تاریک راہیں ۔۔۔ ڈاکٹر علی دوست بلوچ/ دیوی ناگرانی

 

بلوچی کہانی

وہ آج پھر بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا تھا۔ شاید اپنے انداز میں نا مکمل تصویر میں رنگ بھرتے ہوئے اپنے بہت سے شاگرد ساتھیوں کو اپنے تخلیقی آرٹ کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ماسٹر کریم بخش جب کلاس میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے بلیک بورڈ پر عجیب و غریب ذہنی اور خیالی آرٹ کا نمونہ بنا ہوا تھا۔

‘پچھلی تصویر تو سب نے پہچان لی تھی، اب بتائیں یہ کس کی تصویر ہے ؟’ شاگردوں سے باتیں کرتے ہوئے وہ بلیک بورڈ کی طرف دیکھ رہا تھا اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب آ گئے ہیں۔ ‘تو ساتھیو بتائیں یہ کس کی تصویر ہے ؟’

کلاس میں بیٹھے لڑکے کوئی جواب نہیں دے رہے تھے، شاہو سوچنے لگا کہ شاید انہیں تصویر پہچاننے میں دقت ہو رہی ہے، وہ گھمنڈی انداز میں بولا ‘تم لوگ اپنے استاد کو نہیں پہچانتے؟’

لڑکے پھر بھی خاموش تھے، شاہو نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا۔ کریم بخش کھڑے ہوئے شاہو کی حرکتیں نوٹ کر رہے تھے۔ شاہو نے اوچھا پن یا شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے قہقہہ لگاتے ہوئے شاگردوں سے کہا – ‘اب میں سمجھا کہ تم لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا، ویسے بھی ماسٹر صاحب بہت اچھے ہیں، انہوں نے ہمیں کبھی بھی سزا نہیں دی، ان کی تو مثال ملنا مشکل ہے۔ ’ یہ کہتے ہوئے شاہو اپنی ڈیسک پر جا کر بیٹھ گیا۔

ماسٹر کریم بخش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ شاہو کی بدتمیزی کا کیا جواب دے اور کس طرح پیش آئے؟ وہ یہی سوچتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ وہ سزا اور ڈانٹ کے قائل نہیں تھے، اس لیے شاگردوں کو اپنے عمل اور اپنی گفتگو سے ایک اچھا انسان بنانے کی قابل تقلید کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے- ‘اچھا انسان بننے کے لئے لگاتار کڑی محنت کے ساتھ ساتھ اچھے تمیز بھرے طور طریقوں کا ہونا بنیادی ضرورت ہیں۔’ اس وقت بھی انہوں نے شاگردوں کو شاہو کی بدتمیزی کا حوالہ دیتے ہوئے ایسی ہی نصیحتیں کیں۔ شاہو نے کبھی ان باتوں کو غور سے نہیں سنا۔ وہ دن بدن اپنی بدتمیزی اور نالائقی میں اضافہ کرتا جا رہا تھا۔ ارد گرد کے لوگوں میں اس کے لئے نفرت اور ناراضگی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

شاہو کے والد سخی داد بستی میں بہت شرمندگی اٹھانے کے بعد شاہو کو سمجھانے لگے لیکن شاہو نہیں سنبھلا۔ تب مجبور ہو کر اسے گھر سے نکال دیا۔ لیکن شاہو پر کسی بات کا اثر نہیں ہوا، وہ ہر معاملے میں اپنی من مانی کرتا اور جب جی چاہتا گھر آ جاتا۔ ایک روز اس کے باپ نے اسے ڈانٹتے ہوئے پوچھا ‘اتنے روز کہاں رہے؟’

شاہو نے باپ کو لاپرواہی سے جواب دیا ‘آپ مجھ سے محبت تو نہیں کرتے کہ میں دن رات آپ کی آنکھوں کے سامنے رہوں۔ بہن کی شادی ہو گئی اور ماں کا چہرہ تک میں نے نہیں دیکھا، اب گھر میں میرے لئے کیا رکھا ہے؟’

اس کے باپ نے ایک بار پھر سمجھانا چاہا ‘کیا ہوا میں نے دو حرف نہیں پڑھے، لیکن میں نے بڑی دنیا دیکھی ہے، میرے پاس تمہاری عمر سے زیادہ زندگی کو دیکھنے کا تجربہ ہے۔ تم سنبھل جاؤ، کوئی اچھا کام کر کے دکھاؤ، ایسا کام کہ دنیا یاد رکھے، پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جاؤ۔’

شاہو نے مسکراتے ہوئے باپ کو جواب دیا ‘آپ کیا سمجھتے ہیں، کہ پڑھ لکھ کر ہی لوگ بڑے بنتے ہیں؟ میں نہیں مانتا، آج کل وہ لوگ بڑے بنتے ہیں جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں، میں بھی وقت کے ساتھ چلوں گا۔ آپ دیکھیں گے میں ایک دن کہاں کھڑا ملوں گا۔’

اس کے باپ کی پیشانی پر تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے شاہو کا آنے والا کل تاریکی میں ڈوبا ہوا نظر آ رہا تھا۔ وہ بڑی حد تک مایوس ہو چکا تھا۔

ایک دن بے وقت آنے پر اس کے باپ نے پوچھا ‘کھانا کھا لیا ہے؟’

‘ہاں، ہوٹل میں کھا لیا تھا، یہاں پر میرے لئے کیا پکا ہو گا۔ ہوٹل میں اچھا کھانا مل جاتا ہے۔’

پہلے تو وہ ہفتے میں ایک آدھا دن آ جاتا مگر اب مہینوں غائب رہنے لگا۔ سکول میں اس کی بد معاشی بڑھتی جا رہی تھی۔ پہلے والے ماسٹر نرم دل آدمی تھے لیکن نئے ہیڈ ماسٹر نے شاہو کی بد تمیزیوں اور بد معاشیوں کو دیکھتے ہوئے اسے سکول سے نکال دیا۔ اس طرح وہ دس درجے بھی پاس نہ کر سکا۔ شاہو پر اب کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا اسے پڑھنے لکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ اب اسے اپنے بل بوتے پر اپنی منزل طے کرنے میں آسانی تھی۔

اب وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اس کی بد معاشیوں کو اس کی دلیری اور اس کے یقین کا نام دینے لگے تھے۔ اب وہ با قاعدہ ایک سیاسی پارٹی کا ممبر بن چکا تھا۔ وہ پارٹی میں اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ بخوبی اٹھانے کے سبب پسندیدہ بنتا جا رہا تھا۔ کہیں بھی کوئی جھگڑا یا فساد ہوتا تو شاہو وہاں موجود ہوتا۔ کبھی انتظامیہ کے دروازے کو لات مار کر نکل جاتا تو کبھی تحصیلدار کا گریبان پکڑ لیتا۔ ایک روز تحصیل آفس میں باتوں باتوں پر شاہو نے میر دل مراد کا گریبان پکڑ لیا۔ میر دل مراد جو کبھی ایک مشہور آدمی تھا، لوگوں کے بیچ اپنی عزت بنائے رکھنے کے لئے اپنے بچاؤ میں یہ کہتے ہوئے ہوئے چلا گیا – ‘پہاڑ ٹوٹ گئے ہیں، جو اب کنکر اہمیت حاصل کرنے لگے ہیں۔ میرے دل نے صحیح کہا تھا، تب حالات کچھ اور تھے، اب وقت کچھ اور ہے۔ بس وقت کو سلام ہے۔’

اب سیاسی پارٹی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔

الیکشن کا دور دورہ تھا۔ شاہو کی پارٹی بھی نئے ارادوں اور نئے وعدوں کے ساتھ سامنے آ چکی تھی۔ پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوتا۔ کافی سوچ بچار اور میٹنگس کے بعد پارٹی نے شاہو کی طرف دیکھا کیونکہ ان حالات میں عام لوگوں کے دلوں میں گھر بنانے والا شاہو کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ اس لئے مرضی نہ ہوتے ہوئے بھی شاہو کے کاغذ داخل کر دئیے گئے۔ شاہو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی جلدی اپنی منزل تک پہنچنے کے راستے پر آ جائے گا۔ اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ ظاہر تھی۔ اب وہ شاہو نہیں بلکہ میر شاہ تھا اور اپنے علاقے میں ایم۔ ایل۔ اے۔ کے لئے امیدوار تھا۔

شروع شروع میں بہت سے لوگوں نے اپنے کاغذات داخل کرائے اور دوسری طرف انہوں نے الیکشن میں کامیابی کے لئے الگ الگ پارٹیوں کے بیچ جھگڑے بھی کروائے، جس کی بنیاد پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ انھیں حالات میں الیکشن کا ڈراما کھیلا گیا اور میر شاہ میر اسیمبلی کے ممبر بن گئے۔ اب ہر طرف اس کا نام مشہور ہو گیا۔ اس کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے ناچ گانے کے ساتھ کھانے پینے کی محفلیں سجائی گئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ عوام کی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی، لیکن عوام کو اس بات کا سلیقہ یا پرکھ نہیں ہوتی کہ ان کے لئے فیصلے اوپر کی سطح پر کئے جاتے ہیں جہاں لوگ اپنے فائدے اور اپنی ضرورت کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمارے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں، وہیں جنتا کو دھوکا دینے اور ان کی سادگی کا فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

جب شاہو میر وزیر بنا تو اس کے نام کی طرح اس کا رویہ، بول چال کا طریقہ بھی کافی بدل گیا۔ جیسے کسی میٹھی چیز پر چیونٹیاں جمع ہونی شروع ہو جاتی ہیں، اسی طرح شاہو میر کے ارد گرد بھی دوستوں اور جاننے والوں کا جمگھٹ رہنے لگا۔

راشد، شاہ میر کا کلاس میٹ رہ چکا تھا۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد کافی عرصہ تک بیروزگار تھا۔ وہ کافی تیز اور ہونہار نوجوان تھا، لیکن اس کے پاس رشوت اور سفارش کے لئے کچھ نہ تھا۔ جب شاہو میر وزیر بنا تو ان کی پارٹی میں راشد کا بھائی ایک عہدے پر لگا ہوا تھا۔ اس کی سفارش پر وزیر صاحب نے اسے اپنا پی۔ اے۔ بنا دیا۔ راشد اپنی قابلیت اور تعلیم کے بل بوتے پر سوچ سمجھ کر شاہو میر کو صلاح دیتا۔ کیبن میں رہتے ہوئے شاہو میر اپنے ملک کی مالی اور سیاسی حوالے سے راشد کی دی صلاح کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا اور اپنے مزاج کی طرح اپنی مرضی سے من مانی کرتا۔

ہر رات کی طرح آج بھی وہ اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں عمدہ سگریٹ کا پیکٹ اور دوسرے ہاتھ میں وہسکی کا گلاس تھا۔ جام کا دور چلتا رہا، رات کو رنگین کرتا رہا۔ چوتھے پیگ کے بعد اس نے ملازم کو آواز دی اور فائل لانے کو کہا – ملازم نے راشد سے کہا۔ راشد فائل لے کر اندر آیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ شاہو میر جو اب ایک عجیب سرور میں تھا، اپنے پیگ بنانے والے دوست سے راشد کے لئے بھی پیگ بنانے کے لئے کہا۔ راشد شراب نہیں پینا چاہتا تھا، لیکن شاہو میر کو چاہ کر بھی وہ انکار نہیں کر سکا۔

شاہو میر نے یہ محسوس تو کیا، لیکن وہ چاہتا تھا کہ راشد بھی ان کی محفل میں شامل ہو جائے۔ اس نے گلاس اٹھاتے ہوئے سب کو چیرس کیا اور خوشی کے نام پر جام کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے راشد سے کہا – ‘ہاں، اب بتاؤ اس ٹھیکے کا کیا بنا؟’

راشد نے اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا – ‘جناب یہ ایک بہت بڑا اہم کام ہے، جس میں عام لوگوں کو بڑا فائدہ ہو گا۔ وہاں کی لڑکیوں کو پڑھنے کی سہولت حاصل ہو گی۔ پہلے وہاں کالج نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں پڑھ سکتی تھیں، اب انہیں یہ سہولت میسر ہو گی۔ میرا خیال ہے اس کام کو جتنا جلدی ہو سکے، اسے عملی جامہ پہنانا چاہئیے۔’ راشد کی بات سننے کے بعد شاہو میر نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے گلاس اٹھایا اور ایک جام انڈیلتے ہوئے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا – ‘راشد صاحب، یہاں ہم آپس میں بیٹھے ہیں، تم لوگوں کے فائدے اور سہولت کی بات چھوڑو، یہ بتاؤ کہ اس ٹھیکے میں مجھے کتنا فائدہ ہو گا۔ لوگوں کی ضرورت کیا ہے، مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔’

راشد خاموش تھا۔ اب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

‘دوستو تم لوگ کیا چاہتے ہو؟’ شاہو میر نے دوستوں کی رائے لی۔

‘آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں’ اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے دوستوں نے حامی بھری۔

‘وقت یہی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے کل پتہ نہیں کیا ہو گا؟’ شاہو میر نے خوش ہوتے ہوئے کہا – ‘یہ ہوئی نا عقلمندی کی بات! کل ٹھیکے والی پارٹی آ رہی ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام۔ تم جانتے ہو کہ کیا کرنا ہے۔’

‘اچھا صاحب’ راشد نے اٹھتے ہوئے کہا اور فائل لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

رات کے دو بج چکے تھے، مد ہوشی بڑھتی جا رہی تھی، وہ کھانے کی ٹیبل کی طرف گئے جہاں طرح طرح کے کھانے سجے تھے۔ انہوں نے زیادہ پینے کی وجہ سے بہت کم کھایا اور ایک آدھا نوالہ لینے کے بعد ہی نیند کی آغوش میں جانے کے لئے وہ بیڈ روم کی طرف بڑھے، لیکن شاہو میر اب تک بیٹھا وہسکی پی رہا تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں ‘بلا کا پینے والا’ کے نام سے مشہور تھا۔ پیگ بنایا اور جام لیتے ہوئے خود کلامی کرنے لگا ‘لوگ کتنے بیوقوف ہیں کہ میرے جیسے آدمی کو اپنا رہنما بنا لیا۔ وہ مجھے اپنا ہمدرد اور دوست سمجھتے ہیں، میں خود نہیں جانتا کہ سیاست کیا ہے؟ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ سیاست سے بڑھ کر کوئی کاروبار نہیں، میں بھی کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔ یہی میرا مقصد اور میری منزل ہے۔ اے میری قوم اور اس کے معصوم لوگو! یہ تمہاری بد نصیبی ہے کہ مجھ جیسے لوگ تمہارے مقدر کا فیصلہ کرنے لگے ہیں۔’

کچھ دن بعد اسے اپنے علاقے کا دورہ کرنا تھا۔ وہاں کے انتظام کو وزیر صاحب نے پروٹوکول کے لئے ضروری حکم جاری کیے اور وزیر صاحب گاڑیوں کے کارواں کو لے کر روانہ ہو گئے تھے۔

دور نزدیک کے بہت سے لوگ سورج کے روشن ہوتے ہی اپنے رہنما کے دیدار کے لئے جمع ہونے شروع ہو گئے۔ تحصیلدار، انتظامیہ، سمگلر، ڈرگ مافیا کے لوگوں کے علاوہ، علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ وزیر صاحب شام کو پہنچ جائیں گے، وہ صبح سے شام تک ان کے انتظار میں کھڑے رہے۔ آج شاہو میر کے باپ نے بھی عرصے کے بعد نئے کپڑے پہنے تھے۔ وہ بیٹے کا قرب حاصل کرنے والوں کی بھیڑ میں کھڑے تھے۔

سرکاری ملازموں کے ساتھ ساتھ علاقے کے لوگ بھی اس کے والد کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آ رہے تھے۔ پہلے تو تحصیل کے چپراسی اور کلرک تک اس کو نہیں پوچھتے تھے۔ اب اسے اس عزت افزائی کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا – ‘یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟’ اس نے ایک بار اپنی طرف دیکھا، پھر اپنے گھر کی طرف دیکھا، انتےظامیہ، تحصیلدار، میر اور اچھے عہدے کے لوگوں کی طرف نظر دوڑائی۔ اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی شاہو ہے جو لوگوں کے دلوں میں دھڑکن بنا ہے، لوگ اس کی راہوں میں آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں۔ وہ خواب نہیں دیکھ رہا تھا، بلکہ یہ حقیقت تھی۔

قریب شام کو چار بجے دور سے گاڑیوں کی اڑتی دھول میں ان کی گاڑیاں نزدیک آنے لگی۔ شاہو میر کے باپ کو اپنے گزرے دنوں کی یاد آ رہی تھی اور شاہو کا ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کر رہا تھا۔ شاہو نے کہا تھا – ‘بابا کون کہتا ہے کہ پڑھنے لکھنے سے لوگ بڑے آدمی بن جاتے ہیں۔’ اس سوچ اور خیال کی اذیت دھول کا حصہ بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شاہو کی گاڑی کی تیز رفتار سے اڑتی دھول ہوا میں شامل ہو گئی۔ راشد کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آگے کیا ہو گا؟ اس دھند اور گھٹن کا خاتمہ کیا ہو گا، جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے