1995 کا سال تھا۔ ملتان میں برادرم مختار علی کی زبانی پہلی بار رفیق سندیلوی کا نہ صرف ذکر سُنا بلکہ ان کی غزلوں کی کتاب "سبز آنکھوں میں تیر” پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہُوا۔ ان کی شاعری پوری طرح سمجھ میں نہ آنے کے باوجود انوکھی اور پُر اسرار محسوس ہوئی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انسان بطور "قاری” بھی ارتقا پذیر رہتا ہے۔ لہذا پڑھی ہوئی خاص خاص کتابیں وقفے وقفے سے بار بار پڑھتے رہنا چاہیے۔ آپ یقیناً خوشگوار تجربے سے ہمکنار ہوں گے۔
اُن کی غزلوں کا ایک اور مجموعہ "گرز” لاہور پرانی انارکلی سے مل گیا۔ وہ بھی پڑھا۔ پھر اوراق میں ان کی غزل پر ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مضمون نظر سے گزرا جو غالباً ان کے تیسرے مجموعے "ذکر ایک رات کا” کا دیباچہ تھا۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد ان کی تمام غزلیں دیکھنے کی شدید خواہش مجھ میں ہمیشہ زندہ رہی۔ 2011 میں اسلام آباد میں ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں تو میں نے اپنی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے نوید سنائی کہ جلد ہی کلیات غزل آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ لیکن رفیق سندیلوی اور عُجلت؟ صاحب! دونوں کو متضاد سمجھیے۔ آپ اسے خرابی سمجھ رہے ہوں گے؟ خدا کرے یہ خرابی ہر شاعر کو نصیب ہو۔
کوئی پچیس سال سے انہوں نے نظم کو حرز جاں بنا رکھا ہے۔ "غار میں بیٹھا شخص” جیسی شاندار و یادگار کتاب اس ریاضت کا ثمر ہے۔
وہ نظم کے چند اہم ترین شعرا میں بھی اپنا انفراد رکھتے ہیں کہ ان جیسی compact نظم کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ان کی نظم میں تمثال نگاری اور جمالیات کی بوچھاڑ قاری کو شرابور کر دیتی ہے۔
ان کی غزل کا ذائقہ اور فضا ان کی نظموں سے یکسر مختلف ہے۔ ہم اساطیری دبستان شاعری میں اظہارالحق، خالد اقبال یاسر، ثروت حسین، محمد خالد، افضال احمد سید اور غلام حسین ساجد کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کچھ دوش ہمارا ہے اور کچھ اس جمالِ کم نما کا جسے رفیق سندیلوی کہتے ہیں۔
بھلا ہو دلاور علی آزر کا جنہوں نے "گلدان میں آنکھیں” کے نام سے ان کی غزلوں کا انتخاب شائع کردیا۔ میری دیرینہ خواہش تو پوری ہوئی۔
ان غزلوں میں آپ کی ملاقات ایک سُورمے سے ہو گی، وجودی کرب میں مبتلا انسان سے بھی ہوگی اور ایسے فنکار سے بھی ہوگی جو غزل کے تمام ذائقوں کا عارف ہے اور قابل رشک جمالیاتی شعور سے متصف ہے۔
میری نئے پرانے شاعروں سے دست بستہ التجا ہے کہ خدارا ایسی شاعری کو پڑھیں، ہضم کریں۔ پھر فیصلہ کریں کہ کس منطقے میں گرد اڑانی ہے۔
واللہ میرا جی چاہتا ہے کہ کم از کم آدھی کتاب یہاں نقل کر دوں لیکن میری ٹائپنگ کی رفتار اجازت نہیں دیتی۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کہاں کی طاقتیں کیا غیب اور کیا موجود
بچھڑ کے تجھ سے بدن ہی نہیں رہا موجود
اُڑے ہیں سمتِ فنا باغِ خواب کے پتے
کچھ ایسی تیز چلی ہے ہوائے نا موجود
میں قوس توڑ کے نکلا تو یہ خبر ہی نہ تھی
کہ دائرے کے اُدھر بھی ہے دائرہ موجود
کسی بھی پردۂ تمثیل پر ہوں ہم دونوں
عقب میں ریتا ہے ہر وقت تیسرا موجود
اک ایک کر کے بنے لقمۂ عدم اعضا
بس ایک دل مرے سینے میں رہ گیا موجود
میں ضربِ تیغ کے ڈر سے چھپا ہوا تھا وہاں
خبر نہیں تھی کنویں میں بھی ہے قضا موجود
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خلا، چپّو، ستارہ رات کا مانجھی بنے گا
زمیں پانی بنے گی، آسماں کشتی بنے گا
سجے گی بارگاہ نور میں تیری کلائی
کبھی یہ دُبِّ اکبر کانچ کی چوڑی بنے گا
پھریں گے معرفت کی تنگنائے میں ستارے
ولی سورج بنے گا مُشتری صوفی بنے گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو
مرے وجود کی تقریبِ رونمائی ہو
رکھا گیا ہو ہر اک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو
اُس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد
میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود
مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو
نکل پڑوں میں کوئی مشعلِ فسوں لے کر
قیام گاہِ ابد تک مری رسائی ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا نظّارہ کہ یک طرفہ ہو جس کا عالم
کوئی حیران نہ ہو اور مجھے حیرانی ہو
ایک انبوہ ازل سے مرے اطراف میں ہے
اتنی خلوت ہو کہ رونے میں تو آسانی ہو
پار کر لیں گے ہم اک رو میں یہ دریائے وجود
تو بھی سرمست ہو اور مجھ میں بھی طغیانی ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں اپنی سانسوں کی نجم گاہوں میں دیکھتا تھا
کوئی اساطیری کہکشاں اور قطبی تارا
کبھی تو میدانِ خواب میں بھی پڑاؤ کرتا
سنہری اونٹوں کا کارواں اور قطبی تارا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے
کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہو گی
دیا جائے گا غسلِ عنبریں میرے بدن کو
طلسمی باغ ہو گا؛ باغ میں اک جھیل ہو گی
میں دریا ہوں تو ہو گا کچھ نہ کچھ احوال میرا
میں آتش ہوں تو میری کچھ نہ کچھ تفصیل ہو گی
٭٭٭