یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں ۔ ۔ عرفان ستار۔ ۔ ۔علی زریون

بخار بہت شدید تھا اس روز مجھے …شام تھی کہ ٹل ہی نہیں رہی تھی ..کراچی کا یہ موسم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ..یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ مجھے کراچی میں اپنے گھر کی یاد ستانے لگ گئی تھی ..مشاعروں کی تھکاوٹ، لوگوں کی ملاقاتیں، اور بہت سی محبت کا وزن زیادہ تھا اور میں کمزور شانوں والا شخص ..!! وہ کوئی بہت عجیب شام تھی ..اس شام کوئی ایسا پل رو نما ہونا تھا جب میری ملاقات شاید ایک ایسے وجود سے ہونا تھی جس کے بارے میں ابھی تک میں بے خبر تھا ..کامی شاہ، بازغہ بھابھی اور سب گھر والے بے حد پریشان ہو گئے تھے کہ علی کی طبیعت سنبھل نہیں رہی ..میری ماؤں جیسا روپ رکھنے والی بہن اور بھابھی مسلسل میرے بستر کے کنارے کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی، کہ یہ نا ہنجار انسان آخر کچھ کھا کیوں نہیں رہا ؟؟؟ اسی اثنا میں، میں نے بھابھی سے کہا کہ بھابھی مجھے دلیہ بنا دیں ..بھابھی کی آنکھیں چمکیں اور کہا کہ ابھی بناتی ہوں اپنے بھیا کے لئے ….بس وہ پل ..جب میں کچھ دیر کے لئے اکیلا ہوا …میں نے بیزاری کے عالم میں کامی شاہ کی کتابوں والی الماری کی طرف دیکھا، کہ کوئی کتاب نگاہ پڑے تو میں ذرا دیر پڑھ لوں …نگاہ الماری میں سجی ہوئی کتابوں سے مل کر واپس بیمار آدمی کے پاس آ گئی ..اور میں نے اپنے تکیے پر سر رکھ دیا …ادھ کھلی آنکھ سے ذرا دور پڑے تکیے کی جانب دیکھا تو ایک کتاب کا کنارہ سا نظر آیا ..میں نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور کتاب کو کامی شاہ کے تکیے سے باہر نکالا …کتاب کو دیکھا …بڑی دیر تک کتاب کے سر ورق پر انگلی پھیرتا رہا ..غضب کا ٹائٹل تھا….پوری کتاب ہی بہت مہنگے کاغذ پر چھاپی گئی تھی ..میں نے دیکھا اور کہا ہمم …!! امیر لوگ ..!!! ہو گا کوئی یہ بھی پیسے والا آدمی ..ادھر اُدھر سے شاعری خریدی ہو گی اور پھر کتاب چھاپ دی ہو گی ..ایسے لوگ پیسے کے بل پر اپنی کتابیں چھاپ لیتے ہیں، پھر خود ہی رو نمائی کروا لیتے ہیں، اپنے بارے میں قصیدے لکھوا لیتے ہیں اور اللہ اللہ خیر سلہ ….خیر میں نے بیزاری ہی کے عالم میں کتاب کھولی ..اور پڑھنا شروع کیا ….حسبِ عادت سیدھا پیش لفظ پر گیا تا کہ جان سکوں کہ مہاشے کیا فرما رہے ہیں ..اور بس ٹھیک یہیں سے …اس بے پناہ محبت کا آغاز ہوا جو مجھے ہمیشہ سرشار کئے رکھتی ہے کہ میں عرفان ستار کا دوست ہوں۔
عرفان کی کتاب "تکرارِ ساعت” سے میرا پہلا معانقہ اسی شام ہوا ..میں پڑھتا جا رہا تھا اور اچھل اچھل پڑ رہا تھا ..ایک کے بعد ایک اچھی غزل، ایک کے بعد ایک اچھی غزل ..میں بھول چکا تھا کہ میری تو طبیعت ہی ٹھیک نہیں ..میں بالکل فراموش کر چکا تھا کہ میں ابھی کچھ ہی دیر پہلے بیزاری اور بوجھل پن سے تقریباً مرنے والا تھا …اور اب ..کتاب تھی اور میں تھا ..اور وہ انوکھا تخلیق کار کہ کراچی میں عالمی مشاعرہ پڑھنے اور بہت سے لوگوں سے ملاقات کے با وجود میں جس سے نہیں مل پایا تھا ..یہاں تک کہ مجھے شدید حیرت، غصہ اور رنج ہو رہا تھا کہ یار حد ہے ..اتنا عمدہ، ایسا بہترین اور ایسا خوبصورت تخلیق کار اور میں اس بندے کے شہر میں ہونے کے با وجود اس سے مل نہیں پایا ؟؟ ملنا دور کی بات، مجھ سے کسی نے ذکر تک نہیں کیا کہ اس شہر میں عرفان ستار نام کی ایک بلا بھی رہتی ہے ..میں وہ کتاب پڑھ رہا تھا اور میرے من میں عرفان ستار کے لئے محبت بڑھتی جا رہی تھی ..جیسے جیسے صفحے پلٹ رہا تھا، ویسے ویسے اس بے حد خوبصورت تخلیق کار کے لئے عجیب محبت پیدا ہو رہی تھی ..کامی اس وقت وہاں موجود نہیں تھا، ورنہ میں اس سے عرفان کا رابطے کا نمبر لیتا اور اتنی شدید گالیاں دیتا کہ بس …بالکل ..کیفیت ہی ایسی تھی ..جانے کیا کیا کچھ تھا جو گمان میں آ رہا تھا ..جون ایلیا سے اپنی نسبت کا ایسا بہترین اظہار کیا تھا عرفان نے اور میں اس بات پر بھی بہت خوش تھا کہ جون ایسے خطرناک اور بلا شاعر کے ساتھ ایسی سوہنی اور قریبی نسبت کے با وجود عرفان ستار کا خالص اپنا لہجہ اور وہ بھی پوری طاقت کے ساتھ اپنا بھرپور اظہار کر رہا تھا، میرے سامنے آ رہا تھا …یہ ہرگز معمولی بات نہیں تھی ..جو لوگ جون ایلیا کو جانتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ جون کا کلام تو ایک طرف، اس کی حالت تک کا اثر، اپنے سامنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا ..میں جون سے کبھی نہیں ملا، اور نہ ہی اسے دیکھا، لیکن جو ملاقات میری جون سے ہوئی ہے، وہ صرف میں جانتا ہوں ..عرفان ستار کی تخلیق کاری اور اس کا وہ خاص شعوری نظام – فکر جو لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں، بلکہ رمزیت اور خالص شعریت کے ذائقے سے رچا ہوا وہ فکری نظام ہے جو اپنے قاری کو کسی بھی جگہ بوجھل نہیں ہونے دیتا۔
شاعری کے جملہ عوامل، جنہیں اکثریت، گھمبیر اور کوئی بہت مشکل امر بنا کر پیش کرتی نظر آتی ہے، ایسے مشکل عوامل بھی نہیں ہیں ..عرفان ستار کی کتاب "تکرارِساعت” اور عرفان کا شعری کل اس بات کا بین ثبوت ہے …وہ لفظ کی بیرونی ساخت، اور اندرونی ساخت سے مکمل آشنا تخلیق کار ہے ..لفظ کا لغوی معنی ہے "پھینکنا ” جب میں لفظ کے لغوی معنی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دھیان کرتا ہوں تو کبھی کبھی بہت سرشار ہو جاتا ہوں کہ”پھینکنے ” کا خالص تشدیدی عمل جب شاعری میں در آتا ہے تو اس لفظ کے معنی کے کیسے کیسے جہان کھلتے ہیں، در حقیقت شاعری کا تمام منظر نامہ اسی "پھینکنے ” کے عمل کی اپنی اپنی شدّت، ہمّت اور توفیق سے سجا ہوتا ہے ..عرفان ستار کے یہاں لفظ اور کیفیت ایسی خوبصورتی سے یکجا ہو جاتے ہیں کہ کیفیت کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو وہ لفظ کی اندرونی ساخت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچاتی، اور یہی بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابلاغ اور ترسیل کا مسئلہ ٹھیک اسی جگہ سے اور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب جب اور جہاں جہاں کیفیت نے مروڑا کھاتے ہوئے اتنی شدت اختیار کر لی کہ لفظ کی اندرونی ساخت مجروح ہو گئی ..وہاں معنی گنجلک شکل اختیار کرتا ہے اور شعر کا وجود جو کہ لفظوں ہی سے بنا ہے، مہمل اور ابلاغی فالج کا شکار ہو جاتا ہے …عرفان ستار کی تمام کی تمام شعری ریاضت میں سمجھتا ہوں کہ اسی ایک نکتے پر مدار کرتی ہے اور اس سے آگے اپنا جہاں تخلیق کرتی چلی جاتی ہے ..ایک ایسا جہان جس میں اشیا کے ساتھ برتاؤ ایسا تخلیقی اور منطقی پہلو لئے آتا ہے کہ قاری، احساس اور کیفیت ہر دو معاملوں میں سرشاری سے بھر جاتا ہے، عرفان کا ایک شعر دیکھئے

گاہے گاہے سخن ضروری ہے
سامنے آئنہ نہیں، میں ہوں

اسی غزل سے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے ؟؟
یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

میں سمجھتا ہوں کہ "ذات” اور "احوالِ ذات ” کے مابین فرق کو اتنی تخلیقی غیرت کے ساتھ بیان کر جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی …کیفیت کے جس شدید ترین حال سے مزین یہ اشعار ہیں، کیا کہیں کسی ایک جگہ بھی کوئی ایسا معاملہ پیش آیا کہ ابلاغ اپنی راہ چھوڑ رہا ہو یا کیفیت کے وزن نے مصرعوں کو بوجھل کر دیا ہو ؟؟ کہیں بھی نہیں، اچھا کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹی بحر ہے بھائی، دو مصرعوں میں بات نمٹا دینا کوئی کام نہیں، سب کر لیتے ہیں ..کیا مشکل ہے ؟؟ لیکن مزے کی بات یہی ہے کہ عرفان بحر کی طوالت یا اختصار کے کسی ایک معاملے میں بھی اپنی تہذیبی تخلیقی حدّت ذرّہ برابر بھی سرد نہیں پڑتا، مثال ملاحظہ فرمائیے .

جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسمان ! یا اخی

یاس پورے شعر میں کس جگہ بھی”ہاتھ ملنے ” کا ذکر نہیں ہے، کوئی لفظ تک نہیں ہے، اور ذرا آپ شعر کو دیکھئے، کیفیت کو دیکھئے، کیا یہ کیفیت ٹھیک ویسی ہی نہیں کہ جب کوئی بہت ہی حسرت اور بہت ہی یاس سے تہذیب اور مکالمے کی اس لذّت کو یاد کر رہا ہو جس میں گفتگو رات بھر اور سماعت آسمان کی ہوتی تھی !
عرفان ستار کی خالص خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ کہیں کسی جگہ بھی اپنی کیفیت سے "غیر ” نہیں ہوتا ..کیفیت کا غیر اور کیفیت سے غیریت، سخن کی اس با جمال لطافت کو مردود کر ڈالتی ہے جسے ہم عرفِ عام میں شاعری کہتے ہیں ..عرفان ستار کی کیفیت اور انجذابِ کیفیت نے اسے لفظ کی تمام نشست و برخاست میں ایک نہایت سجیل روش کا حامل کیا ہے، یہ روش کبھی بھی عمومی طرزِ ادائے سخن کی حامل نہیں ہوتی، نہ ہی عمومی طرزِ ادائے سخن، سہل پسندی اور کسی خالص معیار کے میسر نہ ہونے کی بنا پر محض ایک ہی طرح کے ڈھب پر چلتی نظر آتی ہے۔ عرفان کے ہاں اس کا قاری کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں کہ سکتا کہ نہیں، یہاں کیفیت ادھوری رہی ہے یا لفظ اپنے پورے خارج و باطن کے اظہار کے ساتھ نہیں آیا یہی خصوصی طرزِ ادائے سخن، ہر اس سخن ساز کو ایک علاحدہ نشست پر براجمان کرتی ہے، جس کے ہاں کیفیت کے رموز و اوقاف پوری نسبتِ تہذیب اور مکالمے کی سندرتا سے مزین ہوں ..میں یہ سمجھتا ہوں کہ نسبت – تہذیب کا ادراک ہے کسی بھی سخن ساز کے ادبی اور کیفیاتی نام و نسب کی پہچان ہوا کرتا ہے .غالب کی زمین میں عرفان کی غزل سے محض دو اشعار دیکھئے، اور یہ بھی دیکھئے کہ جب کوئی تخلیق کار نسبتِ تہذیب کے ساتھ وارد ہوتا ہے تو اپنے سخن سے کس کیفیت کو طلوع کرتا نظر آتا ہے۔

یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

یہاں توازن کا لفظ، معانی کی ایک خاص نشست لے کر آیا ہے ..آج تک ایسی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں جہاں، کہنے والوں نے، بہت سے جید اہل – ہنر بھی، اپنے ہنر اور کارِ ہنر کو "گھر” سے نسبت دیتے ہوئے ایک ہی طرح کی اذیت کا دکھ بیان کیا ہے، کہیں یہ اذیت دہری اور کہیں اکہری ہو کے سامنے آئی ہے، لیکن عرفان کا کمال یہی ہے، کہ اس کے ہاں محض ایک لفظ ایسا آتا ہے جو بکل بقولِ غالب "گنجینۂ معانی ” ہو کر سامنے آتا ہے، اور اپنا غالب پن ثابت کرتا ہے۔ مندرجہ بالا بیت میں ایک کل وقتی سلسلے کا ذکر ہوا ہے، اور وہ سلسلہ محض کسی شب پر موقوف نہیں، یا کسی دن کی خاص ایک آدھ ساعت پر عبارت نہیں، "روز و شب ” کے ساتھ مکالمہ کرتا ہوا کل وقتی خراج لیتا ہوا سامنے آ رہا ہے۔ توازن کا برقرار رکھنا کارِ طفلاں نہیں، اور توازن بھی وہ کہ جو آج کے معاشرتی نظام کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو پھر پتا چلتا ہے کہ ہنر اور "گھر ” کے مابین معاملات کو کس درجہ نگہداشت سے دیکھنا پڑتا ہے ..عرفان نے تکرارِ ساعت میں اپنے تخلیقی نظام کی رونمائی کرتے ہوئے جو پیش لفظ تحریر کیا ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ایسی اچھی شاعری کے ساتھ ساتھ ایسا عمدہ اور پوری فکری بلوغت کا ثبوت دیتا ہوا پیش لفظ بھی آج کل کم ہے دیکھنے کو ملتا ہے، یہاں اب گفتگو کا رواج اور چالان قریب قریب ختم ہوتا جا رہا ہے، "تکرارِ ِ ساعت” کا پیش لفظ اور اس میں موجود گفتگو کا آغاز اور انجام ا س کتاب میں موجود تخلیقات کے ساتھ مکمّل طور پر ہم آہنگ ہے۔ عرفان کی تخلیقی شخصیت اور اس کی تخلیقیت کا ایک دوجے کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ وہ فطری طور پر شرمیلا اور معاشرتی طبیعت کے لحاظ سے ایک نہایت پر امن اور صلح جو انسان ہے۔ عرفان کی سب سے بہترین خوبصورتی جیسا کہ کسی بھی بڑے تخلیق کار کی خوبصورتی اور خصوصیت ہونا چاہے، یہی ہے کہ وہ اپنے معاشرتی مکالمے میں کہیں بھی کسی بھی جگہ جنگ و جدل کا قائل نہیں۔ اگر اس نے کوئی احتجاج کیا ہے، اگر اس نے کسی بات سے رد کرتے ہوئے کوئی بات کی ہے تو وہ اپنے ” شعر” میں کی ہے۔ اس کے ہاں لا تعداد ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں وہ یہ بات ثابت کرتا چلا جاتا ہے کہ آپ جس تخلیق کر کو پڑھ رہے ہیں اس کے ساتھ آپ کا جذباتی اور کیفیتی رابطہ صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ خود ایک نہایت خاص طرح کی حساسیت سے معاملہ اور مکالمہ رکھتے ہوں، ایسا ہرگز نہیں کہ اس کا تخلیقی مکالمہ کوئی محدود حلقۂ سماعت و نظارت رکھتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جہاں اسے پڑھتے ہوئے ایک عمومی سمجھ بوجھ رکھنے والا قاری ہے وہیں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو بہرحال خداوندِ لم یزل کی عطا کردہ خاص حسِ فہم رکھتے ہیں۔ عرفان کا شعر اپنے قاری کے ساتھ ایک دوستانہ رویہ اختیار کر رکھتا ہے۔ ہر عمدہ اور انفراد سے مزین تخلیق کار کی طرح عرفان کا شعر اپنے قاری کے لئے محض دعوتِ لطف ہی نہیں پیدا کرتا، بلکہ اپنے قاری کی ایک خاص انداز سے فکری تربیت بھی کرتا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑے تخلیقی نظام کا پہلا وصف ہوتی ہے .عرفان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تو بھی زندہ رہے، داستاں بھی زندہ رہے

یہ اک واحد شعر مندرجہ بالا اس گفتگو کے لئے ایک دلیل ہے جو ابھی میں نے عرفان کے شعر کے قارئین کے حوالے سے کی، اس شعر میں عمومی سمجھ بوجھ (مجھ ایسے کسی بھی قاری ) کی لئے ایک کیفیت ہے اور ایک ہلکا سا پیغام جو ظاہر ہے کہ سچ ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں، لیکن وہ لوگ جو بلا شبہ اپنے فہم و ادراک میں خاص ہیں، اصیل ہیں وہ اس بات کی تہ میں چھپے ہوئے معانی اور اصیل پیغام تک نہایت مزے سے پہنچیں گے کہ شعر کے دوسرے مصرع میں موجود محض ایک لفظ "بھی” نے بات کے اندر جو حسن اور جو تشدیدی کیفیت پیدا کر دی ہے وہ ہرگز عمومی نہیں ہے …اور سب سے مزے کی بات یہی ہے کہ ایسا پر فکر ایسا خوبصورت اور قطعی فیصلہ دیتے ہوئے بھی شعر شعر رہا ہے، کوئی پند و نصیحت کی بوسیدہ کہاوت نہیں بنا، اور یہ عرفان کی خوبصورتی ہے۔ بعض جگہوں پر یہ سجیلا اور بانکا تخلیق کر اپنے جذب اور جنوں سے ایسا سوہنا مکالمہ کرتا نظر آتا ہے کہ لہجے کا در و بست ایک خاص طرح کا بلند آہنگ اپنے قاری کے سامنے لا کھڑا کر دیتا ہے، دو اشعار مزید دیکھئے

میں جہاں پاؤں رکھوں، واں سے بگولا اٹھے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

اور اسی غزل کا وہ لازوال شعر ملاحظہ کیجئے جہاں عرفان اپنے فن کی معراج پر پرواز کرتا نظر آتا ہے

اے مرے حرفِ سخن، تو مجھے حیراں کر دے
تو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا

یہ نہایت عجیب شعر ہے، نہایت عجیب ..مکالمہ کس سے ہو رہا ہے ؟ "حرفِ سخن ” سے ..کر کون رہا ہے ؟ خود صاحبِ سخن۔ اورکہا کیا جا رہا ہے ؟؟ مری امید سے بڑھ کر ہو جا ..یعنی سبحان اللہ ..!! میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی تخلیق کار کی نگاہ کا ایسا خود نگراں ہونا کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتا ..اس ایک واحد شعر میں سخن اور صاحبِ سخن دونوں "عابد و معبود ” ساجد و مسجود اور خود خالق و مخلوق کے پھرے پر آ کھڑے ہوئے ہیں، صاحبِ سخن اپنے حرفِ سخن کو محض کوئی حرف نہیں جان رہا۔ ایک زندہ جیتا جاگتا اور سانس لیتا نظریہ جان رہا ہے۔ وہ یہ جان رہا ہے کہ حرفِسخن اگر حرفِ سخن ہے تو اپنے دروں میں خلق ہوتے ہوئے بھی خالقیت کا وہ عظیم وصف ضرور رکھا کرتا ہے جو اس کہے ہوئے پر وقت کا کوئی بھی جبر اثر انداز نہیں ہونے دیا کرتا۔
عرفان نے اپنے عرفانِ کیفیت و عرفانِ ذات کے حوالے سے جو عمدہ ترین اظہار اپنی کتاب "تکرارِ ساعت” میں بیان کر دیا ہے وہ بلا شبہ سیکھنے والوں کے لئے، جاننے والوں کے لئے اور ان تمام قلوب کے لئے خاص دلکشی اور ہمہ جہت جاذبیت رکھتا ہے جو فنِ شعر، اکتسابِ کیفیت اور انجذاب – حال کے معاملات پر اپنا مکالم ہمیشہ روشن فہمی اور کھلی باہوں سے کرتے ہیں۔

اس بستی میں ایک سڑک ہے، جس سے ہم کو نفرت ہے
اس کے نیچے پگڈنڈی ہے، جس کے ہم گرویدہ ہیں

ایسے اشعار در حقیقت ایک کسوٹی ہوتے ہیں، ایک ایسی کسوٹی جس پر کسی بھی سننے، پڑھنے اور جاننے والے کی کیفیاتی حالت اور مرتبے کو پرکھا جا سکتا ہے، جب یہ شعر میں نے پہلے پہل پڑھا تھا تو کتاب ہاتھ سے رکھ دی تھی، اور آنکھیں بند کر لیں تھیں ..اس بظاہر بہت ہی سادہ اور بغیر کسی غیر معمولی بنت کے، اس شعر میں ایسا کیا ہے جو مجھے اس کے نشے میں اس وقت سے لے کر ابھی تک اسی سرشاری میں مبتلا کئے ہوئے ہے جیسا کہ اس وقت پہلی مرتبہ یہ شعر پڑھتے ہوئے طاری ہوئی تھی ..اس شعر میں "سڑک” اور "پگڈنڈی ” محض دو الفاظ کے طور پر برتے جانے والے کردار ہی نہیں، دو ایسے جیتے جاگتے استعارے ہیں جن کی پیروی اور کھوج کرتے ہوئے قاری، صاحبِ سخن کی پوری تخلیقی، معاشرتی اور تہذیبی کیفیت کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے …سڑک، یہاں ایک بہت ٹھوس رویے، لوگوں کے خود ساختہ تعبیر کئے ہوئے، بنے بنائے ہوئے ایسے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہوا استعارہ بن کر آئی ہے جو اپنے ٹھوس پن میں ایک لگے بندھے سانچے میں جکڑے ہوئے ہیں، "اس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں "…اب میرا نہیں خیال کہ اس مصرعے کی کوئی بھی تشریح یا توضیح کی کوئی حاجت باقی رہ جاتی ہے ..یہ شعر اور ایسے کئی اشعار جو عرفان ستار کے ہاں بڑی تعداد میں جگمگاتے نظر آتے ہیں، اسی خالص شریعت – شعر اور شعریتِ فکر کا ثبوت ہیں کہ عرفان ستار نے اپنا تہذیبی اور تخلیقی معاملہ انسان کی عمومی نفسیات سے خاص قریب رہ کر کیا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا ایسا کر جانا ہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ..
یہ مختصر سا اظہاریہ تحریر کرتے ہوئے میری نظر با امرِ مجبوری عرفان ستار کی کتاب "تکرارِ ساعت” سے آگے نہیں گئی، ورنہ عرفان کا کلام جو اس کتاب کے بعد سامنے آیا ہے وہ اپنی معرفت و تصدیق میں زیرِ نظر کتاب سے کہیں آگے کا ہے۔ عرفان نے اپنے نقوش خود از سرِ نو مرتب کئے ہیں ..یہ نقوش اور فنِ ریختہ پر اس کی دسترس اردو ادب کا عمدہ مذاق رکھنے والوں کے لئے بلا شبہ ایک خاصے کی شے ہے .. یہ خصوصی اہلیت رکھنے کے با وصف اس کی گفتگو اور کلام ایک جیسی ہم آہنگی میں ظہور پذیر ہوتے نظر آتے ہیں ..یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو ادب میں فکر اور کیفیت کی ایسی ہم آہنگی جو اپنے رقص میں کہیں بھی بے سر بے تال نہیں، کم کم دیکھنے کو ملتی ہے …اللہ سائیں سوہنا اس بانکے سجیلے عرفان ستار کا ما تھا روشن، سینہ خیر اور کمر مضبوط و محفوظ رکھے ..!!

یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
٭٭٭

One thought on “یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں ۔ ۔ عرفان ستار۔ ۔ ۔علی زریون

رفیع رضا کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے