یہ جو ترتیب سے بنا ہوا میں
ایک مدت میں راستہ ہوا میں
لوگ آتے تھے دیکھنے مجھ کو
ایسے پتھر سے آئنہ ہوا میں
کیا خبر کب نظر میں آ جاؤں
شور میں ایک بولتا ہوا میں
اب تو پہچان میں نہیں آتا
تیری دیوار سے جَڑا ہوا میں
شہر کے بیچ آ گیا اک دن
صحن کے بیچ دوڑتا ہوا میں
ایک موسم کی قید تھی مجھ کو
پھول کھلتے ہی پھر رہا ہوا میں
آپ بھی اپنا شوق فرمائیں
جانے کتنوں کا ہوں ڈسا ہوا میں
شام ڈھلتی ہے تو نکلتا ہوں
اپنے کمرے سے چیختا ہوا میں
٭٭٭
جہاں بھی پھول کھلے ہوں، میں پایا جاتا ہوں
اِس ایک خواب سے روز آزمایا جاتا ہوں
اگرچہ سچ ہوں مگر لوگ جھوٹ جانتے ہیں
میں روز صورتِ دیگر بنایا جاتا ہوں
کہانی سننے کی عادت بھی اک عذاب ہے یار
جہاں بھی لوگ اکٹھے ہوں پایا جاتا ہوں
وہاں وہاں سے تعلق ادھورا ہوتا ہے
جہاں جہاں سے مکمل دکھایا جاتا ہوں
کچھ اس طرح کے مسائل کا سامنا ہے مجھے
میں اپنے دوست کا دشمن بتایا جاتا ہوں
یہ جانتا بھی ہوں صحرا مرا مزاج نہیں
پر اہتمام سے میں ورغلایا جاتا ہوں
٭٭٭