گُریز ۔۔۔ فرزانہ خجندی (تاجکستان)/ ناہیدؔ وِرک

لعنت اس بیمار معاشرے پر

جہاں سائے اپنی قامت پر ناز کرتے ہیں۔

سورج کی عدم موجودگی کا بھید

کسی پر نہیں کُھلتا ہے۔

کوئی نہیں جانتا ہے کہ یہ چمک دمک

محض سَحَر ہونے کا ڈھونگ ہے۔

گرگٹ کا روپ دھارے ہوئے

یہ دوغلے لوگ ہیں

جن کی باتوں میں

معنی کی عدم موجودگی

کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

یہ غیر اہم بُھتنے

خوشنما قیمتی پوشاکیں اور

شاندار طلائی زیورات

زیب تن کیے ہوئے،

انگریزی خوشبوؤں میں بسے

اپنے منبر و محراب پر براجمان

مقدّس لفظوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے

اپنے جھوٹ کا یوں پرچار کرتے ہیں

جیسے یہی حقّ و صداقت ہو۔

مجھے ان سے خوف آتا ہے،

ان بونوں کی خود نمائی سے خوف آتا ہے۔

میں خود سے بھی خائف ہوں

کہاں ان پست ذہن لوگوں کی کھوکھلی باتیں

اور کہاں لفظ و معنی کی اہمیت اور طاقت۔

میں یہ سمجھے سے قاصر ہوں

کہ ان عدم وجود لوگوں سے ہم کلام ہو کر

نفلی نمازوں اور زیریں حاشیے کی طرح

اپنے حُسنِ گفتگو سے

میں ان کی وقعت میں اضافہ ہی کیوں کرتی ہوں۔

ایسے بے روح لوگوں سے گریز کرتے ہوئے

ان سے دور ہو جانا چاہئے،

بہترین کو مزید ممتاز کرتے ہوئے

سورج کی ایک نئی مثال بننا چاہئے.

میرے دوست

میں تمہیں کیا کہوں،

تم نے بھی

دھندلے چراغ کو

دن کی اُجلی روشنی پر ترجیح دی،

حتیٰ کہ صاحبِ ادراک ہونے کے باوجود

سورج کی عدم موجودگی

تم بھی دیکھنے سے قاصر ہو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے