غزلیں ۔۔۔ جوّاد شیخ

ذرا سی بات پہ نم دیدہ ہوا کرتے تھے

ہم بھی کیا سادہ و پیچیدہ ہوا کرتے تھے

 

اب ہمیں دیکھ کے لگتا تو نہیں ہے لیکن

ہم کبھی اُس کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے

 

تُو نے کس موج میں یہ حال کیا ہے اپنا

لوگ کیا کیا ترے گرویدہ ہوا کرتے تھے

 

تجھ سے پہلے بھی مرے راز تھے اک شخص کے پاس

فرق اتنا ہے کہ پوشیدہ ہوا کرتے تھے

 

صاحب الرائے کہاں اتنے بہم تھے پہلے

یہ چنیدہ تو بہت چیدہ ہوا کرتے تھے

 

عکس بندی کی ہوس ان میں کہاں سے آئی؟

مہرباں ہاتھ تو نادیدہ ہوا کرتے تھے

 

اُن دنوں اتنے وسائل نہیں ہوتے تھے مگر

پھر بھی کچھ لوگ جہاں دیدہ ہوا کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات

کہ زندگی سے سوا خاص تھی کوئی کوئی بات

 

یہ اور بات کہ محسوس تک نہ ہونے دوں

جکڑ سی لیتی ہے دل کو تری کوئی کوئی بات

 

خوشی ہوئی کہ ملاقات رائگاں نہ گئی

اسے بھی میری طرح یاد تھی کوئی کوئی بات

 

بدن میں زہر کے مانند پھیل جاتی ہے

دلوں میں خوف سے سہمی ہوئی کوئی کوئی بات

 

کبھی سمجھ نہیں پائے کہ اُس میں کیا ہے مگر

چلی تو ایسے کہ بس چل پڑی کوئی کوئی بات

 

وضاحتوں میں الجھ کر یہی کھلا جواد

ضروری ہے کہ رہے ان کہی کوئی کوئی بات

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے