غزلیں ۔۔۔ مظفر حنفی

ہمارے گھر پہ کبھی سائبان پڑتا نہیں

یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان پڑتا نہیں

 

پڑاؤ کرتے چلے راہ میں تو چلنا کیا

سفر ہی کیا ہے اگر ہفت خوان پڑتا نہیں

 

بجھانی ہو گی ہمیں خود ہی اپنے گھر کی آگ

کہیں سے آئے گی امداد، جان پڑتا نہیں

 

مزے میں ہو جو تمہیں بے زمین رکھا ہے

کہ فصل اُگاتے نہیں ہو، لگان پڑتا نہیں

 

عطا خلوص نے کی ہے یقین کی دولت

گمان اس کے مرے درمیان پڑتا نہیں

 

ہم احتجاج کسی رنگ میں نہیں کرتے

ہمارے خون سے کوئی نشان پڑتا نہیں

 

بہتروں میں اسے بھی شمار کر لینا

مباحثے میں مِرا خاندان پڑتا نہیں

٭٭

 

 

 

ہوا ناراض تھی ہم سے، کنارا دور تھا ہم سے

سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھرپور تھا ہم سے

 

خودی، خود آگہی، خود رائی جس میں جلوہ گر ہوتے

وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے

 

محبت اور جوانا مرگ، رونا داستاں گو کا\

گھنی باتوں کا جنگل رات بھر پُر نور تھا ہم سے

 

مزا بھی ہے، سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں

مگر ہم رقص ہم تھے آسماں مجبور تھا ہم سے

 

خود اپنے کو بھی اک پردے میں رہ کر دیکھنا ہو گا

یہی جو آئینے میں ہے ابھی مستور تھا ہم سے

 

مظفرؔ اب یہی دنیا ہمیں نابود کر دے گی

یہ پیمانہ لبا لب تھا کبھی، معمور تھا ہم سے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے