مرزا غالب کا خط پنڈت نہرو کے نام ۔۔۔ فرقت کاکوروی

جان غالب۔ بین الاقوامی صلح کے طالب، میاں جواہر لال خوش فکر و خوش خصال جگ جگ جیو، تا قیامت آب حیات پیو۔ سنو صاحب! امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد آئے ہیں، اور اپنے ہمراہ دو نسخے دیوان غالب کے لائے ہیں، جو مجھے ابھی موصول ہوئے ہیں۔ ایک نسخہ علی سردار جعفری نے ترتیب دیا ہے۔ دوسرا عرشی رام پوری نے مرتب کیا ہے۔ دونوں نے اخلاص و محبت کا حق ادا کیا ہے۔ میر مہدی اور پنڈت کیفی بیٹھے ہیں، حقے کے کش چل رہے ہیں، ہجر و فراق کے لمحات ٹل رہے ہیں۔ فضا میں دھواں چمک رہا ہے اور پیچوان مہک رہا ہے۔ کوئلوں میں آتش فشانی ہے۔ جس سے چلم کا چہرہ ارغوانی ہے۔

ریختہ کا جب ذکر آیا تو مولانا آزاد نے بتایا کہ میں زبان کے مسئلہ میں تقریر کر آیا ہوں اور معاملات نہرو کے سپرد کر آیا ہوں، وہ سیاست کے مرد میدان ہیں، علم و ادب کے پاسبان و نگہباں ہیں، اردو ہندی کے مسئلہ میں ایک قالب دو جان ہیں۔ اب حسب مراتب دونوں کو جگہیں ملیں گی اور دونوں ہی پھولیں پھلیں گی۔ سنتا ہوں کہ جس محکمہ کا نام تم نے آکاش وانی رکھا ہے اس نے آزاد کی تقریر کو دختر افراسیاب بنا رکھا ہے۔ اچھا لاسا لگا رکھا ہے۔ نہ بتاتے ہیں نہ سناتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن بنائے سیج میں رکھے ہیں۔ تم تو وزیر با تدبیر ہو، علم و ادب کی درخشاں تحریر ہو، خود روشن ضمیر ہو۔ پوچھو تو کہ وہ ڈال کی چیز پال میں کیسے ڈالی گئی اور آزاد کی سالگرہ کی تقریب اس سے کیوں خالی گئی۔ مولانا کہتے ہیں کہ ان کی تقریر کی تائید تم نے کی تھی اور اپنی رائے ان کے حق میں دی تھی آخر وہ دونوں تقریریں ہوا میں کہاں گم ہو گئیں۔ میں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہلوایا ہے کہ انہیں تلاش کرائیں اور آکاش میں پتہ لگائیں کہ کہاں ہوا میں معلق ہیں۔ تحقیق جاری ہے مگر عقل عاری ہے کہ وہ گئیں کدھر۔ صدا بصحرا تو نہیں ہو گئیں؟

 

کل جبرئیل امین آئے تھے اور ایک نئی خبر لائے تھے، کہتے تھے کہ جو لوگ عالم ارواح میں آرہے ہیں وہ سب خطاوار اردو کو عالم برزخ میں لا رہے ہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ زمین والوں پر اب زبان بار ہے۔ اس کے لب و لہجہ سے اکثریت بیزار ہے۔ ہندوستانی عوام اس کے متحمل نہیں کہ عرش کی چیز فرش پر دیکھیں اور اس پر خاموشی اور سکوت کھینچیں۔ جو زبان من و تو کی تخصیص باقی نہ رکھے اسے کیونکر سے کوئی سینے سے لگائے رکھے۔ جب ساری خلقت کی زبان ایک ہو گئی تو محمود ایاز کی تخصیص کہاں رہی؟ ایک نے اگر دوسرے کی بات سمجھ لی تو ترجمہ کرنے والوں کی فیس کدھر گئی؟ جبرئیل امین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہندوستان میں یہ کام تیزی سے ہو رہا ہے بلکہ کوئی خفیہ معاہدہ ہندو عالم ارواح میں ہوا ہے جس کی حقیقت حامیان اردو پر کھل گئی ہے اور انہیں اس کی سن گن مل گئی ہے اسی سے ہندوستان سے عالم بالا جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایک کے پیچھے ایک لگا ہوا ہے۔

تقسیم کے بعد سے بڑے بڑوں میں حسرت، سہیل، بیخود، یگانہ، صفی، مجاز، کیفی اور مخمور پہنچ چکے ہیں۔ اور اب جو آنے والے ہیں وہ بھی پا بہ رکاب ہیں اور سفر آخرت کو بیتاب ہیں، پاسپورٹ بنوا رہے ہیں اور اپنا بوریہ بستر بندھوا رہے ہیں۔ ویزا فوراً ہی مل جاتا ہے۔ دفتر میں چوں و چرا کوئی یوں نہیں کر پاتا ہے کہ جو جاتا ہے پلٹ کر نہیں آتا ہے۔ مولانا آزاد کے بعد ایک بزرگ کو اودھ سے بلایا گیا ہے اور منجملہ دیگر کاموں کے انہیں اس کام پر بھی لگا لیا گیا ہے۔ وہ آدمی کیسے ہیں جس صوبہ سے گئے ہیں یہ کام بحسن و خوبی نپٹا چکے ہیں۔ ان کے آنے پر صوبوں کو حکم ہوا ہے کہ کام تیزی سے کیا جائے ورنہ سستی برتنے والوں کو نذر زنداں کیا جائے۔ دفتروں میں عملے والے دل جمعی سے کام کر رہے ہیں اور بڑے اور چھوٹے سب ہی نام کر رہے ہیں۔ نئے الفاظ ڈھل رہے ہیں اور اصطلاحات کے سوتے ابل رہے ہیں۔ جو جا چکے ہیں اپنے پاسپورٹ اور ویزا پا چکے ہیں۔ جن کا ویزا تیار ہے ان کا مرکز کو انتظار ہے۔ نئی آزادی کے ساتھ پرانی زبان نہ ہو، تا کہ کمخواب میں ٹاٹ کا گمان نہ ہو۔

پاکستان میں بنگالی اور پنجابی والے جھگڑا کر رہے ہیں اور سندھ والے سندھی کے لیے اکڑ رہے ہیں۔ وہ بھی نئی آزادی کے ساتھ نئی اصطلاحات کے طالب ہیں۔ مگر وہاں کی اصطلاحات پر وہیں کی زبان کے محاورات غالب ہیں۔ جب کہ عربی ملائکہ کی زبان ہے اور عربی رسم الخط پر فرشتوں کا ایمان ہے تو اسے عالم ارواح میں کیوں نہ پہنچایا جائے اور اسے روحانیت کا جامہ کیوں نہ پہنایا جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں کام مکمل ہو چکا ہے۔ ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ ادھر انجمن ترقی اردو اور تعمیر اردو روڑے اٹکا رہی ہے۔ اور اس کی بقا کی خاطر دھکے کھا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کو جس نے ذرا زیادہ ہاتھ پاؤں نکالے تھے اور زمین پکڑنے کے نئے گوشے نکالے تھے اسے وظیفہ دیا گیا تھا اور اس کا منھ بند کیا گیا تھا۔ مگر وہ اب بھی ٹر ٹر کیے جاتی ہے اور اپنی بساط بھر لڑے جاتی ہے۔ اس کی للو کون روکے اور اسے کون ٹوکے کہ اسی میں چھید کرتی ہے جس میں کھاتی ہے اور جس کے پیسے کے بل بوتے سے مشاعرے کراتی ہے۔

میں نے از راہ دل لگی جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ اتر پردیش سے کیوں نکالی گئی۔ کس جرم میں اس پر کملی ڈالی گئی؟ بولے صاحب جس زبان کی لکھائی پورب سے پچھم جائے اور جو عالمِ ارواح کی زبان پر عمل درآمد کروائے وہ اتر پردیش میں جگہ کیسے پائے؟ میں نے ہنس کر پوچھا کہ شاعروں کا کیا خیال ہے اور ان کا کیا احوال ہے؟ بولے۔ مشاعروں میں ہلڑ بازی ہوتی ہے۔ واہ واہ کی آتش بازی چھٹتی ہے۔ مصرعوں کو زور زور سے اٹھایا۔۔۔ سبحان اللہ کا ایک طوفان مچایا جاتا ہے۔ اس دیس کا ایک خاص مزاج ہے۔ یہاں صلح و آتشی کا راج ہے۔ یہاں کے لوگ اہنسا کے قائل ہیں۔ اور حد سکون اور خاموشی کی طرف مائل ہیں۔ سکون کے تیر چلاتے ہیں اور ضبط و تحمل سے دلوں کو گرماتے ہیں۔ اور اسی سے بڑے بڑے معرکوں میں دشمنوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ جو زبان یہاں ڈھالی جا رہی اور کروڑوں روپیہ سے پالی جا رہی ہے اس میں ایک خاص قسم کی انفرادیت ہے۔ خموشی اس کی خاصیت ہے۔ ہر فرد اپنی زبان کا خالق ہے اور بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ خود اپنی اصطلاحات ڈھالتا ہے۔ اور اپنی رفتار و گفتار کو پالتا ہے۔ چونکہ سرپر خود ساختہ تاج ہے اس لیے کسی کا دست نگر ہے نہ محتاج ہے۔

سمیلن میں جب زبان کا شاعر جاتا ہے اپنے کلام سے حظ اٹھاتا ہے۔ جب کلام سناتا ہے تو سامعین پر قبرستان لنڈھاتا ہے۔ نہ آنے کی خوشی نہ جانے کا غم۔ نہ جینے کی خوشی نہ مرنے کا الم۔ ہر شعر سکون افزا اور ہر بند خموشی پر مذا۔ حاضری میں غیر حاضری کا مزا آتا ہے۔ اور ہر حاضر خودبخود اپنے کو خاموش پاتا ہے۔ میں نے جبرئیل امین کو ان کے اس تجزیے پر داد دی۔ مگر اسی کے ساتھ اس خبر پر مبارک باد دی اور کہا کہ پھر عالم ارواح میں ایسی زبان کو بھیجنے میں اتنی دیر کیوں ہے اور یہ آپس میں دشمنی اور بیر کیوں ہے؟ بولے نہ بیر اور غیر کا سوال ہے اور نہ اس کے رہنے اور نہ رہنے میں قیل قال ہے۔ پانچ سال میں یہ مصیبت ٹل جائے گی، اس وقت تک نئی پود تعلیمی اداروں سے پڑھ لکھ کر نکل آئے گی۔ نئی زبان میں ستو سنیں گے اور وہی مقصد زندگی بنیں گے۔ زبان صرف بولی جائے گی۔ اشاروں میں تولی جائے گی۔ میں نے کہا اچھا اچھا سمجھ گیا۔ بات کی تہہ کو پہنچ گیا۔ حمیدہ سلطان اور آل احمد دونوں کو یہ خط دکھا دو اور جن جن کو اس سال بھیج رہے ہو ان کا نام پتہ بتا دو۔ نام نہ یاد ہوں تو نمبر ہی لکھوا دو۔ مگر خط کی رسید بھی بھجوا دو۔

تمہاری عافیت کا طالب

اسد اللہ خاں غالب

مورخہ ۲۷فروری ۶۰ء

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے