واہمہ وجود کا ( سالم سلیم) ۔۔۔ عبید حارث

عجیب بات ہے رمضان کے اس مصروف مہینے میں آج اچانک مجھے تھوڑی فرصت مل گئی، اور میز پر رکھی ایک کتاب جو کئی ہفتوں سے شاید اسی فرصت کی متقاضی تھی۔ اور میں بھی اپنی مشغولی میں سے اپنے لئے فرصت کے یہی وقت تلاش کر ریا تھا کہ اسے اطمینان سے بیٹھ کر پڑھوں ۔ ہاں ’’ واہمہ وجود کا ‘‘ سالم سلیم کا شعری مجموعہ آج اطمینان اور اہتمام سے پڑھنے کو ملا۔ بہت دنوں کے بعد شاعری کا نیا ذائقہ چکھا۔ اور ذائقہ اچھا ہو تو بھوک اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میں اس کے مزے میں اتنا کھو گیا کے دو تین گھنٹوں کی ایک ہی نشست میں پیٹ بھر کر شاعری نوش فرمائی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی خیال نہ رہا کہ میرا روزہ ہے ۔ رمضان میں ادبی کتابیں پڑھنا یا کچھ لکھنا موقوف کر دیتا ہوں کہ عبادت کی کسرت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر اس پر لطف اور سنجیدہ شاعر کی شاعری نے میری ادبی بھوک کو اتنا بڑھا دیا کہ کتاب پوری پڑھے بغیر رہا نہ گیا۔

سالم سلیم مجھ سے ذرا سے بعد کے ہیں ۔ مجھے انہیں کبھی ریختہ فاؤنڈیشن کے ابتداء سے پہلے کسی ادبی رسالے یا اخبار میں پڑھنے کا موقع نہیں پڑھا۔ میرا ان سے تعارف ریختہ فاونڈیشن کے بالکل ابتدائی زمانے میں ہی ہوا۔ ہندوستان کے نئے ادبی منظر نامے اور میرے ہم عصروں میں جو نئے نام اس ایک دہائی میں ابھر کر آئے ہیں ان میں ایک نام بے شک سالم سلیم کا بھی ہے ۔ یہ ریختہ فاونڈیشن ہی ہے جس نے نئے ناموں کو اپنی خوبیوں کے وصف اور وابستگی کے سبب آگے بڑھنے کا موقع دیا اور پوری ادبی دنیا سے متعارف کر وایا۔ سالم سلیم کی شاعری ان کی عمر سے کچھ بڑی ہے اور یہ ایک اچھے شاعر کی نشانی ہے ۔ گو ہمارا زمانہ اپنے آپ کو مابعد اور جانے کیا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتا پھرتا ہے پر میں سمجھتا ہوں کہ جدیدیت کے بعد کوئی ایسا رجحان نہیں آیا جو جدیدیت سے اپنے آپ کو بالکل ہی مختلف گردانے ۔ جیسا کہ روایت سے ترقی پسند اور ترقی پسند سے جدیدیت نے اپنے آپ کو بالکل مختلف کر دکھایا تھا۔ سالم سلیم کی شاعری میں عصر حاضر کا عکس صاف نظر آتا ہے پر اس کی ساخت بالکل جدی دیت جیسی ہے ۔ یعنی سالم سلیم کے یہاں اپنے زمانے کے مسائل تو ہیں پر اسلوب وہی جدیدیت والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے میں اچھا سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے ان کی شاعری مجھے متاثر بھی کرتی ہے ۔

سالم سلیم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر مجھے یہ یقین ہو گیا کہ سالم سلیم اپنی خوبیوں کے سبب اردو شعر و ادب کی کہکشاں میں اپنے وجود کو آگے بھی بنائے رکھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کتاب میں ادھر ادھر سے بیساختہ چنے گئے چند اشعار  اچھی شاعری پسند کرنے والے دوستوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ امید ہے آپ لوگ بھی ان اشعار سے محظوظ ہوں گے ۔ سالم سلیم کو بے شمار مبارک باد اور دعائیں ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

 

بہت جینے کی خواہش ہو رہی تھی

سو مرنے کا ارادہ کر لیا ہے

*

مری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے

جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے

*

تھا مجھے زعم کہ مشکل سے بندھی ہے مری ذات

میں تو کھلتا گیا اس پر بڑی آسانی سے

*

خواہش کار مسیحائی بہت ہے لیکن

زخم دل ہم تجھے اچھا نہیں ہونے دیں گے

*

ہم کو درپیش ہے دنیا کا سفر آخر کار

اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجانے لگے ہیں

*

یہ تم نہیں ہو کوئی دھند ہے سرابوں کی

یہ میں نہیں ہوں کوئی واہمہ وجود کا ہے

*

خامشی توڑ رہی تھی ہمیں اندر سے بہت

وہ تو کہئے کہ سر شام پکارے گئے ہم

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے