غلام مصطفیٰ دائمؔ

تسطیرِ نعت کے لیے خوشبو شیم کی شاخ

کنجِ لحد میں ہو کوئی باغِ حرم کی شاخ..!

 

فصلِ رَشاد میں اسے تازہ ہوا ملی…….!!

کمھلا گئی تھی فرطِ تپش سے بھرم کی شاخ

 

وصفِ محمدی میں پئے مستقل شعار..!

دائم ہو غوطہ باز یہ زاغِ قلم کی شاخ

 

اُن کے وجودِ فاش کی سایہ گری ہوئی

کچھ اعتبار پا گئی دشتِ عدم کی شاخ

 

جاری ہوئی جو آبِ طہارت کی نہرِ نور

اُبلی نہ پہلے یوں کبھی دستِ نعَم کی شاخ

 

شاہِ ولیؒ کا موسمِ نعت ”اطیب النغم“

تازی ثمر سے سج گئی دختِ عجم کی شاخ

 

تنویعِ جذبِ حمد بھی دائمؔ ہے راہِ نعت

یعنی دراز مند ہے خیرِ امم کی شاخ

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے