غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

میں یہاں سے کٹ گیا ہوں تو وہاں سے کٹ گیا

پھر محبت کا تعلق درمیاں سے کٹ گیا

 

جب ہوا نے بوجھ ڈالا ہے شجر کی شاخ پر

اک پرندہ گھونسلے سے سائباں سے کٹ گیا

 

جب قلم نے آخری تھا شعر اگلا تو وہیں

شاعری کا رابطہ اک داستاں سے کٹ گیا

 

میں کہیں کا بھی نہیں رہتا اگر ایسا ہوا

میں اگر مصروفیت میں پھر جہاں سے کٹ گیا

 

وہ اچانک چل دیا ہے ہاتھ میرا چھوڑ کر

کچھ اچانک زندگی کے کارواں سے کٹ گیا

 

اور تو کچھ بھی نہیں رہتا لٹانے کے لئے

زندگی میں تیری ضد میں آسماں سے کٹ گیا

 

ہچکیوں سے خوف سا آنے لگا ہے اے خدا

اے خدا یہ سانس کا ٹکڑا کہاں سے کٹ گیا

 

کس ہوائی دور میں داخل ہوئی ہے زندگی

آخری آدم کا رشتہ بھی مکاں سے کٹ گیا

 

سب کشش سے بچ نکلنے کا زمیں پر کھیل ہے

جو سلیقے سے گرا ہے وہ یہاں سے کٹ گیا

 

جیت کا اعلان ہونا تھا کسی کی ہار پر

میں تو فوراً اس لئے تھا امتحاں سے کٹ گیا

 

میں بتاتا ہوں تمہیں اس قافلہ میں کیا ہوا

جو مکمل ہو گیا وہ مہرباں سے کٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ آزمایا ہوا ہے خود پر گھٹن سے دو دن نکل کے دیکھے

ہمارا اب بھی یہ مشورہ ہے کہ اپنے گھر کو بدل کے دیکھے

 

وہاں ٹھکانہ بنا رہا ہوں جہاں پہ چڑیوں کے گھونسلے ہیں

کبوتروں کے پڑوس میں ہے مرا ٹھکانہ وہ چل کے دیکھے

 

مجھے لگا ہے کہ شاعری بھی تمہاری قلت سی ہو گئی ہے

دراز کھولی تھی ڈائری سے تھے رنگ پہلی غزل کے دیکھے

 

ہوا سے کیسے بنا کے رکھی ہے کس زمیں پہ ٹکے ہوئے ہیں

کسی نے رہنا ہو پانیوں پہ تو پر اٹھا کے کنول کے دیکھے

 

خدا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں خدا کی بستی کے سارے پاگل

یہ ایک دوزخ میں مبتلا ہیں وہ ایک جنت اچھل کے دیکھے

 

مجھے بتایا گیا ہے آگے پروں کی حاجت نہیں رہے گی

لو آ گیا ہے مقام یاروں ہے جس کو جلنا وہ جل کے دیکھے

 

یہ دل جلایا ہے بادشاہو یہاں پہ اندھی نہیں لگے گی

کسی کو شک ہے تو آگے آئے ہمارے آگے سنبھل کے دیکھے

 

کئی دنوں تک بدن جلانے سے سبز ہوتی ہیں میری آنکھیں

نئے پجاری سے جا کے کہہ دو کہ چار دن تو پگھل کے دیکھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے