کوفہ کے مسافر ۔۔۔ علی اکبر ناطق

ایک باب

 

کل ظہرین سے گھر کا تمام کام اُمِ حمیدہ کے ذمہ پڑ گیا تھا۔  بکریوں کو چرانے کے لیے تو خیر ابو صالح بن حدید چرواہا صبح ہی ریوڑ ہانک کر عین الحسن کی چراگاہوں کی طرف نکل گیا تھا اور اب وہ مغربین سے پہلے لوٹنے والا نہیں تھا۔  اِن کے علاوہ ہل میں جوتنے والے دونوں گھوڑے اور تین ناقے مزید اِس گھر کے جانوروں میں سے تھے۔  اگرچہ اُمِ حمیدہ نے گھوڑوں کے اگلے پچھلے پاؤں باندھ کر اُنھیں گھر کے سامنے حیرہ کی مشہور بہتی ہوئی نہر کے کناروں پر چھوڑ دیا تھا مگر تین ناقوں کے لیے چارہ تو اُسے لانا ہی تھا۔  اُمِ حمیدہ کا خیال تھا دونوں بچوں اور مسہر بن جندب صیداوی کا ناشتہ تیار کرنے کے بعد وہ عین الحسن سے ناقوں کا چارہ لے آئے گی۔  وہاں اُن کی جوار اور باجرے کی وسیع کاشت تھی۔

اُمِ حمیدہ مَیں کل مغربین سے قیس کی آواز نہیں سُن پایا، کہیں سفر پر نکلے ہیں؟ مجھے بے خبر رکھنے میں کیا مصلحت تھی؟ مسہر بن جندب نے قیس کی بیوی کو مخاطب کیا جو صبح کے کھانے کے لیے پنیر اور زیتون کو جَو کے میدے میں حل کر کے نان بنا رہی تھی۔  اُمِ حمیدہ کے سر پر کھدری پگڑی بندھی تھی جس کے دونوں گوشوں پر گھونگھوں کے چھوٹے چھوٹے گھنگھرو لٹکے ہوئے تھے اور کانوں میں سونے کی لمبی بالیاں تھیں۔  اُس کا گھر بہت کھلا تھا جس میں کھجور کے بلند پیڑوں کا جھرمٹ تھا۔  اُن کے عین نیچے حوض میں بطخیں قیں قیں کی آوازیں بھرنے کے ساتھ غوطے کھا رہی تھیں۔  حوض کی دوسری طرف دیوار کے عین ساتھ نیچے تندور لگا ہوا تھا۔  اُس کے قریب ہی کچی مٹی سے بنے ہوئے اونچے مکان کے سامنے دالان تھے۔  اِس دالان میں دونوں گھٹنوں سے محروم مسہر بن جندب صیداوی بیٹھا تھا۔  جندب کے دائیں بائیں قیس کے دونوں نو عمر بچے کھجور کی گٹھلیوں سے کھیل میں مصروف تھے۔  یہ بچے کبھی کبھی صیداوی کے کندھوں پر چڑھ جاتے اور اُس کی داڑھی کے بالوں سے کھیلنے لگتے تھے۔

اُمِ حمیدہ نے نان کے پیڑے کو تندور میں رکھتے ہوئے جواب دیا، یا ابی قیس، ابو جعفر کل ظہرین سے سفر پر ہے۔  اُس کا دوست عبدالرحمن ارحبی آیا تھا۔ تب آپ کو ابی صالح عین الحسن لے جا چکے تھے۔  عبدالرحمن نے اُس سے کچھ سرگوشیاں کیں۔  مَیں دونوں کے لیے کھانا تیار کرنے میں مصروف تھی اور وہ باتوں میں مصروف تھے۔  مجھے اُن کے مدعا کی خبر نہیں ہوئی البتہ اتنا کہا کہ مَیں آپ کو خبر کر دوں کہ اُنھیں بہت جلدی ہے۔

درود ہو آلِ محمد پر، قیس کو پھر بھی مجھ سے ملے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا۔  کیا وہ نہیں چاہتا کہ ارحبی کی آمد کی خبر مجھے پریشان کر دے گی۔  کیا اب قیس نے میری پاؤں کے ضائع ہونے کو اپنی آزادی سمجھ لیا ہے ؟ مَیں کل سے تین بار تم سے پوچھ چکا ہوں مگر اُس کے جواب میں فقط تمھارے ہاتھوں میں تانبے کے برتنوں کے بجنے کی آواز آتی ہے یا بکریوں کو ہانکنے کی۔  مَیں نے تو خیال کیا تھا قیس اپنے چاولوں کی فصل کی سیرابی میں مصروف ہے اور رات اِس لیے نہیں پہنچا مگر اب تمھاری خبر نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مجھے بتاؤ ارحبی نے اُس سے کون سی باتیں کی تھیں ؟ تم جانتی ہو مگر بتانے سے گریز پا ہو۔

یا ابی بخدا مَیں ایسی تمام خبروں سے نا آشنا ہوں جن سے کوفہ کی عورتیں گھبرا جاتی ہیں یا شاد ہوتی ہیں۔  جب سے ہم کوفہ سے نکلے ہیں میرے ہاتھوں میں کام کاج کی تدبیریں ہیں۔  پچھلے چھ سال سے میرے کانوں میں نہ کسی زنجیر کی صدا گونجی ہے نہ تلوار کی۔  البتہ خدا آپ کو اور قیس کو سلامت رکھے مَیں نے آپ کی اور قیس کی تلواروں کو زنگ نہیں چڑھنے دیا۔  اُنھیں فارغ وقت میں باقاعدگی سے صیقل کرتی رہی۔

مسہر بن خلید جندب نے صفین میں کئی شامیوں کو جہنم میں پہنچایا تھا جس کے انتقام میں اُسے اپاہج کیا گیا تھا۔  علی کے لشکریوں میں سے اکثریت ایسی ہی تھی کہ علیؑ کی شہادت کے بعد اُنھیں حوصلوں کی پستی نے کئی عذر مہیا کر دیے تھے۔  بہت لوگ کوفہ چھوڑ گئے، کچھ کو معاویہ کی تلوار اورسُولیاں کھا گئیں۔  جو بچے اُنھیں بیماریوں اور عُذر نے بے جان کر دیا۔  مسہر بن خلید بھی اِنھیں میں سے ایک تھے جنھیں کوفہ چھوڑنے کے ساتھ ٹخنوں کے اپاہج پن نے چلنے پھرنے سے معذور کر دیا تھا۔  مگر اُس کا بیٹا قیس جوان بھی تھی، دل کا دلاور بھی تھا اور دست و بازو کا متحرک بھی تھا۔  مگر یہ دونوں باپ بیٹا حیرہ میں اپنے کھیتوں کی کشت میں مصروف ایسے وقت کے منتظر تھے جب گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز اور تلوار کی جھنکار اُنھیں دوبارہ زندہ کر دے۔

مسہر بن جندب حمیدہ کی بات سُن کر چپ ہو رہا اور پریشانی کے عالم میں اُٹھا اور لکڑی کے سہارے گھسٹتا ہوا گھر دروازے سے باہر نکل کر پُل کے عین پاس قہوے کی دکان پر بیٹھ گیا۔ یہ پُل کھجور کے تنوں سے بنائی گئی تھی جس پر ببول کے درخت کے ٹیڑھے میڑھے لکڑ پڑے ہوئے تھے۔  پانی کا ایک نالہ اُس کے گھر کے سامنے ہی بہتا تھا جسے فرات کی نہر سے نکال کر حیرہ شہر کے بیچوں بیچ سے گزارا گیا تھا۔  نالے کو پار کرتے ہی قہوہ کی دکانیں تھیں اور اُس کے سامنے لوہار وں کی بھٹیاں تھیں جہاں ہر وقت ایک مجمع لگا رہتا تھا۔  یہ چوک اور حیرہ کے باقی تمام بازار وں کے دائیں بائیں دومنزلہ عمارتیں تھیں جنھیں یمنی طرز کی تعمیر میں بنایا ہوا تھا۔  اِن مکانوں کی دوسری منزل پر سامنے کی طرف سے جھروکے اور بالکنیاں تھیں۔

دوکانوں میں کوئی کھیتی باڑی کے لیے لوہے سے اوزار بنواتا ہوا نظر آتا اور کوئی تلوار اور زِرہ اور ڈھال۔  پُل سے ہر وقت پیدل، گھوڑے پر یا ناقہ سوارگزرتا تھا۔  کبھی کبھار پردہ نشین عورتوں کی عماریاں بھی گزر جاتیں۔ پُل کے پاس والی اِن دکانوں کی چھتیں کھجور کے پتوں کی پرتلیں بچھا کر تیار کی گئیں تھیں، جنھیں اکثر بارش اور آندھی اُڑا کر لے جاتی لیکن یہ دکاندار دوسرے ہی دن اُن پر دوبارہ چھتیں کھڑی کر دیتے۔  پُل کے ساتھ ہی سبزی، اچار اور پھلوں کی دکانیں تھیں کی۔  یہاں سے ذرا فاصلے پر سامنے کھلا اور طویل بازار تھا۔  جہاں اُس وقت کی ضروریات کی تمام بنیادی چیزیں مل جاتیں تھیں مگر اہلِ حیرہ کو آسائش اور تعیش کی اشیا کوفہ سے لانا پڑتیں۔  کیونکہ پچھلے چالیس سال کے عرصے میں حیرہ کے تمام اشراف کوفہ منتقل ہو گئے تھے۔  اِس کے سبب یہاں کی رونقیں ختم ہو گئی تھیں۔ اور فقط وہی لوگ بچے تھے جو اپنے آقاؤں کی زمینوں پر کام کرتے تھے یا چراگاہوں میں ریوڑ ہانکنے والے، اور اُن کے بعد عام الناس۔

مسہر بن جندب صیداوی جب تک قہوہ خانے کے باہر چوکی پر بیٹھا رہتا، کئی راہ گیر قریب بیٹھ جاتے اور اُس کی عیادت کرتے۔  حیرہ کی بربادی کا نوحہ پڑھتے جسے خالد بن ولید نے فتح کرتے ہوئے تباہ کر دیا تھا اور پہلو میں بہتی اِسی نہر کو مفتوحین کے خون سے رنگین کرنے نکلا تھا جو خدا نے پانی کے لیے بہائی تھی۔

سعد بن ابی وقاص نے کوفہ کو دلہن بنانے کے لیے حیرہ کا سارا زیور نوچ لیا اور کوفہ کو سجا دیا۔  اب تو حیرہ کوفہ کی بوڑھی لونڈی بن کر رہ گئی تھی۔  مسہر بن جندب صیداوی کے ساتھ بیٹھنے اُٹھنے والے اہلِ حیرہ شہر کے کُہنہ قصے بیان کرتے کرتے گھوم پھر کر اُمویوں کے مظالم کی بات بھی کر جاتے اور جندب کی عیادت میں انقلاب کی بہت سی باتیں بھی کر لیتے اوراُمویوں سے جان چھڑانے کی کی سبیل بنیں۔

سامنے ہی ایک چھوٹا سا چوک تھا جس کے عین کونے پر عرب کے مشہور شاعر نابغہ ذبیانی کا مکان تھا۔  شاعر تو کب کا مر چکا تھا مگر اُس کا چبوترہ وہیں تھا جس پر کھڑے ہو کر اپنے شعر کہتا تھا۔  دوسرے ہی چوک میں عمر بن کلثوم اور طُرفہ کے چبوترے تھے، اُن پر اُن کے قبیلوں کے پھریرے لگے تھے جن پر ابھی کبوتر بیٹھے ہوئے تھے۔  بازار کے دوسری طرف ذرا فاصلے پر حیرہ کی جامع مسجد تھی۔  یہ مسجد پکی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور اُس وقت کی تھی جب مسلمانوں نے حیرہ کو فتح کیا تھا بلکہ یہ ایک کلیسا تھا جسے مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔

پُل کے سامنے بڑے چوک میں مداری اور تھیٹر لگانے والے کھیل تماشا لگاتے۔  اِن کھیل تماشوں میں بعض اوقات حکومت پر سخت تنقید کی جاتی۔  کوئی مداری کھیل ہی کھیل میں کوفہ کا حاکم بن جاتا، وہ عجب مسخرانہ احکام جاری کرتا اور دوسرے اُس کی تضحیک کرتے۔

مسہر کے مکان کے دوسری جانب قلعے اور محلات واقع تھے جن میں قصر اَبیض بھی تھا۔  وہیں ابن بُکَیلہ کا قلعہ اور کلب عَیسُون کا قصر شامل تھے۔  اُن کے کنگرے تمام شام میں ہر جگہ نظر آتے تھے حتیٰ کہ قہوہ کی دکان پر بیٹھے لوگوں کو بھی نظر آتے۔  شہر کے چاروں جانب زیتون کے باغوں کی کثرت تھی۔  نالے کے دونوں کناروں پر بھی زیتون اور کھجور کے درخت سایہ کیے ہوئے تھے۔  جنھیں کبھی اِمراءُ القَیس اور نابغہ نے اپنے شعروں میں بیان کیا تھا۔  انھی درختوں کے نیچے نالے کے کناروں پر ابھی بھی کہیں کہیں کاتبوں نے اپنی بساطیں قائم کر رکھی تھیں۔  فنِ کتابت جو قبائل عرب میں نایاب فن تھا، یہیں سے تمام عرب میں پھیلا تھا۔

مسہر بن جندب صیداوی پُل پر ہی بٹھا تھا کہ اتنے میں ایک مداری نے آ کر پاس ہی اپنے کھیل کے لیے تھڑا جما لیا۔  اپسے دیکھ کر راہ گیر اور بچے پل کی پل میں جمع ہو گئے

مداری کے ساتھ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس کے گلے میں رسی تھی۔ وہ لڑکا بندر بنا ہوا تھا۔

اب بندر ناچ رہا ہے، مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے اور رسی کو کھینچ کر پوچھتا ہے۔

 

ناچ بوزنے دُگنا ناچ

کوفہ شہر میں ایک گدھا ہے

اور گدھے پر ایک سوار

پیٹ میں جس کے سُوسمار

نیزہ اُس کی دُم سے پار

اُس کے پیچھے شام کا کُتا

پیٹ میں اُس کے آگ کے چوہے

منہ میں پھیلی لہو کی دھار

جتنا کھائے اتنا بھوکا

آنکھ میں گدلا ہوا غبار

بوجھ کے مجھ کو جلد بتا

کون ہیں دونوں ناہنجار

 

بندرناچتے ناچتے ایک دم رُک جاتا ہے۔  دونوں ہاتھ جوڑ کر مداری کو مخاطب کرتا ہے۔

غور سُنو اک بار مداری

تُو ہے میرا رسی دار

مَیں ناچوں تُو روٹی کھائے

میرے دم سے تیری کار

کوفہ میں ہیں لاکھ قصاب

کا ہے میری گردن مار

دیکھ اُدھر تُو محل منارے

چوک چورا ہے بازار

حاکمِ کوفہ ایک گدھا ہے

سر میں اُس کے پیپ کی غار

اُس کے جبڑے لہو بھرے ہیں

خونی کُتا ہے عیار

اہلِ کوفہ اُس کا جوٹھا

کھائیں اور لیں ڈکار

حیرہ کے چوک میں مداری کے اِس کھیل کو دیکھنے کے لیے زیادہ تر بچے اور لڑکے لڑکیاں جمع تھے۔  اِن کے علاوہ کئی جوان اور بوڑھے مرد بھی تھے۔  اگرچہ اِس پورے علاقے میں اہلِ بیت کے دشمنوں کی حکومت تھی جن کے سامنے کوئی چُوں نہیں کر سکتا تھا مگر عوام الناس کے دِلوں میں اہلِ بیت ہی کی عزت تھی۔  کھیل تماشا کرنے والے اور گداگر لوگ اِس حقیقت سے خوب واقف تھے اور کسی حد تک وہ خود بھی شیعہ تھے۔  یہ لوگ طاقت نہیں رکھتے تھے، غریب اور بے بس ہونے کے ساتھ آوارہ مزاج اور قدرے ڈرپوک تھے۔  لہذا چلتے پھرتے کھیل تماشا کر کے اِنھیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے لوگ چند ٹکے دے دیتے تھے۔  اُنھوں نے اپنے کھیل تماشوں اور تھیٹر کی زبان علامتی کر لی تھی جس میں حاکمِ شام اور اُس کے گورنروں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔  خاص طور پر کوفہ کے ارد گرد کے علاقوں میں حاکمِ کوفہ پر اِسی طرح کی بہت لعن طعن کی جاتی تھی۔ یہاں بھی یہ مداری اُسی طرح کی زبان اور استعارہ سازی استعمال کر کے دونوں کو مطعون کر رہا تھا۔  چونکہ پورا علاقہ شیعہ تھا لہذا اِس تضحیک اور تمسخر پر لوگ بھی ہنستے اور مزا لیتے اور مداریوں اور تھیٹر والوں کو اپنی قدرت سے بڑھ کر بخشش دیتے۔

مسہر بن جندب صیداوی اِسی مجمع میں موجود تھا اور مداری کے کھیل سے محظوظ ہو رہا تھا۔  وہ مداری اور بندر کی گفتگو سے اتنا لطف اندوز ہوا کہ ہنستے ہنستے اُس کی پگڑی اور داڑھی ایک دوسرے میں الجھ گئیں۔  اُس نے اپنے کُرتے کے کمر بند سے ایک گٹھلی نکالی اور اُس میں سے دو درہم مداری کو دیے۔  اِسی طرح ہر ایک نے ہنستے ہوئے مداری کو پیسے دیے۔  اور اِدھر اُدھر بکھر گئے۔  مسہر بن جندب بھی اپنے گھٹنوں کے ساتھ گھسٹتے ہوئے گھر کی طرف بڑھا۔  اُس کا گھر چند قدم پر ہی تھا لیکن پاؤں کے ساتھ نہ چل سکنے کی وجہ سے اُسے یہ فاصلہ طے کرنے میں کافی وقت لگا۔  مسہر نے اُسی عالم میں پانی کا نالہ پار کیا جس کے کنارے کھجوروں اور زیتون کر درختوں سے بھرے ہوئے تھے اور اُن کے سائے پانی میں منعکس ہو رہے تھے۔  اِکا دُکا لوگ بھی پاس سے گزر رہے تھے، وہ مسہر کو خوب پہچانتے تھے اور گزرتے ہوئے سلام کر رہے تھے۔  پُل کو پار کرتے ہی دائیں ہاتھ مسہر کا گھر تھا۔  یہ جگہ عین اُن قصروں کے قریب تھی جو غسانیوں نے بنائے ہوئے تھے۔  اور اب وہ خالی پڑے کھنڈر ہو رہے تھے۔ مسہر دروازے کے سامنے پڑی چوکی پر بیٹھ گیا، بیٹھنے میں اُسے کافی کوشش کرنا پڑتی تھی۔  اُسی وقت اُس نے دیکھا کہ عین سامنے کے پاس نافع کھڑا ہے، وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا، یہ اچانک یہاں حیرہ میں کیسے آ گیا تھا۔  نافع کچھ دیر کے لیے کھڑا مسہر کو دیکھتا رہا۔  بڑے ہی رازدارانہ انداز میں بولا، یا ابی القیس مَیں وہی ہوں جسے تمھاری یادداشت نے کھو دیا تھا، ہاں مَیں ہی نافع بن ہلال ہوں۔

سلامتی ہو آپ پر ابنِ ہلال، مگر تم یہاں حیرہ میں کیسے آ نکلے، افسوس مَیں بہت جلدی سے اٹھنے سے قاصر ہوں، کہ تمھیں تیزی سے گلے لگاتا (اس کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن نہیں اٹھ سکا۔ )

نہیں نہیں، مت اٹھو اپنے گھٹنوں کو اُس کام کی زحمت مت دو جنھیں اب وہ کرنے سے قاصر ہیں۔  اور جھک کر صیداوی کا ما تھا چومتا ہے۔

درود ہو آپ پر یا ابنِ جندب تمھیں کچھ معلوم ہوا ہے ؟

کیا ہوا؟ ابی نافع، کیا کوفہ کی غیرت نے کوئی بچہ پیدا کر دیا ہے۔  بخدا جب سے اپنے پاؤں سے محروم ہو کر مَیں نے کوفہ چھوڑا ہے، کبھی وہاں کی دیواروں سے وقار اور غیرت کی آواز نہیں آئی۔

یا ابی قیس بن جندب، کوفہ کو طعنہ زنی کو فی الحال ایک طرف رکھو اور میری بات غور سے سُنو، نافع نے اپنا منہ مسہر بن جندب کے کان کے قریب کر کے کہا، ابھی مَیں کوفہ سے آ رہا ہوں، اہلِ شام کے سروں میں راکھ پڑنے کی خبر آئی ہے، حاکم شام زرقا کا بیٹا ہلاک ہو گیا ہے۔

اِس خبر پر ابنِ جندب ایک دم چونک گیا، تم جو کہہ رہے ہو، کیا اُس پرخود یقین کر چکے ہو ؟

جی ہاں بالکل اِسی طرح جیسے تم میرے سامنے بیٹھے ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم قیس کے باپ مسہر ابنِ جندب صیداوی ہو۔  کوفہ کا ہر آدمی اِس خبر سے سیراب ہو گیا ہے۔ کاش تم اِس وقت کوفہ میں ہوتے اور اپنے پاؤں کے شل ہو جانے کی اُس جزا کو پاتے جو کوفہ کا ہر مصیبت زدہ شخص اِس خبر سے پا رہا ہے۔

مسہر کو جب یقین ہو گیا کہ نافع ٹھیک کہہ رہا ہے تو اُس نے، مسرت پیدا کر دینے والی حیرت کا اظہار کیا، ’’ تم نے یہ کیسی خبر دی ہے، اِس کے عوض کاش مَیں تمھیں کوئی تحفہ دے سکتا جسے زمانے کی سختی تباہ نہ کر سکتی۔  پھر وہیں بیٹھے آواز دی، یا اُمِ حمیدہ جلد باہر آؤ اور اِس خبر کو سُنو جس نے میرے کانوں کی ویرانی کو شادمانی کی کھیتی سے بھر دیا ہے۔

مسہر کی آواز کو سُنتے ہی اُمِ حمیدہ دوڑ کر باہر آئی اور نہایت غور سے ابی نافع کی باتیں سُننے لگی جبکہ مسہر بن جندب کبھی اپنی بہو کو دیکھتا تھا اور کبھی ابی نافع کی طرف جب وہ نہایت تفصیل سے حاکمِ شام کی ہلاکت کے واقعات اور اہلِ کوفہ کے جذبات کو دہرا رہا تھا۔

پھر کچھ دیر بعد اُمِ حمیدہ نے ابی نافع کے ساتھ مل مسہر کو سہارا دیا اور گھر میں لے گئی۔  اُس کے بعد دونوں اُسی دالان میں جا بیٹھے جہاں مسہر صیداوی روزانہ بیٹھتا تھا۔  مسہر نے حمیدہ سے کہا،، اُمِ حمیدہ نافع کے لیے شربت اور کھانا تیار کرو۔

اُمِ حمیدہ مسہر کا حکم پاتے ہی تواضع کا سامان کرنے کے لیے ڈیوڑھی میں چلی گئی۔

اِ سی اثنا میں دونوں گفتگو کرنے لگے،

ابنِ ہلال، اچانک تُم حیرہ میں کیسے آ نکلے، اور مجھے کیسے پہچانا ؟ بخدا مَیں نے مولا علی کی شہادت کے بعد تمھیں بہت یاد کیا مگر تم ایسے غائب ہو گئے جیسے کہیں موجود ہی نہیں۔

ابنِ جندب مَیں موصل چلا گیا تھا، تمھیں کیسے بتاؤں جنابِ امیر علیہ السلام کے بعد کوفہ میرے لیے وہ ویران صحرا تھا جہاں اگر چند دن اور گزار لیتا مر چکا ہوتا۔  لیکن مجھے تمھارے حیرہ چلے آنے کی خبر موصول ہو گئی تھی۔  اور یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ چھ سال پہلے حاکمِ کوفہ کو بُرا بھلا کہنے پر اُس نے تمھیں اتنا مارا دونوں ٹخنے ٹوٹ گئے پھر تمھیں کوفہ بدر کیا گیا۔  تب سے اپنے بیٹے اور بہو اُمِ حمیدہ کے ساتھ حیرہ میں سکونت کیے بیٹھے ہو۔  مجھے معلوم تھا یہاں تمھاری کھیتیاں ہیں۔  حیرت ہے حاکمِ کوفہ نے تمھاری کوفہ کی زمینیں ضبط کر لی مگر حیرہ کی زمینوں کی بابت زیادہ سختی نہیں کی۔

٭٭٭

One thought on “کوفہ کے مسافر ۔۔۔ علی اکبر ناطق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے