مقالات کلیم ۔۔۔ شیخ عقیل احمد

 

کلیم احسان بٹ راولپنڈی کے ایک کالج میں اردو کے استادہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر و ادیب بھی ہیں۔ وہ تقریباً ایک درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ان کے مجموعہ کلام کے علاوہ تنقیدی اور تحقیقی تصانیف قابل ذکر ہیں۔ زیر بحث تصنیف ’’نقد کلیم‘‘ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں گیارہ مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کلیم احسان بٹ ادب کے تمام شعری اور نثری اصناف کا مطالعہ کافی انہماک سے کرتے ہیں اور تمام پہلوؤں پر کافی غور فکر کے بعد اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
زیر بحث کتاب میں شامل مضمون ’’کلام میر میں مقطعات کا مطالعہ‘‘ میں انہوں نے صرف میر کے مقطعات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ اپنے نوعیت کا الگ مضمون ہے۔ واضح ہو کہ غزل کے آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے جسے ’’مقطع‘‘ کہتے ہیں۔ مطلع اور مقطع، غزل کے دوسرے اشعار کے مقابلے میں زیادہ پُر زور اور پُر اثر ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے دلی جذبات واحساس کا بیان خاص طور سے مقطع میں کرتا ہے، جس سے شاعر کی شخصیت کا مکمل عکس نظر آتا ہے اور اس کے ذہنی رجحان کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ فراقؔ گورکھپوری نے مقطع کی خوبی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مقطع غزل کے سانچہ کا وہ نشان ہے، جس میں پوری غزل کا اساسِ تغزل اپنے پورے چڑھاؤ اتار، تیزی و نرمی کے ساتھ بھی دیا جاتا ہے اور جہاں زمزمہ تغزل کی سرحدیں سکوتِ ابدی سے مل جاتی ہیں۔ مقطع سوفی صدی داخلی چیز ہے اور اس میں نفسیاتی اور وجدانی ارتعاشات آخری بار جلوہ نما ہوتے ہیں۔ ‘‘
مقطع کی انہیں خوبیوں کے مد نظر ناصر کاظمی نے ’’انتخاب میر میں میرؔ کی غزلوں کے مقطعات کو شامل انتخاب کیا ہو گاجس کے مطالعہ نے کلیم احسان بٹ کو متوجہ کیا اور انہوں نے اس کا خورد بینی سے جائزہ پیش کیا۔ کلیم احسان بٹ نے مقطع کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ میر کے بیشتر مقطعات میں صیغہ جمع متکلم کا استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میر کو اپنی عظمت کا احساس تھا۔ کلیم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ میر نے اپنے مقطعات میں مکالماتی انداز اختیار کیا ہے۔ مکالماتی انداز بیان اور صیغہ جمع متکلم کے استعمال سے قاری بھی ان کے ذاتی تجربے میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور ان کے ا شعار میں یہ خوبی پیدا ہو جاتی تھی کہ:
’’کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جوسنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے‘‘
غزل کے اشعار کی یہی وہ خوبی ہے کہ قاری شاعر کو خود کے قریب محسوس کرتا ہے جس سے غزل کے اشعار بے حد مقبول ہو جاتے ہیں اور میر تو خدائے سخن تھے لہٰذا ا ن کے مقطعات کا کیاک ہنا۔ کلیم احسان بٹ نے میر کے مقطعات کی مقبولیت کے اسباب کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
ہمارے ادب کی بہت سی اصناف آج کمیاب صرف اس لیے ہو گئیں کہ ہم حد سے زیادہ سہل پسند ہو گئے ہیں اور ہمارا یہ تساہل ہمیں عرق ریزی کے جوہر سے ناآشنا کر چکا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس صنف سے گریز کرنے لگے جس صنف میں عرقِ دماغ کی آمیزش ناگزیر ہے۔ تحریکیں اور رجحانات جہاں ادب پر چھا جانے والے جمود کی پرت کو توڑنے کا خوش گوار فریضہ انجام دیتے ہیں وہیں وہ اپنے جلو میں بے شمار نئی اصناف بھی لاتی ہیں جن میں بیشتر اصناف ردّ و قبول کے مرحلے سے گذر کر خود بخود حاشیے میں چلی جاتی ہیں لیکن کچھ اصناف اپنی ہمہ گیری کے سبب عوام میں قبولیت کی سند پاتی ہیں۔ یہاں جس قدیم فن کا ذکر مقصود ہے وہ ’’فنِ تاریخ گوئی‘‘ ہے جسے ہم آج بھلاتے جا رہے ہیں لیکن آج بھی ایسے ادیب و شاعر موجود ہیں جنہوں نے ہوا کے رخ کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے مخالف سمت میں چلنا مناسب سمجھا۔ ان ادیبوں اور شاعروں میں کلیم احسان بٹ خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے ’’مرگ غالب اور قطعہ ہائے تاریخ وفات‘‘ میں اس مشکل فن سے بحث کی اور پھرسے فن کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاریخ گوئی ایک فن ہے جسے شعری اصناف سخن میں شمار نہیں کیا جاتا لیکن تاریخی قطعے بے مثال ہوتے ہیں، ان کی دلکشی و نغمگی کو دیکھتے ہوئے اس فن کو شعری اصناف کا لافانی حصّہ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔ عہد غالب میں فنِ تاریخ گوئی کی حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ اس دور میں اس فن کو اس طرح صنائع بدائع سے آراستہ کیا گیا کہ یہ فن گنجینۂ صنعت کا طلسم بن گیا۔ اس دور میں ذوقؔ غالبؔ، مومنؔ، شیفتہؔ، صہبائیؔ، مجروحؔ، قدرؔ بلگرامی، حاتمؔ علی میرسالکؔ، امیر اللہ تسلیمؔ، عبدالغفور نساخؔ۔ محمد علی جو یاؔ مراد آبادی، تفتہؔ وغیرہ نے اس فن میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ جو دتِ طبع اور حدّتِ فکر کے کیسے کیسے جوہر دکھائے۔ غالبؔ نے بھی بے شمار تاریخیں کہی ہیں حالانکہ انہوں نے اپنے خطوط میں کئی جگہ اس فن سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مادۂ تاریخ دوسرے نکالتے ہیں وہ صرف قطعہ کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تاریخیں بہت بلند پا یہ ہیں۔ نواب میر جعفر علی خاں کے انتقال پر ایک قطعہ تاریخ لکھا :
گر دید نہاں میر جاں تاب دریغ
شد تیرہ جہاں بہ جسمِ احباب دریغ
ایں واقعہ زروئے زاری غالب
تاریخ رقم کر د کہ نواب دریغ
اس میں تعمیہ تدخلہ کے طریقے سے تاریخ نکالی ہے۔ ازروئے زاری یعنی ’’ز‘‘ کے عدد ۷ ’’نواب دریغ‘‘ پر جس کے عدد ۱۲۷۳ ہوتے ہیں بڑھائیں جائیں تو ۱۲۸۰ھ حاصل ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے غالب اپنے آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے اور ہر سال اپنی تاریخ وفات نکالتے تھے کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ اس سال وہ ضرور مر جائیں گے۔ ناقدین غالب اور مولانا حالی کا خیال ہے کہ ’’مرزا یا تو اس وجہ سے کہ ان کی زندگی فی الواقع مصائب اور سختیوں میں گزری تھی اور یا اس لیے کہ ان پر نا ملائم حالتوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا تھا۔ آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے۔ ‘‘لیکن غالب ایک زندہ دل انسان تھے۔ وہ مصائب اور سختیوں سے گھبرا کر مرنے کی تمنا کبھی نہیں کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
بہرحال کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون میں غالب کے مقطعات اور خطوط کی روشنی میں لکھا ہے کہ غالب جلد از جلد مرنے کے آرزو مند تھے اس لیے اکثر مادۂ تاریخ نکالتے تھے اور چاہتے تھے کہ بعد از مرگ ان کی یاد میں تاریخی قطعات اور مرثیے لکھے جائیں۔ لہٰذا غالب کے انتقال کے بعد بے شمار شعر ا اور تاریخ گو حضرات نے مرثیے اور قطعات تاریخ لکھ کر خراج عقیدت پیش کی۔ کلیم احسان بھٹ نے ان قطعات کو جمع کیا ہے اوران پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔
فارسی کے ماہر عروج شمس قیس رازی نے غزل کی جو تعریف پیش کی تھی اور اس کی روشنی میں فارسی غزل نے جو مقام اور بلندی حاصل کی تھی وہاں تک اردو غزل کبھی نہیں پہنچ پاتی اگر میر تقی میر نے اردو غزل کا معیار متعین نہیں کیا ہوتا۔ میر تقی میر کے بعد غالب نے غزل کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے غزل میں وسعت پیدا کی اور غزل کوحسن و عشق کے بھول بھلیّاں سے نکال کراس میں فکر کا پہلو پیدا کر دیا۔ مختصر یہ کہ دونوں شعر ا اپنے اپنے دور کے عظیم شاعر اور غزل کے رجحان سازتھے یہی وجہ ہے کہ اردو کا کوئی بھی عظیم شاعر ایسانہیں ہے جس نے ان دونوں شعرا کا اثر قبول نہیں کیا ہو اور ان دونوں شعرا کے رنگِ غزل کے ارتعاشات ان کی شاعری میں موجود نہ ہوں اور جن شعرا کی غزل میر و غالب کے رنگ غزل کے اثرسے خالی ہے وہ بڑے شاعر نہیں ہیں۔ ظاہر ہے ان دونوں عظیم شعرا میرو غالب کی شاعری میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہو گی۔ غالب نے میرسے بھی کچھ اثر قبول کیا ہو گا اور میر کو بھی اندازہ ہو گا کہ غالب کا مقام ایک شاعر کی حیثیت سے مستقبل میں کیا ہو گا۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’غالب معتقد میر‘‘ میں انہیں پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے اور دونوں عظیم شاعروں میں مماثلت کے ایسے پہلوؤں کو تلاش کیا ہے اور انہیں زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے جن پہلوؤں تک آسانی سے رسائی ناممکن ہے۔ کلیم احسان بٹ نے جس طرح غالب کے خطوط اور شاعری کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ غالب کس قدرمیرسے متاثر نظر آتے ہیں یہ ان کی تحقیقی، تنقیدی اور شعر فہمی کی صلاحیت کی دلیل ہے۔
پرتو روہیلہ کی تصنیف ’’غالب کے غیر مدون فارسی خطوط‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کلیم احسان بٹ نے ادبی تحقیق کے اصولوں کی وضاحت کی ہے اور ادبی تحقیق کی روشنی میں متذکرہ تصنیف کاجس طرح جائزہ پیش کیا ہے اس معلوم ہوتا ہے کلیم تحقیق و تنقید کے تمام لوازمات اور پہلوؤں کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں ترجمہ اور تخلیق میں جو بنیادی امتیازات ہیں ان پربھی روشنی ڈالی ہے اور غالب کے غیر مدون فارسی خطوط کی خوبیوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ کتاب کے مختلف صفحات کے ورق پر جو حواشی موجود ہیں کلیم نے ان کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور ان پربھی اظہار خیال کیا ہے اور بجا فرمایا ہے کہ متن میں اصلاح فرمانا مدون کا حق نہیں ہے۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے:
’’حواشی پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حواشی کا تعلق قاری کی تسہیل سے ہے اور بعض کا متن میں اصلاح سے۔ میرے خیال میں متن میں اصلاح کا حق مدون کو حاصل نہیں۔ اور متن میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار سوائے مصنف کے کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ مدون کا اولین فرض اس عبارت تک پہنچنا ہے جو مصنف کے قلم سے نکلی تھی۔ اگر اس متن کی املا و معانی پر مدون کو کوئی اعتراض ہو تو وہ حواشی میں کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری تک درست متن پہنچے لیکن متن میں تبدیلی مدون کا اختیارات کا ناجائز استعمال ہی سمجھا جائے گا۔ ‘‘
کلیم نے اس عبارت میں جو کچھ لکھا ہے وہ تدوین متن کے اصول کے مطابق ہے۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کلیم اپنی رائے کا اظہار بے باکی سے کرتے ہیں۔ پرتو روہیلہ نے فارسی خطوط کا ترجمہ پیش کرتے وقت بعض الفاظ اور جملے قوسین کے اندر لکھا ہے جس سے غالب کا اسلوب کس طرح متاثر ہوا ہے اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ قوسین میں لکھنے سے اصل معنی و مفہوم کس طرح بدل گئے ہیں۔ الغرض یہ مضمون بھرپور ہے اوراس کا مطالعہ دلچسپ ہے۔
’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘میں مغربی شاعروں، ادیبوں اور ناقدوں کے خیالات پیش کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ بحث چلی آ رہی ہے کہ کیا حالی کو انگریزی ادب، فلسفہ اور مغربی تنقید سے واقفیت تھی؟اس سلسلے میں بے شمار مضامین اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ناقدین اور محققین کے متضاد خیالات ہیں لیکن سبھی اس بات سے متفق ہیں کہ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ اردو کی پہلی باقاعدہ تنقیدی تصنیف ہے۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’مقدمہ شعر و شاعری اور حالی کی انگریزی دانی‘‘ میں انہیں پہلوؤں پر از سرِنواظہارخیال کرتے ہوئے اس بحث کو آگے بڑھایا ہے۔
کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’اقبال کا کلام اور نوآبادیات‘‘ میں کافی تفصیل سے علامہ اقبال کے تصور قومیت اور تصور تعلیم کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انگریزوں کے ہندوستان میں آنے کے اسباب، انگریزوں کے ذریعہ لائی گئی نئی تہذیب و تعلیم کے اثرات، ہندوستان کے نوجوانوں کی احساس محرومی اوراس کے اسباب، علامہ اقبال کے یوروپ جانے سے پہلے قومیت اور تعلیم کے تصورات اور یوروپ جانے کے بعد ان کے تصورات میں جو تبدیلی آئی ان کا جائزہ ایک مورخ کی طرح پیش کیا ہے اور اقبال کے کلام کی روشنی میں ان کے نظریہ تعلیم اور نظریہ قومیت کے تصورات پر عمدہ بحث کی ہے۔
دراصل یوروپ جانے کے بعد اقبال نے جب مغربی علوم و فنون کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ مغربی علوم و فنون اورفلسفہ کی بنیاد بے حد کمزور ہے۔ لہٰذا مغربی علوم و فنون سے مرعوب ہو کرہندوستان کے نوجوانوں کواحساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ اقبال کو یہ بھی احساس ہوا کہ مغربی نظام تعلیم میں مادیت پرستی ہے لیکن روحانیت کا فقدان ہے۔ جبکہ ہندوستانی نظام تعلیم اورفلسفے میں روحانیت اور مادیت کی آمیزش ہے۔ مشرقی فلسفہ اور طرز تعلیم کی روایت بہت قدیم اور شاندار ہے جس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے اور مغربی فلسفے اور تعلیمی نظریے کے طلسم میں گرفتار نہیں ہونا چاہئے لہٰذا انہوں نے اپنے کلام میں انگریزوں کے علوم و سفنون، فلسفہ زندگی اور نظریہ تعلیم و تصورِ قومیت کو تنقید کا نشانہ بنایا اورایسے نظام تعلیم پرزوردیاجس سے خودی کے پیغام کو عوام تک پہونچایا جا سکے اور خودی کا احساس ہر نوجوان کے دل میں پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے عورتوں کی تعلیم پربھی زور دیا۔ قومیت کے تصور کے دائرے کووسیع سے وسیع تر کیا اور کہا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام ہمارا ہے اور ہمارے اندر عالم اسلام کے محبت کا جذبہ بیدار ہونا چاہئے۔ کلیم احسان بٹ نے متذکرہ مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا ہے جس سے ان کے وسیع ویژن کا اندازہ ہوتا ہے۔
میر تقی میر اور غالب کے بعد علامہ اقبال رجحان ساز عظیم شاعر ہیں۔ اقبال غزل کے بڑے شاعر ہیں یانظم کے؟اقبال کی شاعری میں فکروفلسفہ حاوی ہے یا ان کا فن وغیرہ سوالات ہمیشہ موضوع بحث رہے ہیں۔ کسی نے انہیں نظم کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے تو کسی نے غزل کا۔ کسی نے کہا ہے کہ وہ فکروفلسفے کے شاعر ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کا فن سب پر حاوی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اقبال جتنے بڑے نظم کے شاعر ہیں اتنے ہی بڑے غزل کے بھی شاعر ہیں۔ جہاں تک ان کے فکر و فن کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ان کافکروفلسفہ ان کے فن کے قالب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فکروفلسفے کو شاعری سے جدا کر دیا جائے توفلسفے کا اثر کم ہو جائے گا اور شاعری کی رعنائی میں بھی کمی آ جائے گی۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہی ایک عظیم شاعر کی پہچان ہے۔ عظیم شاعر پہلے سے شاعری کے وضع کردہ اصولوں پر چلے یا نہ چلے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ عظیم شاعرجس راستے پر چلتا ہے وہی شاعری کا اصول بن جاتا ہے اوراسی کے وضع کردہ اصولوں پر پوری دنیا چلنے لگتی ہے۔ اقبال ایسے ہی شاعروں میں سے ایک تھے۔ اسی لئے تو انہوں نے جس موضوع کو جس طرح چاہا شاعری کے قالب میں ایسے ڈھال دیا کہ ان کے اشعار مںو وہ موضوع گنگنا اٹھا۔ کلیم احسان بٹ نے اقبال کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اقبال ایک شاعر ہی نہیں بلکہ شعر کے بڑے ناقد بھی ہیں۔ انہوں نے فنون لطیفہ اور بالخصوص شعر و ادب کے بارے میں اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار اشعار میں بھی کیا ہے۔ ‘‘لہٰذا کلیم نے علامہ اقبال کے ان اشعار کی روشنی میں جن میں علامہ نے فنونِ لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ کلیم احسان بٹ کا خیال ہے کہ ’’علامہ اقبال ؒ نے بنیادی طور پر اپنا نظریہ فن قرآن حکیم کے اصول سے اخذ کیا ہے اور اسی کی روشنی میں فنون لطیفہ کی دوسری تمام شاخوں پر بھی رائے زنی کی ہے۔ اور اس کا ثبوت کلام اقبال کے سرسری مطالعہ سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘کلیم کے اس مضمون کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف علامہ کی شاعرانہ صلاحیت کے معتقد ہیں بلکہ ان کی تنقید اور نظریہ فن کے بھی شیدائی ہیں۔
کلیم احسان بٹ نے مولانا ظفر علی خاں کے مجموعہ کلام چمنستان کے حوالے سے ان کی شاعری کا اجمالی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے اپنی نظموں سے پہلے جو لمبی تفصیل لکھی ہے کلیم نے ان تمہیدوں کی روشنی میں ان کی نظموں کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کے وہ اشعار جو خاص موقعوں پرفی البدیہہ کہے گئے ہیں ان کا بھی جائزہ پیش کیا ہے جودلچسپ ہے۔
کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون ’’آگ کا دریا میں ہندی زبان کا استعمال‘‘میں قرۃ العین حیدر کے مشہور و معروف ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ واضح ہو کہ ناول کاکینوس کافی وسیع ہوتا ہے۔ ناول پوری زندگی کی کہانی پر محیط ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی ناول کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے جس میں کسی ایک ملک یا کئی ملکوں کی تہذیب و تمدن سمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ آگ کا دریا بھی نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام برصغیر اور یوروپ کے کچھ حصوں کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔ اس ناول میں قدیم ہندوستان سے جدیدہندوستان تک کی گنگا جمنی تہذیب کاعکس موجود ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی مذاہب سے آراستہ ہے۔ اس میں کشمیرسے کنیا کماری تک کے مختلف مقامات کے رسم و رواج، اساطیری قصے کہانیاں، مذہبی عقیدے، فلسفے اور زبانوں کی آمیزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ اردو کا ناول ہونے کے باوجود خالص اردو ناول نہیں ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی تمام زبانوں کے علاوہ انگریزی زبان کے الفاظ کے استعمال کے نمونے موجود ہیں لیکن ہندی کا استعمال اکثر و بیشتر مقامات پر برمحل ہوا ہے۔ کلیم احسان بٹ نے اپنے مضمون میں ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ چونکہ اردو کا بنیادی ڈھانچہ ہندی کا ہے اورہندوستان کی تہذیب اردو تہذیب نہںا ہے بلکہ مشترکہ تہذیب ہے اس لیے ناول میں ہندی الفاظ کا استعمال ناگزیر ہے۔ کلیم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ’’ آگ کا دریا‘میں جگہ جگہ ہندی فلسفہ، امن اور شانتی، تلاش حق اور مذہبی رواداری کا ذکر موجود ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتب کے حوالے اور ان سے اخذ کردہ معلومات بھی ناول میں جگہ جگہ موجود ہیں‘‘اس لیے ہندی الفاظ سے گریز کرنا مصنفہ کے لیے ممکن نہیں تھا۔ کلیم احسان بٹ نے ہندی الفاظ کے غیر ضروری استعمال پر تنقید بھی کی ہے۔ ایک جگہ بجا فرمایا ہے کہ ’’کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں ہندی کا استعمال غیر مناسب ہے لنکن کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ہندی زبان کا استعمال نا گزیر تھا مگر قرۃ العین نے وہاں مفرس و معرب اردو لکھ دی ہے‘‘۔ کلیم کے ان بیانات سے ان کے تنقیدی اورلسانی شعور کا پتہ چلتا ہے۔
ایمرسن کا خیال ہے کہ یہ کائنات بے حد خوبصورت ہے۔ ہمارے چاروں طرف سحر انگیز کیفیت کا جال سا بچھا ہوا ہے جو اپنی طرف ناظرین کو متوجہ کرتی رہتی ہے لیکن ہم دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اس قدر الجھے رہتے ہیں کہ کائنات کا حسن ہمیں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم پھر سے اپنے بچپن میں لوٹ جائیں اور ایک بچّے کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ کائنات بے حد حسین ہے۔ فطری شاعر تخلیقی عمل سے گزرتے وقت اپنے لیے یاتوفنٹاسی کی دنیا خلق کر لیتا ہے یا اپنے بچپن کی دنیا میں چلا جاتا ہے جس سے دنیا کے مناظراسے بے حد حسین نظر آتے ہیں اور وہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا ہے اوراس کا اظہار بھی حیرت سے کرتا ہے۔ منیر نیازی دراصل ایک فطری شاعر ہیں اس لیے تخلیقی عمل سے گزرتے وقت اپنے بچپن میں لوٹ جاتے ہیں۔ بچپن کی دنیافنٹاسی کی ہی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں مناظر قدرت انہیں حیرت زدہ کر دیتے ہیں جس کاعکس ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ کلیم احسان بٹ نے منیر نیازی کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ منیر نیازی حیرتوں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے بجا فرمایا ہے کہ ’’منیر نیازی کی شاعری دراصل حیرتوں کی شاعری ہے۔ یہ حیرت منیر نیازی کے اپنے اندر بھی ہے اور کائنات کے رگ و پے میں بھی۔ اور یہی حیرت منیر، قاری کے اندر بھی بیدار کرتا ہے۔ ان کی شاعری کا اصلی ہنر یہی ہے۔ ‘‘
کلیم احسان بٹ نے شریف کنجاہی کی تازہ تصنیف ’’جپ جی (گرو گرنتھ صاحب)اک جھات‘‘ کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیوجی کی پوڑھیوں کے پنجابی اور اردو کے منظوم تراجم ہیں جو آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ کلیم کا خیال ہے آزاد نظم کی ہیئت میں ہونے کی وجہ سے اس کتاب کوسمجھنازیادہ آسان ہو گیا ہے۔ کلیم نے اس کتاب کا جائزہ پیش کرتے ہوئے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں گرو نانک دیو جی کا مذہب اسلام کے تئیں عقیدت و محبت اورساتھ ہی گرو گرنتھ صاحب میں شامل توحید کے نغمے اور بابا فرید شکر گنج کے اقتباسات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ کلیم کا خیال ہے کہ ہند و پاک کے درمیان جو اختلافات ہیں انہیں دور کرنے میں یہ کتاب اہم کرداراداکرسکتی ہے۔ کلیم کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کتاب کی مددسے شریف کنجاہی کے سیاسی اور فکری مسلک کوسمجھناآسان ہے۔ کیوں کہ ’’ فکری حوالے سے بابا گرو نانک کو بھگتی تحریک کا نمائندہ کہا جاتا ہے اور صوفیا کا مسلک بھی صلح کل ہی رہا ہے‘‘۔ کلیم احسان بٹ نے اس مضمون میں ترجمے کے فن سے بھی بحث کی ہے اور بحیثیت مترجم شریف کنجاہی کے اصل مقام کا بھی جائزہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلیم نہ صرف تخلیقی و تنقیدی تصانیف کے پارکھ ہیں بلکہ فن ترجمہ کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ کلیم احسان بٹ ایک باصلاحیت استادہونے کے ساتھ ایک باصلاحیت تخلیق کار، محقق اور ناقد بھی ہیں۔ ان کے مطالعہ کاکینوس کافی وسیع ہے۔ متذکرہ تصنیف ’’نقدِ کلیم‘‘ میں ان کی جملہ صلاحتوسں کا عکس موجود ہے۔ مجھے امید ہے کہ قاری اس کتاب میں شامل تمام مضامین کو پڑھ کرمستفید اور لطف اندوز ہوں گے اوراس کتاب کو بھی مقبولیت حاصل ہو گی۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے