں نے کتابوں سے حاصل نہیں کیا ہے، یہ میرا ا پنا ہے، اور کسی کے مشورے سے بھی نہیں اپنایا گیا ہے، یہ میرؔ کی پیروی نہیں ہے، میں پیروی کسی کی نہیں کرتا، اگر پیروی میرے مزاج میں ہوتی تو میں بآسانی غالب کی پیروی کرسکتا ہوں، لیکن اتباع میری خمیر فطرت کے خلاف ہے، میرؔ سے کسی قدر مشابہت فن سے نہیں زندگی سے آئی ہے، جس کا شعوری احساس بہت بعد میں مجھے ہوا‘‘۔

اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے

کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے

میری کلیم عاجزؔ سے پہلی ملاقات دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، میری لا شعوریت کے دن تھے، لیکن با شعوروں کی بھیڑ دیکھ کر ان کی قدرو قیمت کا شعور بیدار ہوا، اسٹیج پر ایسے حضراتِ اساتذہ بھی موجود تھے، جنہیں اس سے پہلے کبھی کسی اسٹیج پر نہیں دیکھا گیا تھا، پھر اُن کے تأثرات نے میرے لئے کلیم عاجز کو اور پرکشش بنا دیا، لیکن جب سنا تب تو کلیم عاجزؔ اس وقت تک میرے دل میں مکمل گھر کر چکے تھے، مجمع اتنی خاموشی سے ان کو سن رہا تھا جیسے کوئی ہزاروں کی بھیڑ نہیں بلکہ بند کمرے میں کوئی گنگنانے والا ا پنی مترنم آواز میں نغمہ سرائی کر رہا ہو، اس کے بعد دوسری ملاقات پٹنہ میں ان کے آشیانے پر ہوئی، کلیم عاجزؔ عالمی شہرت کے حامل تھے، اور پٹنہ بی این کالج میں صدر شعبۂ اردو بھی، لیکن ان کے گھر اور کمرہ کو دیکھ کر کوئی نہیں محسوس کرسکتا تھا کہ یہ اتنے بڑے شاعر اور اتنی اونچی ڈگری اور منصب کے حامل شخص کا گھر ہے، ان کے مکان، لباس، رکھ رکھاؤ، چال چلن، گفتار، ہر چیز سے تواضع وانکساری، سادگی اور بے نفسی نمایاں تھی، ہاں وضع، شرافت، مروت، اخلاق کی بلندی، اور گفتگو کی نرم گفتاری کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اس غریبی میں بھی چلتے ہیں سر اونچا کر کے

ہم بھی اے دوست کلہدار ہیں اپنے گھر کے

ایک چلّو بھی نہ اپنے لئے باقی رکھا

غیروں کو بخش دئے ساغر و مینا بھر کے

کلیم عاجزؔ کے ساتھ ایک المناک حادثہ پیش آیا، یہ حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا دردناک واقعہ ہے جس نے کلیم عاجزؔ کی دنیا اجاڑ کر پوری زندگی کے لئے ان کو غم دے دیا، ۱۹۴۶ ؁ء میں ہند و پاک کی تقسیم کے وقت پورا ہندوستان جل رہا تھا، اسی میں کلیم عاجزؔ کا گاؤں تیلہاڑہ بھی تھا، جس میں بلوائیوں نے پوری بستی کو خاک و خون میں لت پت کر دیا، اس فساد میں عین عیدِ قرباں کے دن ان کی ماں اور بہن سمیت خاندان کے (۲۲ )افراد اور گاؤں کے تقریباً (۸۰۰)افراد وحشی درندوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے، مردوں نے فسادیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کی تو عورتوں نے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کی خاطر کنویں میں کود کر اپنی عزت کی حفاظت کی، اس حادثے نے کلیم عاجزؔ کو بہت زیادہ متأثر کیا اور اسی غم نے کلیم عاجزؔ کو شاعر بنا دیا، جس کے ذریعہ انہوں نے اپنے احساسات و جذبات کو غموں کا گلدستہ بنا کر پیش کیا، کلیم عاجزؔ وہ شاعری کا سبب ہوا کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

’’ان آنسوؤں میں جو لذت مجھے مل رہی ہے، یہ میری زندگی، یہی میری جان، یہی میرا فن ہے، اسی کی رعنائی اور تازگی ہے – اس کی لذت، اس کی قیمت میں ہی جانتا ہوں‘‘۔

میرے غم کی قدرو قیمت کوئی میرے دل سے پوچھے

یہ چراغ وہ ہے جس سے مرے گھر میں ہے اجالا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوزِ دل کو ہوا نہ دے

بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تیرا درد اتنا بڑا حادثہ ہے

کہ ہر حادثہ بھول جانا پڑے ہے

اس حادثہ میں گویا کلیم عاجزؔ کا سب کچھ لٹ گیا تھا، جس کے غم میں کلیم عاجزؔ ایک مدت تک نمناک رہے، کلیم عاجزؔ کہتے ہیں :

زمانہ صبر کر لیتا ہے عاجز ہم بھی کر لیں گے

خلش دل کی مٹا لینے کو دو آنسو بہانے دو

غرضیکہ کلیم عاجزؔ کو صبر تو ہو گیا؛ لیکن غم اور درد و الم کا دامن کلیم عاجزؔ سے کبھی نہیں چھوٹا، انہوں نے غم کو ہی غزل کے پیرایہ میں ڈھال کر لوگوں کی تسکین کا سامان فراہم کیا، غم کا موضوع اردو شاعری کے لئے نیا نہیں ہے، لیکن عام طور پر شاعری میں روایتی اور مصنوعی غم پایا جاتا ہے، کلیم عاجزؔ کا معاملہ کچھ مختلف ہے، غم کا تصور ان کے یہاں حقیقت ہے، غم ان کی سر گذشت ہے، اور اسی غم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی غزلوں میں کلیم عاجز کی پوری تصویر دکھائی دیتی ہے، ان کی غزلیں دکھ بھروں کی حکایتیں اور دل جلوں کی کہانیاں سناتی ہیں ؂

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا

یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

غزلیں کب کہتا ہوں یارو، غم کو لوریاں دیتا ہوں

کچھ رات گئے سوجاتا ہوں جب غم کو نیند آ جاتی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہی سمجھتے ہیں مجھ کو جو مجھ کو سنتے ہیں

میری غزل میں میری زندگی مجسم ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کتنا دکھ کتنی جفا کتنا ستم دیکھا ہے

ہم نے اس عمر میں ایک عمر کا غم دیکھا ہے

کلیم عاجزؔ کی غزل کو بے پناہ مقبولیت ملی ہے، ان کا کمال یہ ہے کہ جو کوئی ان غزلوں کو پڑھتا ہے خود ان کو اپنی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے، ان کی غزلیں فرضی اور تخیلاتی موضوعات سے ہٹ کر حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ کلیم عاجزؔ اس عہد کے ایسے غزل گو شاعر تھے جن کی غزلیہ شاعری ادب کی زندہ و تابندہ روایتوں اور اس کی تہذیبی قدروں سے آج بھی مکمل طور پر جڑی ہوتی ہے، غزل اردو شاعری کی آبرو ہے ؛ لیکن کلیم عاجزؔ نے غزل کی آبرو رکھی ہے، ان کی غزلوں میں فکری بغاوت یا ذہنی بے راہ روی نہیں ملتی؛ بلکہ ایک قسم کا انضباط اور رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے، کلیم عاجزؔ صاحبِ دل شاعر تھے، اور حالات سے غمگین بھی، اس لئے ان کی غزلوں میں اہلِ دل کے لئے بہت بڑا ذخیرہ اور سرمایہ ہے۔

تجھے سنگ دل یہ پتہ ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا

کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بلائے کیوں ہو عاجزؔ کو بلانا کیا مزہ دے ہے

غزل کمبخت کچھ ایسی پڑھے ہے دل ہلا دے ہے

کلیم عاجزؔ ایک بڑے فنکار تھے، اردو ادب میں ان کا بڑا مقام تھا، لیکن ان کی طبیعت میں سادگی تھی، شہرت سے شاید ان کو نفرت تھی، یہی وجہ تھی کہ مشاعروں میں شرکت سے گریزاں رہتے تھے، اپنا کلام رسالوں میں شائع کرنے کے لئے بھی نہیں بھیجتے تھے، وہ جو شاعری کا سبب ہوا، بہت سے قدردانوں کی منت وسماجت کے بعد شائع ہوئی، ان کی طبیعت تصنع اور تکلف سے عاری تھی، لیکن اس کے باوجود کلیم عاجزؔ کا کلام با وزن اور فنکار شعراء کی نگاہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا، شاید یہ ان کا خلوص تھا جس نے ان کے نہ چاہنے کے باوجود ان کو اور ان کے کلام کو شہرت کے افق پر پہنچا دیا، فراقؔ گورکھپوری لکھتے ہیں :

’’اتنی دھلی ہوئی زبان یہ گھلاوٹ، لب و لہجہ کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہوسکتا ہے، اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا، میں ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گیا‘‘۔

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے

جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا

تجھے اب بھی میرے خلوص کا نہ یقین آئے تو کیا کروں

تیرے گیسوؤں کو سنوار کر تجھے آئینہ بھی دکھا دیا

کلیم عاجزؔ نہ صرف غزل گو شاعر تھے، بلکہ اردو کے بہترین انشاء پرداز ادیب تھے، ان کے نثری کلام تسلسل و روانی اور حلاوت چاشنی سے بھر پور ہیں، ان کے مجموعہ کلام کی طرح ان کی ادبی کتابوں اور نثری مرثیوں نے بھی خوب شہرت حاصل کی ہے، جس طرح انہوں نے اپنی غزلوں میں اپنی زندگی کی نوحہ خوانی کی ہے اسی طرح اپنی نثری کتابوں میں بھی زیادہ تر اپنی آب بیتی لکھی ہے، ’’ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ اور ’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘یہ دونوں ان کی آب بیتی پر مشتمل ہے، یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ، (سفر نامہ حج) دیوان دو (مجموعہ خطوط) پہلو نہ دکھے گا (ان کی بھانجی نے ان کے نام کلیم عاجزؔ کے تمام خطوط کو یکجا کر دیا ہے اور وہ خدا بخش لائبریری سے شائع ہوئی ہے )دفتر گم گشتہ(پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس میں بہار کی گمنام شخصیات اور ان کے ادبی کارناموں کو زندہ کیا گیا ہے ) ایک دیس ایک بدیسی(سفر نامہ امریکہ) میری زبان میرا قلم(مجموعہ مضامین دو جلد) مجلس ادب (شعری نشستوں کی روداد) کوچۂ جان جاناں (نظموں اور نعتوں کا مجموعہ) پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا(مجموعہ کلام) ان کے علاوہ نظم و نثر پر مشتمل ایک درجن سے زائد کتابیں اردو ادب کے شائقین کے لئے آنکھوں کے سرمہ سے کم حیثیت نہیں رکھتی ہیں، کلیم عاجزؔ کا اس دار فانی سے کوچ کرنا یقیناً شعر و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے