خواب زرّیں، زر خوابی ۔۔۔ مظفر حسین سیّد

(میرے دوست مظفر حسین سید نے چھہ سال سال پہلے یہ تحریر سَمت کے لئے بھیہجی تھی، لیکن میں نے اس وقت اسے شائع کرنا پسند نہیں کیا کہ یہ سیاسی کالم کی نوعیت کی لگی تھی۔ کچھ دن پہلے یہ پھر میرے سامنے آئی، تو میں ان کی یاد میں، جنہیں میں شارق ادیب کے نام سے جانتا تھا اور کہتا آیا تھا، اب یہ شائع کر رہا ہوں کہ اب اتنا عرصہ گزر جانے پر یہ تخلیق سیاسی نہیں رہی ہے۔ اعجاز عبید)

 

اپنے خوابوں کا سلسلہ روکو

سب کی نیت خراب ہوتی ہے

خواب دیکھنا ہر اس شخص، مرد، عورت، بچے، جو ان، ادھیڑ اور بوڑھے کا حق ہے،  جسے اگر انسان نہیں تو آدمی یا حیوان ناطق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے، گو حیوانات بے نطق کے بارے میں ہم وثوق کامل سے کچھ عرض نہیں کر سکتے کہ اس سلسلے میں ہماری معلومات خطرناک حد تک محدود، بلکہ نابود ہیں کہ یہ مخلوق خواب دیکھتی ہے یا نہیں، اور اگر بالفرض محال دیکھتی بھی ہو گی تو اس کے خواب بے تعبیر ہی رہتے ہوں گے کیوں کہ خواب کی تعبیر کے لیے خواب کا بیان شرط ہے، اور اس صلاحیت سے وہ بے چاری محروم ہے۔ یوں بھی ہماری قوم، ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں اکثریت اپنے خوابوں کی تعبیر سے بے فیض ہی رہتی ہے، اور اس کے خواب خواہ کتنے ہی رنگ برنگ ہوں، ایک جہان مفر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

بہرحال خواب سب دیکھتے ہیں، اور یہ سلسلہ روکے نہیں رکتا۔ یوں بھی دنیا کی کسی جابر، آمر  و ظالم سے ظالم حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی قدغن عائد نہیں کی ہے، اور نہ ہی کوئی محصول مقرر کیا ہے، اس لیے خواب بینی کی دنیا آزاد اور لامحدود ہے۔ پھر ہم تو خیر سے ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں، جہاں فضول سے فضول تر، لا یعنی اور بے معنی خیالات رکھنے اور ان کے بلا تکلّف، بے جھجک اور برملا، بالجہر اور بالاعلان اظہار پر کوئی پابندی نہیں، خواہ وہ بد قلمی کی شکل میں ہو یا بد زبانی کے لباس میں ملبوس۔ دیکھیے ہمارے خیالات حسب عادت بھٹک گئے اور ہمارا قلم حسب روایت بدک گیا، لہذا مراجعت ذکر خواب کی جانب۔

ہاں تو صاحبو، بات ہو رہی تھی، خواب بلکہ خوابوں کی۔ جیسا کہ ہم نے فرمایا، خواب دیکھنے کا ہی نہیں، خوابوں کی دنیا میں جینے کا حق سب کو ہے، اور ہم مشرقیوں کو مغربیوں سے کہیں زیادہ، اور ہم ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ۔ چوں کہ ہمارے پاس صرف خواب ہیں، جو ہماری ناقابل تقسیم دولت ہیں۔ ہمیں تعبیر کی حاجت کم ہی ہوتی ہے، کیوں کہ ہم فطرتاً، مزاجاً، طبیعتاً، روایتاً اور وراثتاً قناعت پسندی کے وصف سے مالا مال ہیں، صبر و استغنا ہمارا قومی و معاشرتی شیوہ ہے، ہمارا خمیر اس قدر غنی ہے کہ ہم صرف اور صرف خوابوں پر اکتفا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہماری ازلی شان یہ ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو کسی تعبیر سے شرمندہ کر کے، انھیں ذلیل و خوار نہیں کرتے، ہم تعبیر سے زیادہ خواب پر اور تدبیر سے زیادہ تقدیر پر تکیہ کرتے ہیں کہ یہی ہماری شوکت ثقافت ہے۔

ہم نے ایک نازیبا جسارت بے جا کا ارتکاب کرتے ہوئے، اپنی اس قرطاس خراشی کی ابتدا حضرت وسیمؔ بریلوی کے ایک شعر کی تحریف سے کی ہے، ان سے قلبی معذرت کے ساتھ کہ یہ تحریف ہم نے اپنی ضرورت وقتی، نیز اپنی نا شاعرانہ صلاحیت کے اظہار کے طور پر کی ہے۔ ویسے جناب وسیمؔ کو اطمینان خاطر ہو کہ تحریف بھی دراصل توصیف کی ہی ایک شکل ہے، پھر تحریف بااعتراف، سرقہ خفیہ سے کم تر جرم ہے، سو لائق درگزر۔

گزشتہ دنوں، کچھ دن تک حویلیوں، کوٹھیوں، مکانوں، جھگیوں، جھونپڑیوں سے لے کر گلیوں، کوچوں، محلّوں، بستیوں، کالونیوں تک اور گھروں کی بیٹھکوں سے لے کر جدید ڈرائنگ روموں تک اور ہمارے گھر کے آس پاس کی دکنیوں، دکانوں سے لے کر بھرے پرے بازاروں اور عالی شان مالوں تک ایک خواب کا ذکر ہر زبان پر تھا اور ایک سپنے کا چرچا ہر سو۔ یعنی مہان سنت شوبھن سرکار مہاراج کے اس سپنے کا جو انھوں نے اپنی قیمتی نیند قربان کر کے، عالم خیال میں دیکھا تھا بلکہ ان کے ایک پرم ششیہ یعنی شاگرد رشید کے قول کے مطابق، بابا سرکار نے یہ خواب سوتے میں نہیں بلکہ جاگتے میں، یعنی عالم مراقبہ میں دیکھا، جب وہ دھیان میں مگن تھے، اور یہ محض ایک خواب نہیں آتم گیان تھا، کشف تھا۔

اب بھلا بتائیے کہ ایسے بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ خواب اور ایسے آکاشی سپنے کو آپ کس طرح باطل قرار دے سکتے تھے۔ کیوں کہ صرف خواب ہوتا تو آپ اسے فرضی مان لیتے، کیول سپنا ہوتا تو آپ اسے جھوٹا کہہ دیتے، لیکن’آتم گیان دوارا‘ کشف کے توسط سے جو آسمانی اطلاع انھیں موصول ہوئی تھی، اسے آپ کیسے نظر انداز کر سکتے تھے، یا اسے ناتسلیم کر سکتے تھے، اس کی سچائی کے سامنے تو آپ کو سر جھکانا ہی تھا، کیونکہ آپ اور ہم اس دیس کے باسی ہیں، جہاں پیروں، فقیروں، باباؤں، سنتوں، منہتوں اور سادھوؤں کی حکمرانی، حکومت وقت کے اختیار و اقتدار سے بالا تر ہے۔ دیکھیے ناکہ نریندر مودی، جو خود سپنے بیچنے کا منافع بخش کاروبار کرتے ہیں، ان جیسا شطرنجی سیاست کا شاطر کھلاڑی بھی شوبھن سرکار کے سامنے دو زانو ہونے پر مجبور ہوا، انھوں نے بابا سرکار پر ذرا سی نکتہ چینی کی تھی، کہ بابا نے ان سے چند تیکھے سوال کر ڈالے اور ایک عدد گھڑکی بھی رسید کی، بس مودی جی چاروں خانے چت۔ دراصل راز درون خانہ یہ ہے کہ شوبھن سرکار کی روحانی طاقت اور ان کا رہبانی رعب و دبدبہ اپنی جگہ، ان کے اپنے اچھے خاصے وسیع و عریض علاقے میں رائے دہندگان پر ان کا ایسا اثر ہے، جس سے کوئی سیاست داں چشم پوشی نہیں کر سکتا، اور بھاجپائی مودی تو بالکل نہیں، کیوں کہ ان کے لیے اس وقت اتر پردیش کا ایک ایک ووٹ بیش قیمت ہے، اور ہمارے سماج میں سیاسی دوکان کتنی ہی اونچی ہو، اس کا پکوان مذہبی دوکان کے سامنے پھیکا اور بے مزہ بلکہ بدمزہ ہی قرار پاتا ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ بابا شوبھن سرکار مہاراج کا یہ سپنا، یہ خواب تھا کیا، اور اس کی (ناممکن) تعبیر کیا ہوسکتی تھی۔ اس قصّے سے آپ واقف ہیں، مگر ہم آپ کی دلچسپی کے لیے دہراتے ہیں کہ گزشتہ دنوں اتر پردیش کا ایک کم نام مقام (گمنام نہیں، کیوں کہ اس مردم خیز بستی نے بڑی نامور ہستیاں پیدا کی ہیں، جنھوں نے اس کے نام کو روشن کر کے، خواص و عوام کے ذہنوں میں نہ سہی، کتابوں میں ضرور محفوظ کر دیا ہے) یعنی اناؤ جو ابھی کل تک صرف لکھنؤ اور کانپور کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ایک چھوٹا سا شہر اور اس کے گرد پھیلا ہوا، اک بظاہر غیر اہم ضلع تھا، مگر گزشتہ دنوں اس کی حدود انتظامی میں واقع صفری حیثیت کا ایک موضع جس کا نام ڈونڈی کھیڑا ہے، وہ نہ صرف پکّی روشنائی سے چھپے اخبارات کی سرخیوں میں آگیا بلکہ فضائی، لہریاتی اور تصویری ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی مسلسل اس کی ڈونڈی پیٹی جاتی رہی، لیکن یہ ڈونڈی بے چارے بیہڑ، بے سڑک گاؤں ڈونڈی کھیڑا کی نہیں بلکہ اس کے ایک خشک و بے فصل قطعۂ زمین میں پوشیدہ اس دولت زر کے سبب تھی، جس کا شقہ بابا سرکار کے سپنے نے چھوڑا تھا، عالم یہ تھا کہ ہم جیسا قلم کا مزدور بھی ہر صبح کو چائے کی پیالی کی پہلی چسکی کے ساتھ جب اخبار کھولتا تو ساری سیاسی خبروں کو پھلانگ کر اس سپنے کے ساکار ہونے کی خبر کی تلاش میں اپنی نظروں کو سر گرداں کرتا، کیوں کہ زیر زمین اس (ناموجود) سونے کی چمک سے، وہ بھی اپنی آنکھوں کو خیرہ کرنا چاہتا تھا، جس کی تاب ناک پیشین گوئی اور بھوشیہ وانی شوبھن سرکار نے کی تھی۔

جیسا کہ آپ سب روشن ضمیروں اور حتیٰ کہ ہم جیسے کوتاہ ذہنوں پر بھی منکشف و عیاں ہے کہ اس داستانوی قصّے کا آغاز مہاراج شوبھن سرکار کے ایک نادر الوجود خواب سے ہوا۔ انھوں نے اپنی چشم قلب یعنی من کی آنکھ سے ایک رنگ برنگ سپنا دیکھا کہ ڈونڈی کھیڑا کے کبھی کے راجہ راؤ رام بخش کی کھنڈر ہو چکی حویلی کے باہر کھلے میدان میں، مندر کے قریب دنیا کا سب سے بڑا خزانہ دفن ہے، اور اس میں تولے دو تولے نہیں، سیر دو سیر نہیں، من دو من بھی نہیں، بلکہ ایک ہزار ٹن خالص سونا محفوظ ہے۔ اس خوابی انکشاف کی اطلاع انھوں نے ہر قسم کے دنیاوی مطالبات اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر، اپنے ایک عقیدت مند کو فراہم کی، جو خیر سے وزیر با تدبیر بھی ہیں، ان وزیر کبیر کے توسط سے یہ خبر پایہ تخت دہلی میں وزارت عظمیٰ کے دفتر تک پہنچی اور وہاں سے خزانے کی تلاش کا فرمان جاری ہو گیا، کہ بابا سرکار کے خواب نے ارباب اختیار کو بے طرح بیدار کر دیا اور سارا نظام حرکت میں آ گیا۔

ایک دلچسپ حیرتی حقیقت ملاحظہ ہو کہ جس ملک میں کسی عمومی فیصلے تک پہنچنے اور اسے آخری شکل دینے میں مہینوں لگتے ہوں، کوئی قانون وضع ہونے اور نافذ ہونے میں کئی کئی برس لگ جاتے ہوں، اور اہم و فوری نوعیت کے امور کی تفتیش و تحقیق کے لیے قائم کردہ عدالتی کمیشن اپنی حاصل کردہ معلومات و سفارشات بہم پہنچانے میں اتنا وقت لگاتے ہوں کہ تمام تر صورت حال ہی تبدیل ہو جائے اور حادثے کے متاثرین یا تو ایں جہانی سے آنجہانی ہو چکے ہو ں یا کم از کم حصول انصاف کی ہر امید ترک کر کے اس معاملے کو ہی فراموش کرنے پر مجبور ہو چکے ہوں، لیکن اسی سست رفتار ملک میں ایک مذہبی پیشوا کے اشارے پر تمام تکنیکی و قانونی کاروائیوں کی رسم پوری کیے بغیر کمال عجلت کے ساتھ خزانے کی تلاش کا پیچیدہ عمل چند دنوں میں شروع ہو جائے۔ دراصل وہی ہوا، جو اس توہم پرست معاشرے میں ہونا چاہیے تھا، جہاں زمینی حقائق سے زیادہ آسمانی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے، اس لیے بابا سرکار کے اشارے پر سرکار کیا سرکاریں حرکت میں آ گئیں، اور خزانے کی تلاش شد و مد کے ساتھ جاری ہو گئی۔

اگرچہ ماہرین ارضیات و افسران محکمۂ آثار قدیمہ اس بات پر متفق تھے کہ مذکورہ خوابی سرزمین یعنی سپنوں کی دھرتی کی کوکھ میں کوئی نہ کوئی معدنی مادہ ضرور موجود ہے، لیکن قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ فلز زرد ہی ہو گی، بلکہ قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہاں اتنی کثیر مقدار میں دولت زر پوشیدہ ہو ہی نہیں ہو سکتی تھی، جتنی کہ بابا سرکار نے اپنے خواب، اپنے سپنے یا گیان دھیان کی چمک جھمک میں دیکھی تھی۔ چوں کہ یقین کسی کو نہیں تھا اس لیے ماہرین آثار قدیمہ نے احتیاطاً یہ کہنا شرع کر دیا تھا کہ وہ ثقافتی دولت کی تلاش میں یہ جد و جہد کر رہے ہیں، تاکہ وہ کل کو مذاق کا ہدف نہ بنیں، ادھر علاقائی تاریخ کے ماہرین نے بھی متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ وہاں کسی ایسے خوابی خزینے کے حقیقتاً برآمد ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، حتیٰ کہ راجہ صاحب کی ایک کئی پشتوں بعد کی وارث پڑھی لکھی خاتون نے بھی اس پورے قصّے کو داستان طرازی ہی قرار دیا تھا، تاہم بابا سرکار اپنی بات پر اٹل تھے، اور سرکاری سطح پر سرکاری خرچ پر، خزانے کی تلاش جاری بھی رہی، ساری بھی، ادھر بابا سرکار کے بھکت ہون اور پوجا پاٹھ میں مصروف تھے کہ کسی طرح ان کے گرو کا سپنا سچ ہو کر سامنے آئے، یعنی یقین انہیں بھی نہیں تھا ورنہ اگر خزانہ موجود تھا تو پھر اس کی برآمد گی کے لیے دعا اور عبادت کی کیا ضرورت تھی۔

بابا سرکار کے عقیدت مندوں کو کتنا یقین تھا اور کتنا نہیں، یہ بات تو تیقّن سے نہیں کہی جا سکتی، مگر تلاش خزانہ کی مہم کے روز اوّل ہی بابا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چار گھنٹے کے اندر اپنی روحانی طاقت سے خزانہ عامرہ زمین کے اوپر لا کر جگ ظاہر کر دیں گے، انھوں نے پوجا بھی کی، اور مقررہ ساعت گزر گئی، مگر خزانہ تو خزانہ اس کی جھلک بھی نظر نہ آئی، اور بابا جی بڑی متانت مگر خاموشی کے ساتھ راہیِ آشرم ہو گئے۔ اس پر کسی منچلے نے یہ دل جلا تبصرہ بھی کیا کہ اگر بابا روحانی طور پر اتنے طاقت ور اور با اختیار ہیں کہ انھیں پوشیدہ خزائن نظر آ جاتے ہیں تو پھر سرکاری عملے کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی، بابا اپنے چمتکار سے ہی خزانہ باہر لا سکتے تھے اور ملک و قوم کو مالا مال کر سکتے تھے، کیوں کہ اس تو ہم پرست ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، نہ بھی ہو تو اس کے سادہ لوح عوام یقین کرنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔

بارے، یہ خبر آئی کہ محکمۂ آثار قدیمہ نے ہفتوں کی بے نتیجہ قواعد اور زر کثیر کے ضیاع کے بعد بالآخر سونے کی تلاش کا عمل یکسر روک دیا، یعنی زر تو نہیں ملا، البتہ سرکاری زر بہ شکل رقم خرچ ہو کر، خزانے سے منہا ہو گیا، اس ناکامی کی خبر سن کر بابا جی کا رنگ زرد ہوا یا نہیں، اس کی صحیح اطلاع باوجود تلاش بسیار نہ مل سکی۔

ہمیں پھر ایک شعر یاد آ گیا ہے:

ایک مدّت کے لئے پھر نیند اپنی اُڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

دراصل ہم کم و بیش کئی ہفتے تک اس خوش خیالی میں مبتلا رہے کہ شاید محکمۂ آثار قدیمہ کے ماہرین اپنی عجلت روی پر پشیمان ہو کر تلاشِ خزانہ کی اپنی نامکمل مہم کی از سرِ نو تجدید کر کے سنگلاخ زمین کے نازک سینے میں مزید شگاف زنی فرمائیں، اپنے زنگ آلود اوزاروں کو نئے سرے سے صیقل کر کے ایک مرتبہ اور ہمت باندھیں کہ کوشش بڑی چیز ہے۔ تاہم ہماری خوش فہمی، کج فہمی ثابت ہوئی، اور ماہرین مذکور نے تمام تر شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلاش زر کی سمت میں کوئی سعی مکرر نہیں فرمائی۔ بڑے ستم کی بات یہ ہے کہ انھوں نے بابا شوبھن سرکار کی دل شکنی کا بھی لحاظ نہیں کیا، نہ ہی خیال خاطر سرکار کا جذبہ پیش نظر رکھا۔ شاید یہ حکومتی عملدار، ابھی اپنی گزشتہ شرمندگی کے خول سے ہی باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ اور بابا سرکار کی موشگافیاں بھی ہوائی قلعہ بن کر رہ گئیں۔ راجہ راؤ رام بخش کا خستہ حال، بلکہ تباہ حال قلعہ اس تماشے کا خاموش ناظر بنا مثال عبرت پیش کر رہا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے:

ع:   دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

امر واقعہ یہ کہ اس امیدِ زر، تلاشِ زر، نیز ناکامیِ کاوش جہدی کے بعد کئی سوالات ذہنِ ناقص میں آئے، جو اس سے قبل خوش خوابی کی برکات کے باعث بعید الخیال تھے۔ خیر، لیجیے ہم آپ کو اپنے ذہنی شکوک اور وسوسہ ہائے شدید میں شریک کر کے اپنی دانست بھر ایک زور دار کوشش کرتے ہیں، باقی معاملات آپ کی صوابدید پر منحصر ہیں، وجہ یہ کہ راجہ راؤ رام بخش تاریخ میں گمنام نہ سہی، مگر کچھ ایسے نامور بھی نہیں، ان جیسے راجہ اس عہد کے ہندوستان میں ہزارہا ہوں گے، چپّے چپّے پر ہوں گے۔ وہ ایک ننھی سی ریاست بلکہ جاگیر کے مالک تھے۔ تاہم ان کی جب الوطنی اور جرأت و شجاعت کو سلام کہ انھوں نے ابن الوقتی اور موقع پرستی کو درکنار کر ۱۸۵۷ء کے پُرآشوب دور میں انگریز جیسی عالمی طاقت سے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا، حتی المقدور مقابلہ بھی کیا اور انگریزوں نے انتقاماً ان کی گڑھی کو تہس نہس کر کے، زمیں بوس کر دیا، لیکن ان کا محفوظ کردہ خزانہ فاتحین کی نظروں سے پوشیدہ ہی رہا، ورنہ پورے ملک کی قزاقی کرنے والوں کو اس چھوٹے سے قلعہ، محل یا حویلی کو لوٹنے میں کتنی دیر لگتی۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر سوال مشکل یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بلکہ ننّھی منّی سی ریاست کے حکمراں کے پاس سونے کے اتنے بڑے انبار کہاں سے آ گئے، جس کی نوید اس نے شوبھن سرکار کو خواب میں دی۔ دوسرا سوال یہ بھی کہ اگر اتنا نہ سہی کتنا ہی سونا چاندی راجہ کے پاس تھا بھی تو شکست کھانے کے بعد انھیں اتنی فراغت، فرصت اور وافر مہلت کیسے مل گئی کہ انھوں نے اپنا خزانہ باقاعدہ اتنا گہرا دفن کیا کہ وہ ڈیڑھ سو برس گزرنے کے بعد بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا، اور جب ظاہر ہونے کو ہوا تو ایک خواب کے توسط سے اور یہ کہ جب وہ اپنا خزانہ دفن کر رہے تھے تب انھیں شکستِ فاش دینے والی فاتح فوج کہاں غافل تھی، نیز محدود تاریخی معلومات کے مطابق تو وہ شکست کھا کر فرار ہو گئے تھے، کئی دن کسی کمیں گاہ میں چھپے رہے اور پھر فرنگی سپاہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ان کی کمیں گاہ ان کی گڑھی تو نہیں ہوسکتی تھی، جہاں تک فاتح فوج کی رسائی تھی، اور اگر یہ باور کیا جائے کہ انھوں نے جنگِ آزادی برپا ہونے سے پہلے ہی خزانہ دفن کر دیا تھا، تو اس کا کوئی جواز نہیں نظر آتا، کیوں کہ ان جیسا حب الوطنی سے سرشار جیالا اپنی دولت کو ایک بڑی فوج بنانے اور جنگی ساز و سامان جٹانے پر صرف کرتا، یا اودھ کی ملکہ حضرت محل کی نذر کر دیتا، جو انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار تھیں، یا پھر مرہٹہ سردار نانا صاحب کو سونپ دیتا جو ہمسایہ شہر کانپور میں کمپنی بہادر کے خلاف مصروفِ جنگ تھے۔ ہماری ناقص فہم میں تو ان میں سے کوئی بھی مفروضہ، دلائل کی کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا، اور ہزار ٹن سونے سے بھی زیادہ قیمتی سوال تو یہ ہے کہ ایک انتہائی معمولی اور صفری حیثیت کی حامل جاگیر کے حاکم کے پاس اتنی بے پناہ دولت کہاں سے آ گئی، جو شاید ریاست اودھ کے حکمراں واجد علی شاہ کی تحویل میں بھی نہ رہی ہو گی، جن کی ریاست شاہی کے نقشے پر ایک معمولی سا نقطہ رہی ہو گی، راجہ رام بخش کی زمینداری۔

بلا شک و شبہ عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان سونے کی چڑیا تھا اور مغل قلمرو عصری دنیا کی سب سے متمول اور ذی شان سلطنت تھی، اس لیے سونے کی اتنی بڑی مقدار اور وہ بھی یک مشت اگر ہو سکتی تھی تو شاہجہاں اور اورنگ زیب کے قبضۂ قدرت میں، نہ کہ ایک حقیر سے دیہی زمیندار کے پاس۔ عظیم مغلو ں کی دولت اور وراثت، کسی نہ کسی مقدار میں ان کے کمزور جانشینوں تک بھی پہنچی ہو گی، مگر ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے دہلی پر نادر شاہی قیامت گزر چکی تھی اور تمام تر سونا بمعہ تختِ طاؤس و کوہِ نور، ہندوستان سے ایران منتقل ہو چکا تھا۔

یہ تمام گفتگو بھی محض گفتگو برائے گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں، کیوں کہ راجہ رام بخش کے چھوٹے سے خزانے میں سونے کی اتنی کثیر مقدار ہو ہی نہیں سکتی تھی، ورنہ وہ ہندوستان کے سب سے دولت مند حکمراں ہوتے اور مغل شہنشاہی سے چشمک کرتے، اودھ کی تو بساط کیا تھی، اور وہ بھی تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ اس لیے خزانہ تو خزانہ، خزانے کا سایہ بھی مذکورہ موضع ڈونڈی کھیڑا میں ہونا محال ہی نہیں ناممکن نظر آتا تھا۔ البتہ راجہ رام بخش چوں کہ رام بخش تھے، اس لیے وہ بھگوان رام کی بخشش سے بہرہ مند ہو سکتے تھے، اور غالباً بابا سرکار کی خوش خوابی بھی اسی اساطیری خیال پر مبنی رہی، ورنہ کوئی منطق، کوئی دلیل اور کوئی ثبوت ان کے حق میں نہیں جاتا، اگر ہو گا تو وہ بابا جیسے مہان سنت کی نظر میں ہو گا، ورنہ:

ع:  دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

اگرچہ بابا سرکار نے اپنی وسیع القلبی اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے، حکومت کو یہ ’اجازت‘ دے دی تھی کہ وہ اس (حاصل نہ ہونے والے) سرمایۂ ذخار کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی، انھیں یا ان کے چیلوں کو کچھ درکار نہیں تھا، نہ ان کی آنکھ ادھر تھی، نہ ذہن و خیال۔ یہ بھی بڑی بات ہے، ورنہ جنوبی ہند کے ایک مندر میں سوا سو برس پرانا خزانۂ عظیم دریافت ہوا تھا تو وہاں کے منہتوں اور پُجاریوں نے حکومت کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ یہ بھگوان کا دھن ہے، کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا، نتیجتاً وہ سونا آج بھی بے مصرف پڑا ہے۔ سونے کو زنگ تو نہیں لگتا مگر وہ اپنے استعمال مفید سے محروم ہے۔

محاورہ ہے کہ گاؤں بسا نہیں اور لٹیرے پہلے آ دھمکے۔ سونا برآمد بھی نہیں ہوا اور اس کے اَن گنت دعویدار کھڑے ہو گئے، جن میں گاؤں والے اور راجہ صاحب کے دور دراز کے وراثتی حقدار بھی شامل تھے۔ باقی رہ گئیں سرکاریں تو ان کا تو قانونی اور جائز حق تھا ہی، مگر حق تو تب قائم ہوتا، جب شیِ ’غیر حقیقی‘ کا وجود ہوتا، اصلاً تو وہ دولت زر ہی نا موجود تھی، جس کا یہ قصّہ تھا۔

سونا برآمد ہوتا یا نہ ہوتا، اس کا کوئی قوی امکان بھی ہوتا یا نہ ہوتا مگر حسابی کتابی ٹولا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ خود ساختہ منصوبہ بندوں اور تخمینہ سازوں نے تمام گوشوارے تیار کر لیے تھے۔ ان ماہرین نے اعداد و شمار، علم ریاضی اور علم الاحصا کی بنیاد پر یہ بھی طے کر دیا تھا کہ اس تصوراتی رقمِ خطیر سے اتنی تعلیم گاہیں قائم ہوسکتی تھیں، اتنے شفا خانے وجود میں لائے جا سکتے تھے اور فلاں فلاں قبیل کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے تھے، نیز اس زر کثیر کو فروخت کر کے مرکزی و ریاستی حکومتیں کس طرح اپنی جملہ ذمہ داریوں سے راتوں رات عہدہ برآ ہو کر، اس دولت کے فیوض اور اس کی برکات کے سبب بڑے سے بڑے اخراجاتی بار سے لمحوں میں بری الذمہ ہوسکتی تھیں۔ ایک صاحب تو بڑی دور کی کوڑی لائے، اور انھوں نے حساب کتاب کر کے جوڑ گھٹا کر یہ بھی طے کر دیا کہ اگر یہ رقم بے حد و حساب وجود ظاہری میں آ گئی تو ہر ہندوستانی ایں قدر پونجی کا مالک ہو جائے گا۔ آپ بھی امید کا چراغ روشن کر لیتے کہ رقم آنے والی تھی، ہم نے تو ایک مضبوط سی پرانے طرز کی تھیلی سلوالی تھی کہ عہد وسطیٰ کی ریزگاری بھی اشرفیوں کی شکل میں ہو گی، جسے ہم اپنی دادی، نانی کے سکھائے طریقے سے چھپا کر، جِگو کر رکھیں گے، کسی آزمودہ کار کی طرح۔

سچ پوچھیے تو ہم تو خوشی سے اتنے پھول گئے کہ اپنے لباسی جامے میں نہیں سما رہے تھے، کیوں کہ اتنی بڑی (بلکہ بہت بہت بڑی) رقم یعنی تین لاکھ کروڑ  (جو اس مفروضہ دولتِ زر کی آنکی ہوئی قیمت تھی)، ہمارے تصور اور تخیل کی پرواز اور رسائی سے بھی پرے تھی، ہم ’پدرم سلطان بود‘ کا کیسا ہی بلند و بانگ نعرہ لگا لیں، اپنے آباء و اجداد کی (غیر حقیقی) ثروت و دولت کے کتنے ہی نو ایجاد قصے گڑھ لیں اور سفید جھوٹ کے پلندوں کے انبار لگا دیں، تب بھی اتنی بسیط، اتنی وسیع، اتنی عریض دولت کی زیارتِ رسمی کا بھی دعویٰ نہیں کر سکتے، یہ رقم خطیر و کبیر ہمارے کسی خود ساختہ خواب کا منظر بھی نہیں بن سکتی، کیوں کہ ہم شوبھن سرکار نہیں ہیں۔

اگرچہ کچھ عادتاً و فطرتاً قنوطی حضرات یہ معترضانہ نکتے اٹھاتے رہے کہ آج سونے کی وہ قدر، قیمت و اہمیت نہیں جو عہدوسطیٰ میں تھی، اور فی زمانہ سونے سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر نہیں بدلی جا سکتی، مگر آپ ان سب مایوسی پسند لوگوں کو بکواس کرنے دیجیے، ہم مانتے ہیں کہ سونا بہرحال سونا ہے، حقیقت میں نہ سہی، خواب میں سہی۔ ورنہ ہماری حکومتیں یوں پاگل نہ ہو جاتیں۔

ویسے خزانے کی موجودگی، برآمدگی اور اس کا حصول کوئی ایسی انوکھی بات نہیں، اکثر لوگوں کو خزانے ملے ہیں۔ کبھی ردّی میں آئے کاغذ پر کشیدہ نقشہ کی مدد سے، کبھی بزرگوں کے اچانک نظر میں آئے وصیت نامے کے طفیل، البتہ اس نئے قصّہ میں دو باتیں غیر معمولی تھیں، کہ اوّل تو آج تک شاید کسی کو محض خواب کی رہنمائی سے خزانہ نہیں ملا، دوئم اتنی خطیر رقم کا حامل خزانہ بیک وقت کسی کو بیک مقام حقیقتاً حاصل ہوا ہو، اس کی بھی مثال ملنا محال ہے۔ البتہ خواب کی بات دیگر ہے، عالمِ خواب میں ہم نے بھی، ایک بار نہیں کئی بار تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار جیسی حسین، پر شکوہ و بیش قیمت عمارتوں کو خریدا بھی ہے، فروخت بھی کیا ہے۔ یہ خوابی تجربہ ہمیں ہی نہیں بہتوں کو ہوا ہو گا، شاید آپ کو بھی، مگر ہوا یہی ہو گا کہ جب آنکھ کھلی تو بستر پر تھے۔

ہم نے اپنے بچپن میں اپنے خاندان کی ’بزرگاؤں‘ کو اکثر یہ کہتے سنا کہ سونا مالدار کا سنگھار اور غریب کا آدھار ہے، کہ بوقتِ ضرورت کام آتا ہے۔ اس لیے ہم کم از چند دن ضرور خوش خیال رہے کہ شاید زرِ خطیر کا یہ خزانہ ہماری حکومت کو مل ہی جائے، تو پھر ہندوستان جیسے غریب مگر ترقی پذیر ملک کے محدود خزانے کو ایک بڑا سہارا مل جائے گا، اور اگر حکومت اس مفت کی دولت کو وراثتی احترام کے پیش نظر نیلام نہ بھی کرتی تو بشرطِ حاجت رہن رکھ سکتی تھی، کہ گاہک اور موت کی طرح برے وقت کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں کہ بلا تنبیہ اور بغیر پیشگی اطلاع، کب بصورت بلا نازل ہو جائے۔

ہم نے اپنے خاندان کی ’بزرگاؤں‘ کو یہ کہتے بھی سنا کہ مایا (دولت) اگر گڑی ہو تو اس کی حفاظت جن اور سانپ کرتے ہیں، اور وہ وقت مقررہ پر اسی کو ملتی ہے، جس کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ جب وقت آتا ہے تو یہ مایا کھسک کر اوپر آ جاتی ہے اور کسی طرح چمک چمکا کر ظاہر بھی ہو جاتی ہے۔ مگر ہماری حکومتوں کو شاید بڑے بوڑھوں کی ان باتوں کا یقین نہیں ہے، ورنہ وہ اتنی زحمتیں نہ اٹھاتیں اور توہّم پرستی میں مبتلا اس معاشرے میں اس ’مہان مایا‘ کے از خود برآمد ہونے کا انتظار کرتیں۔ لیکن اتنا صبر و ضبط کہاں سے آتا کہ:

ع:  عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب

ہم بیسویں صدی میں پیدا ہوئے اور اکیسویں صدی میں برسرعمل ہیں۔ پھر بھی ہمارے خمیر کی ہندوستانیت اور ہماری بشری کمزوری ہمیں گھیر گھار کر، ٹھیل ٹھال کر اس مقام پر لاتی تھی کہ ہم بابا سرکار کے خواب کے تئیں ایک مرتبہ پھر خوش خیال اور خوش امید ہو جاتے، مگر ہمارے اندر پوشیدہ باغی قلم کار، جو غور و فکر کا دعویدار ہے اور منطق و سائنس میں بھی یقین رکھنے کی غلط فہمی پالتا ہے، وہ اپنا سر ابھارتا اور کہتا کہ کس دنیا میں جی رہے ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا، اور نہ ہونے والا ہے۔ پھر ہمارا جی ہوتا کہ ہم اپنے کسی ہم مشرب سے شرط لگا لیں کہ نہ خزانے کا وجود ہے اور نہ سونا نکلے گا۔ ہم شرط لگا تو لیتے، مگر ہم دل سے یہی چاہتے تھے کہ ہم شرط ہار جائیں، ہمارا دوست شرط جیت جائے، بابا سرکار کا سپناسچ ہو جائے، کہ شاید اسی بہانے ملک کا اُدّھار ہو جائے، ممکن ہے کہ ہماری تمنا پوری ہو جائے، حقیقت میں نہ سہی خواب میں سہی، ہمیں خواب دیکھنے اور خوابوں میں جینے کی عادت جو ہے، آخر ہیں تو ہم مشرق کی پیداوار۔

تو صاحب! قصہ مختصر، بلکہ تمام کہ نہ بابا کا آکاشی سپنا ساکار ہوا، نہ ہمارے زمینی خواب کسی تعبیر سے شرمندہ ہوئے، یعنی معاملہ ٹائیں ٹائیں فش۔

ع:  خواب مدّت میں بھی دیکھا تو وہی دیکھا ہوا

آخر میں ہم اپنے کلمات تشکر یعنی دھنیہ وادی شبد مہاراج شوبھن سرکار کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے ہم ہندوستانیوں کو خوش خیالی کا ایک اور تحفہ فراہم کیا، حقائق کی سنگلاخ زمین پر نہ سہی، رنگ برنگ خوابوں کی وادی میں سہی، کم و بیش ایک ماہ تک ہماری آرزوئیں ایک سپنیلے رتھ پر سوار ہو کر خوش رنگ تصوّراتی محلوں کی طرف رواں رہیں، لیکن یہ خیال مسرور بھی ہمارے ہر تجربۂ نشاط کی طرح چند دنوں کا مہمان ثابت ہوا، تاہم خوشی تو خوشی ہے، کیسی ہی عارضی کیوں نہ ہو، اور کتنی ہی مصنوعی کیوں نہ ہو۔ بھلا ہو شوبھن سرکار کا کہ انھوں نے خود خواب دیکھا اور ہمیں بھی خوابوں کے جہان کی سیر کا ایک اور موقع دیا، گو اس کی عمر بڑی مختصر تھی، کیوں، یہ ہمیں پتہ نہیں، سرکار مہاراج کو شاید پتہ ہو۔ رہا ہمارا سوال تو، ہمارے نزدیک تو رات گئی، بات گئی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے