جس جگہ بیٹھنا دکھ درد ہی گانا ہم کو
اور آتا ہی نہیں کوئی فسانہ ہم کو
کل ہر اک زلف سمجھتی رہی شانہ ہم کو
آج آئینہ دکھاتا ہے زمانہ ہم کو
عقل پھرتی ہے لیے خانہ بہ خانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانا ہم کو
یہ اسیری ہے سنورنے کا بہانہ ہم کو
طوق آئینہ ہے زنجیر ہے شانہ ہم کو
جادہ غم کے مسافر کا نہ پوچھو احوال
دور سے آئے ہیں اور دور ہے جانا ہم کو
اک کانٹا سا کوئی دل میں چبھو دیتا ہے
یاد جب آتا ہے پھولوں کا زمانہ ہم کو
دل تو سو چاک ہے دامن بھی کہیں چاک نہ ہو
اے جنوں دیکھ ! تماشا نہ بنانا ہم کو
٭٭٭
رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے
اور وہ چیز نہ دولت نہ مکاں ہے نہ محل
تاج مانگا ہے نہ د ستا ر و قبا مانگی ہے
نہ تو قدموں کے تلے فرش گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہ بال ہما مانگی ہے
نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے
نہ صدائے جرس و بانگ درا مانگی ہے
نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانند خضر عمر بقا مانگی ہے
نہ کوئ عہدہ نہ کرسی نہ لقب مانگا ہے
نہ کسی خدمت قومی کی جزا مانگی ہے
نہ تو مہمان خصوصی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے
میکدہ مانگا، نہ ساقی، نہ گلستاں، نہ بہار
جام وساغر نہ مئے ہوش ربا مانگی ہے
نہ تو منظر کوئی شاداب وحسیں مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے
محفل عیش نہ سامان طرب مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگھور گھٹا مانگی ہے
بانسری مانگی نہ طاؤوس نہ بربط نہ رباب
نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے
چین کی نیند نہ آرام کا پہلو مانگا
بخت بیدار نہ تقدیر رسا مانگی ہے
نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات
اور نہ اپنے مرض دل کی شفا مانگی ہے
نہ غزل کے لئے آہنگ نیا مانگا ہے
نہ ترنم کی نئی طرز ادا مانگی ہے
سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں ارباب چمن
آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے
آ، تیرے کان میں کہہ دوں اے نسیم سحری!
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے
وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفا مانگی ہے
٭٭٭
دل بیتاب تک ہے، یا جہاں تُم ہو وہاں تک ہے
نہیں معلُوم میرے درد کی دُنیا کہاں تک ہے
کبھی وابستہ کر دے گی حدُودِ قید و آزادی
یہ زنجیرِ تصوّر جو قفس سے آشیاں تک ہے
ہوئی جب نا ا میدی پِھر کہاں یہ لُطف جینے کا
فریبِ زندگانی اعتبارِ دوستاں تک ہے
کبھی اِس مرحلے سے بھی گُذر جانا ہی اچھا ہے
ہراسِ اِمتحاں اے دوست وقتِ اِمتحاں تک ہے
٭٭٭