کلیم عاجزؔ کی شاعرانہ حیثیت مسلّم ہے۔ وہ بحیثیت غزل گو عالمی سطح پر مشہور و معروف ہیں۔ اُنھوں نے شاعری میں جو لالہ و گل کھلائے ہیں وہ ہمارے شعری سرمایہ کا ایک روشن باب ہے۔ منفرد لب و لہجہ، احساسات و جذبات کی پاکیزگی، بیان کی سادگی ان کی غزلوں کی خصوصیات ہیں۔ اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے اُنھوں نے جدید غزل گو شعراء کی صف اول میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ کلیم عاجزؔ کی شہرت و عظمت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ناقدین ادب نے انھیں بحیثیت شاعر ہی دیکھا اور پرکھا ہے اور ان کے فکر و فن کے بارے میں بڑی گراں قدر رائے دی ہے۔ ان ناقدین ادب میں فراق گورکھپوری، کلیم الدین احمد، جمیل مظہری، کنہیا لال کپور خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ لیکن کلیم عاجز صرف شاعر ہی نہیں بلکہ صاحب طرز نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثری تحریریں ہزاروں صفحات کو محیط ہیں۔ ان کی نثری نگارشات میں آپ بیتی، سفر نامے، مکتوبات اور تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے بزرگوں، ادیبوں اور شاعروں کے خاکے بھی تحریر فرمائے ہیں جو فن خاکہ نگاری کے اعتبار سے بہت وقیع ہیں۔
نثر میں بھی ان کا اسلوب منفرد ہے۔ بیان کی سادگی، برجستگی اور وضاحت ان کی نثر کا خاص وصف ہے، تصنع ان کے یہاں نام کو بھی نہیں ہے، وہ کوئی مضمون تکلف سے نہیں لکھتے، پیچیدگی کا ان کے یہاں گزر نہیں۔ ابہام انھیں پسند نہیں۔ ہر جگہ وضاحت و صراحت نمایاں ہے۔ سیدھے سادے جملے، سیدھے سادے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ لیکن ان کے باوجود ان کی نثر غیر معیاری نہیں ہے بلکہ ہر جگہ معیاری لب و لہجہ اور مستند زبان و بیان کی پاسداری ملتی ہے اور یہ چیز ان کے وسعت مطالعہ کا پتہ دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کلیم عاجز کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کی نثر میں سادگی کے ساتھ پُرکاری بھی ہے۔ ذیل میں ان کی چند نثری نگارشات کا ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے اربابِ علم کو اندازہ ہوگا کہ کلیم عاجزؔ نہ صرف ایک صاحب طرز شاعر ہیں بلکہ صاحبِ طرز نثرنگار بھی ہیں۔
۱۔ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی، جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آتے ہیں
یہ کتاب دراصل کلیم عاجز کی خود نوشت سوانح حیات ہے جو چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ میرے سامنے 2005 ء کا ایڈیشن ہے۔ نہایت دلچسپ کتاب ہے۔ مصنف کا قلم اس کتاب میں ہر جگہ اپنا جادو بکھیرتا ہے۔ کتاب قاری کو مسحور کر دیتی ہے وہ ادیب کی سحر بیانی میں کھو جاتا ہے۔ مصنف کا شاعرانہ انداز ہر جگہ نمایاں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی داستان گو برجستہ داستان زندگی بیان کر رہا ہے۔ واقعات سے واقعات نکلتے چلے جاتے ہیں۔ قلم رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ قاری اس کے مطالعہ میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ اسے وقت کا بالکل پتہ نہیں چلتا، جی چاہتا ہے کہ کتاب کو ختم کر کے ہی دم لے۔ اس کتاب میں کلیم عاجز نے جزئیات نگاری سے بہت کام لیا ہے۔ ہر واقعہ کو خوب کھول کھول کر پھیلا کر لکھا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز جسے عام زندگی میں ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ کلیم عاجز نے اس کا تذکرہ نہایت دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ مصنف نے اپنے ذکر کے ساتھ ساتھ مختلف افراد و شخصیات کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔
کلیم عاجز نے اپنی خود نوشت کا آغاز کلکتہ کی زندگی سے کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے وطن اور گاؤں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ وطن مالوف کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا ہے بلکہ اس خود نوشت کا مرکزی موضوع مصنف کا وطن اور ابنائے وطن ہیں۔ اُنھوں نے اپنے وطن کے معمولی سے معمولی افراد کا ذکر باتفصیل کیا ہے۔ اس کتاب میں ان کا بھی تذکرہ ہے جن سے صاحب سوانح کی رشتہ داری تھی اور ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جن سے مولف کی کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ یہ کلیم عاجز کی کشادہ دلی اور رواداری کی روشن مثال ہے۔
’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ میں کلیم عاجز کا اسلوب و زبان نہایت سادہ اور سہل ہے۔ سلاست اور روانی ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ مصنف کا دلکش اسلوب قاری کو مسحور کر لیتا ہے۔ زبان میں سادگی کے ساتھ پُرکاری بھی ہے۔ کلیم عاجز کی اس خود نوشت میں زبان و ادا کی پیچیدگی یا ترسیل ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عام بول چال کی زبان بھی استعمال کی گئی ہے۔ اسلوب جاندار اور شاعرانہ پیرایۂ بیان بھی ملتا ہے۔ کتاب میں محفل ادب کا ذکر بھی ہے، تاریخ و فلسفہ کا بیان بھی ہے اور زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
المختصر کلیم عاجز کی خود نوشت ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ ہمارے نثری ادب کا ایک شاہکار ہے۔ یہ خود نوشت اپنے فن پر بھی کھری اُترتی ہے۔ کلیم عاجز شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی۔ اس کتاب میں ان کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ آپ بیتی مصنف کے دردمند دل کی آواز ہے اس لئے ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اسی میں اس کی مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ خود نوشت اپنے اسلوب و بیان کے لحاظ سے اُردو کی خود نوشت سوانح عمریوں میں اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
۲۔ ابھی سن لو مجھ سے
یہ کتاب کلیم عاجز کی آپ بیتی کا دوسرا حصہ ہے۔ یہ خود نوشت پہلی بار 1992 ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب 448 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے سرورق پر کلیم عاجز کا یہ شعر درج ہے :
یہ بیان حال یہ گفتگو، ہے مرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو، نہ سنو گے ایسی کہانیاں
خود نوشت کی پہلی جلد ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ کی طرح ’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ بھی کلیم عاجز کی دل سوز پرسوز کہانی بیان کرتی ہے۔
اس کتاب میں بھی بظاہر کوئی ترتیب نہیں معلوم ہوتی اور نہ ہی اس میں ذیلی عنوانات کی کوئی فہرست درج ہے۔ کتاب کے دیباچے میں کلیم عاجز لکھتے ہیں :
’’یہ دیباچہ ایک نالۂ درد ہے ایک آہِ سرد ہے ایک صدائے اضطراب ہے۔ انسان کی ذہنی اور فکری بیماری کے مشاہدہ کے بعد خطرے کا اعلان ہے جو یہ بیماری انسان کو ہر طرف سے نرغے میں لے جا رہی ہے۔ ایک تنبیہ ہے اس انجام کی جو اسے دبوچنے والا ہے تمام عالم اس خطرے میں مبتلا ہو چکا ہے اور عالم اسلام اس خطرے سے قریب ہوچکا ہے اور ہمارا ملک تو اس خطرے میں پڑ چکا ہے۔ ہمیں اپنا غم ہے اور اپنے ملک کا غم بھی ہے۔ ہم نے اس ملک کو سنوارا ہے، اسے چار چاند لگائے ہیں، اسے سجایا ہے بنایا ہے، ہم نے خود کو کھو کر اسے پایا ہے۔ اب یہ بھی کھو جانے والا ہے۔ اور ہماری صدیوں کی محنت اکارت ہونے والی ہے اور اسے غارت کرنے میں، اسے اکارت کرنے میں ہم بھی شامل ہیں۔ اس سے بڑھ کر ذلت ہمارے لئے نہیں کہ ہم ہی اسے بنائیں سنواریں ہم ہی اسے پائیں اور پھر ہم ہی اسے کھودیں‘‘۔ (ابھی سن لو مجھ سے۔ صفحہ 13)
یہ آپ بیتی کلیم عاجز کے دل سے نکلی ہوئی ایسی آواز ہے جو قاری کے سینے کو چیرتی ہوئی دل میں اُتر جاتی ہے۔ یہ کتاب اپنے عہد کے سماجی، سیاسی، علمی و ادبی حالات کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ ’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ سچی تصویروں کا ایک نایاب البم ہے۔ سینکڑوں شخصیتوں کا ذکر نہایت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کوئی فرضی داستان، ناول یا افسانہ نہیں بلکہ حقیقی کہانیاں ہیں جو جذبات سے لبریز ہیں۔ یہ کہانیاں سبق آموز بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ یہ کتاب خیالات کا ایک دریا ہے۔ اس میں دل کو جھنجھوڑنے والے مناظر بھی ہیں۔ یہ خود نوشت پچاس سالہ تاریخی دستاویز ہے جس میں سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، تعلیمی اور ادبی تحریکات کے حالات و واقعات قلم بند کئے گئے ہیں۔
’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ کا اسلوب نہایت دلکش ہے۔ مصنف چونکہ خود شاعر ہے۔ اس لئے پوری کتاب میں ایک طرح کی روانی ہے۔ ہر جگہ خلوص اور سچائی کا عنصر نمایاں ہے۔ کہیں سے ریاکاری کی بو نہیں آتی اور یہی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔ یہ تحریریں لہو میں ڈوبے ہوئے قلم سے لکھی گئی ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی ’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ ایک ایسے انسان کے ذہن و عمل کا عکس ہے جو زندگی میں بڑا ظلم سہنے کے بعد بھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتا۔ کلیم عاجز کی آپ بیتی اُردو میں لکھی گئیں آپ بیتیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ زبان کی خوبیوں سے مالا مال ہے اور فن کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی خود نوشت کا درجہ رکھتی ہے۔
۳۔ یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ
’’یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ‘‘ کلیم عاجز کا سفر نامہ حج ہے۔ اس کتاب میں کلیم عاجز کے دوسرے سفر حج کے سچے حالات، حقیقی تجربات اور عاشقانہ جذبات کی والہانہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1981 ء میں شائع ہوئی۔ اس میں کل 240 صفحات ہیں۔ اب تک اس کے کئی اڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ۔ یہ ایک شعر کا عنوان ہے۔ شعر ملاحظہ کیجئے :
سفر ہوتا بہ خم، پھرتا بہ مینا
یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ
کلیم عاجز کی کتابوں کے عنوانات بے حد خوبصورت ہوتے ہیں۔ نثر لکھتے وقت ان کا شاعرانہ مزاج ان پر حاوی رہتا ہے۔ عنوانات کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلیم عاجز کا ذہنی سانچہ اور ان کی فکری اساس شعر و شاعری سے از حد متاثر ہے۔ ’’یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ‘‘ کی زبان نہایت دلکش ہے۔ تحریر میں بے ساختگی ہے۔ کلیم عاجز تکلف سے کوئی بات نہیں لکھتے۔ نہایت سلیقے کے ساتھ سیدھے سادے اور برجستہ جملے استعمال کرتے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجئے :
’’یہ شاعری نہیں یہ زندگی ہے … لیکن ان سب کے باوجود دوسروں سے میرا کوئی انداز نہیں ملتا … نہ بحیثیت شاعر کے، نہ کھانے میں میرا انداز کسی سے ملتا ہے نہ پہننے میں، نہ سونے میں، نہ بیٹھنے میں نہ چلنے پھرنے میں، نہ ملنے جلنے میں، نہ بولنے چالنے میں، نہ نشست و برخاست میں، نہ عادات و اطوار میں، نہ مزاج و مذاق میں۔ لیکن یہ فرق کہاں سے شروع ہوتا ہے، کب شروع ہوتا ہے اور کیسے شروع ہوتا ہے، یہ میں خود بھی نہیں بتا سکتا… پھر بھی کوئی بات ہو جاتی جو دوسروں سے مجھے الگ کر دیتی … میں چاہتا ہوں کہ ایسا نہ ہو لیکن ہو جاتا ہے ‘‘۔ (یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ۔ صفحہ 36-37)
۴۔ دیوانے دو
کلیم عاجز کے خطوط خالص نجی خطوط کے زمرے میں آتے ہیں۔ کلیم عاجز نے اپنے احباب و متعلقین و متوسلین کے نام ہزاروں خطوط لکھے۔ لیکن اب تک ان کے خطوط کے صرف دو مجموعے شائع ہو کر منظر عام پر آئے ہیں جو درج ذیل ہیں :
۱۔ دیوانے دو (کلیم عاجز اکیڈمی، پٹنہ 1981ء)
۲۔ پہلو نہ دُکھے گا (خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 2004 ء)
دیوانے دو مکتوب نگار اور مکتوب الیہ ہر دو کے خطوط پر مشتمل ہے۔ کلیم عاجز کے خطوط ڈاکٹر جگن ناتھ کوشل (سابق گورنر بہار) کے نام ہیں۔ تین خطوط کے علاوہ کلیم عاجز کے تمام خطوط زبان اُردو میں ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر جگن ناتھ کوشل صاحب کے تمام خطوط انگریزی زبان میں ہیں۔ ان خطوط کے مطالعے سے انسانی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ کیونکہ ان خطوط میں جہاں ایک طرف روز مرہ کے پیش آنے والے حادثات کا تذکرہ ہے وہیں دوسری طرف شب و روز کے واقعات اور قصہ پارینہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف راحت قلب کی باتیں ہیں تو دوسری طرف انسانیت کے کرب کی داستان بھی بیان کی گئی ہے۔ ان خطوط میں ملک کے سیاسی و سماجی حالات کا بھی تذکرہ ہے اور اخلاقی انحطاط کا بھی۔ دونوں فریق انسانی قدروں کی پامالی پر آنسو بہاتے ہیں۔ دونوں انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں۔ فریقین میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس لیے یہ خطوط دیگر مکتوب نگاروں کے خطوط سے کافی مختلف ہیں۔
ان خطوط میں بڑا تنوع اور رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ ان خطوط میں علم و حکمت کی باتیں بھی ہیں اور پند و موعظت کا بیان بھی۔ ان میں علم و ادب کی چاشنی بھی دکھائی دیتی ہے۔ حکمت و دانائی کی ایک جھلک ملاحظہ ہو :
’’فارسی میں ایک بہت بڑے صوفی شاعر گزرے ہیں جو حکیم سنائی کے نام سے مشہور ہیں۔ بڑے دنیا دار شرابی تھے۔ بادشاہ وقت کے مصاحب تھے۔ بادشاہ نے ایک بار اعلان کیا کہ فلاں ملک پر فوج کشی کرنی ہے۔ تیاریاں ہونے لگیں۔ اس روز حکیم سنائی نے خوب شراب پی اور نشے میں جھومتے ہوئے چلے کہ بادشاہ کے اس اعلان کی تعریف کر کے انعام حاصل کروں۔ راستہ میں دو فقیر بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ حکیم سنائی جب فقیروں کے قریب سے گزرنے لگے تو ان میں سے ایک نے کہا: ’’جانتے ہو ہمارے ملک میں دو بیوقوف ہیں کون کون؟ ایک تو ہمارا بادشاہ کہ ایک ملک کا انتظام تو ہوتا نہیں دوسرے ملک پر قبضہ کرنے جا رہا ہے اور دوسرا بیوقوف حکیم سنائی کہ ایسے بیوقوف بادشاہ کی تعریف کر کے انعام حاصل کرنے جا رہا ہے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ جیسے اندھیرے میں کوئی دروازہ کھل گیا۔ حکیم سنائی وہیں سے واپس ہوئے۔ شراب سے توبہ کی اور فارسی کے مشہور عالم صوفی شاعر ہوئے ‘‘۔ (دیوانے دو۔ صفحہ 84)
ان خطوط میں بڑی سادگی، بے تکلفی، سچائی اور خلوص پایا جاتا ہے۔ یہ خطوط دونوں شخصیتوں کا آئینہ ہیں۔ جس میں ان کی شخصیت کی ہمہ جہتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کا حساس شعور، ان کے افکار و نظریات، ان کا انسان دوستی کا جذبہ، ان کی عقل و دانائی، ان کا ذوق شعر و سخن و علم و ادب غرض زندگی کے تمام پہلوؤں کی جھلکیاں ان خطوط میں نمایاں ہیں۔ ان خطوط میں فریقین کا انداز بیان بے تکلف اور سادہ ہے۔ تصنع اور تکلف نام کو بھی نہیں۔ کلیم عاجز کے خطوط میں حد درجہ سادگی، سچائی، خلوص اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں پیچیدگی، ابہام اور فلسفہ طرازی کا گزر نہیں۔ ان کے خطوط پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا آمنے سامنے باتیں ہو رہی ہیں اور یہ خطوط کی بہت بڑی خوبی ہے۔
۵۔ پہلو نہ دکھے گا
’’پہلو نہ دکھے گا‘‘ ان کے خطوط کا دوسرا مجموعہ ہے جسے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یہ مجموعہ 69 خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ خطوط 1971 ء سے 2001 ء کے درمیان لکھے گئے ہیں۔ کلیم عاجز نے یہ خطوط اپنی بھانجیوں کے نام رقم فرمائے ہیں۔ اصلاً یہ ذاتی نوعیت کے خطوط ہیں مگر بہ نظرِ غائر اس کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ مجموعہ نہ صرف خطوط ہیں بلکہ ایک طرح کا تاریخی و تہذیبی دستاویز بھی ہے۔ اس مجموعہ میں کلیم عاجز کا بصیرت افروز مقدمہ بھی ہے جو 42 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ کے بعد دیباچہ کے عنوان سے کلیم عاجز کی بھانجی ریحانہ نے خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ دیباچہ ایمان افروز بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ ریحانہ نے اس میں اپنی مختصر آپ بیتی بھی رقم فرما دی ہے۔ اس میں ریحانہ نے کلیم عاجز کی شخصیت کے متعلق نہایت اہم باتیں لکھی ہیں۔
کلیم عاجز کے خطوط میں موضوعات کا تنوع نہیں ہے۔ یہ بالکل فطری خطوط ہیں۔ اس میں صناعی کو دخل نہیں ہے۔ یہ خطوط بے ساختہ اور بے تکلف لکھے گئے ہیں ان کی تخلیق ضرورت کے پیش نظر ہوئی ہے۔ کلیم عاجز ’’پہلو نہ دکھے گا‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’خطوط بھی ادب پارے میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ کچھ فطری ہوتے ہیں جیسے غالب کے خطوط، کچھ صناعانہ ہوتے ہیں جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کا غبار خاطر اور بیشتر نوعیت کے خطوط ہیں۔ غالب کا کینوس وسیع ہے اور کوئی خاص موضوع ان کا نہیں ہے۔ میرے خطوط کا موضوع متعین ہے۔ ان میں تنوع نہیں ہے اور نہ یہ کوئی وسیع موضوع رکھتے ہیں۔ ان کا ایک ہی موضوع ہے جو مطالعہ سے ظاہر ہوگا اور بے ساختہ اور بے تکلفانہ اور برجستہ مختلف حالات اور ذہنی کیفیات کے دوران لکھے گئے ہیں ان میں ادبی چاشنی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے جیسا کہ مطلع سے ظاہر ہوگا۔ ان کے ایک ہی مخاطب یا دو تین مخاطب ہیں یعنی میری بھانجی ریحانہ اور اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ان کی چھوٹی بہنیں شگفتہ و غنچہ اور بس ان کی ضروریات یا دو ایک ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ ایسے خطوط قابل اشاعت نہیں ہوتے مگر ان میں شخصیت کا پرتو ہے اور مزاجوں اور کہیں کہیں حالات کا عکس ہے ان میں ادبی پہلو کتنا ہے پڑھنے والے بتا سکیں گے مگر اتنا ضرور عرض کروں گا یہ ایک پرانے کمہار کے چاک پر گڑھے گئے ہیں۔ ایسا کمہار جس کا چاک چالیس پچاس سال سے بھی کبھی غیر متحرک اور جامد نہیں رہا ہے۔
کیا دل ہے کہ آرام سے اک سانس نہ لے ہے
محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے
ان خطوط کے مطالعہ سے نہ صرف کلیم عاجز کی شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے بلکہ زمانے کے حالات و واقعات، بدلتی ہوئی قدریں، اقتدار کی شکست و ریخت اور اس کے سبب رونما ہونے والی تبدیلیاں اور تہذیب و تمدن کی جھلکیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ یہ خطوط سادگی، خلوص اور سچائی سے لبریز ہیں۔ جس طرح ان کی شاعری دل میں اُتر جانے والی ہے ٹھیک اسی طرح یہ خطوط بھی دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکتوب نگار اپنے مخاطب سے محو گفتگو ہے۔ کیونکہ ان خطوط کا انداز گفتگو کاسا ہے۔ ان خطوط میں خالص گھریلو، صاف اور سچی باتیں بغیر کسی بناوٹ کے بیان کر دی گئی ہیں۔ ان میں حالات سے نبرد آزما ہونے اور اپنے مقصد پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطوط میں شوخی ہے نہ رنگینی، فلسفہ طرازی ہے نہ علمیت اور نہ ہی قابلیت کا اظہار۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کلیم عاجز کے خطوط بلاشبہ ہماری خطوط نگاری کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کے خطوط میں محبت کا پیغام، پیار کی تعلیم، زندگی کے تجربات کے ساتھ ساتھ خوش طبعی اور مزاح کا عنصر بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
٭٭٭