ایک دن میں ان کی قبر کے پہلو میں چمن پر چوکڑی مار کر بیٹھا زیرِلب تلاوت کر رہا تھا۔ گرمی تھی اور کھلی دھوپ تھی۔ میری آنکھوں پر دھوپ کی عینک تھی لیکن اس کے باوجود میری آنکھیں بند تھیں تاکہ میں یکسوئی سے تلاوت کر سکوں۔ اچانک مجھے لگا جیسے کسی نے مجھے مخاطب کیا ہو۔ آنکھیں کھولیں تو دو خواتین میرے قریب کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔ لباس اور حلیے سے دونوں سفید فام لگ رہی تھیں لیکن قبرستان کا یہ حصہ مسلمانوں کے لئے مختص تھا لہٰذا ان کا اس طرف ہونا عجیب لگا۔ ایک خاصی ادھیڑ عمرکی تھی اور دوسری خاتون بھی پختہ سال ہی تھی۔ دونوں ماں بیٹی لگ رہی تھیں۔ میری توجہ پا کر پختہ سال خاتون نے مجھ سے فارسی میں کچھ پوچھا جو میں نہ سمجھ سکا۔ اب کی مرتبہ وہ انگریزی میں گویا ہوئی۔
اوہ سوری! میں سمجھی تم ایرانی ہو۔ وہ خفت بھری آواز میں بولی
کوئی بات نہیں، ویسے میں پاکستان سے ہوں۔ میں نے مسکرا کر اس کی خفت مٹانے کی کوشش کی۔
یہ تمہاری ماں کی قبر ہے۔۔ ۔؟ اس کے لہجے میں یقین بھرا تجسّس تھا۔
جی نہیں۔۔ ۔ یہ میرے دوست کی قبر ہے۔
اچھا۔۔ ۔۔ ۔۔! اس کا تجسّس بڑھ گیا۔ کیا عمر تھی تمھارے دوست کی؟
میرے دوست کی عمر ایک سو برس تھی۔
اب اس کے چہرے پرحیرت اور بے یقینی کے ملے جلے تاثرات تھے۔
یقیناً بہت اچھا دوست ہو گا۔۔ ۔ اسے یقین کرتے بنی۔
وہ میرے بھائی کی قبر ہے۔۔ ۔۔ وہ جہاں زرد پھول رکھے ہیں۔ اس نے ذرا فاصلے پر اپنے بھائی کی قبر کی نشاندہی کی۔
میرے بھائی کی عمر باسٹھ برس تھی۔ وہ بیمار تھا۔
میں نے سر ہلانے پر اکتفا کیا اور دونوں خواتین بائے کر کے چلی گئیں۔
میرے سو سالہ دوست کی وفات کو ابھی سال بھر ہی ہوا تھا۔
ہاشم خان سے میری ملاقات کہاں اور کس ماحول میں ہوئی تھی یہ تو یاد نہیں البتہ اس قدر ضرور یاد ہے کہ پہلی ملاقات پر ہی انھوں نے مجھے ڈینور اتھلیٹک کلب (Denver Athletic Club) آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ شاید 1982 کا برس تھا اور یہی سے میری کلب میں آمد و رفت کا آغاز ہوا جو سالہا سال تک جاری رہا اور مجھے بیسویں صدی کی اس عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ میں نے سالہا سال تک اور کئی کئی گھنٹے بالکونی میں بیٹھ کر انھیں کھیلتے اور کوچنگ (Coaching) کرتے دیکھا۔
ان کے سٹوڈنٹس میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ شامل تھے۔ کچھ لوگ سکواش سیکھنے کی غرض سے کھیلتے اور کچھ کے مدّ نظر محض کسرت کرنا ہوتی۔ نوجوان سٹوڈنٹس جو زیادہ تر سیکھنے کے لیئے کھیلتے تھے ان کی کوچنگ کو بہت انجوائے کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر وہ دو دو سٹوڈنٹس کی بیک وقت کوچنگ کرتے تھے۔ نوجوان سٹوڈنٹس بھی ان کے ساتھ خوب اٹھکھیلیاں کرتے اور نہ صرف یہ کہ انھیں چیلنج کرتے بلکہ ان کے ساتھ شرطیں بھی لگاتے۔ ان کے آفس کا چھوٹا سا فرج ہر قسم کے جوسز (juices) سے بھرا رہتا تھا اور جن سے میں اکثر و بیشتر مستفید ہوتا رہتا تھا۔
ان کا کوچنگ کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔ سکواش سیکھنے کے خواہش مند حضرات کے ساتھ وہ ایک اچھے استاد کی طرح کوچنگ کرتے اور ہر قسم کے داؤ پیچ کا استعمال کرتے لیکن جو صرف ورک آؤٹ کے لیئے آتے تو ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتے اور خود تو سارا وقت سکواش کورٹ کے درمیان میں کھڑے رہتے جبکہ ان کے سٹوڈنٹس پورے کورٹ میں تگنی کا ناچ ناچتے۔ یوں لگتا جیسے وہ سکواش کورٹ میں اچھلتی بدکتی گیند کے ساتھ باقاعدہ گفتگو میں ہیں کہ گیند اچھل کر ہمیشہ انہی کے پاس آتی اور انھیں کم ہی اپنی جگہ سے ہلنا پڑتا تھا۔
مجھے ہر سال منعقد ہونے والی ہاشم خان ایگزیبیشن (Exhibition) دیکھنے کا بھی متعدد مرتبہ اتفاق ہوا اور 80 کی دہائی کے کئی نامور کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے مقابل دیکھا جن میں ان کا بڑا بیٹا شریف خان بھی شامل تھا۔ ہاشم خان کو اللہ نے بارہ اولادوں سے نوازا، سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ یوں تو ان کے سارے بیٹے سکواش کھیلتے تھے لیکن ان میں سے صرف پانچ نے اس کھیل کو بطور پروفیشن اپنایا۔ شریف خان جو ہاشم خان کے بڑے فرزند ہیں صحیح معنوں میں باپ کے جانشین ثابت ہوئے اور بارہ سال تک نارتھ امیریکن (North American) چیمپین بننے کا ریکارڈ بنایا جو آج سال 2017 میں بھی قائم ہے۔ دوسرے بھائیوں میں عزیز خان، گل مست، لیاقت خان اور سلیم خان 70 اور 80 کے عشروں کے نمایاں کھلاڑی رہے۔ شوکت خان اور محمد خان نے سکواش کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔
ہاشم خان وضع قطع سے سو فیصد گورے لگتے تھے۔ سرخ و سفید اور چمکتی ہوئی شفاف رنگت، دبتا ہوا قد، مناسب بدن لیکن بڑھی ہوئی نمایاں توند، بالوں سے عاری سر، کلین شیوڈ، دائیں ٹانگ میں آرتھرائیٹس (arthritis) کی وجہ سے چال میں ہلکا سا خم، سکواش کا کھلاڑی ہونا تو دور کی بات ہے وہ کسی صورت کھلاڑی لگتے ہی نہیں تھے۔ ڈینور اتھلیٹک کلب میں انھیں چلتا پھرتا دیکھ کر یوں لگتا جیسے کوئی ریٹائرڈ سی ای او (CEO) وقت گزارنے کے لیئے کلب آتا ہو۔
پشتون ہونے کے ناطے جس طرح ان کی اردو کا، کے ، کی، کی قید سے آزاد تھی اسی طرح سے ان کی انگریزی بھی گرامرکی پابندیوں سے مبرّا تھی۔ سکواش کی دنیا میں ان کا جملہ "keep eye on ball” ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہی جملہ ان کی زندگی پر بننے والی ڈاکو منٹری (Documentary) کا ٹائٹل بھی بنا۔ 2009 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ملنے والے تیسرے صدارتی تمغے کی تقریب کا انعقاد ڈینور اتھلیٹک کلب میں ہوا۔ تقریب کے اختتام پر ہاشم خان نے مائیک پر آ کر جو کہا وہ میں یہاں من و عن نقل کر دیتا ہوں۔
“In 1951…there was…in London…In…British open…there was …bigger party for the overseas squash players and there….they ask me to say a few things…..make a speech. And I told him, I can’t speak English. He says it’s alright, you can say anything you want. I said alright. Mr. Body, Mrs. Body, everybody…..Thank You”
اس کے بعد بے ساختہ بلند ہونے والے قہقہے انکے سٹیج سے اترنے تک جاری رہے۔ انھیں چوتھے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن اسے وصول کرنے کا موقع انھیں نہ ملا.
انگریزی زبان پر عبور نہ ہونے کے سبب وہ جو جیسا سنتے اسے اسی طرح سے ادا بھی کرتے۔ 1954 میں امریکن سکواش اوپن کا آغاز کرنے والے اپنے ایک بہت ہی دیرینہ دوست Ned کو ساری زندگیdead کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔
ان کا اندازِ گفتگو نپا تلا اور لہجہ دھیما ہوتا۔ ہنسنے مسکرانے میں کبھی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ خوش خوراک اور خوش لباس تھے۔ انھیں میں نے کبھی جینز (Jeans) میں نہیں دیکھا۔ سکواش کے موضوع پر بولتے نہ تھکتے لیکن ذاتی زندگی پر کم ہی لب کشائی کرتے۔ کھانے پینے کے انتہائی شوقین تھے۔ خود بھی دعوتیں کرتے اور سب کی دعوتوں میں بھی خوشی سے جاتے۔ میٹھے کے شوقین تھے لیکن آخری برسوں میں میٹھا کم کر دیا تو اپنا بچا ضائع کرنے کی بجائے میں ساتھ ہوتا تومیرے حوالے کر دیتے کہ باقی کا تم ختم کرو۔ انھیں تصاویر بنوانا اچھا لگتا تھا۔ ادھر آپ نے کیمرہ سمبھالا اور ادھر انھوں نے مسکرانا شروع کر دیا۔
ان کی ساری زندگی گوروں کے ساتھ گزری اور شراب و شباب کی محفلیں ان کے شب و روز کا حصہ رہیں لیکن نہ صرف یہ کہ وہ خود ان لعنتوں سے پاک رہے بلکہ جن پر بس چل سکتا انہیں بھی دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ جب میں پہلی دفعہ کلب گیا تو کلب ہی کے ریسٹورانٹ میں ان کے ساتھ لنچ بھی کیا تھا۔ مجھے یہ کل کے دن کی طرح یاد ہے کہ ٹیبل پر ہم تین لوگ تھے۔
’’پینے کے لیئے کیا پسند کریں گے سر؟‘‘ ویٹر نے مجھ سے پوچھا
کوک۔۔ ۔۔ میری لب کشائی سے پہلے ہاشم خان جواب دے چکے تھے۔ ٹیبل پر موجود تیسرا مہمان اپنے لیئے شراب کا آرڈر دے چکا تھا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت اچھا لگا تھا اور میرے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا تھا۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند وہ ایک اچھے مسلمان اور ایک بہت بڑے انسان تھے۔
ہاشم خان کی اصل عمر ہمیشہ متنازعہ رہی کہ ان کی تاریخ پیدائش کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ ایک دو نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ وہ اپنی عمر تین چار برس کم بتاتے ہیں لیکن وہ اس بات پر مصر رہے کہ 1951 میں اپنی پہلی چیمپین شپ کے وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ ہاشم خان کے مطابق 1951 میں لندن اوپن میں شامل ہونے کے لیئے انھوں نے اپنی عمر دو سال کم لکھوائی تھی کہ سکواش فیڈریشن کے قوانین کے مطابق گیمز میں حصہ لینے کے لیئے کھلاڑی کی انتہائی عمر 35 برس تھی۔ ان کی فیملی اور قریبی حلقے کو ان کے اس دعوے کو مان لینا ہی مناسب لگا اور ہر سال ان کی سالگرہ انہی خطوط پر منائی۔ ان کی سو سالہ سالگرہ یکم جولائی 2014 کو ہسپتال میں منائی گئی۔ یہ ان کی آخری سالگرہ تھی۔
ہاشم خان پر بڑھاپا صرف جسمانی طور پر آیا۔ دماغی اور ذہنی طور پر وہ تادم مرگ تر و تازہ اور جوان رہے جس کا اظہار ان کے رویے اور اندازِ گفتگو سے عیاں ہوتا تھا۔ وہ مجھے میرے نام سے اور خان کے اضافے کے ساتھ داؤد خان کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے مگر اکثر و بیشتر مجھے بھائی کہہ کر بھی تکلّم کرتے تھے اور مزے کی بات یہ ہے ان کا بڑا بیٹا شریف خان مجھ سے دس برس بڑا ہے۔ ان کے اس ہر دم جواں رویئے کے ضمن میں ایک واقعہ بھی سن لیجئے۔
یہ اکتوبر 2007 کا ذکر ہے۔ نماز جمعہ کے بعد ہم نے حسب پروگرام ایک ریستورانٹ میں کھانا کھایا اور پھر وہاں سے ان کے گھر چلے گئے۔ ان دنوں میرا معمول تھا کہ میں مسجد جاتے ہوئے انھیں گھر سے لے لیتا اور پھر نماز کے بعد انھیں گھر پہنچا دیا کرتا تھا لیکن اس دن انھوں نے مجھے رکنے کا کہہ رکھا تھا۔ کہہ رہے تھے کوئی کام تھا۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے فوٹو شوٹ کا ارادہ کر رکھا تھا۔ گھر پہنچتے ہی انھوں نے میرے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا۔ کسی صاحب نے ان سے متعلق ایک مضمون لکھا تھا جو اشاعت سے پہلے ہاشم خان کو اصلاح کے لیئے بھیج رکھا تھا۔ کہنے لگے یہ پڑھ لو اور کوئی غلطی ہو تو ٹھیک کر دو۔ یہاں ضمناً اس بات کا ذکر مناسب رہے گا کہ ہاشم خان کی تعلیم چار کلاسوں تک محدود رہی۔ گیارہ برس کی عمر میں ان کے والد عبد اللہ خان ایک ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تو انھوں نے سکول کو خیرباد کہہ کر مستقل بنیادوں پر بال بوائے کی نوکری کر لی تھی۔ بہرحال حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے مضمون میں جو اغلاط تھیں وہ درست کر کے ان کے حوالے کر دیا اور پھر کیمرہ وغیرہ سیٹ کیا اور تصاویر بنانا شروع کر دیں۔ کچھ گھر کے اندر بنائیں اور کچھ گھر سے باہر برآمدے میں۔ اسی طرح چند تصاویر کیمرہ ہاتھ میں اٹھا کر اور چند کیمرہ ٹرائی پاڈ (Tripod) پر جما کر بنائیں۔ کئی تصاویر میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر بنائیں۔ اس دوران میں نے ریموٹ کنٹرول کا استعمال بھی کیا۔ ہاشم خان یہ سب کچھ بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میں نے انھیں ریموٹ کنٹرول کے مختلف فنکشنز (Functions) دکھائے۔ ٹرائی پاڈ پر رکھے کیمرے کی سکرین کو سامنے لا کر انہیں زوم (Zoom) وغیرہ کے فنکشز دکھائے۔ وہ سب کچھ انہماک سے دیکھتے رہے۔ پھر کہنے لگے ’’تمہیں تو فوٹو گرافی کے بڑے طریقے معلوم ہیں اور اس میں بڑی سوجھ بوجھ رکھتے ہو۔ کیا خیال ہے دونوں پارٹنر شپ میں ایک فوٹو سٹوڈیو نہ کھول لیں’’
ظاہر ہے یہ بات انھوں نے مذاق میں کہی تھی لیکن یہ سال 2007 کا تھا اور ہاشم خان کی عمر 93 برس تھی۔ عمر کے اس موڑ پر ایسا جواں رویہ رکھنا شاید نا ممکن نہ ہو لیکن نایاب ضرور تھا۔
ہاشم خان کی زندگی کا بیشتر حصّہ امریکہ میں گزرا لیکن ان کا طرز زندگی خالص ایک مسلمان کا اور ایک پختون کا رہا۔ وہ ساری عمر اپنی قدروں اور روایتوں سے جڑے رہے۔ پختونوں کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔ ہاشم خان اس کا جیتا جاگتا شاہکار تھے اور میزبانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ عیدین کے موقعوں پر ان کے ہاں مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ اس دن کھانے پینے کے لوازمات کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ ڈرائنگ روم سے ملحقہ ڈائننگ روم میں طرح طرح کے کھانوں، پکوانوں اور مٹھائیوں سے ڈائننگ ٹیبل سارا دن سجی رہتی اور حسب ضرورت ان لوازمات میں دن کے اوقات کی مناسبت سے ناشتہ لنچ یا ڈنر کیلیئے اضافہ ہوتا رہتا۔ شاہینہ اور صوبی دونوں بہنیں سارا دن کچن میں مصروف رہتیں۔ یوں تو ہاشم خان سارا سال مہمانوں کی بھرپور تواضع کرتے لیکن عیدین پر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا۔ اور وہ اس بات پر بھی اصرار کرتے تھے کہ ہر کوئی دو دو تین تین مرتبہ ضرور ٹیبل پر جائے۔ ہاشم خان اس سلسلے میں کسی قسم کا عذر سننے پہ تیار نہیں ہوتے۔ جہاں انھیں احساس ہوا کہ مہمان نے کھانے پینے میں ڈنڈی ماری اس کے لیئے خود ہی پلیٹ بھر کر لے آتے اور پھر وہ سب کھائے بنا کوئی صورت نہیں ہوتی۔ ان کی سب پر نظر ہوتی تھی۔ ہاشم خان کی اس عادت کی آڑ میں ہمارے ہاتھوں ہر سال کسی نہ کسی کی درگت ضرور بنتی تھی اوربطورخاص جو پہلی بار آیا ہوتا اور وہ یوں کہ ہاشم خان کے استفسار پر ہم کسی ایک کی نشاندہی کر دیتے کہ اس نے کم کھایا ہے یا فلاں صرف ایک مرتبہ ٹیبل کی طرف گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بس اس قدر کہنے کی ضرورت پڑتی اور بیچارے مہمان کی شامت آ جاتی۔ ایسی صورتِحال میں مہمان کی بہتری اسی میں ہوتی کہ وہ خود سے جا کر کچھ لے لے۔ اگر مہمان ذرا سی بھی مروّت کا مظاہرہ کرتا تو ہاشم خان خود پلیٹ بنا کر پیش کر دیتے۔ اس کے علاوہ بھی وہ گاہے گاہے ٹیبل پر سے کوئی ایک ڈش مٹھائیوں کی یا فروٹ کی اٹھا کر لے آتے اور یکے بعد دیگرے سب مہمانوں کے پاس جا کر پیش کرتے۔ ہم دوستوں کا گروپ ہر سال عیدین کے موقع پر ایک ہی وقت میں ان کے ہاں پہنچتا اور ہم گھنٹہ بھر ان کے پاس گذارتے۔ یہاں یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ہمارے لیئے عید کے دن کا یہ ایک یادگار گھنٹہ ہوتا تھا۔
ہاشم خان اپنے ہر ملاقاتی کو گاڑی تک جا کر رخصت کرتے تھے۔ میری ان سے ملاقات تیس برس سے زیادہ عرصے پر محیط رہی اور میں ان کے گھر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مرتبہ ضرور گیا ہوں گا لیکن کیا مجال جو مجھے گھر کے اندر سے خدا حافظ کہیں۔ میرے بار بار کے اور بیحد اصرار پر اس قدر مہربان ہوئے کہ دروازے تک ہی آتے تھے۔
ان کی اس مہمان نوازی ہی کے ضمن میں ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ ایک دن میں ان کے گھر میں شام کی چائے کے لئے رکا ہوا تھا لیکن گپ شپ میں وقت گزرنے کا احساس نہ رہا اور رات ہو گئی۔ میں نے اجازت چاہی تو انھوں نے مجھے کھانے تک روکنا چاہا۔ لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ گھر میں سب کھانے کے لئے میرے منتظر تھے۔ یہ سن کر انھوں نے اصرار تو نہیں کیا لیکن مجھے ہاتھ سے پکڑ کر کچن میں لے گئے۔ مسز ہاشم کچن ہی میں تھیں۔ انھوں نے فریج کھولا اور ایک بڑا سا پتیلا نکال کر باہر کاؤنٹر پر رکا اور پھر الماری میں سے ایک برتن نکالا اور اسے شولے سے بھر کر میرے حوالے کر دیا۔ شولہ پشتونوں کی پسندیدہ چاولوں کی ڈش ہے۔
ان کی یہ مہمان نوازی صرف ان کے گھر اور کلب تک محدود نہیں تھی۔ جہاں اور جب موقع ملتاحتی الوسع کوشش بلکہ اصرار کرتے کہ میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہو۔
جب تک ان کی صحت بہتر رہی اور وہ نماز جمعہ کے لیئے مسجد آنے جانے کے قابل رہے تو بعد از نماز اکثر و بیشتر ریستورانٹ میں جا کر لنچ کرنا ہمارے معمولات میں رہا۔ بل کی ادائیگی ایک مرتبہ وہ کرتے اور ایک مرتبہ میں لیکن کبھی کبھی وہ اپنی بزرگی کا رعب جماتے ہوئے ایسا انداز اختیار کرتے کہ مجھے احتراماً پیچھے ہٹنا پڑتا۔ ایک مرتبہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ بل ادا کرنے پر اصرار کریں گے میں نے ویٹرس کو چپکے سے کہہ دیا کہ بل ٹیبل پر نہیں لانا بلکہ مجھے زبانی ٹوٹل بتا دینا۔ ویٹرس نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا تھا لیکن ہدایت کے مطابق مجھے زبانی بتا دیا میں نے اسے چپکے سے پیسے دے دیئے۔ ہاشم خان چونکہ اونچا سنتے تھے انہیں پتہ نہ چلا لیکن جب ویٹرس برتن سمیٹنے آئی تو ہاشم خان نے اسے بل لانے کو کہا۔ ویٹرس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بل تو ادا ہو چکا ہے۔
واٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟ ان کے منہ سے بیساختہ نکلا۔ آواز قدرے اونچی تھی ویٹرس ڈر کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی اور میں اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکا۔ یہ سال 2006 کے موسم سرما کی بات ہے۔
اسی سال کے اواخر میں ان کا سکواش کورٹ کا ایکسیڈنٹ ہوا تو وہ ڈھائی تین ماہ تک صاحب فراش رہے۔ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو خود ہی ڈرائیو کر کے نماز جمعہ کے لئے مسجد پہنچ گئے۔ بعد از نماز ہم نے ریسٹورانٹ جانے کا ارادہ کیا۔ انہیں گزشتہ لنچ یاد تھا اس لیئے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے مسجد کی پارکنگ ہی میں انہوں نے مجھے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ بل وہ ادا کریں گے۔
ریسٹورانٹ میں کھانے کے اختتام پر جب میں کچھ میٹھا لینے کے لئے اٹھا تو وہ ویٹر کو اشارہ کر رہے تھے۔ میں واپس ٹیبل پر آیا تو کرسی پر بیٹھتے ہی میری نظر پلاسٹک کی چھوٹی سی ٹرے پر پڑی جو اکثر ریسٹورانٹس میں بل لانے کے لیئے استعمال کی جاتی ہے۔ ٹرے خالی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ انھوں نے بل ادا کرنے میں دیر نہیں کی لیکن ویٹر کا خالی ٹرے ٹیبل پر چھوڑ جانا میری سمجھ میں نہ آیا۔ لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ٹیبل سے اٹھتے ہوئے ہاشم خان نے جیب سے بل اور کیش نکال کر ٹرے میں رکھے۔
نماز جمعہ ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آیا جو اسی برس یعنی 2007 کی ابتدا میں پیش آیا۔ نماز کے بعد ہم مسجد کے پہلو ہی میں واقع تازہ فروٹ اور سبزیوں کی ایک مارکیٹ میں چلے گئے۔ شاپنگ سے فارغ ہو کر گاڑی کے پاس پہنچے تو میں نے تھیلے ٹرنک میں جما کر ان کے لیئے گاڑی کا دروازہ کھولا اور خود دوسری طرف جا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے میں نے نوٹ کیا کہ ان کا دایاں ہاتھ بار بار اوپر اٹھتا اور پھر گود میں رکھ دیتے۔ امریکہ میں چونکہ ڈرائیو بائیں طرف سے ہوتی ہے اور ہاشم خان میرے دائیں طرف کی سیٹ پر تھے یوں ان کی دائیں جانب میری آنکھوں سے اوجھل تھی۔ پھر اچانک میری نظر ان کے ہاتھ پر پڑی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کا ہاتھ خون میں لت پت تھا۔
کیا ہوا؟ میرے منہ سے بیساختہ نکلا۔
میرا کان دروازے کے ساتھ ٹکرا کر تھوڑا زخمی ہو گیا ہے۔ انھوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
میں نے فورآ گلو کمپارٹمنٹ (Glove Compartment) کھولا اور بہت سارے پیپر ٹاول ان کے ہاتھ میں تھما دیئے۔
ہم گھر کے قریب ہی تھے۔ اندر پہنچتے ہی مسز ہاشم کو ساری بات بتائی۔ ان کے کان کا جائزہ لیا تو کان کے اندرونی حصے میں اوپر کی طرف چوتھائی انچ کا کٹ لگا ہوا تھا۔ مسز ہاشم چونکہ وہیل چیئر میں تھیں ان کی نشاندہی پر ہاشم خان باتھ روم کی میڈیسن کیبنٹ سے زخم سیل (seal) کرنے والی ایک دوا نکال کر لائے۔ میں نے ان کا زخم صاف کر کے دوا لگا دی لیکن اس بات کا افسوس مجھے آج تک ہے کہ یہ سب میری غفلت کی وجہ سے ہوا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اسی سال یعنی مئی 2007 میں مسز ہاشم خان وفات پا گئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد میری عادت بن گئی کہ ان کے لیئے گاڑی کا دروازہ کھول کر اور دروازے کے کارنر پہ ہاتھ رکھے تب تک کھڑا رہتا جب تک وہ بیٹھ نہیں جاتے۔ گو کہ یہ ہاشم خان کی طبیعت کے سراسر خلاف تھا کہ وہ انتہائی انڈیپنڈنٹ (independent) تھے اور کسی بھی معاملے میں کسی قسم کی مدد پسند نہیں کرتے تھے۔ سکواش کورٹ کے ایکسیڈنٹ کے بعد جب طبیعت قدرے بہتر ہوئی اوروہ نماز جمعہ کے لیئے مسجد آنے جانے لگے تو بوٹوں کے تسمے باندھنے میں ان کو دقت ہوتی تھی ایک مرتبہ میں نے زبردستی آگے بڑھ کر تسمے باندھے تو اس قدر شکر گزار تھے جیسے میں نے ان پر کوئی بہت بڑا احسان کر دیا ہو۔ ہاشم خان کبھی کسی کا احسان نہیں بھولتے تھے۔ امریکہ آنے سے لے کر آخر تک جن جن لوگوں نے ان کی کسی بھی قسم کی مدد کی وہ ان کے ہمیشہ احسان مند رہے اور جب اور جہاں موقع ملا اس کا برملا اظہار بھی کیا۔
2007 میں کلوراڈو سٹیٹ کے سینیٹ فلور(Senate Floor) پر دوران سیشن (session) ہاشم خان کو آنر کیا گیا۔ سینیٹر Josh Penry کے ساتھ دوران گفتگو انھوں نے ڈینور اتھلیٹک کلب کے سابق صدر Hugh Tighes کا تعارف اس سے کروایا اور سینیٹر سے درخواست کی کہ اپنی تقریر کے دوران اس کا ذکر ضرور کرے۔ Hugh Tighes نے جو ہاشم خان کا مداح تھا، اپنے ٹنیور (Tenure) کے دوران ان کو کئی مراعات سے نوازا تھا۔
ڈینور اتھلیٹک کلب پرائیویٹ کلب ہے جو ممبر شپ پر چلتا ہے اور اس کی فیس ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے ممبرز صاحب حیثیت لوگ ہیں جن میں ڈاکٹرز، گورنمنٹ آفیشلز اور کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے دار وغیرہ شامل ہیں۔ کلب کی ممبرشپ کے قوائد اس قدر سخت ہیں کہ کلب کے پریزینڈنٹ کے بچوں تک کو 18 برس کی عمر کے بعد ممبرشپ فیس بھرنا پڑتی ہے۔ اس کے برعکس ہاشم خان کے لئے قوائد الگ سے تھے۔ ان کے بچوں کے لئے کلب کی ممبرشپ ہر عمر میں فری تھی اور ہو سکتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ایسا ہی ہو۔ They treat me like a king.، ایک مرتبہ ہاشم خان نے اس بات کا اعتراف کیا تھا۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ 2006 کے ایکسیڈنٹ کے بعد انھوں نے سکواش کورٹ میں قدم نہیں رکھا لیکن ڈینور اتھلیٹک کلب نے انھیں تا دم مرگ پے رول (payroll) پر رکھا بلکہ سالانہ انکریمنٹس (increments) سے بھی نوازتے رہے۔
1985 میں ڈینور اتھلیٹک کلب میں ہاشم خان کے نام کا کورٹ ڈیڈیکیٹ (dedicate) کیا گیا۔ پھر 1999 میں ایک سکواش کورٹ ہاشم خان ٹرافی روم میں تبدیل کر دیا گیا جس کے دروازے کے باہر دیوار پر پاکستان انگلینڈ اور امریکہ کے جھنڈے آویزاں ہیں۔ یہ ٹرافی روم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ 40 فٹ لمبے اور 15 فٹ چوڑے اس کمرے میں ان کے پرٹش اوپن میں جیتے گئے سات ایوارڈز کے علاوہ لاتعداد ٹرافیز (Trophies) اور انتہائی نایاب تصاویر بھی نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں۔
1985 کے حوالے سے یاد آیا۔ یہ غالباً مارچ کا مہینہ تھا جب ایک دن انھوں نے مجھے جاب پر فون کر کے اطلاع دی کہ ان کا اور ان کی بیگم کا امریکن شہریت کے لیئے انٹرویو طے پا چکا ہے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے ساتھ بطور مترجم جاؤں۔ یہ میرے لیئے بڑا اعزاز تھا کہ اس کام کے لیئے انھوں نے میرا انتخاب کیا۔
2006 کے آغاز میں میں نے ان کے ساتھ آن کیمرہ جو انٹرویو زریکارڈ کئے تھے ان میں سے ایک مختصر انٹرویو اسی ٹرافی روم میں تھا۔ انہی دنوں میں نے ان کو سکواش کورٹ میں کھیلتے ہوئے بھی ریکارڈ کیا تھا جو ان کی زندگی کا آخری ویڈیو ثابت ہوا۔
ہاشم خان سے ملاقات کے بعد مجھے ہمیشہ ایک بات کا تجسّس رہا کہ ایک ایسا شخص جسے پاکستان کی تاریخ کے پہلے ہیرو کا اعزاز حاصل ہوا اور پاکستان میں حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر اسے خوب خوب پذیرائی بھی ملی ہو۔ آخر ایسے کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے اسے پاکستان کو خیر باد کہنا پڑا۔ یہ سوال پوچھنے کا موقع مجھے انٹرویوز کے دوران ملا۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ وہ خود آبدیدہ ہو گئے تھے، یہ میرے لئے بھی خاصا تکلیف دہ ثابت ہوا اور میں اسے ہفتوں دل و دماغ سے نکال نہ سکا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1960 میں ہاشم خان سکواش گیمز کے لئے لندن گئے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ رسالپور ائیرفورس بیس پر کوچنگ کرتے تھے۔ رسالپور بیس کے کمانڈر نے ہاشم خان سے لندن سے واپسی پر دو تین اپلائنسز (Appliances) لانے کی فرمائش کی۔ بدقسمتی سے ہاشم خان ان کھیلوں کے دوران زخمی ہو گئے اور گیمز کو آخر تک جاری نہ رکھ سکے۔ یہ حالات ان کے لئے کافی ڈیپرشن کا باعث بنے اور وہ خالی ہاتھ پاکستان واپس چلے گئے۔ بیس کمانڈر جو اپلائنسز کا منتظر تھا بہت ناراض ہوا اور ہاشم خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔
اس وقت ان کے نو بچے تھے اور ان کا ذریعہ معاش یہی نوکری تھی۔ ان کے پاس کوئی جمع پونجی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بزنس۔ مجبوراً انھیں امریکہ میں اپنے دوست Arthur B. Sonneborn کو خط لکھنا پڑا۔ ان کے دوست نے ان کی بیوی بچوں کے ساتھ امیگریشن کا انتظام کیا اور یوں وہ 1960 ہی میں امریکہ وارد ہوئے۔
اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو ان کی نقل مکانی کی خبر ملی تو اس نے انھیں واپس لانے کی کوشش کی اور انھیں کئی ایکڑ زمین سے بھی نوازا لیکن تب تک انھیں نیا لائف سٹائل پسند آ چکا تھا۔
ہاشم خان 96 برس کی عمر تک خود ڈرائیو کرتے تھے۔ اوپر تلے کے ایکسیڈنٹس کے بعد ان کی بیٹیوں نے انہیں کار ڈرائیو کرنے سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ایسی کوئی بات ماننے پر ہر گز تیار نہیں تھے جس سے ان کو دوسروں پر تکیہ کرنا پڑتا۔ کار ڈرائیو کرنے کا سب بڑا فائدہ ان کو یہ تھا کہ اکثر و بیشتر شام کو قبرستان اپنی بیوی کی قبر پر چلے جاتے تھے۔ سکواش کورٹ کے ایکسیڈنٹ کے بعد گو کہ وہ کھیل نہیں سکتے تھے لیکن جب دل کرتا کلب ضرور جاتے اور دوسرے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھ کر لطف اٹھاتے۔ یہی وہ دن تھے جب انھیں کار ڈرائیو کرنے سے باز رکھنے کے لئے میں انھیں جمعہ کی نماز کے لیئے بلا ناغہ لانے لے جانے لگا تھا۔ اتفاق سے انہی دنوں یعنی مارچ یا اپریل 2007 میں ان کے ڈرائیورز لائسنس کی تجدید ہونا تھا اور ہم سب کی یہ خواہش اور امید تھی کہ اس مرتبہ شاید انہیں لائسنس نہ ملے لیکن کسی کی دعا کام نہ آئی اور ان کا لائسنس ری نیو ہو گیا۔ نماز جمعہ کے لیئے جاتے ہوئے انھوں نے مجھے یہ خبر سنائی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔‘‘ آپ کا نظر کا ٹیسٹ نہیں ہوا کیا؟ ’’میں نے بظاہر مزاق میں پوچھا۔ میری بات سن کر باقاعدہ ہنسے اور بولے ’’ٹیسٹ ہوا تھا لیکن میں نے اس لڑکی سے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی عینک گھر بھول آیا ہوں‘‘ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہاشم خان نے نظر کی عینک 94 یا 95 برس کی عمر میں استعمال کرنا شروع کی تھی۔
بیماری اور کمزوری کے باعث جب وہ گھر کی چاردیواری میں مقید ہو کر رہ گئے تو میں نے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ کافی حد تک کم کر دیا کہ ان کے سونے جاگنے کے اوقات معین نہیں تھے۔ ان کی بیٹیوں اور داماد رفیق خان سے میرا رابطہ بہرحال برقرار تھا اور ان کے شب و روز سے باخبر رہتا تھا۔ 2013 میں میں اور زہرہ حج کی سعادت کے لیئے جانے لگے تو میں نے شاہینہ کو فون کر کے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور یہ تاکید بھی کی کہ ہم دونوں صرف دس پندرہ منٹ کی ملاقات کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے آرام میں بھی حرج نہ ہو۔ اگلے دن اس کا فون آیا کہ ڈیڈی چاہتے ہیں کہ آپ دونوں ڈنر کے لیئے آئیں۔ پھر انھوں نے اس ملاقات کو باقاعدہ ایک بڑے فنکشن میں بدل دیا اور چند دوسرے دوستوں کو بھی بلایا۔ 21 ستمبر 2013 کو یہ میری ہاشم خان کے ساتھ ان کے گھر میں آخری اور تفصیلی ملاقات تھی۔
ہاشم خان متعدد بیماریوں کا شکار تھے جن میں ذیابیطس (diabetes)، ارتھرائٹس (arthritis)، پندرہ سولہ برس پرانا پراسٹیٹ کینسر (prostate cancer) اور کمزور دل جو پیس میکر کے سہارے دھڑک رہا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بانوے برس سے زیادہ عمر تک سکواش کھیلتے رہے۔ 2006 میں اگر وہ کورٹ میں گر کر اپنی ہپ کی ہڈی نہ توڑتے تو شاید زندگی کے آخری سانسوں تک کھیلتے۔ ان کی قوتِ بینائی پچانوے برس کی عمر تک عقابی رہی البتہ سماعت کے لیئے آلہ استعمال کرتے تھے۔ ڈینچر بھی لگاتے تھے۔ آخری برسوں میں ان کی ٹانگیں ان کا دھان پان بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں اور یہ کمزوری بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھی کہ زندگی کا آخری برس انھوں نے وہیل چیئر میں گزارا۔ لیکن ان تمام مشکلات اور صعوبتوں کے باوجود ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور ان کی حسِ مزاح برقرار رہی۔
وفات سے پورے تین ماہ پہلے ان کی نواسی عائشہ خان کی گریجوئیشن پارٹی میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہی پر ان کے نواسے توفیق خان سے معلوم ہوا کہ گزشتہ رات جب سب لوگ گھر سے کئی میل دور یونیورسٹی میں عائشہ کی گریجوئیشن پارٹی میں تھے اور ہاشم خان گھر میں اکیلے تھے تو وہیل چیئر سے گر گئے تھے اور چوٹ بھی آئی تھی۔ توفیق نے یہ بھی بتایا کہ آج جب وہ اس پارٹی میں آنے کے لیئے تیار تھے تو نانا پھر وہیل چیئر سے گرے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے یہی بات ہاشم خان کی زبانی بھی سنی لیکن انھیں اس میں بھی مزاح کا پہلو نظر آیا۔ کہنے لگے کہ سینڈوچ کھاتے ہوئے ہاتھ سے کچھ گر گیا تھا۔ اٹھانے کے لیئے ذرا پہلو کی طرف جھکے تو کرسی ہی الٹ گئی اور وہ دھڑام سے نیچے آگرے۔ پھر مسکرا کر بولے ‘رات میں نے بیڈ کے نیچے گزاری’۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چھ گھنٹوں تک نیچے پڑے رہے اور وہیں سو گئے تھے۔ اگلے دن چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے ری حیب (Rehab) کے لیئے نرسنگ ہوم بھیج دیا تھا تو میں انھیں دیکھنے اسپتال گیا۔
یہ ایک نہایت ہی پاش (posh) علاقے میں واقع پانچ سٹار کا وسیع و عریض نرسنگ ہوم تھا جہاں ہر قسم کی تھیراپی (Therapy) اور ری ہیب کی جدید ترین سہولیات مہیا تھیں۔ وہی میری ملاقات ان کی بیٹیوں صوبی، شاہینہ اور نواسی عائشہ سے ہو گئی۔ یہ تینوں خواتین ملاقات کے بعد واپس جا رہی تھیں لیکن مجھے دیکھا تو میرے ساتھ واپس چلی گئیں۔ کمرے کی طرف جاتے ہوئے صوبی نے مجھے اپنے والد کی حالت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی حالت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ شروع کے چند دنوں میں تنگ آ گئے تھے اور گھر جانا چاہتے تھے لیکن جب ری ہیب کے چند سیشنز (Sessions) کے بعد نقل و حرکت میں بحالی محسوس ہوئی تو پھر رکنے کی ٹھان لی۔ انہیں ابھی یہاں مزید دو تین ہفتے رکنا تھا۔
ہم کمرے میں پہنچے تو انہیں بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے بیٹھے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بیڈ پر ایک طرف کھسکتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر اپنی بیٹی کی طرف متوجہ ہوئے۔
صوبی! ذرا یہ نیچے سے نکالو۔ ان کا اشارہ آکسیجن سپلائی کرنے والی پلاسٹک کی ٹیوب تھی جس کا بیڈ کے نیچے تک لٹکا ہوا حصہ بیڈ کے ساتھ لگی ٹرالی کی پہیے میں پھنسا ہوا تھا۔ صوبی نے اسے کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ نکل نہ سکا۔ میں بیڈ کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ان کے پاؤں کے پاس فرش پر گھٹنے ٹیک کر میں قدرے کوشش کے بعد اسے نکال سکا کہ ٹیوب پہیے کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ میں کھڑا ہوا تو ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ سے ذرا کھسکے اور مجھے بیٹھنے کا کہا اور عائشہ کو اپنا ڈینچر لانے کا کہا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے ’’منہ میں ڈینچر نہ ہو تو بات نہیں کر سکتا‘‘ عائشہ نے ڈینچر کے ساتھ ساتھ کان کا آلہ بھی ان کے ہاتھ میں دے دیا۔
خواتین کو رخصت کرنے کے بعد میں پندرہ بیس منٹ ہی ان کے پاس رکا تھا۔ ہماری گفتگو کا محور ان کی بیماری اور علاج معالجہ ہی رہا۔ چند منٹس پہلے لی گئی دوا اپنا اثر دکھا رہی تھی اور انھیں نیند آ رہی تھی۔ رخصت ہونے کے لئے اٹھا تو بولے ‘مجھے کمبل اوڑھا دو’ میں نے ان کا کمبل صحیح کیا۔ خدا حافظ کہہ کر انھوں نے آنکھیں موند لیں اور میں مطمئن سا ہو کر ان کے کمرے سے نکل آیا۔
نرسنگ ہوم سے واپسی کے بعد ان کی صحت سمبھلی نہیں بلکہ دن بہ دن گرتی گئی یہاں تک کہ جولائی 2014 کی عید الفطر پر وہ ہاسپس کئیر (Hospice Care) میں ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ عید سے دودن پہلے میں اور نور آفریدی ان کی عیادت کے لئے گئے۔ اس وقت وہ الرٹ بھی تھے اور خوشگوار موڈ میں بھی تھے۔ ان کے نواسے توفیق خان نے بتایا کہ اس وقت وہ خلافِ معمول کسی ڈرگ کے زیرِ اثر نہیں تھے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کا پورا ادراک رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں تھوڑی دیر میں ہو گیا جب نرس ان کے لئے سوپ لائی اور توفیق نے ان سے پوچھا کہ گرم گرم سوپ لینا چاہتے ہیں تو بولے ’ذرا رکو، ابھی نرس آ کر اس میں گولی ڈالے گی’ پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر بولے کہ ‘گولی میرے حلق سے نہیں اترتی تو یہ میرے کھانے میں ملا کر دیتے ہیں’۔
ہماری موجودگی ہی میں ان کی بیٹیاں صوبی اور شاہینہ بھی پہنچ گئیں۔ شاہینہ سے بات کرتے ہوئے پوچھا کہ‘ ابھی کام پر سے آ رہی ہو؟’ شاہینہ نے جواب دیا کہ نہیں آج چھٹی تھی تو مسکرا کر بولے ’اچھا پھر میں تم لوگوں کو لنچ پر لے کر جاؤں گا’ اور ان کی حالت یہ تھی کہ وہ بغیر سہارے کے بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ گپ شپ کے دوران مجھے زہرہ کی بات یاد آئی جو اس نے گھر سے نکلتے ہوئے میرے کان میں ڈال دی تھی کہ ’ہاشم خان سے اپنے لیئے دعا ضرور کروا لینا کہ بیمارکی دعا قبول ہوتی ہے‘ لیکن ان کی حالت اور کمرے کے ماحول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے مجھے یہ کچھ مناسب نہ لگا۔ رخصت ہونے سے پہلے میں نے ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور خدا حافظ کہا تو مسکرا کر بولے ’میں تمھارے لیئے دعا کروں گا‘
عید کے دن نماز عید کے بعد ہم دونوں ان کی عیادت کے لئے دوبارہ ہسپتال پہنچ گئے۔ اس وقت ان کی طبیعت بشاش تھی۔ مشکل سے بات کر سکتے تھے لیکن ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ مجھ سے عید کی نماز کے بارے میں پوچھا کہ نماز کہاں پڑھائی گئی اور ہجوم کتنا بڑا تھا وغیرہ۔ اس وقت ان کے پاس ان کے بیٹے عزیز خان، گل مست اور لیاقت خان بھی تھے۔ میں زیادہ وقت انہی کے ساتھ مصروف گفتگو رہا کہ ان کے ساتھ شاذ و نادر ہی ملاقات ہوتی ہے۔ ہاشم خان کے سبھی بیٹے مختلف سٹیٹس اور کنیڈا میں رہتے ہیں اور کبھی کبھار ہی باپ کی خبر گیری کے لیئے آتے ہیں۔ اس دوران ہاشم خان نور آفریدی کے ساتھ مصروف گفتگو رہے۔ ہم شاید آدھا گھنٹہ رکے تھے۔ گپ شپ کے دوران انھوں نے عزیز خان کو ہمارے لیئے کچھ کھانے پینے کا لانے کا کہا لیکن ہم نے عزیز خان کو روک دیا۔ چند منٹوں کے بعد انھوں نے دوبارہ عزیز خان کو کچھ لانے کا کہا اور ہم نے پھر اسے روک دیا لیکن مہمانوں کو بغیر کھلائے پلائے رخصت کرنا ہاشم خان کی سرشت میں نہیں تھا۔ تیسری مرتبہ ان کے اصرار پر ہم دونوں نے حامی بھر لی اور عزیز خان کو صرف چائے کا کہہ دیا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اسی انتظار میں تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں چائے کے کپ آتے ہی انھوں نے آنکھیں موندیں اور سو گئے۔
چند دنوں بعد انھیں ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا کہ اب وہ دوا سے دعا تک کا سفر طے کر چکے تھے۔ 16 اگست 2014 کی شام کو میں، نور آفریدی اور میرا داماد افراز علی سید ان کی عیادت کے لئے ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو وہ اپنی نگہداشت پر متعین نرس سے الجھ رہے تھے۔ نرس ان کے کپڑے بدل رہا تھا لیکن وہ مصر تھے کہ انھیں مختلف کپڑے پہنائے جائیں کہ انھیں دعوت میں جانا تھا۔ ظاہر ہے وہ اس وقت دواؤں کے زیر اثر تھے۔ ہم تینوں رسمی علیک سلیک پر اکتفا کرتے ہوئے ان کے سامنے سے ہٹے تو انھوں نے میرا نام پکار کر مجھے واپس بلایا اور نرس کی شکایت کی۔ میں نے زندگی بھر شاید ہی ایسی بے بسی محسوس کی ہو جو اس موقع پر محسوس کی۔ صوبی اور شاہینہ پہلے ہی بے بس ہو چکی تھیں۔ ہم چند منٹ ہی رکے تھے۔
پھر دو دن کے بعد 18 اگست کی شام سے پہلے میں اسی کمرے میں ان کے بیڈ کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھا یاسین شریف پڑھ رہا تھا۔ ان کی سانسسیں نا ہموار اور اکھڑی اکھڑی تھیں۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ چند گھنٹوں سے وہ کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہے تھے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ شاہینہ باپ کے پاؤں کی طرف بیٹھی ان کے پاؤں دبا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ صوبی باپ کے بائیں پہلو میں بیٹھی ان کے کان میں مسلسل کلمہ طیبہ دہرا رہی تھی اور پکار بھی رہی تھی، ’’ڈیڈی! آئی لو یو اور ڈیڈی! ڈو یو ہیر می ’’( daddy! I love you, daddy! Do you hear me? )۔ اس کی رقت آمیز زاری ماحول کو مزید سوگوار بنا رہی تھی۔ محمد خان اور سلیم خان باپ کی بگڑتی سنورتی حالت کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے لیکن ذہنی طور پر کوئی بھی اس کے لیئے تیار نہیں تھا۔
ہاسپس کئیر (Hospice care) کی طرف سے مامور نرس نے آ کر انہیں انجیکشن دیا تو ان کی سانسیں ذرا ہموار ہوئیں۔ میں اجازت لے کر بچوں کو اٹھانے ٹرین سٹیشن کی طرف چلا گیا۔ گھر پہنچے تو مغرب ہو چلی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر ابھی کھانے کے لیئے بیٹھے ہی تھے کہ نور آفریدی کا فون آ گیا۔ ہاشم خان ہمیں داغِ مفارقت دے چکے تھے۔
إِنَّا للہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ۔
٭٭٭