غزلیں ۔۔۔ نوید ناظم

ہجومِ یاراں کو بھی میں کم تر نہیں سمجھتا

پہ دردِ تنہائی سے تو بڑھ کر نہیں سمجھتا

 

مجھے وہ اندر سے جان پائے یہ چاہتا ہوں

وہ جو مِری بات کو بھی اکثر نہیں سمجھتا

 

اگر مِرا غم نہ ہو تو میں بھی نہیں رہوں گا

میں جس سے قائم ہوں تُو وہ جوہر نہیں سمجھتا

 

خدا نما ہے مِرے لیے جو، اُسے گلہ ہے

کہ میں اُسے دوسروں سے ہٹ کر نہیں سمجھتا

 

چلو سمندر تو رشک سے دیکھتے ہیں اِن کو

وہ میرے اشکوں کو چاہے گوہر نہیں سمجھتا

 

یہ صرف میں ہوں کہ ہے مجھے اُس سے بھی توقع

وگرنہ دیوار کو کوئی در نہیں سمجھتا

 

ابھی تو خوش ہے وہ آئنے سے بدن کو لے کر

یہاں ہر اک ہاتھ میں ہے پتھر، نہیں سمجھتا

٭٭

 

 

لاکھ ہو دلکشی کچھ نہیں

بِنا آپ کے زندگی کچھ نہیں

 

ہم اُن کی گلی میں بھلا کیوں گئے

ارے بات یہ ہے کہ جی, کچھ نہیں!

 

اگر دل میں کچھ ہو تو ہو آپ کے

لبوں پر تو ہے پھر وہی ” کچھ نہیں ”

 

رقیب آ کے الجھا گیا بات کو

اجی اصل میں بات تھی کچھ نہیں

 

مِرا غم تو لفظوں میں ڈھل بھی گیا

مِرے پاس اب ان کہی کچھ نہیں

 

تمھیں رات گمراہ جو کر گئی

تمھارے لیے روشنی کچھ نہیں

 

کھُلے گی مِری بات خود وقت پر

ابھی چپ رہوں گا، ابھی کچھ نہیں

 

اُسے دیکھ کر ہوں خود اپنا رقیب

مِری خود سے بھی دوستی کچھ نہیں

 

اگر کچھ بچا ہو تو کہہ لیجئے

کسر خیر باقی رہی کچھ نہیں

٭٭

 

 

رات صحرا نصیب خوابوں میں

گھر بناتے رہے ہیں پانی پر

 

رات پھر یاد آ گئی اُس کی

رات یوں تو گزر گئی تھی، پر!

 

دل وفا کا ارادہ رکھتا تھا

اُس نے جانچا نہیں کسوٹی پر

 

پھر ہوا لے گئی اُڑا کر ساتھ

کچھ تو لکھا تھا ہم نے مٹی پر

 

ہجر آخر نصیب ٹھہرا ہے

چڑھ گیا نا یہ دل بھی سولی پر

 

کس جگہ لائی زندگی دل کو

اور کر لے بھروسہ اندھی پر

 

اب تو وہ بھی نوید ہنستے ہیں

میرے دل کی شکستہ حالی پر

٭٭

 

 

تجھ سے جو محبت ہے

وہ کھُلی حقیقت ہے

 

اب تو قدر کا معیار

صرف یہ کہ دولت ہے

 

درد ہی چلو دے دو

درد میں بھی لذت ہے

 

دشت زاد جو ٹھہرے

گھر سے ہم کو وحشت ہے

 

جھانکتے ہو کیا دل میں

اس میں صرف حسرت ہے

 

تجھ کو بھول جاوں گا

مجھ کو خود پہ حیرت ہے

 

سچ خطیب بولے گا!

اس میں اتنی جرات ہے

 

میں وفا ہی کرتا ہوں

یہ تو میری عادت ہے

 

اب تو بھول جا اُس کو

دیکھ یہ جو حالت ہے

 

سمجھو آگ ٹھنڈی ہے

عشق میں جو حدت ہے

 

اُس گلی میں جاتا ہوں

آگے میری قسمت ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے