توبہ ۔۔۔ محمد قیوم میؤ

اپنے پچھلے گناہوں اور فریب کاریوں سے بھری زندگی کا احساس پرویز صاحب کو جب ہوا تو انہوں نے حج کا ارادہ کیا اور انہیں کسی قسم کی رکاوٹ اور پریشانی کا سامنا بھی نہیں ہوا۔ دولت ان کے پاس بہت تھی۔ سرکاری اور پرائیویٹ دفتروں سے آج کل اپنے کام کس طرح کرائے جاتے ہیں، اس طریقے سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ کہتے تھے کہ دفتروں میں رشوتیں نہیں دو گے تو کام کبھی نہیں ہوں گے۔ جب کام نہیں ہوں گے تو روپیہ کس طرح کمایا جائے گا اور پھر بال بچوں کا پیٹ کس طرح بھرا جائے گا؟ ان کی پرورش اور تعلیم کس طرح ہو گی؟ بوڑھے ماں باپ اور بیوی کی بیماریوں کا علاج کس طرح ہو گا؟ ملک کی بڑی اقلیت یعنی میرے بھائی اسی لیے تو مفلس، بے روزگار اور پچھڑے ہوئے ہیں کہ وہ رشوتیں نہیں دیتے اور لیتے ہیں، چار سو بیسی اور دھوکا دھڑی نہیں کرتے ہیں، دوسروں کا حق نہیں مارتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ بڑی اقلیت کے لوگوں کے پاس رشوتیں دینے کے لیے روپیہ ہی نہیں ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ غلط طریقے اور غلط پیشے اپنا کر روپیہ جمع کرو۔ اُن سے پھر کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں تو پولس ان پر خاص نظر رکھنے کی وجہ سے فوراً دبوچ لیتی ہے اور ذرا سے جرم کو بڑھا کر اتنا بڑا کر دیتی ہے کہ ان کا انکاؤنٹر کر دیتی ہے یا پھانسی پر لٹکوا دیتی ہے یا عمر قید کروا دیتی ہے ، تو وہ کہتے ہیں، تو پھر کیا بھیک مانگوں، مجھے بھیک مانگنا گوارہ نہیں ہے ، اس لیے چار سو بیسی، دھوکا دھڑی اور نقلی دھندہ کرتا ہوں۔ اپنے انھیں نظریات کے سبب انہیں ویزا بآسانی مل گیا تھا۔ ان کا حج پر جانے کا نمبر بھی جلدی آ گیا تھا۔ نمبر اور ویزا آتے ہی پرویز صاحب نے اپنی داڑھی بڑھانا شروع کر دی تھی۔ ملک میں آج کل بڑھتی قیمتوں کی طرح ان کی داڑھی بھی تیزی سے بڑھنے لگی۔ چند ہفتوں میں ان کی داڑھی ایک مشت ہو گئی۔ تین ماہ بعد ان کی فلائٹ تھی۔ اس درمیان ان کی داڑھی ایک بالشت بھر ہو گئی تھی۔ کئی بار وہ داڑھی کی تراش خراش کروا چکے تھے۔ اب وہ داڑھی پر فخر یہ انداز میں ہاتھ پھیرتے رہتے تھے۔ روانگی کا وقت قریب سے قریب آتا جا رہا تھا۔ جس روز روانگی تھی، اس دن ان کا بنگلہ برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ مہمانوں سے ہر کمرہ کھچا کھچ بھرا تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ وہ سبھی مہمانوں سے انتہائی تپاک اور خوش مزاجی سے مل رہے تھے۔ شام کو ایک شاندار اور پر تکلف دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ ہار پھولوں سے لدے پرویز صاحب سبھی کی مبارکباد قبول کر رہے تھے۔

انہیں بار بار خیال آ رہا تھا کہ اب واپسی پر ان کے نام سے پہلے حاجی کا اضافہ ہو جائے گا۔ وہ اس اضافے پر دل ہی دل میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایسی شاندار دعوت دی گئی تھی کہ لوگ حیران اور ان سے مرعوب سے ہو رہے تھے۔ دوسرے روز ہار پھولوں سے لدے پھندے پرویز صاحب ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو گئے ، جس جگہ حاجیوں کا ایک بڑا قافلہ روانگی کے لیے تیار تھا اور لوگ سبھی سے الوداع ہونے کے لیے مصافحہ کر رہے تھے۔

ہر طرف انسانوں کا جم غفیر دور دور تک نظر آ رہا تھا۔ چند گھنٹوں کے بعد جہاز کی پرواز کا آغاز ہوا اور پرویز صاحب اسی روز اپنے دیگر ہم سفروں کے ساتھ کچھ گھنٹوں کی ہوائی جہازی مسافت کے بعد سرزمین عرب پر اتر گئے۔ اب وہ احرام باندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کیا اور رہائش گاہ کی طرف ڈیلکس بس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ حج کے ارکان وہ ترتیب سے روزبروز ادا کر رہے تھے۔ فرض، سنت اور نفل نمازیں پابندی سے ادا کر رہے تھے۔ نفل نمازوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ہر روز بلا ناغہ بعد نماز عشاء کچھ دیر کے لیے اپنے وطن میں بذریعہ موبائل گھر والوں اور نمبر دو کے کاروبار کے حالات ضرور معلوم کرتے تھے۔ اپنی خیریت اور حج کے مناظر خوش ہو کر وہ سب کو بتاتے تھے اور ان سب کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ واپسی کے وقت خریداری کے لیے بچوں اور دیگر متعلقین کی فرمائش کی فہرست ان کی جیب میں بحفاظت رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر فہرست کے موجود ہونے کی تصدیق کی اور جیب کے اوپر سے ہاتھ ہٹا کر وہ مطمئن ہو گئے۔ نماز پنجگانہ کے وطن میں وہ پابند کبھی نہیں رہے۔ کبھی نماز پڑھی کبھی نہیں پڑھی، لیکن جب سجدہ کرتے تو ماتھے پر خوب زور دیتے اور اسے آہستہ آہستہ صف پر رگڑتے تاکہ سجدے کا نشان ماتھے پر بن جائے اور واقعی ان کے ماتھے پر سجدے کا نشان بن گیا تھا۔ حج کے آخری ایام میں اپنے گروپ کے ساتھ پرویز صاحب منیٰ پہنچے، کنکریاں مارنے کے لیے سبھی دوڑ رہے تھے اور بے تحاشہ دوڑ رہے تھے۔ پرویز صاحب کے ہاتھوں میں سات کنکریاں تھیں۔ وہ سبھی کے ساتھ دوڑنے لگے۔ ایک کنکری پوری قوت سے انہوں نے پتھر کے بنے اس نشانے پر ماری، جہاں پہلی بار شیطان نے حضرت ابراہیم کو خدا کی نافرمانی کے لیے ورغلایا اور بہکایا تھا۔ کنکری پتھر کے نشان کی طرف گئی اور ہوا ہی میں پلٹ کر ان کی طرف تیزی سے آئی اور زور سے ان کے لگی۔ وہ حیران و پریشان ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ کس شخص نے ان کے کنکری ماری ہے؟ اسی وقت ان کے اوپر فضا میں ایک زور دار قہقہہ گونجا۔ انہوں نے جلدی سے اوپر دیکھا، لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اسے اپنا وہم سمجھ کر پرویز صاحب نے دوسری کنکری ماری۔ کنکری ہوا میں گئی اور تیزی سے پلٹ کر پھر ان کے آ کر زور سے لگی۔ اس کے فوراً بعد زور کا قہقہہ اوپر فضا میں گونجا۔ انہوں نے بے اختیار اوپر دیکھا اور پھر اپنے دائیں بائیں لوگوں کو دیکھنے لگے ، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا کنکریاں ان لوگوں کے بھی آ کر لگ رہی ہیں؟ اور کیا وہ لوگ بھی قہقہے کی آواز سن رہے ہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ سمجھ گئے کہ میری پھینکی ہوئی کنکریاں ہی واپس آ کر میرے لگ رہی ہیں۔ صرف میں ہی اوپر فضا میں گونجنے والے قہقہے کو سن رہا ہوں۔ وہ بہت زیادہ فکر مند ہو گئے۔ ’’کیا شیطان میری پھینکی ہوئی کنکریوں کو واپس کر کے مجھے ہی مار رہا ہے؟‘‘ ان کے ذہن میں سوال ابھرا۔ پرویزؔ صاحب کے ہاتھ میں اب آخری کنکری تھی۔ تذبذب، کشمکش، الجھنیں، سستے ہوئے غمگین چہرے اور کانپتے دائیں ہاتھ سے زور لگا کر اس کنکری کو آخری نشان کی طرف پھینکا، لیکن وہی کنکری تیزی سے واپس آئی اور زور سے ان کے لگی۔ فوراً ہی ایک کم وقفے کے لیے فضا میں قہقہہ گونجا اور آواز آئی ’’کیوں پرویزؔ! تو بھی مجھے کنکریاں مار رہا ہے۔ تو تو مجھ سے بھی بڑا شیطان ہے ، تو اشرف المخلوقات ہے ، ریاکاری، مکاری، کینہ پروری، اللہ کی نافرمانی، دغا، دھوکہ، حق تلفی، اپنے مفاد کے لیے قتل کرا دینا تو مجھ سے بھی زیادہ تجھ میں ہے۔ تیرے دل میں اب بھی ہے کہ وطن جا کر یہی سب کچھ پھر کروں گا۔ تو اپنے نام کے آگے صرف حاجی لکھنا اور کہلوانا چاہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر پرویزؔ صاحب نے جلدی سے اپنے دائیں بائیں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی اور تو یہ جملے سن نہیں رہا ہے ، لیکن ایسا نہیں تھا۔ سب رمی جمارات میں مصروف تھے۔ انہوں نے سرگوشی کے لہجے میں کہا ’’میں اپنے حالات سے مجبور تھا۔ تو نے مجھے ورغلایا میں تیری باتوں میں آ گیا۔ تیرے سبز باغ دکھانے میں آ گیا۔‘‘ اس کے بعد پھر آواز آئی ’’جھوٹ! مجھ سے زیادہ خود تیرا نفس ذمہ دار ہے۔ تو اپنے بگڑے ماحول اور حالات سے ہجرت بھی کر سکتا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ ہجرت تو ملک سے باہر ہی کرتا، ملک کے اندر ہی ہجرت کی جا سکتی تھی، سارے ملک کے حالات تو بگڑے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘

شیطان اور اپنے جاگتے ہوئے ضمیر کی آواز ایک ساتھ سن کر پرویزؔ صاحب کو چکر آ گیا اور وہ دھڑام سے اژدھام کے درمیان گر پڑے۔ ان کے اردگرد لوگ بے اختیار جھکے اور ایک شخص نے انہیں اٹھا کر اپنے کاندھے سے لگا لیا اور چلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پرویزؔ صاحب کو ہوش آ گیا۔ انہیں ایک طرف بٹھا کر پانی پلایا گیا۔ پانی پیتے ہی وہ بے اختیار وہیں سجدے میں گر گئے اور صدق دل سے اللہ سے توبہ کی۔ وہ توبہ ان کی توبۃ النصوح یعنی سچی توبہ تھی، پھر سجدے سے اٹھ گئے اور لوگوں کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں، لیکن انہیں اللہ کی ذات سے قوی امید تھی کہ ان کی صدق دل سے کی گئی یہ توبہ اللہ رب العزت ضرور قبول فرما لے گا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے